بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ

271

1986ء میں جب میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی، تو ٹی وی پروگرام بہت شوق سے دیکھا کرتی تھی، اور شوق کا یہ عالم تھا کہ بچوں کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ خبرنامہ، دینی پروگرام، تعلیمی پروگرام اور ہر منگل کو ’’کشمیر فائل‘‘ کے نام سے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں دستاویزی پروگرام بھی بڑی توجہ سے دیکھا کرتی تھی۔
’’میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اِک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اِک دن‘‘
کشمیر فائل کا یہ مخصوص ترانہ پورا ہفتہ میرے ذہن میں گونجتا رہتا تھا۔ نہ جانے اس کی وجہ رخسانہ مرتضیٰ کی پُرکشش آواز تھی یا کچھ اور۔۔۔ میں اگلے منگل اس پروگرام اور اس میں پڑھے جانے والے ترانوں کو سننے کا انتظار کیا کرتی تھی۔ انہی پروگراموں کے ذریعے جماعت اسلامی اور قاضی حسین احمد (مرحوم) کے نام سے واقف ہوئی اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے تصور سے آشنا ہوئی تھی۔
وقت گزرتا رہا، گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول میں کسی دینی گروپ یا طالبات کی کسی جمعیت سے شناسائی نہ ہوپائی تھی، البتہ جب میٹرک پاس کرکے کالج میں داخلہ لیا تو اپنی ایک کلاس فیلو کے ذریعے اسلامی جمعیت طالبات کی صدر جو کہ وہاں تھرڈ ایئر کی طالبہ تھیں، سے تعارف ہوا۔ انہوں نے مجھے جمعیت کے ہفتہ وار درسِ قرآن میں آنے کی دعوت دی، میں ان پروگراموں میں جانے لگی۔ سفید دوپٹے کے ہالے میں لپٹے ہوئے معصوم اور پاکیزہ چہرے والی جمعیت کی یہ صدر جب درسِ قرآن کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کرتی تھیں اور جدوجہد آزادی کا لفظ ادا کرتی تھیں تو یہ لفظ نہ جانے کیوں میرے اندر ایک ہلچل سی مچا دیتا تھا۔ لیکن یہ ہلچل کسی مستقل جذبے کو جنم دینے پر منتج نہ ہوسکی تھی۔ کالج میں دلچسپی کی بے شمار جہتیں تھیں، لا ابالی پن کا دور تھا۔ درسِ قرآن کی تین چار کلاسوں میں شرکت کے بعد یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا تھا۔
یہ 1991ء کی بات ہے، میں نے گریجویشن کے بعد کالج کو خیرباد کہا۔ اسلامی جمعیت طالبات کی کسی بھی رکن سے اس کے بعد میری کبھی ملاقات نہ ہوسکی۔ میں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کرلی۔ مطالعے کی شوقین تھی، اخبار جہاں میں ’’سلگتے چنار‘‘ نامی افسانہ، جو قسط وار شائع ہوتا تھا اور مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات سے ماخوذ تھا، باقاعدگی سے پڑھتی تھی۔ پھر ٹی وی پر ’’انگار وادی‘‘ نامی ڈراما میری توجہ کا مرکز رہا جس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم کو ڈرامائی تشکیل دی گئی تھی۔ میں نے پرائیویٹ طور پر ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کیا۔ اس مضمون کو اختیار کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، بس آسان سمجھ کر اختیار کیا تھا، اس دوران 2000ء میں نیا بلدیاتی نظام (پرویزمشرف کے دور میں) وطن عزیز میں نافذ ہوا جس میں خواتین کی نشستیں یونین کونسل سے ضلع کونسل کی سطح تک مخصوص کی گئی تھیں۔ ہمارے خاندان کے کچھ بزرگ جو عرصۂ دراز سے بلدیاتی سیاست سے وابستہ تھے، ان کے ترغیب دلانے پر میں نے بھی یونین کونسل کی مخصوص نشست برائے خواتین کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیے اور الیکشن مہم کا آغاز کیا۔ یہ میرے لیے ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ میرے مدمقابل آٹھ خواتین حلقۂ انتخاب میں سرگرم عمل تھیں جن کا تعلق کھوسہ، لغاری سیاسی گروپ سے تھا۔ میں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے گھر گھر جاکر ووٹ مانگے۔
قصہ مختصر، جب پولنگ کا دن آیا اور شام کو الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو کامیاب ہونے والی چار خواتین میں سے میری دوسری پوزیشن تھی۔ مجھے انتہائی حیرت آمیز مسرت ہوئی۔ گھر پر مبارک باد دینے والوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ کچھ دن بعد جماعت اسلامی کی کچھ خواتین جن میں ڈاکٹر نذیر شہید کی بیٹی راشدہ نذیر بھی شامل تھیں، میرے گھر پر آئیں اور مجھے جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس وقت چونکہ میں جماعت اسلامی کی سرگرمیوں اور لٹریچر سے ناواقف تھی اور دینی جماعتوں کے بارے میں ذہن میں بڑا محدود سا تصور تھا کہ برقع اور حجاب میں محدود ہوکر ذکر و اذکار کی محفلوں میں شامل ہونا ہی شاید دینی جماعتوں کی واحد سرگرمی ہے اور مجھے بھی یہیں تک محدود ہونا پڑے گا۔ آج میں سوچتی ہوں کہ کاش میں نے اُس وقت جِماعت کا لٹریچر پڑھ لیا ہوتا تو اتنا وقت ضائع نہ ہوتا۔ بہرحال راشدہ نذیر صاحبہ کی اُس وقت کی دعوت کا میں نے کوئی مثبت جواب نہ دیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ایک سال بعد ضلع کونسل کے الیکشن ہوئے، اُس وقت میں ایل ایل بی کے آخری سال کی طالبہ تھی، ایک مقامی این جی او کے ترغیب دلانے پر اس الیکشن میں بھی میں نے حصہ لیا۔ اتفاق سے اُس وقت میرے مدمقابل تمام خواتین امیدواران میں میری تعلیمی قابلیت سب سے زیادہ تھی، شاید اسی لیے الیکشن میں کامیاب ہوکر ضلع کونسل کی رکن منتخب ہوئی۔ ضلع کونسل ہال کے پہلے اجلاس میں ایک بار پھر راشدہ نذیر صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی ضلع کونسل کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوگئی تھیں۔ لمبا عبایا پہنے ہوئے، چہرہ اسکارف میں چھپائے ہوئے وہ میرے پاس آئیں اور مجھے ایک طرف لے جاکر کامیابی پر مبارک باد دی اور ایک بار پھر جماعت میں شمولیت کی دعوت دی۔ جس وقت وہ مجھ سے بات کررہی تھیں تو ان کا چہرہ اسکارف میں چھپا ہوا تھا، میں چہرے کا پردہ نہیں کرتی تھی، صرف چادر پہنا کرتی تھی۔ مجھے لگا وہ مجھ سے بھی پردہ کررہی ہیں اور اپنے پردہ و حجاب کا مجھ پر رعب ڈال کر میری بے پردگی کو چیلنج کررہی ہیں۔ خدا مجھے معاف کرے اُس وقت ایسی ہی بدگمانی نے میرے ذہن میں سر اٹھایا تھا۔ میں ان کی دعوت کے جواب میں پھر سے کنی کترا گئی۔ ہر دفعہ ضلع کونسل کے ماہانہ اجلاس میں ضلع کونسل ہال میں موجود جماعت اسلامی کی مختلف اراکین مجھ سے ملاقات کرتی تھیں اور اپنی دعوت دہراتی تھیں اور میں ہر دفعہ ٹال مٹول کرکے جان چھڑا لیتی تھی۔
