واز لیگ کی موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس سے قبل انتخابی مہم میں اُس نے جو نعرے لگائے اُن میں زرداری حکومت کی کرپشن، مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسائل سرفہرست تھے۔ شریف برادران نے اپنی تقریروں میں ان مسائل کو خوب اچھالا، شہبازشریف زرداری کے گلے میں کپڑا ڈال کر گلیوں میں گھسیٹنے اور کرپشن کا مال زرداری کا پیٹ پھاڑ کر برآمد کرنے کے اعلانات عوامی جلسوں میں کرتے رہے، مہنگائی کو کم کرنے اور ضروریاتِ زندگی عوام کی پہنچ میں لانے کا وعدہ بھی کیا گیا اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے متعلق بھی دعویٰ کیا گیا کہ اگر تین ماہ میں ختم نہ کی جاسکے تو شہبازشریف کا نام بدل دیا جائے۔ تین ماہ کے بجائے تین سال سے زائد بیت چکے مگر لوڈشیڈنگ ختم ہوئی ہے اور نہ خادم اعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے تبدیل شدہ نام کا تاحال عوام کو علم ہوسکا ہے۔ آصف زرداری کے گلے میں کپڑا ڈال کر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹ مار کا مال برآمد کرنے کی نوبت اس لیے نہیں آسکی کہ بڑے بھائی وزیراعظم نوازشریف نے جاتی امراء میں انہیں مدعو کرکے درجنوں کھانوں سے ان کی ضیافت فرمائی اور زرداری نواز بھائی بھائی کا نعرہ لگا دیا، اور بے چارے چھوٹے بھائی کو زرداری صاحب سے باقاعدہ معذرت کرنے پر مجبور کردیا۔۔۔ بے چارے شہبازشریف۔ شاید اسی صورت حال کے پیش نظر بزرگ فرما گئے ہیں کہ ’’خرباش، برادر خورد مباش‘‘ یعنی گدھا بننا قبول کرلو چھوٹا بھائی نہ بنو۔۔۔ اسی دوران ’’پانامہ لیکس‘‘ کی صورت میں منظرعام پر آنے والی نوازشریف خاندان کی کرپشن کی داستانوں نے یہ ثابت کردیا کہ برائی برائی ہوتی ہے، چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی، اور ’’زرداری نواز بھائی بھائی‘‘ محض نعرہ نہیں بلکہ عملاً بھی دونوں ایک ہیں۔
رہ گئی بات مہنگائی کی، تو اس کے بارے میں بھی ہمارے حکمرانوں کا مسلسل یہ نعرہ ہے کہ ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ یعنی قیمتیں بڑھاؤ کہ چیزیں ابھی خاصی سستی ہیں۔ چنانچہ میاں نوازشریف نے اقتدار سنبھالتے ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس کے نرخ دوتین روپے فی یونٹ سے بڑھا کر بارہ، چودہ روپے فی یونٹ کردیئے مگر لوڈشیڈنگ پھر بھی ختم نہ ہوسکی البتہ بجلی کے بل جہاں پہلے سینکڑوں میں آتے تھے وہاں ہزاروں، اور جہاں ہزاروں میں آتے تھے وہاں لاکھوں روپے ماہانہ فی گھرانہ وصول ہونے لگے۔
پیٹرولیم مصنوعات جب تک عالمی منڈی میں مہنگی تھیں تو ان پر دو تین گنا ٹیکس لگاکر عوام کو کئی گنا مہنگی فراہم کی جاتی رہیں، مگر پھر یہ ہوا کہ تیل کی عالمی سطح پر قیمتیں بہت زیادہ گرگئیں مگر پاکستان میں جب تک عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کا اثر باقی رہا تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کسی حد تک عوام کو منتقل ہوتا رہا، مگر جب سے حکومت نے خود کو اس دباؤ سے آزاد محسوس کرنا شروع کیا ہے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کے بجائے وفاقی حکومت نے اضافی ٹیکس لگاکر اپنے خزانے میں منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔
مہنگائی میں اضافے کی حکومتی کوششوں کے ضمن میں تازہ اقدام یہ سامنے آیا ہے کہ وفاقی حکومت کی وزارتِ پیٹرویم کے ذیلی ادارے تیل و گیس کی ریگولیٹری اتھارٹی ’’اوگرا‘‘ نے گیس کی قیمت میں 36 فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعدگیس کمپنیاں صارفین سے رواں مالی سال کے دوران 341 ارب روپے زائد وصول کریں گی۔ ذرائع ابلاغ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اوگرا نے رواں مالی سال کے لیے سوئی ناردرن کے لیے گیس 57.89 روپے ایم ایم پی ٹی یو مہنگی، جب کہ سوئی سدرن کے لیے گیس 65.12 روپے ایم ایم بی ٹی یو سستی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اوگرا نے سوئی ناردرن کی آپریٹنگ انکم 201 ارب روپے، جب کہ آپریٹنگ اخراجات 161 ارب روپے منظور کیے ہیں، اور سوئی ناردرن کا آپریٹنگ منافع 39.5 ارب روپے منظور کیا گیا ہے۔ سوئی ناردرن کو رواں مالی سال کے دوران 225 ارب روپے ریونیو درکار ہوگا۔ اوگرا نے سوئی سدرن کی آپریٹنگ انکم 175 ارب روپے، جب کہ آپریٹنگ اخراجات 140 ارب روپے منظور کیے ہیں اور سوئی سدرن کا آپریٹنگ منافع 35.4 ارب روپے منظور کیا گیا۔ سوئی سدرن کو رواں مالی سال کے دوران 150 ارب روپے ریونیو درکار ہو گا۔ وزیراعظم کی جانب سے نئی گیس اسکیموں پر عائد پابندی میں نرمی کے باعث اوگرا نے سوئی ناردرن کو ارکان پارلیمنٹ کی 5500 کلومیٹر کی مختلف گیس اسکیموں کے لیے 9 ارب روپے صارفین سے وصول کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ اوگرا نے سوئی ناردرن گیس کی قیمت 422.74 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 480.63 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کردی ہے، جب کہ سوئی سدرن کی قیمت 419.36 روپے سے کم کرکے 354.24 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کردی ہے، تاہم وفاقی حکومت کے فارمولے کے مطابق سوئی ناردرن کے گیس نرخوں کو ملک بھر کے صارفین پر لاگو کیا جائے گا، جس کے باعث سوئی سدرن کے صارفین کو بھی گیس کی قیمت میں اضافہ برداشت کرنا پڑے گا، جب کہ سوئی سدرن کو اوگرا کی جانب سے ٹیرف سے زیادہ وصولی گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کی مد میں وفاقی حکومت کو جمع کروانا ہو گی۔ دستاویز کے مطابق اوگرا نے سوئی ناردرن کی گیس چوری کی 10 فیصد شرح صارفین سے وصول کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے شرح 5.4 فیصد کی سطح پر برقرار رکھی ہے، جب کہ اوگرا نے گیس چوری پر قابو پانے میں ناکامی پر سوئی ناردرن پر 13.8 ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ اوگرا نے سوئی ناردرن اور سدرن کے گیس ٹیرف کا فیصلہ اوگرا آرڈیننس کی روشنی میں وزارت پیٹرولیم کو ارسال کردیا ہے۔ اوگرا نے وفاقی حکومت سے تجویز طلب کی ہے کہ گھریلو اور دیگر صارفین پر گیس کے نرخوں میں اضافے کی شرح کس حد تک منتقل کی جائے۔ کیا حکومت کسی شعبے کو بلاواسطہ یا بالواسطہ سبسڈی دینا چاہتی ہے؟ اوگرا نے وزارتِ پیٹرولیم کو 15 نومبر تک تجویز فراہم کرنے کا کہا ہے تاکہ نوٹیفکیشن جاری کیا جا سکے۔ اگر وزارتِ پیٹرولیم نے 15 نومبر تک کوئی ہدایت نہ دی تو اوگرا اپنے آرڈیننس کے مطابق ازخود نئی اوسط قیمت کو تمام شعبوں پر یکساں طور پر نافذ کردے گا۔
حکمرانوں کی تقاریر سنیں، اخبارات میں شائع ہونے اور ٹیلی ویژن چینلوں پر چلنے والے بڑے اشتہارات دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کا درد کوٹ کوٹ کر ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے اور وہ ان کے مسائل کے حل اور دکھوں کے مداوا کے لیے اپنے آرام کی پروا کیے بغیر شب و روز ان تھک محنت میں مصروف ہیں، مگر عملی اقدامات کا مشاہدہ ان کے اِن دعووں کی مکمل نفی کرتا ہے اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافے کے لیے اقدامات میں مصروف ہے اور بلند بانگ دعووں کے برعکس غریب عوام سے جینے کا حق اور ان کے منہ کا نوالہ تک چھینا جارہا ہے۔ اب جب کہ سردیوں کے موسم کی آمد آمد ہے اور لوگوں کو گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، کارخانوں کے لیے گیس اور سی این جی وغیرہ کی قلت تو ایک طرف، عام آدمی کو گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں ہوگی اور وہ مہنگے گیس سلنڈر کے استعمال یا لکڑی جلانے پر مجبور ہوں گے، مگر حکومت نے ان کی اس مشکل کے حل کے لیے ٹھوس عملی اقدام کرنے کے بجائے گیس کی قیمتوں میں بیک جنبش قلم 36 فیصد اضافے کا ظالمانہ فیصلہ سنا دیا ہے، جسے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔
