سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اصولِ اخلاق کے طور پر اسلام کا نواں اصول اللہ اور بندے کے تعلق کے بارے میں ہے۔ ارشاد ہوا: ’’اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔‘‘
ہر صاحبِ بصیرت انسان صبح جب بیدار ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس بھر ی پُری کائنات کا حصہ پاتا ہے، تو اس کا دل مسرت و شادمانی سے بھر جاتا ہے، اور وہ بے اختیار خالقِ کائنات کا شکر ادا کرتا ہے، جس نے اسے اتنی بڑی کائنات کا جیتا جاگتا حصہ بنایا۔ پھر انسان وہ دن بھی یاد کرے جب پہلی مرتبہ اس نے اِس کائنات میں آنکھ کھولی تھی جب وہ کوئی قابلِ ذکر ہستی نہ تھا۔ اسی کائنات کے مختلف اجزا ہوا، روشنی، پانی اور بالخصوص انسان نے اسے مل کر پروان چڑھایا۔۔۔ اس طرح انسان اِس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی خالقِ کائنات، کائنات اور انسانوں سے ایک فطری عہد میں آپ سے آپ بندھ جاتا ہے۔ اس طرح ایک انسان کے اللہ سے کیے ہوئے عہد دو قسم کے ہیں۔
اللہ سے عہد:
سب سے پہلے وہ عہد ہے جو انسان اپنے اللہ سے خود کرتا ہے، اور یہ تجربہ ہر انسان کو پیش آتا ہے، جب وہ کسی ایسی مشکل میں پھنستا ہے جہاں کوئی اس کی مدد کرنے والا نہیں ہو تا۔۔۔ اس وقت ہر انسان اللہ ہی سے دعا کرتا ہے، اور ساتھ ہی اس سے وعدہ بھی کرتا ہے کہ اِس مرتبہ اس مصیبت چھٹکارا دلادیں، آئندہ میں ایسی غلطی نہیں کروں گا، یا اب میں بندہ بن کر رہوں گا۔ سوال یہ ہے کہ ہر انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، ایسی صورت حال میں صرف ایک اللہ کو کیوں پکارتا ہے؟ قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر بھیجنے سے پہلے جبکہ وہ عالمِ ارواح تھا، آدم کی تمام اولاد کو جمع کرکے سوال کیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اُس وقت سب نے ایک آواز ہوکر جواب دیا تھا کہ ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔۔۔ اسی آواز کی بازگشت ہے جو انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتی اور ہر اُس موقع پر اس کا سہارا بنتی ہے جب وہ اپنے آپ کو بے آسرا پاتا ہے۔۔۔ لیکن جب اُس کی مشکل حل ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو اللہ سے بے نیاز پائے تو اس عہد کو بھول جاتا ہے۔۔۔ مثلاً جب کوئی بیمار، ڈاکٹر کے پاس جائے اور ڈاکٹر اُس سے کہے کہ تم نے اپنے آپ کو شراب پی کر تباہ کرلیا ہے اور تمہارا جگر بالکل کام نہیں کررہا اور تم اب بچ نہیں سکتے، تو مریض فوراً اللہ سے وعدہ کرتا ہے کہ اس مرتبہ میری بیماری ٹھیک کردیں، اب میں شراب نہیں پیوں گا۔ لیکن کم لوگ ہی اس وعدے کو یاد رکھتے ہیں۔ اس مثال کو اپنی زندگی میں پیش آنے والے دوسرے مسائل پر قیاس کرکے ہر شخص خود اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو کس حد تک نباہ رہا ہے۔
بندوں سے کیا گیا عہد:
کائنات کی ہر چیز اللہ کی بندی اور غلام ہے، اس طرح بندوں سے کیا گیا فطری عہد تو یہ ہے کہ وہ، جنہوں نے اسے پروان چڑھایا۔۔۔ اب وہ اُن کا حق ادا کرے گا۔۔۔ اور اپنے بعد آنے والوں کے ساتھ بھی اسی طرح تعاون کرے گا جیسے اس کے ساتھ کیا گیا۔ انسانی معاشرہ، ہوا، روشنی، پانی، درخت، جانور، غرض جس معاشرے اور ماحول نے اس کو پروان چڑھنے میں مدد دی وہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے انہیں سازگار چھوڑ کر جائے گا۔ اس کے علاوہ ہم اپنی زندگی میں بہت سے عہد انسانوں سے کرتے ہیں، اس میں اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔ اگر ہم اللہ کو گواہ نہ بھی بنائیں تو بھی حقیقت میں تو وہ گواہ کے طور پر موجود ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی ہر بات اور تمام معاملات میں جو وہ لوگوں کے ساتھ کرتا ہے، اللہ کو گواہ سمجھنا ضروری ہے۔۔۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ احساس انسان کے اندر وہ کیمرے نصب کردیتا ہے جو اسے غلط کام کرنے ہی نہیں دیتے۔ آپ دنیا میں جتنے چاہیں کیمرے لگا لیں۔۔۔ اگر یہ فطری کیمرہ خراب ہے تو انسان اُن کیمروں کا کوئی نہ کوئی توڑ کرلے گا، ورنہ بجلی جاتے ہی وہ رنگ دکھائے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔۔۔ جبکہ اللہ کو ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھنے سے انسانی معاشرہ اعلیٰ اخلاق کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔
اللہ سے تعلق:
ہم جس سے بھی عہد معاہدہ کرتے ہیں اُس سے کسی نہ کسی تعلق میں بندھ جاتے ہیں۔ ہمارے اور دوسرے فرد کے درمیان ایک نسبت قائم ہوجاتی ہے، مثلاً مالک مکان اور کرایہ دار کا تعلق۔۔۔ میاں اور بیوی کا تعلق۔ ظاہر ہے ہر تعلق کی نسبت سے کچھ فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں، یہ فرائض جو جتنی اچھی طرح ادا کرتا ہے سامنے والے سے اس کا تعلق اتنا ہی مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ مالک مکان اور کرایہ دار کا فرق ہی ختم ہوجاتا ہے اور دو جسم ایک جان بن جاتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ غورو فکر کے ذریعے اللہ اور اپنے درمیان نسبتیں معلوم کرے اور پھر اپنی حالت کا جائزہ لے کر دیکھے کہ اس نے کس نسبت کو قائم کیا ہوا ہے، اور کہاں تک اس کے تقاضے پورے کررہا ہے۔۔۔ کسے بھول گیا ہے۔۔۔ اور کس کو توڑ بیٹھا ہے۔ یہ احساس دل و دماغ پر جتنا غالب ہوگا اتنا ہی اللہ سے تعلق ہوگا۔۔۔ اور جتنا بڑھے گا اسی نسبت سے اللہ سے تعلق بھی بڑھتا جائے گا۔
مثال کے طور پر ایک نسبت انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان یہ ہے کہ انسان عبد ہے اور اللہ اس کا معبود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ کا غلام ہے، اُس کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ انسان کیا ساری کائنات اللہ کی ہے جس میں انسان سانس لے رہا ہے۔ اگر اللہ کا یہ غلام اپنے مالک