(لیاقت علی خان کی شہادت کا آنکھوں دیکھا حال (وجیہ اسیما عرفانی

222

گیارہ بجے چکلالہ کے ہوائی اڈے پر پہنچ گیا۔ معززین شہر، ایم ایل اے حضرات، مسلم لیگ کے عہدے دار ایک طرف کھڑے تھے۔ تعلقاتِ عامہ کشمیرکے ڈائریکٹر ضیاء الاسلام، فوج کے تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر کمانڈر مقبول اور اے پی پی اور پاکستان ٹائمز کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ایک طرف نواب مشتاق احمد گورمانی وزیر امور کشمیر، مسٹر یوسف خٹک جنرل سیکریٹری پاکستان مسلم لیگ، لیفٹیننٹ جنرل ناصر علی خاں چیف آف اسٹاف، میجر جنرل یوسف، مسٹر انعام الرحیم کمشنر اور دوسرے حضرات بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک جانب ڈی آئی جی پولیس خان نجف خان، ڈی ایس پی عبدالرشید خاں، ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس چوہدری غلام مرتضیٰ اور کچھ اور حضرات کھڑے تھے۔ میں ان تمام حضرات سے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ملتا ہوا گراؤنڈ میں داخل ہوا تو قائدِ ملت کا ہوائی جہاز زمین کو چھو چکا تھا اور اسی طرف بڑھتا آرہا تھا۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ لیاقت علی خان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔
جہاز رکا تو مسٹر گورمانی، مسٹر انعام الرحیم اور جنرل ناصر علی خاں آگے بڑھے۔ پہلے وزیراعظم کے سیاسی سیکریٹری نواب صدیق علی خان اُترے، پھر لیاقت علی خان سامنے آئے۔ اُن کے چہرے پر ہم ہمیشہ جو شگفتگی دیکھا کرتے تھے، وہ آج نہ تھی۔ چہرے پر زردی تھی، کمزوری تھی اور تھکن کے آثار بہت نمایاں تھے۔ وزیراعظم ہوائی فوج کے دستے کی سلامی لینے کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر معززین شہر سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ کمشنر اور سٹی مسلم لیگ کے صدر نے حاضرین کو آپ سے متعارف کرایا۔ آپ نے ایک ایک سے ہاتھ ملایا مگر وہ شگفتگی جو ان کا ہمیشہ سے خاصہ رہی تھی، ان کے چہرے پر نہ آئی۔ ہم لوگوں کے متعلق کمشنر نے اخباری نمائندوں کا لفظ کہا تھا تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے اخبار اور ادارے کا نام بتایا۔ لیاقت علی خان آگے بڑھے تو ہم ساتھ ہولیے۔ تعارف سے فارغ ہوتے ہی ہم نے انھیں گھیر لیا۔ میں نے ان سے دریافت کیا ’’راولپنڈی میں آپ کی آمد کا مقصد کیا ہے؟‘‘
انھوں نے مسکرا کر اور اپنے روایتی لہجہ میں کہا ’’آپ لوگوں سے ملنے کے لیے۔‘‘
پھر پاکستان ٹائمز کے نمائندے نے آپ سے دریافت کیا کہ وزیر صنعت چوہدری نذیر احمد کے خلاف تحقیقات کس مرحلے میں ہے؟ وزیراعظم نے قدرے حیرت کا اظہار کیا اور پھر فرمایا: ’’چوہدری نذیر احمد کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہورہی ہے، یہ بات قطعی غلط ہے۔‘‘
میں نے آگے بڑھ کر ایک اور سوال کیا: ’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو خلفشار پیدا ہوا تھا، کیا وہ اب نہیں رہا؟ اور جنگ کے جو امکانات واضح تھے، کیا اب ختم ہوگئے ہیں؟‘‘
وزیراعظم لمحے بھر کے لیے سنجیدہ ہوگئے اور پھر نیم مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے: ’’اگر یہ بات میں آپ کو بتادوں تو جو پبلک جلسہ ہورہا ہے، اس میں کیا کہوں گا؟ اس کے متعلق میں جلسہ میں بتاؤں گا۔‘‘
