عمران خان کا سیاسی سونامی بہت عرصے سے پارٹی کے داخلی وخارجی مسائل کی وجہ سے غیر موثر محسوس ہورہا تھا۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین اسے عمران خان کی مقبولیت میں کمی قرار دے کر ان کے خلاف بیان بازی میں مصروف تھے۔ لاہور اور کراچی میں ان کے جلسوں کو ناکام کہا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ رائے ونڈ میں ہونے والا جلسہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے سیاسی بقا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان اپنی ضد کی وجہ سے بلاوجہ احتجاجی سیاست کا حصہ بن کر خود کو بھی اور پارٹی کو بھی خراب کررہے ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی بہت سے لوگ عمران خان کو مشورہ دے رہے تھے کہ ہمیں تواتر کے ساتھ احتجاجی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ان کے بعض دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ اچھا موقع ہے کہ بھارت اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی کو بنیاد بناکر رائے ونڈ کا جلسہ منسوخ کردیا جائے۔ پارٹی میں بہت سے لوگوں میں یہ احساس تھا کہ شاید ہم موجودہ صورت حال میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع نہیں کرسکیں گے۔ اس بات کا اظہار خود عمران خان نے لاہور میں چند سینئر صحافیوں کی موجودگی میں کیا۔ راقم بھی اس تفصیلی ملاقات میں موجود تھا، اس اہم نشست میں عمران خان نے اعتراف کیا کہ ان پر جماعت کے اندر سے بھی جلسہ نہ کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ لیکن عمران خان کا مؤقف تھا کہ وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے اور اس لڑائی کو ہر صورت میں منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ مسئلہ محض ان کی جماعت کا ہی نہیں تھا، رائے ونڈ میں جلسہ کرنے پر بھی حکومت سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ(ق)، جماعت اسلامی، عوامی تحریک اور پیپلز پارٹی کی جانب سے انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ان کی عدم شرکت نے بھی مشترکہ حزب اختلاف کے تاثر کی نفی کی۔
تحریک انصاف کے گزشتہ جلسوں میں کم حاضری اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے تحریک انصاف کی دوری کے بعد یہی خیال تھا کہ عمران خان رائے ونڈ میں عوامی طاقت کا اظہار نہیں کرسکیں گے، جیسا ماضی میں وہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان نے تن تنہا رائے ونڈ میں ایک بہت بڑا سیاسی شو کرکے خود تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی حیران کردیا۔ اس مظاہرے نے تحریک انصاف میں ایک نئی سیاست حرارت پیدا کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے۔ عمران خان نے بڑھتی ہوئی پاک بھارت کشیدگی کے ماحول میں پاناما لیکس کے مسئلے پر جس انداز سے لوگوں کو رائے ونڈ جلسے کے لیے متحرک اور فعال کیا، وہ واقعی قابلِ دید ہے۔ جس نے بھی یہ حالیہ جلسہ دیکھا ہے وہ تسلیم کرے گا کہ یہ جلسہ محض حاضری نہیں تھی، بلکہ اس میں موجود لوگوں میں ایک ولولہ، جوش نظر آتا تھا۔ نوجوانوں اور خواتین سمیت نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کی بھی شرکت قابلِ دید تھی۔ اس جلسے نے عمران خان اور ان کے حامیوں کے اندر حکومت مخالف تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نیا اعتماد دیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن، لوٹ مار، بدعنوانی اور پاناما لیکس جیسے معاملات پر کوئی بڑی تحریک نہیں چل سکتی، انہیں پتا چل گیا ہوگا کہ لوگ ان مسائل کو اہم سمجھ کر سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔
اس وقت عمران خان کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی کرپشن کے خلاف ایک مہم چلارہے ہیں۔ اصولی طور پر تو ان دونوں جماعتوں کو اس اہم مسئلے پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بعض سیاسی مسائل کے باعث کچھ دوریاں بدستور موجود ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ کرپشن کے اس مسئلے کو دفن کرنے کے بجائے اسے سیاسی طور پر زندہ رکھ کر حکمرانوں اور اداروں پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی یا حکمت عملی برقرار رکھی جائے۔ اگر فوری طور پر کرپشن کا مسئلہ حل نہ بھی ہو تو یہ امکان موجود ہے کہ پاناما لیکس کا مسئلہ عام انتخابات کا اہم ایشو ہوگا اور انتخابی سیاست اسی کے گرد گھومے گی، جس انداز سے حکمران طبقہ پاناما لیکس کے مسئلے پر ٹال مٹول کررہا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