رکن ضلع کونسل کی حیثیت سے جب مقامی سیاست کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا تو مقامی جاگیردارانہ نظام کے جبر و استحصال کے حوالے سے چشم کشا حقائق جاننے کا موقع ملا۔ شاید اس نظام کے خلاف کوئی باغی پہلے ہی سے میرے اندر چھپا بیٹھا تھا۔ ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی کی ڈگری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کے مطابق ضلع کونسل میں جو بھی بے ضابطگی نظر آئی اس کے خلاف قراردادیں لکھ کر جمع کروا دیا کرتی تھی۔ اجلاس میں ان قراردادوں پر بہت ہلچل مچ جایا کرتی اور اخبارات بھی مرچ مسالہ لگاکر اس کے بارے میں خبریں شائع کرتے تھے۔
جماعت اسلامی نے میری قراردادوں پر کبھی میری حمایت نہیں کی۔ میرے شکوے پر وہ لوگ کہتے تھے کہ آپ جب ہمارے ساتھ ملیں گی تو ہم آپ کی قراردادوں کو دیکھیں گے اور ان کا جائزہ لے کر آپ کی حمایت کریں گے۔ اسی دوران ضلع ڈیرہ غازی خان میں کچے کے علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی اور وسیع رقبہ زیر آب آگیا اور بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان ہوا۔ ضلع کونسل کی رکن کی حیثیت سے میں نے اسکولوں، کالجوں سے سیلاب زدگان کے لیے امدادی فنڈ اکٹھا کیا اور راشن، کپڑا وغیرہ اکٹھا کرکے متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کے لیے گئی۔ میری یہ محنت اور لگن دیکھ کر حافظ خالد رؤف صاحب رکن جماعت جو کہ اُس وقت نائب ناظم تحصیل کونسل تھے، میرے گھر آئے۔ سیاہ لمبی داڑھی، نیچی نگاہیں، لہجے میں انتہائی انکساری کے ساتھ وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے ’’بہن! آپ نے تن تنہا سیلاب زدگان کی مدد کا بیڑا اٹھایا، ہم آپ کے بھائی ہیں، ہماری جماعت بھی خدمتِ خلق کے شعبے کے تحت یہ کام کررہی ہے، آپ ہمارے ساتھ شامل ہوکر یہ کام زیادہ بہتر طور پر کرسکتی ہیں۔‘‘
میرے دل میں اس وقت ضلع کونسل میں موجود اراکین جماعت اسلامی کی طرف سے میری قراردادوں پر عدم حمایت کا گلہ شکوہ عروج پر تھا جس کا برملا اظہار کرتے ہوئے میں نے حافظ صاحب سے سوال بھی کیا کہ کیا ضلع میں آپ کی جماعت کی سیاسی جدوجہد آپ کی جماعت کے عظیم رہنما ڈاکٹر نذیر شہید کی جدوجہد کی طرز پر چل رہی ہے؟ انہوں نے مقامی جاگیرداروں کے خلاف واضح طور پر جدوجہد کی تھی جب کہ آپ کی جماعت کی اس وقت کی پالیسیاں اس معاملے میں ڈھکی چھپی اور غیر واضح ہیں۔ آپ لوگوں کا یہ طرزِعمل مصلحت ہے یا منافقت ہے؟
وہ میرا یہ سوال سن کر تذبذب میں پڑ گئے، پھر سنبھل کر کہنے لگے ’’محترم بہن! ڈیرہ غازی خان میں جماعت کے مٹھی بھر لوگ بھی اگر مقامی جاگیرداروں سے ٹکراؤ اور مخالفت کی سیاست کی نذر ہوگئے تو پھر یہاں دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بھی نہ ہوسکے گا، اس لیے ہمیں فیوڈل لارڈز (لغاری، کھوسہ) سے ٹکرائے بغیر اپنا کام کرنا ہے۔ جب ہمیں یہاں قوت حاصل ہوجائے گی تو پھر ہم کھل کر جبر و استحصال کے اس نظام کا مقابلہ کریں گے۔‘‘
حافظ صاحب کا جواب معقول تھا، لیکن اس وقت میں دینی یا سیاسی تربیت سے نابلد و ناآشنا تھی۔ ذہن پر تحریکی جوش غالب تھا لیکن اس جوش و جذبے کی طاقت کو صحیح سمیت میں استعمال کرنے کی تربیت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے حافظ صاحب کی باتوں پر توجہ نہیں دی اور جماعت میں شمولیت کی اُن کی دعوت کو ایک بار پھر رد کردیا۔