میں نے ان سے پھر ہاتھ ملایا اور وہ موٹر کی طرف تشریف لے گئے اور ہم نواب صدیق علی خان صاحب سے رسمی گفتگو کرنے لگے۔ اگلے روز یعنی 16اکتوبر کو کیمبل پور کی ایک اہم فوجی تقریب میں قائدِ ملت کو شریک ہونا تھا، میں نے ان کے قافلے کے ساتھ ہی کیمبل پور جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ میں ہوائی اڈے سے موٹر میں بیٹھ کر کمپنی باغ کے راستے جلسہ گاہ کے انتظامات دیکھتا ہوا دفتر چلا آیا۔
کمپنی باغ کا جلسۂ عام تین بجے شروع ہونا تھا اور ٹھیک چار بجے قائدِ ملت کو پہنچنا تھا۔ میں تین بجے جلسہ گاہ میں پہنچ گیا۔ اسٹیج اچھا بنایا گیا تھا اوردائیں طرف لاؤڈ اسپیکروں کا اور بائیں جانب ریڈیو پاکستان کا عملہ تھا۔ ان کے ساتھ ہی اخبارات کے نمائندے بیٹھے تھے۔ چار بجے تک نظمیں وغیرہ ہوتی رہیں۔ ٹھیک چار بجے بینڈ نے قائدِ ملت کے استقبال کا ترانہ چھیڑا اور آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ، قومی رضاکاروں، پولیس افسروں، سی آئی ڈی اور اعلیٰ حکام کے پہرے میں پنڈال میں داخل ہوئے۔
اسٹیج ایک بڑے قالین سے سجایا گیا تھا۔ ڈائس پر آتے ہی قائدِ ملت نے حسبِ عادت منٹ بھر تک ہجوم کی تسلیمات لیں مگر چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے تفکر تھا۔ ڈائس پر ایک ہی کرسی تھی، جس پر قائدِ ملت کو بٹھایا گیا۔ صدر مسلم لیگ نے آپ کے گلے میں پھولوں کا ہار پہنایا اور فضا پاکستان زندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد، قائداعظم زندہ باد اور لیاقت علی خان زندہ باد کے پُرجوش نعروں سے گونج اٹھی۔ جلسہ باقاعدہ شروع ہوا۔
سب سے پہلے مولانا عارف اللہ نے تلاوتِ قرآن شریف کی، پھر بلدیہ کے صدر شیخ مسعود صادق ایم ایل اے نے ایک سپاس نامہ اہلِ شہر کی طرف سے پیش کیا۔ میں نے بارہا لیاقت علی خان کو جلسوں میں سپاس نامے سنتے ہوئے دیکھا ہے، مگر اب کے جب سپاس نامہ پیش کرنے والے نے کشمیر اور دفاعِ وطن کا ذکر کیا تو لیاقت علی خان کی آنکھوں میں ایک ایسا عزم اور ولولہ چھلکنے لگا، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آج انہیں بالخصوص اس مسئلے پر کچھ کہنا ہے اور میری یہ اطلاع درست ہے کہ وہ کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ سپاس نامہ ختم ہونے کے بعد شیخ محمد عمر صاحب نے مختصر سی تقریر کی۔
لیاقت علی خان کو ہار پہناتے وقت چند رُوپہلے تار ان کی ٹوپی کے اوپر اٹک گئے تھے۔ نواب صدیق علی خان نے انھیں دیکھ لیا اور اٹھ کر بڑے ادب کے ساتھ انھیں درست کردیا۔ شیخ محمد عمر کی تقریر ختم ہونے پر وزیراعظم ایک عظمت و وقار اور سنجیدگی، عزم اور تفکر کا پیکر بنے کرسی سے دُور مائیکرو فون کے سامنے اسٹینڈ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ’’برادرانِ ملت‘‘ کا لفظ ابھی کہا ہی تھا کہ ٹھاہ ٹھاہ کی آواز آئی اور قائدِ ملت بایاں ہاتھ دِل پر رکھے ہوئے تیورا کر پیٹھ کے بل گِر پڑے۔ اسٹینڈ بھی ساتھ ہی گر گیا۔ حملہ آور مجمع سے تقریباً چھے گز کے فاصلے پر ان کے بائیں کندھے کے برابر ترچھا بیٹھا تھا۔ اس کے گولی چلاتے ہی قریبی لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ حملہ آور نے تین چار گولیاں بعد میں بھی چلائیں، جن سے دو آدمیوں کی ٹانگوں میں زخم آئے۔ ایسے میں پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ یہ سب کچھ اس قدر غیر متوقع اور یک دم ہوا کہ کسی کے بھی حواس بجا نہ رہے اور گویا سب کی آنکھیں پتھرا گئیں۔
