13130یٹیاں تو بابل کے آنگن کی وہ چڑیاں ہیں جو وقت آنے پر اپنے تمام پرانے رشتے ناطے، محبتیں چھوڑ چھاڑ کر نکاح کے دو بول کے بندھن میں بندھ کر اپنے سسرال پہنچتی ہیں اس امید کے ساتھ کے نئے دیس کے پاس بھی اسے اتنی ہی محبت، الفت اور توجہ سے نوازیں گے والدین کی دی ہوئی اچھی تعلیم و تربیت کے ہمارے یہ بابل کی چڑیاں ماں باپ کے لیے باعث رحمت و انعام اور دل کا سکون ہوتی ہیں تو بھائیوں کے لیے عزت و وقارکی علامت ہوتی ہیں سسرال پہنچ کر شوہر کے لیے باعث سکون راحت، تمام سسرال کے لیے رونق و سلیقہ کی علامت اور بحیثیت بہو ساس کے لیے ایک خدمت گار بیٹی اور دوست کا درجہ اپنا لیتی ہیں اور ماں کے روپ میں ممتا کو نچھاور کرتی اپنی اولاد کے لیے ایک دعا کا دروازہ ایک اطالیق، ایک رحمت کا درجہ اپنا لیتی ہیں ان تمام لوگوں کی خوشنودگی اور سکھ کے لیے اپنے اوپر عائد فرائض کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ بلکہ ان فرائض کی ادائیگی میں بعض اوقات وہ اپنی ذات کو بھی فراموش کر دیتی ہیں خصوصاً اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سی نہج پر کرتی ہیں جیسا کہ اس کے والدین نے خاص طور پر اس کی ماؤں نے ان کی کی تھی۔ پھر ماہ و سال کا چکر گردش آنے والے وقت کے لیے اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرتی ہیں کیونکہ بیٹیوں کی شادیوں کے بعد بحیثیت ایک ماں کے اسے پورے کنبے کو سمیٹ کر آگے لے کر چلنا ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاق و اعلیٰ ظرفی سے آنے والی بہو کو خوش آمدید کہہ کر اسے اپنے گھر کا ایک حصہ بناتی ہیں اسے احساس دلاتی ہیں کہ یہ گھر اب اس کا بھی ہے۔ اس گھر کو سنوارتے بناتے ہیں وہ بھی حصہ لے۔ اگر آنے والی بہو میں کوئی خامی اور کمی نظر آتی ہے تو ایک ماں بن کر نہ کہ ایک ساس بن کر اس کی اصلاح کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں اچھی ساس ہمیشہ بہو کو بیٹی سمجھ کر اس کی تربیت کرنا بھی اپنا فرض سمجھتی ہیں۔
میرے سامنے میری والدہ مرحومہ ایک مثالی نمونہ تھیں جو نہ صرف ایک بہترین ماں بلکہ بہترین ساس بھی تھیں بہوؤں کو ہمیشہ بیٹیوں کے برابر درجہ دیا ان کی اصلاح اور تربیت بڑے طریقے اور سمجھ داری سے کی انہیں ہمیشہ یہی کہتی کہ یہ گھر تمہارا ہے میری بیٹیاں تو شادیوں کے بعد اپنے گھروں کی ہو جائیں گی اس گھر کو تم لوگوں کو ہی سنبھالنا ہے اور ہمارا بھی خیال رکھنا ہے۔ بہوؤں کو سجا سنورا دیکھ کر ماں خوش ہوئیں کہیں جائیں تو ضرور کسی بہو کو ساتھ لے جاتی ان کے گھومنے پھرنے، پہننے اوڑھنے میں دلچسپی لیتی تھیں آج 25 سال گزرنے کے باوجود (اماں گرچہ ہمارے درمیان نہیں خدا انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین)۔
میری بھابھیاں بڑے فخر سے ساس کی تعریف کرتی ہیں کہ اماں سے ہم نے گھر گھرہستی سیکھی ہم نے اپنی ماوؤں سے نہیں بلکہ اماں (ساس) سے تربیت حاصل کی)
