ہمارے چہرے اور کھوپڑی کی ہڈیوں میں جوف (گڑھے) ہوتے ہیں۔ زور سے سانس لینے کی صورت میں ہوا ان میں کچھ گرم ہونے کے بعد پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے۔ ہماری ناک کے اندرونی حصے کی طرف ان گڑھوں پر بھی ایک جھلی یا استر چڑھا ہوتا ہے۔ یہ گڑھے ہمارے گال کی ہڈیوں، آنکھوں کے اوپر اور ناک میں بہت پیچھے واقع ہوتے ہیں۔
قدرت نے یہ جوف کیوں بنائے، اس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ ان کی وجہ سے کھوپڑی کا وزن کم رہتا ہے۔ زمانۂ قدیم کا انسان اس طرح زیادہ سبک رفتاری اور پھرتی کے ساتھ بھاگ سکتا تھا۔ تاہم یہ بات صحیح نہیں لگتی، کیونکہ اگر ان گڑھوں کو بھردیا جائے تو جسم کے وزن میں محض دو فیصد اضافہ ہوتا ہے۔
ایک خیال یہ ہے کہ ان گڑھوں میں ہماری آواز مرتعش ہوکر بڑی ہوجاتی ہے، لیکن یہ بات بھی یوں غلط لگتی ہے کہ بعض جانوروں کی آواز چھوٹے جوف کے باوجود انسان کی آواز سے بڑی ہوتی ہے۔ ان گڑھوں کی ضرورت کی وجہ چاہے کچھ ہو، ہر انسان کی کھوپڑی میں یہ موجود ہوتے ہیں اور ان میں نزلی رطوبات کے جمع ہوجانے سے لاکھوں انسان سخت اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تکلیف ناک کے جوفوں کا ورمِ جوفِ انفی(SINUSITIS)کہلاتی ہے۔
یہ ایک انتہائی تکلیف دہ درد ہوتا ہے جس سے اس کے مریض پناہ مانگتے ہیں۔ درد کی ٹیسیس آنکھوں تک پہنچتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آنکھ کے پیچھے کوئی سخت اور خشک چیز پوری قوت کے ساتھ ٹھونس رہا ہو۔
اس تکلیف میں فوری موسمی تبدیلیاں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے نزلہ زکام کی شکایت ہوتی ہے، اور پھر جب یہی نزلی رطوبت ان اسفنجی ہڈیوں میں جمع ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ورم کی کیفیت پیدا ہوکر ناک اور ان گڑھوں کی جھلی میں ورم ہوجاتا ہے، ناک بند ہوجاتی ہے اور گاڑھی رطوبت بہنے لگتی ہے جو حلق کے پچھلے حصے میں گرتی ہے۔ اس کی وجہ سے پورے سر میں سخت دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ سر میں درد کے ساتھ ساتھ ہلکا بخار بھی ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ ایک دو روز اس تکلیف کا شکار رہتے ہیں تو بعض 25-20 روز اس عذاب میں گرفتار رہتے ہیں۔ ان گڑھوں میں نزلی رطوبات کی موجودگی سے مقامی طور پر سخت قسم کی چھوت (انفیکشن) پیدا ہوجاتی ہے اور اس کا دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اَبرو، آنکھوں اور سر میں شدید درد کی تکلیف سے نجات کے لیے ایسی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جو بلغمی رطوبت کو پتلا کرکے انہیں بہاتی ہیں۔ مقامی طور پر اسے خارج کرنے کے لیے ناک میں ہلکے نمکین سیّال کے قطرے (نک پھوار) ڈالنا بھی ایک مفید تدبیر ہے۔ نیم کے پتّوں کے جوشاندے میں تھوڑا سا نمک ملاکر اس پانی کو ناک میں چڑھانے سے جھلّیوں کی سطح جراثیم سے پاک ہوکر ورم کم ہوجاتا ہے، رطوبت خارج ہوتی ہے اور درد اور دباؤ کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ ہسپتالوں میں ویکیوم کلینروں کے ذریعے بھی رطوبت کو کھینچ کر خارج کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض دوائیں ایسی بھی ہیں جن کے قطرے ناک میں ڈالنے سے جھلی کا ورم کم ہوجاتا ہے۔ ان دواؤں میں عموماً ایڈرینالین، ایفیڈرین اور ایفے ٹامین وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ تاہم ان کا مسلسل استعمال مناسب نہیں ہوتا،بلکہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے۔
