تنویر اللہ خان

296

ہر نئی آنے والی حکومت شور کرتی ہے کہ خزانہ خالی ہے پچھلے سب لُوٹ کر لے گئے اور جب عوام نئے آنے والوں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ چلو یہ نئے حکمران لُوٹا ہوا مال واپس لائیں گے اور خود بھی لوٹ مار نہیں کریں گے، لیکن یہ نئے آنے والے بھی خالی خزانے کو اپنا خزانہ بھرنے کے لیے مزید خالی کرتے رہتے ہیں اوربیانات کی حد تک عوام کو تسلی دیتے رہتے ہیں کہ ہم ملکی دولت لوٹنے والوں کو چوراہوں پر گھسٹیں گے۔
گزشتہ ستر برس سے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے عوام کے لیے تارے توڑ لانے کے وعدے اورپھر اقتدار میں آکر عوام کو دن میں تارے دکھانے کی یہ فلم چل رہی ہے، بے چارے عوام آج تک یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ خزانہ جانے والے خالی کرتے ہیں یا آنے والے خالی کرتے ہیں۔
عمران اور کچھ کرسکیں یا نہ کرسکیں لیکن ممکن ہے کہ وہ خزانہ خالی کرنے والوں کو منہ بھر بھر کر اتنی گالیاں دیں کہ ملک کا خزانہ چوروں سے محفوظ ہوجائے۔
عمران خان بہت دور تک کا کوئی پروگرآم نہیں رکھتے اورنہ ہی وہ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اُن کی ساری زندگی پودا لگاتے اور اُس کی آبیاری کرتے گُزر جائے اور بعد میں آنے والے اس سے فائدہ اُٹھائیں اور نہ ہی عمران خان کی جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو اُن کے جیسے تیسے پروگرآم کوآگے بڑھا سکیں لہذا اُن کے لیے جو آج ہے بس وہی سب کچھ ہے۔
عام انسانی زندگی میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ باپ نے کام کاروبار شروع کیا اور ساری زندگی محنت کرتا رہا پائی پائی جمع کرکے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے دن ورات کو ایک کرکے کچھ بنایا پھراس بننے بنائے کاروبار کی گدی پر بیٹا براجمان ہوجاتا ہے اور اس جمے جمائے کام کاروبار کو چلاتا ہے کیوں کہ اس کاروبار کی تعمیر بیٹے کے سامنے ہوئی تھی اور تعمیرمیں اس نے بھی کچھ محنت کی تھی لہذا بیٹا بھی کاروبارکی کامیابی کوبرقرار رکھتا ہے پھر یہ کام اور کاروبار تیسری نسل کے ہاتھ میں آتا ہے جس نہ تخلیق کی تکلیف اُٹھائی ہوتی ہے اور نہ پرورش کے صبرآزماء دن دیکھے ہوتے ہیں لہذا یہ تیسری نسل انجوائمنٹ کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتی ہے اور انجوائمنٹ کا یہ سرور اُسے کام کاروبار سے بے گانہ کردیتا ہے۔
یہی معاملہ ہماری سیاسی جماعتوں کا ہے،جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی، سوشلزم کا نعرہ لگایا، عوام کو روٹی کپڑا مکان کا خواب دکھایا اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ داروں سے سرمایہ چھینا بھٹو صاحب کی کرنسی کی تبدیلی اسی مہم کا حصّہ تھی اُنھوں نے بڑی بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت بنا دیا، مزدوروں کو مالکوں کے برابر بیٹھا دیا، محنت کشوں کو قانونی کا تحفظ دیا لیبر کورٹ بنائے جہاں مزدروں کی سُنی جاتی تھی، کرتا شلوار کو قومی لباس بنادیا، بھٹو مطلق العنان تھے،خود پسند تھے لیکن دولت کے پجاری نہ تھے، لالچی نہ تھے اُنھوں نے بیرون ملک کاروبار نہیں جمائے اور نہ ہی جائیدایں خریدیں وہ اپنے مقصد پر قائم رہے۔
