ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

270

ا13162لاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت مگر خدا کی آزمائش بھی ہے۔ سورہ کہف میں اس کو دنیا کی زینت کہا گیا ہے۔ اولاد کے ہی ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کو آزماتا ہے۔ بیٹے خدا کا انعام اور بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں۔ ان کی صحیح تربیت کے ذریعے ہی والدین اس آزمائش میں پورے اتر سکتے ہیں۔
اولاد کی تربیت کی زیادہ تر ذمے داری ماں کی ہوتی ہے اور اسی لیے ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ بچوں کے ذہنی اور جسمانی تربیت کے مختلف مراحل اور مدارج ہوتے ہیں۔ ایک سال سے دس سال تک بچہ ذہنی تربیت کو مکمل کرچکا ہوتا ہے، یہ سال ماں کے لیے بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ اسی مدت میں وہ آنے والی نسل کو مضبوط، توانا اور باکردار بنا سکتی ہے۔
دس سال کی عمر تک بچہ اپنی ذہنی تربیت کے مکمل ہونے پر ہر اچھی بری بات میں بآسانی تمیز کرنے لگتا ہے، اسے غلط اور صحیح کی پہچان ہوجاتی ہے اور ان تمام رویوں کو صحیح سمت میں جانچ سکتا ہے جو معاشرے میں رہنے والے افراد اس سے روا رکھتے ہیں۔
ایک پُرسکون اور خوش گوار گھریلو ماحول میں پرورش پانے والا بچہ پُراعتماد اور بہادر ہوتا ہے۔ ذہنی طمانیت اور آسودگی اس کو پُرخلوص بناتی ہے اور وہ معاشرے کے لیے کارآمد شہری ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک مطمئن اور آسودہ بچہ ہی دوسروں کو اطمینان اور آسودگی فراہم کرسکتا ہے۔ جن گھروں میں والدین میں اختلافات یا لڑائی جھگڑا ہو، وہاں کے بچے ڈرپوک، بزدل اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔
لڑکا ماں اور لڑکی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ میں لڑائی ہو تو بچے فریق بن کر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں اور اس میں وہ جھوٹ، فریب، غلط بیانی سیکھ جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بچے جو اذیت کے ماحول میں زندگی گزاریں، خود بھی اذیت پسند ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے جن کے والدین محبت کے معاملے میں جانبداری برتتے ہوں، وہ خصوصیت سے اپنا حق زبردستی چھین لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح وہ دوسروں کے حق پر ڈاکا ڈالتے اور دوسروں کی خوشی کو زبردستی غم میں تبدیل کرتے ہیں۔
اولاد کی تربیت بہت مشکل ہنر ہے، اس ہنر میں وہی طاق ہوسکتا ہے جسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول ہو۔ ایک ماں، باپ کے مقابلے میں زیادہ ایثار پسند ہوتی ہے، اسے اولاد کی تربیت میں بہت سے ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے جذبات، احساسات اور محبت کو ایک طرف رکھ کر فیصلے کرتی ہے، خصوصاً بیٹے اور بیٹی کے لیے محبتوں کی تقسیم بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اعصابی طور پر پُرسکون ماں ہمیشہ اپنے بچوں میں اشیاء کی تقسیم میں انصاف سے کام لیتی ہے۔ بچوں کے سامنے چیخ پکار کرنے، لعنت ملامت کرنے سے گریز کرتی ہے کیونکہ بچے فوراً ان چیزوں کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں، خصوصاً چھوٹے بچے ماں باپ کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں اور ان کو ہمیشہ بلندی پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر نادانستگی میں والدین میں سے کوئی بھی اُن سے زیادتی کر جائے تو بچوں کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ اعتبار کی کرچیاں بکھر جاتی ہیں اور پھر وہ زندگی بھر کسی پر بھروسا نہیں کرتے۔ بچوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا، ان کو دوسروں کے سامنے حوصلہ اور اعتماد بخشنا ماں باپ کی ذمے داری ہے۔
بچے معصوم فرشتے ہوتے ہیں، ان کی پرورش میں خلوص، محبت، دیانت، عدالت، انصاف کو شامل کیجیے۔ ان کے کردار میں بھی انہی تمام خوبیوں کا عکس نظر آئے گا۔ ماں کی گود ایسی درس گاہ ہوتی ہے کہ یہاں کا تربیت یافتہ کبھی نہیں بھٹکتا۔ اس تربیت گاہ سے جو کچھ وہ سیکھتا ہے اس کے ذہن میں ہمیشہ اس کا نقش مرتسم ہوجاتا ہے۔ غیر جانبداری اور محبت و انصاف سے کیے ہوئے ماں کے فیصلے بچے پر بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایسے بچے ہمیشہ دوسروں میں محبت بانٹتے ہیں جن کی پرورش محبت اور خلوص کے ماحول میں ہو۔ اس لیے گھر میں کوئی ننھا مہمان اگر آجائے تو بڑا بچہ فطرتاً اس سے حسد محسوس کرنے لگتا ہے، لیکن اگر ماں سمجھدار ہے تو وہ اس ننھے مہمان کو بڑے بچے کے لیے تحفہ اور اللہ کا انعام کہہ کر بڑے کے دل میں محبت اجاگر کرتی ہے۔ بڑے کی پسند کی چیزیں اس ننھے مہمان کے ہاتھوں سے اس کو دیتی ہے یہ کہہ کر کہ ’’یہ تمہارے لیے لایا ہے۔‘‘
عموماً بچے کی پیدائش کے بعد ماں کی توجہ بڑے بچے پر کم ہوجاتی ہے اور اس بات کو وہ بچہ جو اُس وقت تک ’’مطلق العنان محبت‘‘ کا مالک تھا، اب تنہائی پسند ہوجاتا ہے۔ ماں اگر چھوٹے کے بجائے اُس پر اُس وقت پوری توجہ دے تو پھر اس الجھن سے نکل آتا ہے، ورنہ وہ چھوٹے کو اپنی ماں کی محبت کا شریک سمجھ کر اس کو مارنے لگتا ہے۔ بچے کو اچھی بات پر انعام دیں اور غلط بات پر پیار سے سمجھائیں تاکہ اسے صحیح اور غلط بات میں تمیز ہوسکے۔
nn

حصہ