پانچ سال گزر گئے، لوکل گورنمنٹ کے پانچ سال مکمل ہوگئے۔ اس کے بعد 2008ء میں شادی ہوکر میں احمد پور لمدّ ( جس کا پہلے کبھی نام بھی نہ سنا تھا) منتقل ہوگئی۔ ڈیرہ غازی خان کی سیاست اور جماعت اسلامی کی طرف سے شمولیت کے لیے دی جانے والی دعوتیں۔۔۔ سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا۔ لیکن یہ تو صرف میرا خیال تھا کہ سب کچھ پیچھے رہ گیا۔ جماعت اسلامی تو یہاں بھی میرے تعاقب میں تھی۔ شادی کے چند ماہ بعد مجھے علم ہوا کہ میرے شوہر رکن جماعت بھی ہیں۔ شادی سے پہلے مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ ان کے دوستوں میں جماعت اسلامی کے کچھ لوگ (جو ڈیرہ غازی خان کے رہائشی تھے) شامل ہیں، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ رکن جماعت بھی ہیں۔ خالدی صاحب (میرے شوہر) اکثر رات کو دیر سے گھر آنے لگے اور دن میں بھی اکثر افراتفری میں ناشتا کیے بغیر گھر سے نکل جاتے تھے۔
چند ماہ کی نئی نویلی دلہن کے لیے شوہر کی یہ عدم توجہی تشویش کا باعث بن گئی۔ گھر پر ہوتے تھے تو بھی زیادہ وقت ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے ساتھ مصروف رہتے تھے۔ آخر ایک روز پوچھ ہی بیٹھی کہ ’’آپ آج کل کن سرگرمیوں میں مصروف ہیں؟‘‘
وہ بولے ’’محترمہ! میں جماعت اسلامی کا رکن بھی ہوں اور جماعتی سرگرمیاں میری زندگی کا حصہ ہیں‘‘۔ جماعت کا نام اپنے شوہر کے منہ سے سن کر جماعت سے وابستہ سارے گلے شکوے ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہوگئے۔۔۔ ’’ہونہہ! یہاں بھی جماعت اسلامی‘‘ میں نے جل کر سوچا۔ شوہر کی مصروفیات اور جماعتی سرگرمیاں بڑھتی چلی گئیں تو جماعت اسلامی سے میرے پرانے شکوے بھی بغض میں تبدیل ہوگئے۔
مجھے خالدی صاحب کی جماعتی مصروفیات ایک آنکھ نہ بھاتیں۔ ’’میرا شوہر مجھ پر کم اور جماعت اسلامی پر زیادہ توجہ دیتا ہے‘‘ یہی سوچ سوچ کر جلتی، کڑھتی رہتی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں جماعت کے لوگوں کی میٹنگیں چلتی رہتی تھیں جن کی خاطر تواضع کا انتظام کرنے کے لیے میرا زیادہ وقت باورچی خانے میں گزرنے لگا۔ بار بار چائے کے برتن دھوتے اور کھانا بناتے بناتے میرا پارہ چڑھ جاتا۔ شام کو جب خالدی صاحب کمرے میں آتے تو احتجاجاً خاموش رہتی اور اکثر ان سے بات کیے بغیر منہ پھلائے رہتی۔ یہ خاموش احتجاج سال بھر جاری رہا۔ ہمارے ہاں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہوئی۔ میں اپنی پیاری بیٹی کی معصوم حرکتوں میں کھو کر کچھ عرصے کے لیے سب کچھ بھول گئی۔ وہ چند ماہ کی تھی، اکثر دن میں سارا وقت سوتی اور رات کو جاگتی تھی۔ مجھے بھی اس کے ساتھ راتوں کو جاگنا پڑتا تھا۔ سردیوں کا موسم خالدی صاحب کاروبار کے سلسلے میں ڈیرہ غازی خان میں گزارتے تھے۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں اپنی معصوم سی گڑیا جیسی بیٹی کے ساتھ جاگتے ہوئے اکثر نیند اچاٹ ہوجاتی تھی۔ نیند لانے کے لیے کسی کتاب کے مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک رات بیڈ کی درازوں کو کھنگال رہی تھی، خالدی صاحب نے جماعت کا لٹریچر کئی مرتبہ پڑھنے کے لیے مجھے لاکر دیا تھا لیکن دل میں جماعت کے خلاف بڑھے ہوئے بغض کی موجودگی میں بھلا اس کے مطالعے کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا تھا! خیر اس رات بیڈ کی دراز میں ہاتھ ڈالا تو دھول مٹی میں اَٹی ہوئی کتاب ’’خطبات‘‘ ہاتھ لگی۔ مٹی جھاڑ کر کتاب کو کھولا اور محض نیند لانے کے لیے اس کا مطالعہ شروع کیا۔ لیکن یہ کتاب جوں جوں پڑھتی گئی نیند بھگانے والی ثابت ہوئی۔ صبح چار بجے تک میں اس کا مطالعہ کرتی رہی۔ رات گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔
اگلے دن سارا وقت کتاب کے الفاظ ذہن میں گونجتے رہے۔ ’’اچھا تو یہ ہیں جماعت اسلامی کے بانی۔۔۔ مولانا مودودیؒ ۔۔۔‘‘ میں نے سوچا۔ خطبات میں مندرج تمام موضوعات میرے لیے بالکل نئے تھے۔ ان کی روشنی میں دینِِ اسلام سے اپنی واقفیت کا جائزہ لیا تو دل ندامت سے بھر گیا۔ پیدائشی مسلمان۔۔۔ قانونی اور حقیقی مسلمان۔۔۔ آج تک ان تصورات سے کس قدر ناواقف تھی میں۔۔۔ کتنا وقت غفلت میں گزر گیا۔ خطبات پڑھ کر ایسا لگا کہ دین میں غور و تدبر کرنے والے تو بس یہی لوگ تھے۔۔۔ جو گزر گئے۔ ’’خدا کے مطلوب مسلمان‘‘ کے موضوع پر مولاناؒ صاحب کی عرق ریزی پڑھ کر ایسا لگا کہ ابھی تو ہم مسلمان ہوئے ہی نہیں۔ بس پھر کیا تھا میں نے بھی سوچ سمجھ کر مسلمان ہونے کی ٹھان لی اور کھوج میں لگ گئی کہ ایمان اصل میں کہتے کس کیفیت کو ہیں؟ اور دل کے اندر وہ کون کون سے عوارض ہیں جو ایمان کا خاتمہ کردینے والے ہیں؟ کھوج کا یہ سفر تو اب بھی جاری ہے۔ اب جب کہ میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی رحیم یار خان کے شعبہ نشر و اشاعت کی نگران کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں ادا کر رہی ہوں، اسی کھوج کے سفر کے دوران نومبر 2014ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع عام (منعقدہ لاہور) میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ شعبہ نشرواشاعت کے کیمپ میں اپنے تین چھوٹے بچوں کا سامان اور بچے سنبھالنے میں مصروف تھی کہ میرے قریب سے ایک خاتون لمبا عبایا اور اسکارف پہنے ہوئے گزریں، جیسے ہی میری نظر ان کے چہرے پر پڑی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں شناسائی کی ایک تیز لہر بجلی کی طرح ذہن میں کوندی۔۔۔ جس پر بعد میں خود بھی حیران ہوئی۔
میں نے انہیں بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کیا اور پوچھا ’’آپ سعدیہ ہیں ناں؟‘‘ وہ کچھ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگیں، لیکن پہچان نہ سکیں۔ پہچانتیں بھی کیسے؟ 1991ء میں ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان کے گراؤنڈ میں درسِ قرآن دینے والی اسلامی جمعیت طالبات کی صدر کی نظر سے روزانہ سینکڑوں طالبات گزرتی تھیں اور درس سننے کے لیے آتی تھیں۔ اُس وقت سے لے کر 2014ء تک 24 سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ میں نے انہیں یاد دلایا تو وہ بہت حیران ہوئیں اور خوش بھی۔ میں نے انہیں مختصراً بتایا کہ آپ کے بعد بھی بے شمار مرتبہ جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ غازی خان کے اراکین و کارکنان نے مجھے جماعت میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن میں ہر بار رد کرتی رہی، پھر اتفاق سے میری شادی رکن جماعت سے ہوگئی، ایسا لگتا ہے کہ جماعت میرے تعاقب میں رہی ہے اور آخرکار مجھے پکڑ ہی لیا ہے۔
(باقی اگلے صفحے پر)

حصہ