بھٹو کا سیاسی اثاثہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا بے نظیر نے نہ پیپلز پارٹی بنائی تھی اور نہ ہے اُس کی پرورش کی تھی لہذا اُنھوں نے بھٹو کا اثاثہ بڑھانے کے بجائے اسے بنابنایا کاروبار سمجھ کر اس سے انجوائے کرنا شروع کردیا، بے نظیر کے اچانک موت کی وجہ سے آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی تیسری نسل قرار پائے اور اُنھوں نے اس جمے جمائے سیاست کے کاروبار سے خوب انجوئے کرنا شروع کردیا اور وہ انجوئمنٹ کے سرور میں ایسے مدہوش ہوئے کہ اُنھوں نے پیپلزپارٹی کا ہی بیڑا غرق کردیا نتجے میں آج پیپلز پارٹی کسی سوچ کا نام نہیں بلکہ لٹیروں کا ایسا جتھہ ہے جو لوٹ مار میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
جناب ضیاء الحق نے مختلف صوبوں میں مختلف نورِ نظر منتخب کئے دیہی سندھ کے لیے ضیاء الحق ولن تھے لہذا اُنھوں نے وہاں کسی کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا لیکن سندھ کے شہری آبادی میں ایم کیوایم کو منتخب کیا اور پنجاب میں جناب نواز شریف کو اپنا جانشین بنایا، ایم کیوایم نے خود اپنے لیے بے منزل راستے کا انتخاب کیا تھا لہذا اُس کا سفر بائی چوائس نامرادی پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔
جب کہ جناب نواز شریف نے سیاست میں آکرایک نئی دنیا دیکھ لی پہلے وہ ہزاروں سرمایہ داروں کی طرح ایک سرمایہ دار تھے اور ہزاروں صنعت کاروں کی طرح ایک عام سے صنعت کارتھے جسے پیسہ کمانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا تھا، لیکن اب اُنھیں ضیاء الحق کی دی ہوئی اس سیاسی دُنیا میں کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے، یہاں پیسہ بھی ملتا ہے عزت بھی ملتی ہے اختیار بھی ملتا ہے ،آج مسلم لیگ لوٹ مار کرنے والوں کا جتھہ ہے جو بغیر ھینگ پھٹکری لگائے رنگ چوکھا ہی چوکھا کے مزے لوٹ رہا ہے، اب مسلم لیگ (ن) یہ بھی بھول گئی ہے کہ اُن کے بانی نے پیپلزپارٹی سے دُشمنی کو اُن کا نصب العین قرار دیا تھا اور اُن کے قیام کا یہی ایک مقصد تھا۔
مولانا مفتی محمود نے بھٹو خلاف تحریک میں حصّہ لیاکچھ نہ کچھ جدوجہد کی لیکن اُن کے وارث جناب فضل الرحمان کو سیاسی جماعت کی صورت میں بنابنایا کاروبار مل گیا جس سے وہ اور اُن کے ساتھی بھرپور انجوائے کررہے ہیں، کوئی منزل نہیں کوئی مقصد نہیں کوئی اصول نہیں کوئی بُرے بھلے کی تقسیم نہیں، کشمیر اور وزیرستان کو ایک سا مسئلہ سمجھنے والے کشمیر کا مقدمہ دُنیا سے لڑنے کا ذمہ لے کرکشمیر کمیٹی سے صرف انجوائے کررہے ہیں۔