بڑی خوش نصیب ہیں وہ بہوئیں جنہیں ایسی مثبت سوچ و عمل والی ساس نصیب ہو جو تمام کنبے کو سمیٹے رکھتی ہیں بہوؤں کے دلوں میں اپنے لیے ایک مقام بناتی ہیں ایسی ساسوں کی قدر کرنی چاہیے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے آپ کا اچھے لوگوں سے واسطہ قائم کیا جو آپ کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی اصلاح کرتی ہیں اور درگزر و افہام تفہیم سے کام لیتی ہیں۔
لیکن اس کے برعکس جن بچیوں کی ابتدائی تربیت میں کوئی کوتاہی یا کمی رہ جاتی ہے یا انہیں بچپن میں سازگار ماحول نصیب نہیں ہوتا وہ ماں باپ کے لیے ہی سردرد کا باعث نہیں بنتی بلکہ آگے چل کر اپنے ساتھ جڑنے والے نئے رشتوں کے لیے پریشانی و مشکلات کا باعث بنتی ہیں نہ ہی وہ اچھی بہو اور نہ اچھی ساس بن پاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ ایسی تربیت یافتہ یا ماحول کی پیدا وار ساس بھی دوسروں کے لیے انتہائی اذیت ناک ثابت ہوتی ہے اسے یہ برداشت ہی نہیں ہوتا کہ اس کے بیٹے کی زندگی میں اس کے ساتھ کوئی شیئر کرنے والی ہو اس بناہ پر وہ آنے والی بہو کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہتی ہے اور سونے پر سہاگہ اگر اس کا بیٹا بھی اس کا ہم نوا ہو تو بیچاری بہو کا نبھا کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے اور اکثر طلاق پر بات پہنچ جاتی ہے۔ نازو میں پلی بچیوں کو سوائے دکھ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی ساسیں اپنی بیٹیوں کے معاملے میں تو کچھ اور نظریات کی حامل ہوتی ہیں اور بہو کے معاملے میں ان کے سارے نظریات اور خیالات بدل جاتے ہیں ایک بچی نے مجھے بتایا کہ میری ساس اپنی بیٹیوں کو سجھنے سنورنے اچھا اوڑھتے پہنتے آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھ کر خوش ہوتیں ہیں جبکہ یہی چیز اگر ہم بہوئیں کریں تو سخت ناراضگی کا اظہار کرتیں ہیں اگر کسی کام میں غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو ہمیں برا بھلا کہتی ہیں ایک ماں کی حیثیت سے ہم ان کی اس زیادتی کو برداشت کرسکتے ہین لیکن دکھ اور افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ گھر سے باہر والوں سے بھی ہماری برائیاں ہوتی ہیں اور ہر آنے جانے والے کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف ایک محاذ قائم ہو جاتا ہے اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتے ہیں غرض کہ ہر وقت ماحول میں ایک کشیدگی محسوس ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک بچی جو مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے پڑھی لکھی اور اچھے عہدے پر فائز تھی خوش قسمتی سے جس میں گھرانے میں شادی ہوئی ان کی رہائش پو اور یہ میں 400 گز پر مبنی ایک کوٹھی ہے۔ پہلے ہی دن سے ساس نے بہو سے کہا کہ اپنی اوقات میں رہنا اس گھر کی مالکن میں ہوں غلطی سے بھی اپنے آپ کو اس کوٹھی کی مالکن نہ سمجھنا میں چاہوں تو دو منٹ میں تمہیں یہاں سے بے دخل کر سکتی ہوں یہی نہیں بلکہ دونوں میاں بیوی میں دوری پیدا کرنے کے جتن بھی کیے ہر بات میں تنقید کرنا ان کا معمول تھا آخر تنگ آکر بچی نے ایک دن ساس سے پوچھا کہ اسی مین اپنی طرف سے آپ کو ہر ممکن طریقے سے خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوئی آپ کی خوشی کے لیے میں نے ملازمت سے بھی استعفیٰ دے دیا لیکن آپ پھر بھی خوش نہیں آخر کیا وجہ ہے ساس نے کہا کہ تم مجھے چلاتی ہو بن سنور کے تم میرا مقابلہ کرنا چاہتی ہو تم اپنی اوقات سے باہر آرہی ہو۔ ساس کے اس رویے پر بہو کے لیے کوئی جواب نہ تھا ایک خاتون نے بتایا کہ ساس کا نا روا سلوک تو میرے لیے اذیت ناک تھا ہی لیکن اس سے زیادہ مجھے میرے شوہر کے رویے پر دکھ اور افسوس ہوتا تھا جس کی بدولت میں ٹوٹ کر بکھر گئی تھی وہ شخص گھر والوں کے رویے پر صرف خاموش تماشائی کی طرح تھا بلکہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود مجھے قصور وار کہتا میں صرف اس کی طرف سے ہمدردی کے ایک لفظ کے لیے ترستی رہتی جو میرے زخموں پر پھاٹے کا کام کرتا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا یہ میری حسرت ہی رہی۔ میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے لیے لڑے لیکن میری تکلیف کا اسے احساس ہونا چاہیے تھا۔
ایسے حالات میں مرد کی طرف سے بیان کیا ایک جملہ بھی عورت کے لیے ڈھال ہوتا ہے ایک بچی نے بتایا کہ میں سسرال کی ہر زیادتی اس لیے برداشت کر پائی ہوں کہ میرے شوہر نے مجھے ابتداء میں ہی یہ کہا کہ میں سب کو بلدنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن میں تمہیں بدل ضرور سکتا ہوں میری وجہ سے یہ سب سہہ لو۔ اس لڑکی کو شوہر کے اس جملے نے نئی توانائی پیدا کی آج وہ بہت سی نا انصافیوں کے باوجود مطمئن اور خوش ہے۔
بعض اوقات تو ساس بہو کے لیے ’’دہشت گرد‘‘ کا روپ بھی دھار لیتی ہیں ایسے واقعات کو سن کر اور پڑھ کر ان بچیوں کو شکر ادا کرنا چاہیے جنہیں سسرال میں اللہ تبارک تعالیٰ نے اچھا اور پرسکون ماحول عطا کیا ہے۔ بلکہ اتنے اذیت ناک واقعات سن کر تو وہ بچیاں بھی اللہ کا سن کر بجا لاتی ہیں جنہیں سسرال میں کچھ مسائل اور مشکلات در پیش ہوتی ہیں!
مجھے ایک بچی نے بتایا کہ اس کے سسرال میں اسے ہر قسم کے ڈپریشن سے دوچار ہونا پڑا جس کو مجھ میں بیان کرنے کی طاقت بھی نہیں رہی حمل کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت خراب تھی کھانا پینا سب کچھ بس زبر دستی ہی چل رہا تھا جیسے جینے کے لیے ہو لیکن سسرال میں مجھے دو وقت کا پیٹ بھر کھانا ہی نصیب نہ تھا تو طبیعت کے مطابق کچھ چاہنا اور کھانے کو ملنا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا ایک دن میرا بلڈ پریشر بہت کم ہو گیا میرا شامی کباب کھانے کو جی چاہا میں نے فریزر میں سے ایک کباب نکالا ابھی فرائی کرنے کے لیے پین چولھے پر رکھا تھا کہ ساس غصے میں کچن میں داخل ہوئی اور میرے ہاتھ سے کباب چھین کر لیا اور کہا کہ تمہیں ہمت کیسے ہوئی کہ میرے کچن میں داخل ہو اور اپنی مرضی چلاؤ۔ اس قسم کی ساسیں نہ خود چین سے رہتی ہیں نہ بہو کو چین سے رہنے دیتی ہین اس بچی کی بات سن کر مجھے میری والدہ کی بات یاد آگئی کہ حاملہ عورت کا دل بھی عجیب ہو جاتا ہے کبھی پڑوس میں پکنے والی دال پر بھی دل مچل جاتا ہے کھانے کو۔ اگر اماں کوئی چٹ پٹی چیز بنائی تو پڑوس میں کوئی حاملہ عورت ہوتی تو ضرور بھیجتی کہ اس تک اس کھانے کی خوشبو پہنچی ہو گی اسلام نے تو ہمیں پاس پڑوس میں رہنے والوں کے حقوق واضح کیے ہیں لیکن یہ واقعات دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ لوگ گھر میں رہنے والے ایک چھت کے نیچے رہنے والے لوگوں کے حقوق کو ادا نہیں کر پاتے بلکہ ظلم کی انتہا کر دیتے ہیں چاہے ساس ہو یا بہو دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھنا لازمی ہے اسی صورت مین ایک پر امن گھر کی گاڑی آسانی سے چل سکتی ہے اس مضمون کے پہلے حصے کوپڑھ کر کچھ خواتین نے مجھ سے سوال کیا کہ ان مسائل کا حل کیا ہے اس کا حل تو یہی ہے کہ جو میرے پورے مضمون سے واقع ہے کہ بچیوں کو شروع سے ہی تعلیم کے ساتھ خاص تربیت دی جائے اسے نہ صرف گھر اور گھر کی چار دیواری کی اہمیت واضع کی جائے بلکہ اس سے جڑے ہوئے تمام رشتوں کی اہمیت واضع کرنی چاہیے ان کی عزت اور احترام کرنے اور معمولی معمولی باتوں کو اشو بنانے سے گریز کرنے کی تعلیم دی جائے ہر رشتے میں لاکھ برائیوں کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی اچھائی چھپی ہوئی ہو گی اس اچھائی کو تلاش کریں اور برائیوں کو برداشت کریں مثلاً ایک لڑکی نے بتایا کہ مجھے بچپن سے یہ احساس تھا کہ مجھے ددھیال کا پیار میسر نہ ہو سکا ہے میں آس پاس اپنی کزنز کو دیکھتی کہ کس طرح پھوپھیاں اور دادیاں ان سے پیار جتاتی ہیں تو مجھے اس محرومی کا احساس بڑھ جاتا شادی کے بعد مجھے سسرال میں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن الحمدللہ میں اس ایک بات سے مطمئن ہوں اور خوش ہوں کہ ساس اور نندیں کرچہ میری بڑی مخالف ہیں مجھے بالکل پسند نہیں کرتی لیکن میرے بچوں سے ٹوٹ کر پیار کرتی ہیں تو یہ دیکھ کر مجھے اپنی تکالیف کم محسوس ہوتی ہیں۔ دوسری جو اہم چیز ہے کہ ایک طرف سے زیادتی ہو رہی ہے تو دوسری طرف والا درگزر کا معاملہ کرے تو کچھ نہ کچھ بہتری آسکتی ہے جیسا کہ میری ایک دوست نہ مجھے بتایا کہ وہ گھر کی بات کبھی باہر نکالنا پسند نہیں کرتی لیکن شاید تمہیں بتانے سے میرا بوجھ ہلکا ہو اور کچھ مفید مشورہ مل سکے۔ اس نے بتایا کہ میں بہو کے ماں باپ کو ہر وقت تسبیح تھماتے دیکھ کر متاثر ہوگئی کہ یقیناًنیک ماں باپ کی اولاد ہے اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو گی لیکن ایسا کچھ نہ تھا شادی کے بعد بہو کے انداز ہی نرالے نظر آئے انتہائی پھوپڑ بد سلیقہ اور بدزبان ہے شروع میں تو میں نے ماں کی طرح اس کی تربیت کی کوشش کی لیکن سب بے سود ثابت ہوا بلکہ گھر کا ماحول خراب ہونے لگا خصوصاً میرا بیٹا ڈسٹرب رہنے لگا جو مجھے کبھی منظور نہیں لہٰذا میں حالات کو رب کے سپرد کرکے درگزر اور خاموشی اختیار کرلی ہے شاید وہ میرے صبر سے ہی سدھر سکے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ تمام ساسوں اور بہوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اتفاق سے مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے اور درگزر اور افہام تفہیم کا راستہ اختیار کرنے سے ہی ’’گھر‘‘ ’’گھر‘‘ بنتے ہیں۔
nn