یہ حقیقت ہے کہ برقی توانائی انسانی حیات کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔ انسان اب اپنی روزمرہ زندگی میں اس کے استعمال کا عادی ہوچکا ہے اور اس کے بغیر زندگی یکسر ناممکن نظر آتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو، صنعت کا شعبہ ہو، زراعت کا شعبہ ہو، تجارت کا شعبہ ہو، برقی توانائی کا کردار ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں برقی توانائی کا کردار ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کی پیداواری صلاحیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے اور حکومت اس شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر سے لے کر پن چکی کے منصوبوں تک ہر طریقے سے بجلی کے بحران پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاور پلانٹ لگائے جارہے ہیں جن میں نیوکلیئر اور تھرمل پاور پلانٹ شامل ہیں۔
اس وقت پاکستان کی پیداواری صلاحیت 15,886 میگاواٹ ہے جب کہ طلب 19,500 میگاواٹ ہے۔ یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال ہے جو کہ پیک آور (Peak hours) میں 6000 میگاواٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ توانائی کے بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کیے جائیں، لیکن ان کی تکمیل کے لیے درکار وقت بہت زیادہ ہے، چناں چہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ توانائی کے نچلے درجے کے صارفین کے لیے ایسے پیداواری ذرائع متعارف کیے جائیں جو اُن کی روزمرہ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں اور ہر شخص کی قوتِ خرید کے مطابق ہوں۔
اس ضمن میں اگر دیکھا جائے تو شمسی توانائی، توانائی کا وہ واحد ذریعہ ہے جو بلا قیدِ زمان ومکان ہر شخص کو میسر ہے اور حرارت و توانائی کا ایک ایسا لازوال سرچشمہ ہے جو آغازِ حیات سے مستقل جاری و ساری ہے اور جس کے دم سے ہی انسانی زندگی پنپ رہی ہے۔ دورِ جدید میں اس توانائی سے برقی توانائی بھی حاصل کی جارہی ہے اور اس توانائی کے حصول کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے اسے سولر سیل (Solar Cell) ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔
سورج کی شعاعیں جب کسی سولر سیل پر پڑتی ہیں تو فوٹو وولٹیک عمل (Photo Voltaic effect) کے ذریعے فوٹو الیکٹران (Photo Electrons) پیدا ہوتے ہیں جو بجلی یا برق رواں (Electricity) پیدا کرتے ہیں۔ سولر سیل ٹیکنالوجی سب سے پہلے 1954ء میں متعارف ہوئی۔ اس کا عملی مظاہرہ بیل لیبارٹریز میں کیا گیا۔ بعدازاں 1958ء میں سولر سیلز کو وینگارڈ (Vanguard) نامی سیٹلائٹ میں استعمال کیا گیا۔
سولر سیل کا عمومی استعمال 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا جب تیل کے بحران کے نتیجے میں آئل کمپنیوں نے اپنا سرمایہ سولر سیل ٹیکنالوجی کے میدان میں لگانا شروع کیا۔ ابتدا میں سولر سیل ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ توانائی 69 ڈالر فی واٹ (watt) کے حساب سے پیدا کی جاتی تھی جو کہ بہت گراں قیمت تھی، لیکن مزید تحقیق اور تیکنیکی اصلاحات کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ اس کی قیمت کو 68 سینٹس (cents) فی واٹ تک لایا جاسکے۔
گھریلو صارفین کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بہت آسان ہوگیا ہے۔ ایک گھریلو سولر نظام سولر پینلز (Solar Panels) اور انورٹر (Inverter) پر مشتمل ہوتا ہے۔ سولر پینلز عموماً گھر کی چھت پر یا کسی کھلی جگہ نصب کیے جاتے ہیں جہاں سورج کی شعاعوں تک رسائی ممکن ہو اور دھوپ زیادہ سے زیادہ ہو۔ چوں کہ سولر سیل ڈی سی (DC) کرنٹ پیدا کرتے ہیں اس لیے انہیں اے سی (AC) کرنٹ میں تبدیل کرنے کے لیے انورٹر (Inverter) کا استعمال لازمی ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیٹریوں کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ رات کے وقت دن میں ذخیرہ کی گئی توانائی کو قابلِ استعمال بناتی ہیں۔ اس طرح سے سولر برقی نظام دو طرح سے وضع کیے جاتے ہیں۔ گرڈ ٹائی (grid-tie) یا آف گرڈ (off-grid)۔ گرڈ ٹائی برقی نظام میں گرڈ اور سولر پینلز ایک ساتھ کام کرتے ہیں، جبکہ آف گرڈ برقی نظام میں گرڈ کا تعاون نہیں رہتا اور سولر نظام تمام لوڈ خود اُٹھاتا ہے۔ اس صورت میں بیٹریوں کا استعمال لازمی ہوجاتا ہے جو بیک اَپ (backup) کا کام دیتی ہیں۔