حالیہ اے این پی کے بانی جناب عبدالغفارخان عرف باچا خان تھے اُنھوں نے قیام پاکستان سے پہلے ’’انجمن اصلاح الافاغنہ‘‘ قائم کی اُنھوں نے آج کے کے پی کے اور ماضی کے صوبہ سرحد کی گلی گلی جاکر انجمن کی تنظیم سازی کی اس جدوجہد میں قید بھی کاٹی، اس تنظیم کے مقاصد اور کام ایسے تھے آج کی اے این پی کو بھی اس پر یقین بھی نہیں آئے گا مثلاً اُنھوں نے طے کیا، کیونکہ شراب نوشی ہر مذہب میں منع ہے لہذا انجمن کے ورکر ہر شراب خانے کے سامنے مورچہ لگائیں گے اور شراب خریدنے والوں کو اس بات پر آمادہ کریں گے کہ وہ شراب نوشی چھوڑ دیں اُنھوں نے یہ کام ٹیمیں بناکرچوبیس گھنٹے انجام دیا، باچا خان نے انجمن کی ایک مٹینگ خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے آپ لوگوں میں احساس پیدا کیا، دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھیں اور دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں، حقیت میں اجتماعی زندگی ہی انسانی زندگی ہے، تنہائی کی زندگی حیوانی زندگی ہے، اپنے کام کو تیز کریں، اسکولوں کی تعداد بڑھائیں یہی قوم کی ترقی کا راستہ ہے‘‘ ایک موقع پر انجمن کی مٹینگ میں قرارداد پیش کی گئی کہ بدیشی مال کا بائیکاٹ کیا جائے کیوں کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے گورا اسلحہ خریدتا ہے اور ہم پر استمعال کرتا ہے۔
آج کی اے این پی کیا ہے؟ جناب اسفندیارولی پشتونوں کو ڈرون مار کر قتل کرنے والے امریکہ سے اعلانیہ پیسہ وصول کرتے ہیں اور اُن کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔
ایک خیال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جماعتوں میں ادارے، فورم مضبوط ہوں، جاندار ہوں تو جماعتیں اپنے مقصد پر قائم رہ سکتی ہیں، ممکن یہ بات ٹھیک ہو لیکن میں یہ دیکھتا ہوں کہ پاکستان آرمی جو ایک بہت منظم ادارہ ہے وہاں بھی جب کیانی صاحب چیف ہوتے ہیں تو فوج کچھ اور ہوتی ہے اور جب راحیل شریف سربراہ ہوتے ہیں تو حالات اور فیصلے کچھ اورہوتے ہیں، جناب مشرف بھی اسی مضبوط اداروں پر مشتمل فوج کے سربراہ تھے اورکراچی میں ایم کیو ایم اُن کی قوت تھی اُن کا دایاں بازو تھی اور آج وہی ایم کیوایم را کی ایجنٹ ہے، ایم کیوایم اور ان کی طرح کے دوسرے لوگ اور جماعتیں موجودہ آرمی چیف کی تبدیلی کا انتظار کررہے ہیں حالانکہ فوج وہی ہوگی جو پہلے دن سے ہے۔
اس سارے مقدمے کا مقصد ہے کہ جس طرح جسمانی درد کسی کو منتقل نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح سے خیال ،نصب العین، مقصد، جوش، جذبہ بھی ویسے کا ویسا اپنے بعد آنے والوں کو منتقل نہیں کیا جاسکتا، آج کی بیشتر سیاسی و مذھبی جماعتوں کی باگ دوڑ تیسری جنریشن کے ہاتھوں میں ہے وہ نہ ہی اپنی جماعتوں کی تخلیق کی مشکل سے گُزرے ہیں اور نہ ہی اُنھوں نے اپنی جماعتوں کی پرورش کا صبر آزماوقت جھیلا ہے لہذا وہ نہ اُنھیں اپنا نصب العین یادہے اور نہ ہی اُسے پانے کا وہ جذبہ رکھتے ہیں جو اُن کے بانیان میں تھا۔
آج کی بیشترسیاسی جماعتوں کا ہدف ہے کہ کسی بھی طرح اسمبلی کی ممبر شپ حاصل کی جائے اور اس ممبری سے انجوائے کیا جائے، اس کے لیے کسی بے ایمان، بدعنوان، چور سے ہاتھ ملانا پڑے تو وہ بہانے بناکریہ بھی کرلیاجائے، عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔
nn

حصہ