اس تکلیف کی ایک اہم وجہ حساسیت یعنی ایلرجی بھی ہے۔ طبی اصطلاح میں یہ کیفیت ’فیور‘ کہلاتی ہے۔ اس میں بھی چھینکیں آتی ہیں اورناک بہنے لگتی ہے، سر میں درد، بوجھل پن اور ہلکا بخار ہوجاتا ہے، جس کے بعد ورم اور درد کی تکلیف کی صورت میں اصل توجہ ایلرجی دور کرنے پر دینی چاہیے۔ مقامی طور پر آرام پہنچانے کے علاوہ جسم کی قوتِ مدافعت کو تقویت پہنچانا بھی ضروری ہے تاکہ طبیعت مدبرہ قوی ہو۔ مریض کو گرد و غبار، دھویں اور تنگ و تاریک مقامات سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح گندے پانی میں تیرنے اور غوطہ لگانے سے بھی گریز کرنا ضروری ہے۔ ہوا میں موجود مضر ذرات اور پانی میں حل گندگی ناک کی جھلی میں ورم پیدا کرکے ان گڑھوں میں سوزش، ورم اور درد پیدا کردیتے ہیں اور پھر ان میں پیدا ہونے والے جراثیم کی وجہ سے تکلیف میں شدت آجاتی ہے۔
اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ نزلے زکام سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ صاف ہوا میں باقاعدگی سے ورزش کی جائے اور موسمی تغیرات کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش کی جائے۔ غذائی احتیاط بھی بے حد ضروری ہے۔ ایسی اشیاء کے استعمال سے گریز کیا جائے جن سے نزلے کو تحریک ملتی ہو۔ موسمِ سرما کے شروع اور موسم بہار کے آغاز میں احتیاط خاص طور پر ضروری ہوتی ہے۔
نزلے کے اکثر مریض ناک صاف کر تے وقت پورا زور لگاتے ہیں۔ چونکہ اندرونی حصہ متورم ہوتا ہے، اس لیے نزلی رطوبت آسانی سے خارج نہیں ہوتی۔ زور لگانے کی صورت میں یہی رطوبت ان جوفوں میں دباؤ کی وجہ سے اتر جاتی ہے اور پھر یہ وہاں چھوت اور تکلیف میں اضافہ کردیتی ہے۔ اس لیے ناک کے دونوں نتھنے کھلے رکھ کر ناک صاف کیجیے۔ ایک نتھنا بند کرکے صاف کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
فوری آرام کے لیے نیم گرم نمکین پانی سے ناک دھوئیے تاکہ رطوبت خارج ہوجائے۔ کھولتے پانی میں یوکلپٹس کا تیل، بام یا امرت دھارا شامل کرکے بھاپ میں سانس لیجیے۔ اس سے ورم دور ہوکر ناک کھل جائے گی اور درد میں کمی آجائے گی۔
ناک میں ڈالنے والی دواؤں سے بچیے، کیونکہ ان کے مسلسل استعمال سے ناک کی سطح یا استر پر موجود خردبینی رُواں ختم ہوجاتا ہے۔ یہ رُواں ہماری ناک پر جراثیم کے حملوں کو روکتا ہے۔ اس کے خاتمے سے گویا جسم کی مدافعت کرنے والے ایک اہم حصے کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اس روئیں کو بچانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تمباکو نوشی اور ناس وغیرہ کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
اس تکلیف کے مریض بستر پر لیٹنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ انہیں کم از کم دن میں زیادہ لیٹنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے سیدھے بیٹھ کر سامنے ذرا جھکے رہنا مناسب ہے۔ اس پوزیشن میں رہنے سے درد کی شدت کم رہتی ہے۔
گرم اور خشک ہوا سے بچنا چاہیے۔ اس کی بہترین صورت یہی ہے کہ بھاپ میں سانس لیں۔ دن میں دو تین مرتبہ یہ عمل ضروری ہے۔
انگوٹھے یا انگلیوں سے ابرو کی ہلکی ہلکی مالش اور ان پر دباؤ سے بھی تکلیف کم ہوجاتی ہے۔ کسی اچھے بام کی مالش سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔
غذا میں زود ہضم اشیاء استعمال کریں۔ مونگ یا مسور کی پتلی دال، گوشت کا شوربہ، چپاتی، دلیہ وغیرہ کھائیں۔ لہسن اور ہری مرچ کی چٹنی سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔
اس مرض میں قبض سے بچنا بھی ضروری ہے۔ بالعموم شوربے اور سیّال غذاؤں کے استعمال سے یہ دور ہوجاتا ہے۔ فائدہ نہ ہونے کی صورت میں کسی مناسب ملین دوا کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ مرض دور ہونے کے بعد بھی آنتوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس سے جسم کی قوتِ مدافعت مستحکم رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