شمسی توانائی کا مقابلہ اگر برقی توانائی کے دوسرے ذرائع سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شمسی طریقے سے حاصل کردہ توانائی ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی جو کہ فی زمانہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک پاور (Hydro Electric Power) گو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث تو نہیں ہے لیکن اس کی تعمیر میں 7 سے 10 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح نیو کلیئر پاور بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث تو نہیں بنتی لیکن اس کی تعمیر میں بھی 6 سے 7 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ بھی لگانا پڑتا ہے۔ ان دونوں کے برعکس شمسی توانائی کے پاور پلانٹ کم عرصے اور کم سرمائے میں لگائے جاسکتے ہیں۔
اس لحاظ سے اگر تیل، کوئلہ یا قدرتی گیس کی بات کی جائے تو یہ شمسی توانائی کے ہم پلّہ ہیں اور ان میں ایک عرصے سے مقابلے کی فضا قائم ہے۔ اسی طرح پن چکی سے پیدا ہونے والی بجلی بھی شمسی توانائی کے ہم پلّہ ہے۔ ان دونوں میں البتہ ایک امر کافی مشترک ہے کہ یہ دونوں موسمی حالات پر انحصار کرتے ہیں اور اَبر آلود موسم یا حبس کی صورت میں ان کی برقی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں توانائی کے غیر مسلسل ذرائع بھی کہا جاتا ہے۔ اس عدم تسلسل کی وجہ سے توانائی کے ان ذرائع پر کلّی انحصار نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے تھرمل پاور پلانٹس کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
البتہ چھوٹے پیمانے پر شمسی توانائی کا استعمال بہت موزوں اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ رہائشی منصوبوں اور بڑے بازاروں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال ساری دنیا میں عام ہوتا جارہا ہے۔ اس کے آسان استعمال اور تصحیح و مرمت کے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے یہ عام استعمال کے قابل ہے۔ البتہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت ان اشیاء کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہ لگائے اور ان کے فروغ کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے۔ ملک میں سولر پینلز کی فیکٹریاں لگائی جائیں اور ان کی لوکل پروڈکشن کو بڑھایا جائے تاکہ ان اشیاء کی ترسیل کے اخراجات کو کم سے کم کیا جاسکے اور توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے۔
اس تناظر میں پاکستان کی پیداواری صلاحیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے اور حکومت اس شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر سے لے کر پن چکی کے منصوبوں تک ہر طریقے سے بجلی کے بحران پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاور پلانٹ لگائے جارہے ہیں جن میں نیوکلیئر اور تھرمل پاور پلانٹ شامل ہیں۔
اس وقت پاکستان کی پیداواری صلاحیت 15,886 میگاواٹ ہے جب کہ طلب 19,500 میگاواٹ ہے۔ یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال ہے جو کہ پیک آور (Peak hours) میں 6000 میگاواٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ توانائی کے بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کیے جائیں، لیکن ان کی تکمیل کے لیے درکار وقت بہت زیادہ ہے، چناں چہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ توانائی کے نچلے درجے کے صارفین کے لیے ایسے پیداواری ذرائع متعارف کیے جائیں جو اُن کی روزمرہ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں اور ہر شخص کی قوتِ خرید کے مطابق ہوں۔
اس ضمن میں اگر دیکھا جائے تو شمسی توانائی، توانائی کا وہ واحد ذریعہ ہے جو بلا قیدِ زمان ومکان ہر شخص کو میسر ہے اور حرارت و توانائی کا ایک ایسا لازوال سرچشمہ ہے جو آغازِ حیات سے مستقل جاری و ساری ہے اور جس کے دم سے ہی انسانی زندگی پنپ رہی ہے۔ دورِ جدید میں اس توانائی سے برقی توانائی بھی حاصل کی جارہی ہے اور اس توانائی کے حصول کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے اسے سولر سیل (Solar Cell) ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔
سورج کی شعاعیں جب کسی سولر سیل پر پڑتی ہیں تو فوٹو وولٹیک عمل (Photo Voltaic effect) کے ذریعے فوٹو الیکٹران (Photo Electrons) پیدا ہوتے ہیں جو بجلی یا برق رواں (Electricity) پیدا کرتے ہیں۔ سولر سیل ٹیکنالوجی سب سے پہلے 1954ء میں متعارف ہوئی۔ اس کا عملی مظاہرہ بیل لیبارٹریز میں کیا گیا۔ بعدازاں 1958ء میں سولر سیلز کو وینگارڈ (Vanguard) نامی سیٹلائٹ میں استعمال کیا گیا۔
