ملک نواز احمد اعوان

278

کتاب
:
ہمارا دینی نظامِ تعلیم
مرتبہ
:
ڈاکٹر محمد امین حفظہ اللہ
ماہنامہ البرہان لاہور
صفحات
:
316 قیمت 250 روپے
ناشر
:
مکتبہ البرہان، 180 پاک بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔ فون نمبر0322-6871909

ای میل:ermpak@hotmail.com
ڈاکٹر محمد امین صاحب اُن اصحاب میں سے ہیں جو ہر وقت تعلیم اور نظام تعلیم کی بہتری اور اصلاح کیے لیے کوشاں رہتے ہیں، اور اس اعلیٰ مقصد کے لیے دامے، درمے، سخنے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ ان کی زیرادارت ماہنامہ ’البرہان‘ پابندی سے ہر ماہ شائع ہوتا ہے۔ البرہان فکری، نظریاتی، اسلامی مجلہ ہے، ہمارے ہاں آتا ہے اور کئی مرتبہ ہم اس کے مضامین کی فوٹو اسٹیٹ کروا کر تقسیم کرتے ہیں اور بعض مضامین فرائیڈے اسپیشل میں بھی شائع ہیں۔
زیرنظر کتاب ان کے اسی جذبۂ فروغِ تعلیم کے ایک پہلو کو پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ ہمارے مختلف مضامین، تقاریر اور علماء کرام کے ساتھ ایک طویل مکالمے کی رپورٹ کا مجموعہ ہے۔ مرکزی موضوع چونکہ ان سب تحریروں کا ایک ہے یعنی پاکستان کے دینی مدارس کا نظام تعلیم، اس لیے ان میں ایک معنوی ربط موجود ہے۔ البتہ مختلف اوقات میں لکھے گئے اس طرح کے مجموعۂ مضامین میں تکرار کی خامی کا رہ جانا ناگزیر ہوتا ہے، تاہم توقع ہے کہ یہ خامی بھی قارئین کے مطالعے میں زیادہ مخل نہیں ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
’ہمارا دینی نظام تعلیم‘ کے نام سے ابتدا میں ایک نئے مضمون کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں کتاب میں شامل مضامین کا خلاصہ و تذکرہ اور جو باتیں وہاں زیر بحث نہیں آسکیں اُن کی تفصیل دے دی گئی ہے۔ اس سے جہاں موضوع کے حوالے سے ایک مربوط فکر قارئین کے سامنے آجائے گی وہیں مصروف اصحاب کو کتاب کے موضوعات کی ایک تلخیص بھی میسر آجائے گی جس سے وہ ایک نظر میں کتاب کے مندرجات کا اندازہ کرسکیں گے۔
ہماری درخواست پر کتاب کا مقدمہ جناب احمد جاوید صاحب نے لکھا ہے جو محقق، صوفی اور عملی مربی ہونے کے علاوہ صاحبِ درد اور صاحبِ فکر دانشور بھی ہیں۔ انہوں نے جن نکات کی طرف اہلِ مدارس کو توجہ دلائی ہے وہ یقیناًاہم اور قابلِ توجہ ہیں۔ مولانا ابوعمار زاہد الراشدی اور مفتی محمد خاں قادری صاحب نے ’تاثرات‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ ہمارے مؤقف میں وزن بھی پیدا ہوگیا ہے جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
ہم چار وفاقوں کے ذمہ دار علماء کرام خصوصاً مولانا حافظ فضل الرحیم صاحب (جامعہ اشرفیہ لاہور)، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب (جامعہ نعیمیہ لاہور )، مولانا عبدالمالک صاحب (مرکز علوم اسلامیہ منصورہ لاہور) اور مولانا محمد یونس بٹ صاحب (جامعہ سلفیہ فیصل آباد) کے انتہائی شکر گزار ہیں جن کے تعاون سے ہم اصلاحِ نصاب اور تربیتِ اساتذہ کے حوالے سے دینی مدارس کی کچھ خدمت کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ ان کی سرپرستی ہمیں آئندہ بھی حاصل رہے گی۔
جدید تعلیمی اداروں (اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں) میں بھی دینی تعلیم کا انتظام موجود ہے جو اس کتاب میں زیربحث نہیں آیا، بلکہ اس کتاب میں صرف دینی مدارس کے نظام تعلیم سے متعلق گزارشات پیش کی گئی ہیں۔