س: سال بھر ہوگیا ہے، میں آسانی سے ناک کے ذریعے سانس نہیں لے سکتی۔ ناک ہر وقت نزلے کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ مخصوص غذائیں، ٹکیاں، کیپسول، نک پھوار اور ہلاس وغیرہ استعمال کرچکی ہوں، لیکن بے سود۔ (امیر بانو، ملتان)
ج:کیا آپ نے کبھی سرد پانی کو ناک میں سُڑکنے کا بھی تجربہ کیا ہے جیسا کہ وضو میں کرتے ہیں؟ اگر آپ اس کو معمول بنا لیں تو آپ دیکھیں گی کہ یہ رکاوٹ کو دور کرنے میں کس قدر مفید ہے۔ یہ قدرتی طور پر ناک کے بلغم کے اخراج کا محرک ہے۔
پانی کو ناک میں اوپر دور تک چڑھانا چاہیے (یہی مشورہ وضو میں بھی دیا جاتا ہے)، یہاں تک کہ ناک کے پیچھے جو جوف ہے اس کے آخر تک پہنچ جائے۔ چُلو میں پانی لے کر زور سے سُڑکیں۔ اس عمل سے اعصاب کے آخری سروں کو تحریک ہوتی ہے اور دماغ قوی ہوتا ہے۔ یہ عمل دن میں کئی بار کریں۔ تین سے پانچ، سات مرتبہ تک اس طرح پانی سُڑکیں۔ سرد پانی میں سکیڑنے کی بھی تاثیر ہوتی ہے۔ یہ عارضی طور پر اندرونی ناک کی جھلی کو سکیڑتا، رگوں کو نچوڑتا اور پھر صاف کرکے پھیلا دیتا ہے اور سانس کے راستے کو کشادہ کردیتا ہے۔ ناک کے جوف کو صاف اور کشادہ رکھنے اور رکاوٹ کو رفع کرنے کی بہترین تدبیر ہے۔ ناک کو اس طرح غسل دینے سے ناک نہ صرف صاف ہوتی ہے بلکہ آنکھوں سے آنسو بہنے سے آنکھ بھی دھل جاتی ہے اور اس میں چمک آجاتی ہے۔
س: میرے پیروں کے تلوے گرم رہتے ہیں اور ان سے خوب پسینہ رِستا ہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ (مہر النساء، بکھر)
ج:اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ناقص اخراجِ فضلات اس’’خود مسمومیت‘‘ کا ذمے دار ہے۔ ماہرین کے خیال میں اچھی صحت اس بات پر موقوف ہے کہ جسم کے ہر خلیے کو مناسب غذا ملتی رہے اور اس کے فضلات ہر وقت خارج ہو تے رہیں۔
اگر دھویں کے نکلنے کی نالیاں کوڑے کرکٹ سے اٹ جائیں تو بھٹی اچھی طرح اپنا فعل انجام نہیں دے سکے گی۔ تندرست انسان کے بہت سے فضلات پھیپھڑے، آنتوں اور گردوں سے خارج ہوتے ہیں۔ اگر فضلات کا اخراج ناقص ہو تو جسم کو فضلات کے اخراج کے لیے دوسرا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ پیروں سے پسینے کا بہاؤ تکلیف دہ فضلات کے اخراج کی متبادل کوشش ہے۔ نظام جسم میں فضلات کے رک جانے سے غنودگی سی طاری رہتی ہے اور طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے۔ فضلات کے اخراج کے لیے جگر کے فعل پر بھی نظر رکھنی چاہیے، یہ زہریلے مادوں کے اخراج کے لیے سب سے اہم عضو ہے۔
س: میں نے سنا ہے کہ انناس کھانے سے گوشت خوب ہضم ہوجاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ (امینہ بیگم، گجرات)
ج: تازہ انناس کے رس میں ایک جزو ہوتا ہے، جس کو بروملین کہتے ہیں۔ یہ جزو اپنے وزن سے ایک ہزار گنا وزن کے مواد لحمی (پروٹین)کو چند گھنٹوں میں ہضم کرسکتا ہے، خواہ یہ مواد انڈے سے تعلق رکھتا ہو یا گوشت سے۔ ایک اوسط حجم کے انناس میں تقریباً دو پوائنٹ رس ہوتا ہے۔ یہ مخصوص ہضم جزو پکانے سے زائل ہوجاتا ہے، لیکن ٹین میں بند پھلوں میں موجود ہوسکتا ہے، بشرطیکہ انہیں آتش کے ذریعے محفوظ نہ کیا گیا ہو۔
س: التہاب مثانہ میں کون سی غذا مناسب ہوگی؟ (بشریٰ انصاری، رائیونڈ)
ج: اس شکایت میں گوشت اور انڈے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ آپ کی غذا میں پھل اور ترکاریاں زیادہ ہونی چاہئیں اور پانی خوب پینا چاہیے۔ دودھ، آبِ جو، اور اگر ممکن ہو تو کھاری اور معدنی پانی استعمال میں رہنا چاہیے۔
