حامد ریاض ڈوگر

220

13135مہوری حکومتوں پر عام طور پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ زبان سے تو جمہوریت اور عوام کی گردان پورے زور شور سے کرتی ہیں مگر ان کا عملی کردار ان کے جمہوریت سے محبت کے زبانی دعوؤں کی نفی کرتا ہے جس کی دو واضح مثالیں سب کے سامنے ہیں کہ جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں میں سے کسی میں اندرونی جمہوریت نام کو بھی موجود نہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت میں کسی بھی سطح پر پارٹی انتخابات کی کوئی روایت موجود نہیں ایک صرف جماعت اسلامی کو اس ضمن میں استثنیٰ حاصل ہے جس کے قیام کے اوّل روز سے آج تک باقاعدگی سے تنظیمی جماعتی عہدوں یا ذمہ داریوں پر باقاعدگی سے انتخابات کروائے جا رہے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی حالات اور موسمی تغیرات خواہ کیسے بھی ہوں جماعت اسلامی کے اندرونی انتخابات کے تسلسل میں تعطل نہیں آتا جب کہ دوسری جانب حالات خواہ کیسے بھی ساز گار ہوں جماعت کے سوا کسی سیاسی جماعت خواہ وہ دینی پس منظر رکھتی ہو یا سیکولر، وہ ایوان اقتدار میں براجمان ہو یا حزب اختلاف سے وابستہ ہو، کسی جماعت نے کبھی اپنے اندرونی انتخابات نہیں کروائے۔۔۔ تحریک انصاف نے چند سال پیشتر بہت بلند عزائم کے ساتھ پارٹی کے اندرونی انتخابات کا ڈول ڈالا تھا مگر جلد ہی اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا اور اب اس کا گزارا بھی دیگر تمام جماعتوں کی طرح نامزدگیوں پر چل رہا ہے۔۔۔!!!
دوسری مثال بلدیاتی اداروں کی ہے‘ جنہیں جمہوریت کی نرسری اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن اس ضمن میں بھی ہماری سیاسی حکومتوں کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا اور وطن عزیز کی تاریخی حوالوں کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے گریز کی راہ اپنائی ہے۔۔۔ زیادہ دور اور ماضی بعید کی تاریخ کو کھنگالنے سے بچتے ہوئے اگر حالیہ برسوں کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا مؤثر نظام آمر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے دنوں میں قائم کیا گیا اس دور میں دو بار بلدیاتی انتخابات کرائے گئے جس میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کو ’’ناظم‘‘ کا نام دیا گیا جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بلدیاتی اداروں کے دوسرے انتخابات 2005ء میں کروائے گئے اور مقامی سطح پر انہیں خاصے اختیارات دے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرح مقامی حکومت کا درجہ دیا گیا جس سے اکثر صوبائی محکموں کے مقامی سربراہوں کو ان ناظمین کے سامنے جوابدہ بنایا گیا۔ نچلی سطح کے مسائل حل کرنے میں اس نظام سے خاصی مدد ملی مگر 2008ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں ملک میں سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے قیام اور پرویز مشرف کی اقتدار کی رخصتی کے فوری بعد نئی سیاسی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کے اس نظام کو بھی چلتا کیا اور تمام بلدیاتی ادارے توڑ دیے گئے یہ اقدام کرتے وقت اگرچہ اعلانات کیے گئے تھے کہ نئے بلدیاتی انتخابات بہت جلد کرائے جائیں گے مگر سیاسی حکومتوں نے اپنے پانچ سال 2013ء میں مکمل کر لیے لیکن بلدیاتی انتخابات کی نوبت نہ آسکی پھر مئی 2013ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میں تو نئی حکومتیں قائم ہو گئیں مگر مقامی حکومتیں پھر بھی نہ بن سکیں اس دوران عدالت عظمیٰ کی جانب سے بار بار سخت احکام جاری کیے جاتے رہے‘ مگر صوبائی حکومتیں مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کو ٹالتی چلی آئیں۔ آخر جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے سخت ترین فیصلہ سناتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے لیے حتمی ڈیڈ لائن کا اعلان کر دیا تو مرتا کیا نہ کرتا۔۔۔ مجبوراً تین مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے گئے مگر ’’خوئے بد را بہانۂ بسیار‘‘ مجبوری کے عالم میں ان بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اکتوبر 2015 میں مکمل ہوا تھا جب کہ آخری مرحلہ 5 دسمبر 2015ء کو تکمیل کو پہنچا مگر چونکہ حکمران دل سے مقامی حکومتوں کو تسلیم کرنے اور اختیارات دینے پر تیار نہیں تھے‘ اس لیے انتخابات کو ایک سال مکمل ہو جانے کے بعد آج تک یہ ادارے ہنوز تشنۂ تکمیل ہیں اور ایک سال میں پنجاب میں ان کی خواتین، نوجوانوں اور محنت کشوں وغیرہ کے لیے مخصوص نشستوں پر انتخابات نہیں کرائے گئے حالانکہ پنجاب کے اضلاع کی غالب اکثریت میں حکمران نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے ہی منتخب ہوئے تھے جو گزشتہ ایک سال سے ووٹ دینے والے لوگوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں مقامی سطح پر کوئی اختیار آج تک تفویض نہیں کیا گیا۔۔۔!!!