دینی وفاقوں کے منتظمین، دینی مدارس کے مہتممین، اساتذہ کرام اور مدارس کی تعلیم سے متعلق دوسرے احباب سے درخواست ہے کہ وہ ہماری گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہماری ہر بات سے اتفاق کریں، تاہم یقیناًاس کتاب میں وہ ایسی بہت سی باتیں پائیں گے جو قابلِ توجہ اور قابلِ عمل ہیں‘‘۔
مولانا زاہد الراشدی تحریر فرماتے ہیں:
’’راقم الحروف اُن افراد میں شامل ہے جو پورے شرحِ صدر کے ساتھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ دینی مدارس کا موجودہ نصاب و نظام خود اُن کے مذکورہ بالا اہداف و مقاصد کے حوالے سے آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں وقت کے ناگزیر تقاضوں کو پورا نہیں کررہا، بلکہ مجھے اس سے زیادہ سخت بات کہنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ہے کہ دینی مدارس کے اربابِ حل و عقد کی غالب اکثریت سرے سے آج کی گلوبل دنیا کی ضروریات اور تقاضوں کے ادراک و احساس سے محروم ہے اور وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کررہی کہ آج جب کہ فاصلے سمٹ رہے ہیں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان تصادم اور ٹوٹ پھوٹ کے بعد مشترکہ عالمی تہذیب کی تشکیل کی طرف پیش رفت جاری ہے اور مسلم دنیا کے تجارتی، سیاسی، عسکری، تہذیبی، تعلیمی اور معاشرتی معاملات و تشخصات بتدریج ایک گلوبل سسٹم میں تحلیل ہوتے جارہے ہیں، اس صورت حال میں دینی مدارس سے تیار ہونے والی کھیپ کو ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے کس قسم کی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے اور ہمیں آنے والے حالات کے لیے اپنے اساتذہ و طلبہ کو کس انداز سے تیار کرنا ہے؟ اس پس منظر میں یہ بات کسی حد تک اطمینان کی ہے کہ کچھ اربابِ دانش مسلسل اس طرف متوجہ ہیں اور دینی مدارس کے تاریخی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اور ان کے احترام کو پوری طرح ملحوظ رکھ کر انہیں ان ضروریات اور تقاضوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جو آج کے دور میں مسلم سوسائٹی میں دینی مدارس کے تاریخی کردار کے تسلسل کو باقی رکھنے اور اس کی اثرخیزی میں اضافے کے لیے ناگزیر ہوچکے ہیں اور جن کے بعد دینی مدارس کا اپنے اہداف و مقاصد کی طرف مثبت اور مؤثر پیش رفت کرنا اب ممکن نہیں رہا۔
ہمارے محترم دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد امین صاحب بھی انہی اصحابِ فکر و دانش میں سے ہیں جو ایک عرصہ سے دینی مدارس کے نظام و نصاب میں اصلاح اور بہتری کے لیے علمی و عملی جدوجہد میں مصروف ہیں، اور اکیلے نہیں بلکہ مختلف مکاتبِ فکر کے ذمہ دار اور سرکردہ علماء کرام کے ساتھ مل کر، ان کی مشاورت کے ساتھ، اصلاح و ترقی کے لیے ترامیم اور تجاویز سامنے لا رہے ہیں اور تحریک اصلاحِ تعلیم کا باقاعدہ فورم تشکیل دے کر دینی و عصری دونوں تعلیمی نظاموں میں اصلاح اور بہتری کی ضرورت کا احساس اجاگر کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔
ان کی تصنیف ’ہمارا دینی نظام تعلیم‘ اس سلسلے میں اُن کے
(باقی صفحہ 41پر)