س: میں نے سنا ہے کہ سالن میں گرم مسالہ جیسے کالی مرچ، بڑی الائچی، زیرہ، دارچینی اور رائی وغیرہ ڈالنے سے قبض نہیں رہتا۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟ (شیریں فاطمہ، اسلام آباد)
ج: یہ چیزیں قبض دور کرنے کے لیے بالکل مفید نہیں ہیں، البتہ ہاضم ضرور ہیں اور بھوک لگاتی ہیں۔ بڑی الائچی، زیرہ اور دارچینی تو قابض ہیں۔ ان کو مسلسل زیادہ مقدار میں اور طویل عرصے تک استعمال کرتے رہنے سے معدہ پر خراب اثر پڑتا ہے۔
س:کیا ربڑ کے تلے کا جوتا پہننا مضر ہے؟ میں نے سنا ہے کہ اس سے بینائی پر خراب اثر پڑتا ہے۔ (حماد راجپوت، گوجرانوالہ)
ج: اگر گرمی کے موسم میں ایسا جوتا پہننے سے پسینہ بہت آتا ہو تو اس کو ترک کردینا ہی اچھا ہے، لیکن ہمیں ابھی تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی ہے کہ اس سے بینائی پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
س: میرا مسئلہ یہ ہے کہ کھانے کے بعد مجھ پر اونگھ طاری ہوجاتی ہے، حالانکہ نہ میں پُرخور ہوں اور نہ کم خوابی کا مریض۔ آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟ (عمران بشارت، کراچی)
ج: بدن میں سوا گیلن یا ڈیڑھ گیلن خون ہوتا ہے۔ یہ مقدار سارے بدن کے ریشہ جات تک غذا پہنچانے کے لیے رواں دواں رہتی ہے۔ سانس کے ذریعے جتنی آکسیجن آپ حاصل کرتے ہیں اس کا 20 فیصد حصہ دماغ صرف کرلیتا ہے، حالانکہ اس کی جسامت سارے بدن کے مقابلے میں صرف 2 فیصد ہے۔
کھانے کے بعد آنتوں کے خون کے ذرات پھیل جاتے ہیں (DILATE) اور اسی وقت خون کی کلی مقدار میں بھی کمی ہوجاتی ہے، کیونکہ فوری طور پر سوا تا ڈیڑھگیلن ہضمی رس (DIGESTIVE JUICES) تیار ہوتے ہیں۔ یہ افعال
(باقی صفحہ 41پر)
دماغ کی طرف خون کی معمول کی مقدار میں کمی کردیتے ہیں، اور اس کمی کے باعث خمار (DROWSINESS) پیدا ہوتا ہے۔
اگر واقعی آپ پُرخور نہیں ہیں (کیونکہ بعد از غذا نیند کا بڑا سبب پُرخوری ہے) تو آپ کو کوئی اور سبب تلاش کرنا چاہیے۔ ہر حالت میں، بعد غذ 20-15 منٹ کی مختصر سیر نافع ہوسکتی ہے۔ اگر آپ مسلسل سگریٹ نوشی کے عادی ہیں تو ممکن ہے کہ آپ میں مرض نفاخ پیدا ہورہاہو۔ تمباکو کے دھویں میں کاربن مونوآکسائیڈ ہوتا ہے جو سرخ ذرات سے شدید کیمیائی تعلق رکھتا ہے (آکسیجن کی بہ نسبت 200گنا زیادہ)، اس فعل کے نتیجے میں آپ کی آکسیجن کی مقدار5 سے 15 فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔
س: میں اپنے شکم کی بدہیئت چربی سے کس طرح نجات حاصل کروں؟ میرا وزن صرف دس پاؤنڈ زیادہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام وزن میری توند میں ہے۔ (جاوید خان، کراچی)
ج: شکم کے اندر ایک چربیلا غلاف ہوتا ہے جسے ثُرب (OMENTUM)کہتے ہیں۔ یہاں پر چربی تیزی سے جمع ہوسکتی ہے، اور خوش قسمتی سے نہایت کم وقت میں یہ چربی پگھلائی بھی جاسکتی ہے۔ توند یا شکم کی بدہیتی کا باعث شکم کے ڈھیلے عضلات بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ غلط انداز قد بھی (POSTURE)، جس میں پیچھے کی طرف جھکے رہنے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے، توند جیسی شکمی حالت پیدا کردیتا ہے۔ اگر اندازِ قد درست ہو، تو شاید پیٹ اتنا نمایاں نظر نہ آئے۔
ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے اس اضافی دس پونڈ وزن سے نجات حاصل کریں، اور شاید یہ وزن غذائی وقفوں کے درمیان کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی عادت ترک کرنے ہی سے کم ہوجائے۔ اس کے ساتھ باقاعدہ ورزش کا پروگرام، سیر، ہلکی ورزش، خاص طور پر بیٹھکیں، شکم کے ڈھیلے عضلات کو لچک دار بنادیں گی، اور اس کے علاوہ آپ کے اندازِ قد کو درست کرنے اور وزن میں کمی کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