شہر اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے اور ملک کی معیشت کے حوالے سے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اہم مقام کا حامل ہے۔ یہاں کی دو بندرگاہوں پورٹ قاسم اور کیماڑی ٹرمینل سے پورا پاکستان استفادہ کررہا ہے۔ بات پاکستان ہی کی نہیں بلکہ اب تو نوآزاد روسی ریاستیں اور افغانستان بھی ان بندرگاہوں کے فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ ان ممالک کی بیشتر ضروریات کا دار و مدار اس راستے سے آنے والے سامان پر ہے۔
پاکستان کے اس شہر کے موسم کی طرح اس کی سیاست کا انحصار بھی بیرونی عوامل پر ہے، بلکہ اس کی معیشت اور سیاست پر غیر ملکی اسٹک ہولڈرز کا بھی برابر کا قبضہ ہے۔
کراچی کی حکومت اور سیاست کو غیر ملکی سیاست اور مفادات سے الگ کرکے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ جو احباب اس خوش فہمی میں ہیں کہ کراچی پر صرف کراچی والوں کا حق ہے، وہ غلط اندازہ لگا رہے ہیں۔ کراچی ابتدا میں کچھی اور مکرانی برادری کا شہر تھا، ان میں اندرون سندھ کے متمول ہندو تاجر اور بنیے کثیر تعداد میں کاروبار کی غرض سے موجود تھے۔ ہندوؤں کی یہاں کئی بستیاں تھیں۔ اسی طرح پارسی اور خوجے بیوپاری خاندان بھی تھے۔ گو کہ یہ اکثریت میں نہیں تھے پھر بھی کاروبار اور شپنگ کی صنعت پر ان کی اجارہ داری تھی۔
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے کراچی، نواب شاہ، میرپور خاص، سکھر اور حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ کچھ واہگہ بارڈر کے ساتھ لاہور کے والٹن کیمپ میں رہ کر لاہور میں ہی بس گئے، کچھ کراچی میں اپنے عزیزوں اور یہاں سیٹ ہوجانے والے لوگوں کے پاس چلے آئے۔ اس طرح آبادی کا تناسب شہر کی حد تک اردو بولنے والوں کے حق میں ہوگیا۔ آہستہ آہستہ شہر نے ترقی کے مدارج طے کیے اور پاکستان کی معیشت میں اپنا اہم مقام بنایا۔ ہر قسم کی صنعت یہاں موجود تھی۔ فشری اور ماہی گیری سے آگے بڑھ کر چھوٹے بڑے کارخانے، اسٹیل مل، پورٹ، ریلوے، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور رہائشی اسکیمیں سب وجود میں آتی چلی گئیں۔ دیگر صوبوں میں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے سبب وہاں کے لوگ بھی اس بڑے شہر کا رخ کرنے لگے۔ تعلیم کی غرض سے بھی بہت سے افراد یہاں آگئے۔ بلاشبہ اس شہر کی ترقی میں اردو بولنے والوں کا بہت نمایاں کردار رہا ہے، لیکن یہاں کی عمارتوں کی تعمیر اور دیگر کاموں میں دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی محنت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سال ہا سال سے مردم شماری نہیں ہوئی ہے، اب اگر اچانک مردم شماری ہوئی تو ڈرتا ہوں کہ یہ خوش فہمی بھی دور نہ ہوجائے کہ یہ مہاجر اکثریت کا شہر ہے۔
1980ء تک یہ شہر پورے پاکستان کے مشترکہ شہر کے طور پر جانا جاتا رہا، لیکن اس کے بعد ضیا الحق کے مارشل لا کے فیوض و برکات اور مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے مشرقی پاکستانیوں کی ہجرت کے سبب مہاجر شناخت کا شہر بنتا چلا گیا۔ یہ سب یونہی نہیں ہوگیا تھا۔ ایک بہت منظم منصوبہ بندی کے تحت ایسے حالات پیدا کیے گئے جن کو بنیاد بناکر سندھی، مہاجر اور پٹھان کو علیحدہ اکائیوں میں تقسیم کیا گیا۔
وہ حالات کیا تھے جن کی میں بات کررہا ہوں، ان کو ایک ایک کرکے ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اوّل تو سندھی، مہاجر کا جھگڑا موجود ہی نہیں تھا۔ جی ایم سید جو علیحدگی پسند تحریک کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، پاکستان کے قیام میں مددگار اور قائداعظم کے میزبان بھی رہے، پاکستان کی قرارداد اور کراچی کو سندھ کے ساتھ شامل رکھنے میں ان کا ووٹ اور رائے بہت اہمیت کی حامل تھی۔