گیس کی قیمتوں میں اضافے کا جو اعلامیہ ’’اوگرا‘‘ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے وہ بھی خاصا دلچسپ اور الفاظ کا گورکھ دھندا ہے، جس کی رو سے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ چت بھی حکومت کی رہے اور پٹ بھی اس کی ہو۔۔۔ فائدہ ہر صورت میں حکومت کا ہو اور بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے۔
اعلامیہ کے مطابق سوئی ناردرن کے لیے گیس کی قیمت میں 57.89 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کیا گیا ہے جب کہ اگلی ہی سطر میں یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت میں 65.12 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی کمی کردی گئی ہے مگر ساتھ ہی یہ نادر شاہی حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ کمی کے باوجود سوئی سدرن کے صارفین کو بھی گیس کی قیمت سوئی ناردرن کے صارفین کے برابر ہی ادا کرنا ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر گیس کی قیمت میں کمی کا کیا فائدہ ہوا؟ جواب یہ ہے کہ جس طرح پیٹرول عالمی منڈی سے نہایت سستا ملنے کے باوجود حکومت بھاری ٹیکس عائد کرکے عوام کو مہنگا فروخت کررہی ہے اسی طرح گیس کی قیمت میں کمی سے حاصل ہونے والی رقم وفاقی حکومت ’’گیس ڈویلپمنٹ سرچارج‘‘ کی صورت میں اپنے خزانے میں منتقل کرلے گی۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کی اس سے بہتر مثال کہیں اور مل سکتی ہے۔۔۔؟
اس طرح اعلامیہ میں مزید نوید یہ سنائی گئی ہے کہ سوئی ناردرن نے گیس چوری کی مد میں عوام سے دس فیصد اور سوئی سدرن نے سات فیصد اضافی وصول کرنے کی اجازت مانگی تھی، ’’اوگرا‘‘ نے یہ درخواستیں مسترد کردی ہیں اور گیس چوری روکنے میں ناکامی کے جرم میں سوئی ناردرن کو 13.8 ارب روپے، جب کہ سوئی سدرن کو سات ارب روپے جرمانہ کیا گیا ہے، مگر اگلی ہی سطر میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اگرچہ دونوں گیس کمپنیوں کو دس اور سات فیصد اضافی، گیس چوری کی مد میں وصولی کی درخواستیں تو مسترد کردی گئی ہیں مگر اس کے باوجود وہ اس مد میں عوام سے 5.4 فیصد اضافی وصول کرنے کی مجاز ہوں گی۔
یعنی حکومت نے کمپنیوں سے تو 2018 ارب روپے جرمانہ وصول کرلیا مگر انہیں یہ رقم عوام سے جبراً وصول کرکے اپنے جرم کی سزا صارفین کو دینے کا اختیار بھی دے دیا۔ آخر ایسا کیوں کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔۔۔؟
’’اوگرا‘‘ نے ایک اور مد میں بھی نو ارب روپے اپنے صارفین کی جیبوں سے نکالنے کا سوئی ناردرن کو حکم دیا ہے، اور وہ مد ہے ارکان اسمبلی کی اسکیمیں۔ اب تک سوئی گیس کی توسیعی اسکیموں پر پابندی تھی مگر اب چونکہ 2018ء کے انتخابات قریب آگئے ہیں اس لیے جناب وزیراعظم نے اپنے ارکان اسمبلی کے لیے اس پابندی میں نرمی کردی ہے اور ارکان پارلیمنٹ کے لیے 5500 کلومیٹر کی مختلف گیس اسکیموں کی منظوری دی ہے تاکہ ان اسکیموں کے سہارے آئندہ عام انتخابات میں حکمران نواز لیگ کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ دیکھا آپ نے، حکومت اپنی کامیابی کے لیے کس قدر دوربینی کا مظاہرہ کررہی ہے اور کس ہوشیاری سے اس کی قیمت بھی عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔۔۔! کیا یہ صریحاً ظلم نہیں؟ مگر حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
nn