اب ایک بار پھر عدالت کے حکم اور لوگوں کے دباؤ پر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی ادارروں کی مخصوص نشستوں پر انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق بلدیات کی مخصوص بلدیات کی مخصوص سیٹوں پر انتخابات 8 سے 12 نومبر تک ہوں گے۔ کاغذات نامزدگی 14 اور 15 اکتوبر کو جمع کروائے جا سکیں گے، کاغذات کی جانچ پڑتال 17 اور 18 اکتوبر کو ہوگی۔ ریٹرننگ افسروں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں 20 اکتوبر تک دائر کی جا سکیں گی جن پر فیصلے 22 اکتوبر کو ہوں گے۔ امیدواروں کی حتمی فہرست 25 اکتوبر کو جاری کی جائے گی۔ ضلع کونسلز، میٹرو پولٹین کارپوریشنز اور میونسپل کارپوریشنز کی مخصوص سیٹوں پر پولنگ 8 نومبر کو ہوگی۔ میونسپل کمیٹیوں کو مخصوص نشستوں پر پولنگ 10 نومبر اور یونین کونسلز کی سیٹوں پر 12 نومبر کو ہو گی۔ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے امیدواروں کی کامیابی کے غیر حتمی نتائج کا اعلان 14 نومبر کو کردیا جائے گا۔ اس طرح بلدیاتی سسٹم کا ایک اور مرحلہ مکمل ہو جائے گا جس کے بعد ان انتخابات کا آخری اور اہم ترین مرحلہ باقی رہ جائے گا جس کے شیڈول کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس کے لیے بلدیاتی نمائندوں کو مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔!!!
مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کے قیام اور فعال ہونے میں مانع اوامر کا جائزہ لیا جائے تو سوائے پنجاب کے تقریباً پورے ملک میں یہ ادارے مکمل اور فعال ہو چکے ہیں، پنجاب میں ان اداروں کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز رکھنے کی خواہش ہے۔ کہنے کو تو وہ صوبے کے ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں اور اپنے لیے وزیر اعلیٰ کے بجائے ’’خادم اعلیٰ‘‘ کا لقب ہی اخبارات میں شائع اور چینلز میں چلنے والے بڑے بڑے اور طویل اشتہارات میں بڑے فخر سے درج کرواتے ہیں‘ ان کی اکثر تقاریر اور گفتگو کا محور بھی یہی ہوتا ہے کہ عوام کی خدمت ان کی زندگی کا مشن ہے مگر اس مشن کی تکمیل کا راستہ انہوں نے یہ اپنایا ہے کہ صوبے کے تمام مالیاتی و انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں جمع کر لیے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر نہ صوبے میں کسی چپڑاسی تک کا تبادلہ ممکن ہے اور نہ ہی کوئی ایک پائی بھی ان کی اجازت کے بغیر کسی منصوبے پر خرچ کی جاسکتی ہے خواہ وہ منصوبہ کتنا ہی عوامی اور فلاحی کیوں نہ ہو۔۔۔ اختیارات کے شہباز شریف کی ذات میں ارتکاز کا عالم یہ ہے کہ شاید انہیں خود بھی یاد نہ ہو کہ اپنی ہی بنائی ہوئی صوبائی کابینہ کا آخری اجلاس انہوں کب بلایا تھا‘ اس کی ضرورت ہی انہیں کبھی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ تمام فیصلے خود کرنے کے عادی ہیں اور کابینہ کے ارکان تک سے کسی قسم کی مشاورت کی ضرورت وہ قطعی طور پر محسوس نہیں کرتے۔۔۔!!!