ان کو سندھ میں محرومیوں کی بنیاد پر سندھی حقوق کا ترجمان بناکر پیش کیا گیا۔ نظربندی اور گرفتاریوں نے سندھی قوم کو پاکستان مخالف گروپ میں تبدیل کرنا شروع کیا اور ان کے نوجوان اردو بولنے والے نوجوانوں کو اندرون سندھ میں شدید نفرت کا نشانہ بناتے رہے۔ اس کے ردعمل میں کراچی کے طلبہ میں بھی ری ایکشن کی فضا کو پروان چڑھایا گیا۔ ایسے میں جاہلانہ طرزفکر متعارف کروایا گیا جس کی رو سے تعلیم میں غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم رائج کیا گیا۔ یہ سسٹم بھٹو اور اس کی حکومت کی اختراع تھی، جس کو ضیا الحق کے مشیروں نے خوب ہوا دی۔ جب مذہبی جماعتوں نے ضیا الحق کے مارشل لاکے خلاف آواز اٹھانے کی ابتدا کی تو لامحالہ انھوں نے مذہبی جماعتوں کی شہر میں اجارہ داری کو روکنے اور توڑنے کا فیصلہ کیا۔ دو جماعتیں جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی ایسی تھیں جن کا شہر کراچی میں عمل دخل تھا۔ ان کے نمائندے بلدیہ اور اسمبلی میں موجود تھے۔ تیسری پارٹی بھٹو کی تھی جس کو اکثریت تو حاصل تھی مگر کراچی میں اسے فقط دو سے تین قومی سیٹیں حاصل تھیں۔ سب سے پہلے کراچی میں جمعیت علمائے پاکستان کے نورانی میاں کو سزا دی گئی اور ان کی پارٹی کے تین دھڑے بنا دیے گئے۔ ظہورالحسن بھوپالی، حافظ تقی، حاجی حنیف طیب اور دوست محمد فیضی کو پارٹی سے الگ کرکے دھڑے بنائے گئے۔ پارٹی کی قوت ٹوٹ چکی تھی، لے دے کر نورانی صاحب کے پاس صرف شاہ فریدالحق باقی بچے تھے، باقی پارٹی نے مارشل لا پر بیعت کرلی۔ جماعت اسلامی پر بھی بہت ڈورے ڈالے گئے۔ میاں طفیل محمد کو ماموں بھانجے اور ’’گرائیں‘‘ ہونے کا واسطہ دیا گیا۔ مجبوراً جماعت اسلامی نے اجتہاد کرکے شوریٰ میں جانے کا فیصلہ کیا، میاں طفیل محمد کی امارت میں وزیر بھی بنے۔ مگر جلد عقل آگئی اور وزارتوں سے استعفیٰ دے کر چھ ماہ میں باہر نکل آئے۔
اس ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات کروائے گئے اور مکمل مارشل لائی مشنری استعمال ہوئی، جس میں مذہبی جماعتوں کے بوریا بستر لپیٹنے کے عمل کو آخری شکل دی گئی۔ ان کے مقابلے پر سندھ کے شہری علاقوں میں نوجوان اور لبرل قیادت کو جو مہاجر حقوق کے نام پر جدوجہد کررہی تھی‘ آگے لایا گیا۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی اپنی جگہ مضبوط رہی اور شہری علاقے میں مہاجر شناخت کے نمائندوں پر مہرِ تصدیق ثبت کی گئی۔ یہ سب مارشل لا کو تحفظ دینے کا عمل تھا جس کے لیے لسانی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کیا گیا۔
مارشل لا کیوں ضروری تھا؟ یہ وہ دوسرا ملین ڈالر کا سوال ہے جس کی وضاحت بہت ضروری ہے۔
مارشل لا اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان کا گرم پانی یعنی کراچی اور مکران کا سمندر روس کی نظروں میں آچکا تھا۔ افغانستان میں عملاً روسی فوج آچکی تھی اور پاکستان کی سرحد عبور کرنے میں صرف دو دن اور چار گھنٹوں کی جنگ کی دوری تھی (کم از کم روس کو یہ خوش فہمی ضرور تھی)۔ پاکستان میں ولی خان نے بابِِ خیبر اور اٹک کے پُل پر روسی فوج کے استقبال کی تیاری بھی کرلی تھی۔ افغانستان میں روس کو مصروف کرنے کے لیے پاکستان میں ’’مارشل لا‘‘ کی صورت میں امریکا کو صرف ضیا الحق سے ہی ڈیل کرنی تھی۔ اگر اُس وقت پاکستان میں جمہوری حکومت ہوتی تو امریکا کو کئی جماعتوں اور خاص طور پر مذہبی جماعتوں سے ڈیل کرنی پڑتی۔ چنانچہ امریکا کو یہی سوٹ کرتا تھا کہ یہاں فردِ واحد کی حکمرانی ہو۔ لہٰذا راتوں رات مارشل لا کا منصوبہ بنا اور ضیاالحق مسندِ اقتدار پر قابض ہوئے اور روس کو افغانستان میں ہی گھیر لیا گیا۔