جذبات سے بے قابو ہجوم نے گھونسے، لاتیں، گملے، لاٹھیاں اور برچھیاں مار مار کر قاتل کی ہڈیاں تک ٹکڑے کرڈالیں۔ کچھ لوگ گولیاں چلنے کی دہشت سے میزوں اور اسٹیج کے نیچے چھپ گئے تھے۔ غرض ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ میں ایسے میں فوراً اچک کر اسٹیج پر پہنچ گیا، جہاں وزیراعظم بالکل چت پڑے تھے۔ ان کا چہرہ زرد تھا اور آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں۔ حملہ ہونے کے بعد شیخ محمد عمر نے انھیں سنبھالا دیا اور ان کے گرنے کے بعد جو شخص سب سے پہلے لپک کر ان تک پہنچا، وہ پنڈی کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ہارڈی تھے۔ ساتھ ہی پولیٹیکل سیکریٹری نواب صدیق علی خان، پھر راولپنڈی سول اسپتال کے انچارج ڈاکٹر اقبال انصاری اور راقم الحروف پہنچے، پھر پروفیسر عنایت اللہ اور ایک اور ڈاکٹر صاحب، جنہیں میں نہیں جانتا۔ مسٹر جاوید نمائندہ پاکستان ٹائمز اور وزیراعظم کے افسر رابطہ مسٹر جمیل پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ روتے پیٹتے چیخ چلاّ رہے تھے۔ میں نے پیچھے مڑ کر ایک نظر دیکھا۔ قاتل کھڑا تھا اور لوگ اسے دبوچ رہے تھے۔ منٹ بھر بعد میں نے اسے اوندھے منہ پڑے ہوئے اور برچھیاں کھاتے ہوئے دیکھا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حملہ آور نے بیٹھے ہوئے گولیاں چلائیں۔ اس نے ریوالور سے نہیں بلکہ پستول سے گولیاں چلائیں اور ظالم نے ایسا نشانہ لگایا کہ ٹھیک دل کے مقام پر جاکر لگا۔ اس نے ٹھیک اُس وقت گولی چلائی، جب ہجوم میں سے ہر ایک کی نگاہیں قائدِ ملت کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے قاتل کو کندھے پر چادر رکھے ہوئے دیکھا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اُس نے چادر کی آڑ سے نشانہ لگایا ہو۔ ویسے قاتل کے اردگرد کے چند آدمی لامحالہ اس کے ساتھ ہوں گے، کیوں کہ کم از کم ہاتھ سیدھا کرتے اور پستول کا رینج لیتے وقت اس کے ساتھی کو پتا چل جانا ضروری تھا۔
میں ذکر کررہا تھا کہ بہت سے لوگ روتے پیٹتے، حواس باختہ، سخت مغلوب الغضب اور مختل تھے۔ ڈاکٹر اقبال انصاری پریشانی سے کہنے لگے ’’گولی کہاں لگی ہے؟‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ شیروانی دل کے پاس سے تھوڑی سی کٹی ہوئی ہے۔ چناں چہ میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے مل کر شیروانی کے بٹن کھولے اور انھوں نے قمیص پھاڑ ڈالی۔ اتنے میں لیاقت علی خان نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ڈاکٹر صاحب نے پانی منگایا، پانی شہید کے منہ کے ساتھ لگایا گیا تو ہم دونوں ان پر جھک گئے۔ ان کے منہ سے آواز آئی، ’’اللہ‘‘ پھر انھوں نے کلمہ تین مرتبہ پڑھا، اس کے بعد لیاقت علی خان کی زبان سے رک رک کر یہ الفاظ نکلے ’’پاکستان، پاکستان، خدا، پاکستان کا خداحافظ‘‘۔ پھر انھوں نے بائیں آنکھ میچ لی، دائیں آنکھ کھلی تھی۔ ڈاکٹر انصاری نے ہاتھ سے دائیں آنکھ بند کرنے کی کوشش کی مگر پوری بند نہ ہوئی۔ پھر انھوں نے نبض دیکھی اور قمیص پھاڑ کر دل کی جگہ کان رکھا اور چیخ کر کہا ’’جلدی اسپتال لے چلو‘‘، اس سے یہ امید ہوگئی کہ لیاقت علی خان شاید بچ جائیں۔