بلدیاتی اداروں کی تکمیل میں دوسری اور تیسری رکاوٹ کا تعلق بھی بڑی حد تک حکمرانوں کے ارتکاز اختیارات کے طرز عمل ہی سے ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ ایک سال قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کم و بیش تمام اضلاع میں مسلم لیگی امیدوار ہی بھاری اکثریت سے جیتے تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ پارٹی کے ’’شیر‘‘ کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوئے یا کسی اور نشان پر‘ مگر تھے وہ مسلم لیگی ہی۔۔۔ اس کی ایک نمایاں مثال فیصل آباد کی ہے جہاں حکمران لیگ کے دو اہم وزراء بلدیاتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مد مقابل تھے‘ ان دونوں کے گروپوں میں سے کسی نے بھی ’’شیر‘‘ کے نشان پر انتخاب میں حصہ نہیں لیا بلکہ آزادانہ حیثیت میں اپنے اپنے گروپ کے نشان پر میدان میں اترے۔۔۔ ان میں سے ایک گروپ کی قیادت شریف خاندان کے قریبی عزیز چودھری شیر علی اور ان کے فرزندِ ارجمند عابد شیر علی، جو وفاقی کابینہ میں پانی و بجلی کے وزیر مملکت ہیں، کر رہے تھے جب کہ ان کے مدمقابل گروپ کے صوبائی وزیر اعلیٰ کی ناک کا بال رانا ثنا اللہ صوبائی وزیر قانون کر رہے تھے۔ یہ دونوں گروپ محض ایک دوسرے کے انتخابی حریف ہی نہیں تھے بلکہ ان کی سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور چودھری شیر علی بھرے جلسہ میں رانا ثنا اللہ کو 22 افراد کا قاتل ٹھہرا چکے ہیں۔ اسی طرح کے جوابی الزامات رانا ثنا اللہ کی طرف سے بھی چودھری شیر علی، ان کے بیٹے عابد شیر اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر عائد کیے جاتے ہیں۔۔۔ انتخابی نتائج کے بعد یہ دونوں گروپ اپنی اپنی اکثریت کے دعویدار ہیں اور اپنا ضلع ناظم فیصل آباد میں لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔۔۔ اور یہ معاملہ صرف فیصل آباد تک ہی محدود نہیں بلکہ صوبے کے تقریباً ہر ضلع میں نواز لیگی ارکان اسمبلی اور وفاقی و صوبائی کابینہ کے ارکان ایک دوسرے کے سامنے سینہ تانے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے بھائی، بیٹے، بھتیجے یا کسی دوسرے عزیز یا قریبی سیاسی ساتھی کو اپنے ضلع کی قیادت پر بیٹھانے کے لیے کوشاں ہیں یوں ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حکمران مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات کو مزید نمایاں کر دیا ہے البتہ ایک بات ہر جگہ یہ ضرور دیکھنے میں آ رہی ہے کہ پارٹی کے ان گروپوں کے قائدین اپنی اپنی کامیابی کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ یہ اعلانات بھی کر رہے ہیں کہ پارٹی قیادت کا فیصلہ ان سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ گویا اس طرح اب ضلع‘ بلکہ تحصیل کی سطح تک کے بلدیاتی چیئرمینوں کے ناموں کا فیصلہ اب پارٹی کے مرکزی صدر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف یا کم از کم ان کے برادر خورد مسلم لیگ کے صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو خود کرنا ہے جو ظاہر ہے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اوّل تو ان دونوں بھائیوں کے پاس اس کام کے لیے وقت ہی نہیں ہے اور اگر وہ وقت نکال بھی لیں تو دوسری مشکل یہ بھی ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں پارٹی میں پہلے سے موجود تقسیم اور گردہ بندی مزید گہری اور مضبوط ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتائج پارٹی کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ 2018ء کے عام انتخابات بھی سر پر آپہنچے ہیں اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں بھی اس وقت ’’پاناما لیکس‘‘ کے مسئلے پر پُرزور احتجاجی تحریک برپا کیے ہوئے ہیں۔۔۔ اس صورت حال میں حکمرانوں کے لیے اگلا مہینہ جہاں مخالفین کی طرف سے سخت آزمائش کا سبب بن سکتا ہے وہیں اپنوں کے اختلافات بھی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔ اب یہ فیصلہ حکمرانوں کو کرنا ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کروا کر انہیں اختیارات کی منتقلی اور جمہوریت کے استحکام و مضبوطی کا راستہ اختیارات کرتے ہیں یا مشکل فیصلوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو کسی نہ کسی بہانے مزید التوا کا شکار رکھ کر مالی و انتظامی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے سے بچتے ہوئے انہیں حسب سابق اپنی ذات میں مرتکز رکھنے کا ترجیح دیتے ہیں۔۔۔!!!

حصہ