تحریک انصاف نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے اور شہر بند کرنے کا اعلان کیاہے۔ حکومت نے اس اعلان کو لندن پلان تھری قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا ۔ اسلام آباد میں دھرنے کے لیے عمران خان اپنی اتحادی جماعتوں کو ایک نکتہ پر جمع کرنے اور اپنے اتحادی حلقے سے باہر کی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تین سال قبل جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے دھرنا دیا تھا اُس وقت بھی سوال اٹھائے گئے تھے کہ اس دھرنے کا مقصد کیا ہے؟ اِس بار بھی یہی سوال پھر سے اٹھائے جارہے ہیں کہ تحریک انصاف کیوں دھرنا سیاست کرنا چاہتی ہے؟ اور اس کا ہدف وزیراعظم نوازشریف ہیں یا جمہوریت؟ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے علاوہ ایک حلقہ ایسا بھی ہے جس کا تعلق سیاست سے نہیں، البتہ وہ اہم سیاسی معاملات اور حالات سے باخبر ضرور ہے۔ اس حلقے کا مؤقف ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت حالات نہایت حساس ہیں، نوازشریف حکومت اور فوج ان مسائل پر ہم آہنگ پر نہیں ہیں، عسکری حلقوں کا مؤقف ہے کہ بھارت کو سبق سکھانا بہت ضروری ہے اور ہمیں افغانستان میں بھی اپنے اہداف اور مفادات کا تحفظ لازمی کرنا چاہیے۔ لیکن حکومت کی سیاسی حکمت عملی پر تنقید کرنے والے حلقوں میں یہ رائے پائی جارہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بھارت کے خلاف کسی ’’ملٹری ایڈونچر ،،کے حامی نہیں اور افغانستان میں بھی مداخلت نہیں چاہتے۔ ان حلقوں کے مطابق یہ وہ متنازعہ مسائل جن پر حکومت اور عسکری حلقے ایک پیج پر نہیں ہیں۔ جب کہ دفاعی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث پریشان کن صورت حال میں گھرا ہوا ہے لہٰذا اُس پر وار کرنے کا یہ بہترین موقع ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اب اس ماحول میں نوازشریف حکومت کا محاصرہ کرنے کی حامی قوتیں سمجھتی ہیں کہ بھارت اور افغانستان کے معاملے پر نوازشریف حکومت چونکہ ناکام ثابت ہوئی، لہٰذا اسے اقتدار میں رہنے کا حق حاصل نہیں رہا۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکی سی آئی اے چاہتی ہے کہ بھارت اس خطہ میں اس قدر طاقت ور ملک بنادیا جائے کہ وہ پاکستان کے علاوہ چین اور اس خطہ میں بننے والے نئے اتحاد کا مقابلہ کرسکے، اور یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک سری نگر میں دہلی کے حق میں امن قائم نہیں ہوجاتا۔ جب کہ دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت پر کاری وار کرنے کا یہ بہترین موقع ہے، اسے سبق سکھانا لازمی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکی سی آئی اے یہ چاہتی ہے کہ پاکستان میں منتخب سیاسی حکومت کے مقابلے میں فوج طاقت ور نہ بنے، اور پاکستان افغانستان میں مداخلت نہ کرے اور بھارت کی ماتحتی و تابعداری قبول کرلے۔ دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو مصلحت چھوڑ کر جرأت مندی کے ساتھ آگے بڑھ کر ریاست پاکستان کے تزویراتی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔
اسلام آباد کی سیاست پر غالب آئے ہوئے اس ماحول کی تصویر سامنے رکھ کر حالات کا تجزیہ کیا جائے تو بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ سی آئی اے پاکستان میں لبرل سیاسی جماعتوں کی پشت پر ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جیسی لبرل سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان خاموش رہے، لیکن عسکری حلقے تزویراتی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اب 30 اکتوبر کو جس طرح اسلام آباد میں دھرنے کا میدان سجنے والا ہے، یہ وہ اسلام آباد میں بنے ہوئے ماحول سے الگ تھلگ نہیں ہے بلکہ اسی ماحول کی پیداوار ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف اس دھرنے کو احتساب سے منسوب کررہی ہے، اور حکومت کا جواب ہے کہ عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے تو تحریک انصاف کو عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ بہرحال تحریک انصاف کا یہ دھرنا اس بات کا بھی فیصلہ کردے گا کہ ملک کی سیاست کی لگام مستقبل میں کس کے ہاتھ میں رہے گی۔ اسی لیے عمران خان دھرنے سے قبل وسیع البنیاد سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطے کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم کے علاوہ پارلیمنٹ میں نوازشریف کی اتحادی جماعتیں دھرنے کی حمایت نہیں کررہی ہیں۔ پارلیمنٹ کی دیگر جماعتوں میں قاف لیگ ’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘ کے مصداق سیاسی حکمت عملی پر چل رہی ہے۔ ان رابطوں کے نتائج 30 اکتوبر کو دھرنے کے وقت سامنے آجائیں گے۔ عمران خان نے تو کہا ہے کہ 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا ہوگا اور وزیراعظم کے استعفے یا احتساب تک واپسی نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ تحریک انصاف مائنس ون فارمولے کو چھوڑدے اور وزیراعظم کے خلاف ریفرنس پر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا انتظار کرے، تحریک انصاف جمہوریت کے درخت کی اُس شاخ کو کاٹنے سے گریز کرے جس پر وہ خود بھی بیٹھی ہے۔
پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے تحریک انصاف دھرنا دینا چاہتی ہے، دھرنے کے معاملے میں فی الحال وہ تنہا ہے۔ اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا حصہ بننے سے انکارکردیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے پیپلزپارٹی کی قیادت پر سیاسی تنقید پر سخت ناراضی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کے ایک اہم رہنما نے پی ٹی آئی کی قیادت کو اپوزیشن کے پیغام سے آگاہ کردیا ہے کہ 30 اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ تحریک انصاف نے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا۔
حکومت کے سامنے اس سے ہٹ کر ایک بڑا محاذ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونے یا نہ ہونے کی شکل میں موجود ہے۔ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہونا ہے اس سے نوازشریف اور جنرل راحیل شریف ہی آگاہ ہیں۔ تیسرا نام کوئی نہیں جو اس حوالے سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرسکے۔ بہرحال یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خود ہی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے، لہٰذا نئے آرمی چیف کے نام کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے جس کا اعلان اگلے چند ہفتوں میں متوقع ہے۔ اگر کوئی انتہائی غیر معمولی واقعہ نہ ہوا تو جنرل راحیل شریف 29 نومبر کو اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود بھی اسی روز ریٹائر ہوں گے، دونوں عہدوں پر نئی تعیناتیاں ایک ساتھ ہی کی جائیں گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خطے کی موجودہ صورت حال، سرحدوں پر جاری کشیدگی اور جدوجہدِ آزادئ کشمیر کی حالیہ لہر کے تناظر میں موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کا 29 نومبر 2016ء کو اپنی معینہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد فرائض سے سبکدوش ہوجانا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں ایک سال کا اضافہ کرکے اسے 4 سال کیے جانے کا امکان ہے۔ سیاسی حلقے درپردہ اس حساس موضوع پر بات چیت اور پیغام رسانی کے باوجود کوئی رائے نہیں دے رہے۔ ایک اندازہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کا امکان ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حامی ہیں۔
اسلام آباد میں ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی، جس میں دونوں جماعتوں میں سیاسی تعاون کے علاوہ تحریک انصاف کو تنہا کرنے پر بھی اتفاق ہوا، اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جے یو آئی حکومت کے ساتھ مل کر پانامہ لیکس کی تحقیقات سے متعلق قانون سازی کے معاملے کے حل کے لیے کوئی قابل عمل راستہ نکالے گی۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ پانامہ لیکس عالمی منصوبہ سازوں کا کھیل ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس ملاقات سے دونوں جماعتوں میں کچھ قربت بڑھی ہے اور مولانا فضل الرحمن اب بلاول بھٹو زرداری سے ملنے زرداری ہاؤس جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو کو مشورہ دیا کہ وہ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے پارٹی کے سینئر اور تجربہ کار رہنماؤں سے ضرور مشورہ کیا کریں کیونکہ نوازشریف کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی تحریک انصاف نے ہدف بنالیا ہے۔ بلاول بھٹو نے یہاں میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ انکل الطاف حسین ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ ان کے اس بیان کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ فرائیڈے اسپیشل نے جب اس حوالے سے پارٹی کے سینئر رہنما سے ان کی رائے معلوم کی تو ان کا جواب تھا کہ ’’متحدہ کے کچھ کارکن فاروق ستار کے ساتھ ہیں اور کچھ مصطفی کمال کے ساتھ ہیں، پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ ان دونوں سے نالاں متحدہ کے کارکنوں کو اپنے پلیٹ فارم پر لے آئے، لہٰذا بلاول بھٹو کا انکل الطاف کے بارے میں ان جذبات کا اظہار اسی مقصد کے لیے تھا‘‘۔
سرحدوں پر کشیدگی کے باعث اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا گیا اور ایک قرارداد منظور کی گئی، لیکن سینیٹ نے پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر مؤثر پالیسی کی تیاری کے لیے 22 نکاتی رہنما اصول مرتب کیے ہیں اور سفارش کی ہے کہ قابلِ عمل اور پائیدار پالیسی مرتب کرنے کے لیے ٹاسک فورس بنائی جائے جس میں دفاع، خارجہ امور، وزارتِ اطلاعات اور پارلیمنٹ کے نمائندے شامل کیے جائیں، اور کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھی مؤثر استعمال کیا جائے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت اور بھارتی جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری کے معاملے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جانا چاہیے، حکومت عالمی سطح پر لابیسٹ فرموں کی خدمات حاصل کرے جو کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو واضح کریں۔ یہ بھی پُرزور سفارش کی گئی ہے کہ بھارت میں اندرونی خلفشار اور آزادی کی تحریکوں کو بھی اجاگر کیا جائے، اس حوالے سے نریندرمودی اور آر ایس ایس کے عزائم بھی واضح کیے جائیں۔ حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے رہنمائی حاصل کرے اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی تشکیلِ نو کرے، حکومت کو سندھ طاس معاہدے پر سخت مؤقف اختیار کرنا چاہیے اور بھارت کو بتانا چاہیے کہ وہ ازخود بین الاقوامی معاہدوں کو ختم نہیں کرسکتا۔
nn