میں نے ڈائس پر آتے ہی قائدِ ملت لیاقت علی خان کی ٹوپی جو اُن کے سر کے پاس گر گئی تھی، اٹھالی۔ ہم سب نے قائدِ ملت کا بے جان جسم اٹھا کر ایک کار میں لٹادیا۔ کار کو ڈاکٹر اقبال انصاری کمبائنڈ ملٹری اسپتال لے گئے۔ میں اور مسٹر جاوید دوسری کار میں اسپتال پہنچے۔ (اے پی پی کے نامہ نگار کی یہ اطلاع کہ وہ خود موقع پر موجود تھا، بالکل غلط ہے) راستے بھر لوگ چیخ رہے تھے اور لیاقت علی خان کی زندگی کے لیے اپنے بچوں کی زندگیوں کی پیش کش بارگاہِ الٰہی میں کررہے تھے۔ اسپتال اور پھر فوج کا اسپتال۔۔۔ کسی کو کچھ پتا نہ تھا کہ کیا حال ہے۔ تاہم پتا چلا کہ آپریشن کیا گیا اور دو گولیاں نکالی گئیں۔ ان کے جسم میں خون بھی داخل کیا گیا۔ ہم باہر منتظر تھے کہ پہلے شہیدِ ملت کا اردلی بے ہوش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد شیخ مسعود صادق بھی صدمے سے بے ہوش ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد آپریشن روم سے جو لوگ باہر نکلے ان کے چہرے پر کچھ اچھے تاثرات نہ تھے۔ تاہم، بتایا یہی گیا کہ وہ زندہ ہیں۔
میں اور جاوید ایک موٹر لے کر ٹیلی گراف آفس پہنچے۔ میں نے ’’آفاق‘‘ کے لیے کال بک کرائی اور جاوید نے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے لیے۔ دونوں کو کال مل بھی گئی مگر عین وقت پر مسٹر ضیاء الاسلام ڈی پی آر اور کمانڈر مقبول پہنچے اور ہمیں کال منسوخ کرادینے کے لیے کہا۔ میں اب اپنی خبر کے لیے عبارت تلاش کررہا تھا مگر بالکل سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھوں۔ ہم واپس اسپتال پہنچے تو دروازے پر فوج کا پہرہ لگ چکا تھا اور تمام اعلیٰ سرکاری حکام بھی باہر حیران پھر رہے تھے۔
یہاں سے ہم اے پی پی کے دفتر آئے۔ دوسرے لوگ بھی یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے حواس بدستور مختل تھے کہ اتنے میں اے پی پی کے چشتی صاحب نے کریڈ دیکھ کر کہا،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں باہر کی طرف چل پڑا اور صدر بازار آنکلا۔ ریڈیو پر تلاوت قرآن پاک ہورہی تھی اور ہر شخص گہرے رنج و غم کی تصویر بنا خاموش تھا، بازار بند تھے۔ ہڑتال ہوگئی تھی۔ ویسے دفعہ 144 کے نفاذ کا اعلان بھی ہوچکا تھا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شہید لیاقت علی خان نے خود راولپنڈی میں ایک عام جلسے سے خطاب کرنے کا ارادہ اور خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ یہ بات کہ ڈائس پر ان کی کرسی کے سوا کوئی کرسی نہ ہو، اور پانچ فٹ سے اونچا اسٹیج ہو اور اس کے اوپر کوئی شامیانہ نہ ہو اور اس طرح ہو کہ تمام حاضرین ان کے سامنے رہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی منشا اور خواہش کے مطابق کیا گیا تھا۔ ہوائی اڈے سے لے کر ’’برادرانِ ملت‘‘ کے آخری الفاظ کہنے تک ان کے چہرے پر شدید سنجیدگی، تھکن اور سب سے زیادہ تفکر اور گہرے تفکر کے آثار نمایاں تھے۔ سوائے اس لمحے کے جب انھوں نے ایئر پورٹ پر میرے سوالوں کا جواب دیا، ان کے چہرے پر کسی بھی وقت مسکراہٹ، بشاشت اور شگفتگی نہیں آئی۔ ٹھیک یہی سنجیدگی اور تفکر ان کے چہرے پر اُس وقت بھی نمایاں تھا جب وہ گولی کھا کر کلمہ شریف اور ’پاکستان کا خدا حافظ‘ کے آخری الفاظ کہہ کر بے ہوش ہوئے تھے۔ کراچی والوں نے شاید ان کا جنازہ پڑھتے وقت ان کے چہرے پر کوئی طمانیت دیکھی ہو۔

حصہ