افکار و خیالات اور جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے اور اس حوالے سے ان کی اب تک کی جدوجہد کی روداد بھی ہے جو اپنے اندر بہت سے امور کو سمیٹے اور سموئے ہوئے ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے اور ہر تجویز کو ضرور قبول کیا جائے، لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ ان کے دردِ دل سے آگاہی حاصل کی جائے اور اس محنت پر انہیں داد دیتے ہوئے اس کے ثمرات سے استفادہ کیا جائے۔
میں چاہوں گا کہ مختلف مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں کے پالیسی میکر بزرگوں اور ملک بھر کے بڑے دینی مدارس کے مہتممین اور سینئر اساتذہ تک یہ کتاب پہنچے اور وہ اس کا مطالعہ بھی ضرور کریں۔ اس سے انہیں دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالے سے معروضی صورت حال کا صحیح اندازہ ہوگا، عصری ضروریات اور تقاضوں سے آگاہی حاصل ہوگی اور اپنی تعلیمی جدوجہد کو زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھانے کے لیے راہ نمائی میسر آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ‘‘۔
حضرت مولانا مفتی محمد خاں قادری صاحب کا تاثر یہ ہے:
’’ہمارے معاشرے میں کم علمی کے سبب بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ کوئی عصری علوم کے خلاف ہے تو کوئی خواتین کی تعلیم پر معترض ہے۔ نیز تربیت پر تو کوئی توجہ ہی نہیں۔ فرقہ واریت ہماری گھٹی میں شامل ہوچکی ہے اور تعلیم محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ جب تک مسلمان اسے شعوری سطح پر سیکھتے سکھاتے تھے اُس وقت ہماری درسگاہوں سے امام غزالیؒ ، امام رازیؒ اور امام عبدالقادر جیلانیؒ پیدا ہوتے تھے جنہوں نے فقط اپنی ذات اور اہل ہی کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اعلیٰ اقدار میں ڈھال دیا تھا۔ آج مسلم قوم اس سے غافل ہوتی جارہی ہے۔ محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب زید مجدہ نے جو کمیاں آچکی ہیں اُن کے ازالے کے لیے بھرپور اور نہایت ہی قیمتی آراء دی ہیں۔ انہوں نے صرف تنقید ہی نہیں کی بلکہ متبادل بھی دیا ہے، اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آج ایسا کام لاکھوں خرچ کرکے بھی کوئی ادارہ یا تنظیم نہیں کرسکتی جو تنہا موصوف نے کردیا ہے۔ جب سے محترم ڈاکٹر صاحب سے نشست و برخاست ہوئی ہے انہیں امت کی تعلیم و تربیت، اتحاد اور امت کو مایوسی سے نکالنے کے لیے کوشاں پایا۔ ان کی یہ کاوش اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کتاب میں جن موضوعات پر تحریریں ہیں وہ درج ذیل ہیں:
اس کتاب پر فاضلانہ مقدمہ جناب احمد جاوید صاحب نے تحریر کیا ہے۔ ہمارا دینی نظامِ تعلیم، دینی مدارس کے نام ایک اہم پیغام، اصلاحِ نصاب۔۔۔ چار وفاقوں کے علماء کرام سے ایک طویل مکالمہ، ایک نئے تعلیمی ماڈل کی ضرورت، دینی مدارس کا نظامِ تربیت، پاکستان کا دینی نظامِ تعلیم۔۔۔ چند اصلاحی تجاویز، تدریب المعلمین، تعلیمی ثنویت کے خاتمے کا طریق کار، ہمارے مسائل کا واحد حل (دعوت و اصلاح اور تعلیم و تربیت کی ایک جامع اسکیم)، دینی تعلیم اور فرقہ واریت، خواتین کی دینی تعلیم، مساجد و مدارس کے منتظمین کی خدمتِ دیں۔
ان موضوعات کی فہرست سے ہی کتاب کے اہم ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔
کتاب مجلّد ہے، نیوز پرنٹ پر طبع ہوئی ہے۔

حصہ