یہ وہ نازک وقت تھا جب جماعت اسلامی کی قیادت نے روسی استعمار کا رستہ روکنے اور افغانستان میں پہلے سے موجود اسلامی ذہن رکھنے والی قوتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور افغان جہاد شروع ہوجانے کے ساتھ ہی مکمل طور پر اس جہاد کی پشتِ بانی بن گئی۔ جب افغان مجاہدین کو کامیابی ملنی شروع ہوئیں تو امریکا بھی کمر باندھ کر ان کی مدد پر آن پہنچا۔ ظاہر ہے امریکا کے پیش نظر اسلامی انقلاب کا قیام تو نہیں تھا البتہ اس کی کوشش یہ ضرور تھی کہ وہ اسلامی انقلاب کے ثمرات کو آگے پھیلنے سے روکے۔۔۔ اور پھر اس کے بعد روس اپنے انجام کو تو پہنچا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ ضیا الحق اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ’’پار‘‘ لگا دیے گئے۔
اس کے بعد ’’جمہوریت‘‘ واپس آئی مگر بیرونی قوتوں سے معاملہ کرنے کے بعد۔۔۔ جس میں پہلے سے یہ ضمانت دی گئی تھی کہ اب روس ٹوٹ چکا ہے لہٰذا جہاد وغیرہ سب ختم۔ مذہبی انتہا پسندی کی جگہ سیکولر سوچ کوآگے بڑھایا جائے گا۔ اس اندرونِ خانہ معاہدے کو عملی شکل دیتے ہوئے جمہوریت بھی چلتی رہی اور جہاد کے اثرات کو بھی زائل کیا جاتا رہا۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں شہر میں رجسٹریشن کی حد تک موجود رہیں مگر شہر کی شناخت مکمل طور پر مہاجر بن چکی تھی ۔
اس کے باوجود بھی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نظریاتی فکر کا کمال تھا کہ جماعت اسلامی شہر میں پوری قوت کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہوتی رہی۔ جب جب اس کے جیتنے کی امید بنتی، اُس کو کسی نہ کسی بہانے سے بائیکاٹ پر مجبور کردیا جاتا۔ ان حالات میں بھی بلدیاتی سطح پر دو مرتبہ جماعت اسلامی نے اپنی بلدیاتی حکومت بنائی۔ مگر اس کو راستے سے ہٹانے کا عمل جاری رہا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جن حقوق کے نام پر مہاجر کارڈ کھیلا گیا، آج تک ہمت نہیں کہ مہاجر ان منتخب ہونے والے نمائندوں سے یہ پوچھے کہ بھائیو آپ نے کون سا کام ایسا کیا ہے جس کی بنیاد پر آپ مہاجروں کے حقوق کی بات کررہے ہو؟کیا کوٹہ سسٹم ختم ہوگیا؟ مہاجر نمائندے تیس سال سے ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں، صوبے اور مرکز کی اہم وزارتیں آپ کے پاس رہیں۔ آپ چاہتے تو کوٹہ سسٹم کی لعنت کا کب کا خاتمہ ہوچکا ہوتا، مگر آپ کے دستخط سے اس کی مدت میں توسیع بھی ہوئی۔
حیدرآباد اور کراچی میں کون سی نئی درسگاہ قائم ہوئی؟
کون سا نیا سرکاری اسپتال بنایا گیا؟
سرکاری ملازمتوں میں مہاجروں کو کون سا حصہ ملا؟
ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک پوری نسل کو بھتے اور لوٹ مار پر لگا دیا گیا، ہزاروں نوجوانوں کو جان سے مار دیا گیا۔ پہلے والوں کو ملک بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مگر اب مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک راتوں رات اتنا امن کیوں قائم ہوگیا؟ غنڈہ گردی، لوٹ مار، قتل وغارت گری کا عفریت بوتل میں کیسے بند ہوگیا؟ اس کا جواب بھی سن لیجیے۔
یہ جو سی پیک ہے، چین پاکستان راہ داری سلک روڈ کا معاملہ، اس کی شق ہے کہ پاکستان چین کو مکمل تحفظ فراہم کرے گا۔ بھتہ گیری برداشت نہیں کی جائے گی۔ ہمارے کسی انجینئر کو یرغمال نہیں بنایا جائے گا۔ کوئی تاوان نہیں دیا جائے گا۔
جب چین نے ان مطالبات پر ضمانت کے لیے وزیراعظم نوازشریف کو اپنے پاس بلایا تو متحدہ کی قوت سے ڈر کر وہ کوئی ضمانت نہیں دے سکے۔ اس لیے کہ متحدہ کے وجود سے ان کی حکومت کو دوام تھا۔
ان کے انکار کے بعد چین نے جنرل راحیل شریف کو اپنے پاس بلایا جنہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ چین کو تمام تر یقین دہانی کروائی۔ دیکھیے اس کے بعد سے بوتل کا وہ جن جو بوتل سے باہر نکل کر سر چڑھ کر ناچ رہا تھا، کس خوب صورتی اور معصومیت کے ساتھ نہ صرف واپس بوتل میں بند ہوگیا بلکہ ڈھکنا بھی اپنے ہی ہاتھ سے لگایا۔
متحدہ پاکستان میں تو بوتل میں جا چکی مگر امریکا اور برطانیہ میں اپنا دم خم دکھا رہی ہے اور اُس وقت تک دکھاتی رہے گی جب تک سی پیک پر امریکی و مغربی تحفظات کھل کر سامنے نہیں آجاتے۔