محمد عمر احمد خان

280

13131ورب کے اُس پار ایک سرسبز گھنا جنگل تھا۔ اس جنگل میں ایک ہرن اپنی بیوی اور دو پیارے پیارے بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ جنگل کے تمام جانور مل جل کر پیارو محبت سے رہتے تھے، سوائے ایک جانور کے، اور وہ تھا بڑے بڑے بالوں والا بھیڑیا۔ وہ کسی جانور کو اکیلے دیکھ لیتا تو اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتا۔ جنگل کے جانور اس سے ڈرتے اور بچ کر رہتے۔
ہرن کے بچے گھر کے سامنے کھیلتے تھے، جب وہ جنگل میں جاکر کھیلنے کی ضد کرتے تو ہرن کہتا: بچو، ابھی تم بہت چھوٹے ہو، اور جو چھوٹے اور کم زور ہوتے ہیں، انہیں بھیڑیا کھا جاتا ہے۔ یہ بات سن کر دونوں بچے سہم جاتے۔
ہرن کے ایک بچے کا نام اِنکی اور دوسرے کا نام پِنکی تھا۔ دونوں بھائی اپنے گھر کے سامنے مختلف کھیل کھیلتے۔
ایک دن ہرن کے دونوں بچے گھر کے باہر کھیل رہے تھے کہ ایک سفید رنگ کا جانور ان کے قریب آیا اور بولا:
میں ٹونی خرگوش کا بیٹا مونی ہوں، کیا تم میرے ساتھ دوستی کرو گے؟
یہ سن کر اِنکی اور پنکی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنے امی ابو سے دوستی کی اجازت چاہی۔ اِنکی پنکی کے ابو ٹونی انکل کے بہت اچھے دوست تھے۔ چناں چہ اجازت مل گئی اور اس کے ساتھ ہی اِنکی پنکی کو ایک اچھا دوست بھی مل گیا۔ اب مونی اُن کے ساتھ خوب کھیلتا کودتا۔
ایک صبح جب سنہری دھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، مونی نے اِنکی اور پنکی کو اپنے نئے دوست شانو (عقاب) سے ملوایا۔ ہرن کے بچے بڑی دلچسپی کے ساتھ اس خوبصورت اور بارعب پرندے کو دیکھ رہے تھے۔ شانو انہیں بتارہا تھا کہ جنگل میں اونچے اونچے درخت ہیں، جن کی شاخوں پر قسم قسم کے پرندے چہچہاتے اور موٹے موٹے بندر کودتے پھاندتے رہتے ہیں۔ وہاں قسم قسم کے رنگ برنگے پھول بھی کھلتے ہیں، جن پر دل کش رنگوں والی خوب صورت تتلیاں منڈلاتی ہیں۔ جنگل کے بیچوں بیچ ندی بہتی ہے، جس میں ہنس تیرتے ہیں۔ تم اگر انہیں دیکھو تو حیران رہ جاؤ گے۔ وہ اتنے سفید ہوتے ہیں جیسے دودھ ہوتا ہے۔ پھر شانو نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور اڑگیا۔
شانو کے جانے کے بعد تینوں دوستوں کے دلوں میں جنگل دیکھنے کی آرزو مچلنے لگی۔ ایک دن اِنکی پنکی اور ٹونی کے امی ابو بھالو کی شادی میں چلے گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے تینوں کو سمجھایا کہ جب تک ہم لوگ واپس نہ آجائیں، تم گھر سے باہر نہ نکلنا اور جنگل کی طرف تو بالکل نہ جانا۔ ہم شام تک واپس آجائیں گے۔
تینوں نے اس بات کا وعدہ کرلیا، لیکن اپنے امی ابو کے روانہ ہوتے ہی جنگل کی سیر کو نکل گئے۔ جنگل میں انہوں نے بڑے دل چسپ اور دل کش مناظر دیکھے۔ وہاں قسم قسم کے چھوٹے بڑے پیڑ اُگے ہوئے تھے۔ رنگ برنگے پھول کھلے تھے، جن پر خوب صورت رنگوں والی تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ انہوں نے درختوں پر شریر بندروں کو اچھلتے کودتے اور قسم قسم کے پرندوں کو چہچہاتے دیکھا۔ ان کی سریلی آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ جنگل کے بیچوں بیچ ایک ندی بہہ رہی تھی، جو جنگل میں دور تک چلی گئی تھی۔ اس ندی میں رنگ برنگی پیاری پیاری مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ تینوں دوست جنگل میں گھومنے پھرنے لگے اور انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا، یہاں تک کہ شام ہوگئی اور اندھیرے کا غلاف جنگل پر چھا گیا اور اندھیرے کی وجہ سے وہ راستہ بھول گئے۔ اب وہ ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگے۔ ان کے رونے کی آواز جگنوؤں کے سردار نے سنی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت اڑان بھری اور ان کے پاس آکر رونے کی وجہ پوچھی۔ جب اسے پتا چلا کہ تینوں اندھیرے کی وجہ سے راستہ بھٹک گئے ہیں، تو اس نے کہا ’’ہمارے پیچھے آؤ، ہم تمہیں راستہ بتائیں گے‘‘۔ تمام جگنوؤں کے پروں سے روشنی خارج ہورہی تھی، جس سے خوب اُجالا ہورہا تھا۔ اس روشنی میں تینوں نے گھر کا راستہ تلاش کرلیا۔
جب وہ اپنے گھر پہنچے تو ان کے والدین ان کی گمشدگی پر سخت پریشان تھے۔ انہیں آتا دیکھ کر ان کی پریشانی دور ہوگئی، لیکن وہ تینوں سے سخت خفا تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کہاں چلے گئے تھے؟ تینوں اپنے والدین سے نظریں نہیں ملا پارہے تھے۔ با لآخر، تینوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ وہ جنگل دیکھنے چلے گئے تھے۔ ان کے والدین نے جگنوؤں کے سردار کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور ان کے سامنے تینوں سے یہ وعدہ لیا کہ وہ آئندہ کبھی بڑوں کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ تینوں نے سچے دل کے ساتھ اس بات کا وعدہ کیا اور تمام زندگی اپنے وعدے پر قائم رہے ۔۔۔!!
nn

حصہ