سولر سیل کا عمومی استعمال 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا جب تیل کے بحران کے نتیجے میں آئل کمپنیوں نے اپنا سرمایہ سولر سیل ٹیکنالوجی کے میدان میں لگانا شروع کیا۔ ابتدا میں سولر سیل ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ توانائی 69 ڈالر فی واٹ (watt) کے حساب سے پیدا کی جاتی تھی جو کہ بہت گراں قیمت تھی، لیکن مزید تحقیق اور تیکنیکی اصلاحات کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ اس کی قیمت کو 68 سینٹس (cents) فی واٹ تک لایا جاسکے۔
گھریلو صارفین کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بہت آسان ہوگیا ہے۔ ایک گھریلو سولر نظام سولر پینلز (Solar Panels) اور انورٹر (Inverter) پر مشتمل ہوتا ہے۔ سولر پینلز عموماً گھر کی چھت پر یا کسی کھلی جگہ نصب کیے جاتے ہیں جہاں سورج کی شعاعوں تک رسائی ممکن ہو اور دھوپ زیادہ سے زیادہ ہو۔ چوں کہ سولر سیل ڈی سی (DC) کرنٹ پیدا کرتے ہیں اس لیے انہیں اے سی (AC) کرنٹ میں تبدیل کرنے کے لیے انورٹر (Inverter) کا استعمال لازمی ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیٹریوں کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ رات کے وقت دن میں ذخیرہ کی گئی توانائی کو قابلِ استعمال بناتی ہیں۔ اس طرح سے سولر برقی نظام دو طرح سے وضع کیے جاتے ہیں۔ گرڈ ٹائی (grid-tie) یا آف گرڈ (off-grid)۔ گرڈ ٹائی برقی نظام میں گرڈ اور سولر پینلز ایک ساتھ کام کرتے ہیں، جبکہ آف گرڈ برقی نظام میں گرڈ کا تعاون نہیں رہتا اور سولر نظام تمام لوڈ خود اُٹھاتا ہے۔ اس صورت میں بیٹریوں کا استعمال لازمی ہوجاتا ہے جو بیک اَپ (backup) کا کام دیتی ہیں۔
شمسی توانائی کا مقابلہ اگر برقی توانائی کے دوسرے ذرائع سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شمسی طریقے سے حاصل کردہ توانائی ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی جو کہ فی زمانہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک پاور (Hydro Electric Power) گو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث تو نہیں ہے لیکن اس کی تعمیر میں 7 سے 10 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح نیو کلیئر پاور بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث تو نہیں بنتی لیکن اس کی تعمیر میں بھی 6 سے 7 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ بھی لگانا پڑتا ہے۔ ان دونوں کے برعکس شمسی توانائی کے پاور پلانٹ کم عرصے اور کم سرمائے میں لگائے جاسکتے ہیں۔
اس لحاظ سے اگر تیل، کوئلہ یا قدرتی گیس کی بات کی جائے تو یہ شمسی توانائی کے ہم پلّہ ہیں اور ان میں ایک عرصے سے مقابلے کی فضا قائم ہے۔ اسی طرح پن چکی سے پیدا ہونے والی بجلی بھی شمسی توانائی کے ہم پلّہ ہے۔ ان دونوں میں البتہ ایک امر کافی مشترک ہے کہ یہ دونوں موسمی حالات پر انحصار کرتے ہیں اور اَبر آلود موسم یا حبس کی صورت میں ان کی برقی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں توانائی کے غیر مسلسل ذرائع بھی کہا جاتا ہے۔ اس عدم تسلسل کی وجہ سے توانائی کے ان ذرائع پر کلّی انحصار نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے تھرمل پاور پلانٹس کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
البتہ چھوٹے پیمانے پر شمسی توانائی کا استعمال بہت موزوں اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ رہائشی منصوبوں اور بڑے بازاروں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال ساری دنیا میں عام ہوتا جارہا ہے۔ اس کے آسان استعمال اور تصحیح و مرمت کے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے یہ عام استعمال کے قابل ہے۔ البتہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت ان اشیاء کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہ لگائے اور ان کے فروغ کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے۔ ملک میں سولر پینلز کی فیکٹریاں لگائی جائیں اور ان کی لوکل پروڈکشن کو بڑھایا جائے تاکہ ان اشیاء کی ترسیل کے اخراجات کو کم سے کم کیا جاسکے اور توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے۔