رائے ونڈ کے جلسے میں عمران خان کی تقریر بھی خاصی متوازن تھی۔ پاک بھارت کشیدگی پر انہوں نے نہ صرف بھارت کو کھلا پیغام دیا، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر خود کو امن اور مذاکرات کے درمیان کھڑا کرکے مثبت انداز اپنایا۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان سمیت ان کے وزرا کے تضادات کو انہوں نے جس انداز سے اسکرین پر دکھایا وہ حکومت کے لیے سیاسی دھچکہ ہے۔ اگرچہ یہ شواہد کوئی نئے نہیں تھے، لیکن ان کو ایک بڑے سیاسی جلسے میں دکھانے اور ملکی و عالمی میڈیا میں انہیں اجاگر کرنے سے پاناما لیکس کے مسئلے کو پس پشت ڈالنے کی حکمت عملی کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر سے عام آدمی سمیت طاقت کے اہم مراکز، ریاستی اداروں اور حکومت کو حالات کی درستی کے لیے کئی واضح پیغام دیے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اس وقت جو کچھ کررہے ہیں یا جس طرح سے سیاسی سمجھوتوں اور کمزوری کا شکار ہیں وہ واقعی لمحۂ فکریہ ہے۔ ایسے میں یقیناًضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں پر دباؤ ڈال کر ان کو واقعی آزادی اور خودمختاری سے اپنے فرائض بجا لانے کی طرف راغب کیا جائے۔ عمران خان کی تقریر بنیادی طور پر اداروں کے لیے تھی کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے۔ اب ادارے کس حد تک آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا‘ لیکن عمران خان نے اِس بار محض سڑکوں پر رہنے کے بجائے ہر ادارے کی سطح پر اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان محض احتجاجی سیاست کررہے ہیں، حالانکہ وہ قانون اور پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کرچکے ہیں، لیکن ان کو نتائج نہیں مل رہے۔ اس لحاظ سے اس حالیہ جلسے کا وقت بہت اہم ہے، جیسے جیسے 2018ء کا انتخابی ماحول بن رہا ہے، حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کی سیاسی و اخلاقی حیثیت کو چیلنج کرکے ان کو دفاعی پوزیشن پر لانا ہی عمران خان کی بڑی کامیابی ہوگی۔
اصل میں حکومت کا خیال تھا کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلاف میں کچھ جماعتوں کے ساتھ سازباز کرکے پاناما لیکس کو دفن کردے گی، لیکن عمران خان نے حکومتی عزائم کو عملاً ناکام بنایا ہوا ہے۔ اگرچہ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں بھی پانامہ لیکس کو بنیاد بناکر حکومت پر تنقید کرتی ہیں، لیکن اصل مزاحمت صرف عمران خان کی سیاست میں نظر آتی ہے۔ عمران خان نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں خود کو حقیقی حزب اختلاف کے طور پر پیش کرکے پیپلز پارٹی کو بھی دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے حزب اختلاف کے طور پر کام تو کیا ہے اور کررہی ہیں لیکن ان کی وہ گرج یا شدت نہیں جو عمران خان نے دکھائی ہے۔ لوگوں میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ اس وقت عمران خان ہی ہیں جو نوازشریف کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے حزب اختلاف کی جماعتیں جس وجہ سے بھی تحریک انصاف کے اس سیاسی شو کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں جوڑ سکیں، اس کا ان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ عمران خان نے بھی نام لیے بغیر حزب اختلاف کی حکمت عملی اور تحریک انصاف سے ان کی دوری پر جو طعنہ دیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دوسروں پر انحصار کے بجائے اپنی طاقت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اب فیصلہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو کرنا ہے کہ وہ کیسے اور کس حکمت کے تحت اپنے آپ کو عمران خان کی سیاست کے ساتھ جوڑتی ہیں، وگرنہ دوسری صورت میں قومی سیاست نوازشریف اور عمران خان کے گرد ہی گھومے گی، جبکہ باقی جماعتوں کو ان ہی دونوں قوتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
عمران خان نے اگرچہ رائے ونڈ جلسے میں محرم کے بعد اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان کے بقول وہ کسی بھی صورت میں وزیراعظم نوازشریف اور حکومت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، چاہے ان کو تنہا ہی یہ مزاحمت کرنی پڑے۔ دراصل عمران خان اور تحریک انصاف کے پرانے نظریاتی ساتھیوں کو یہ احساس ہورہا تھا کہ ہمیں حزب اختلاف اور بالخصوص پیپلز پارٹی نے مذاکرات اور اجلاس کے نام پر ایسے جال میں پھنسا دیا ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس بڑے مظاہرے کے بعد تحریک انصاف میں یہ خیال مزید مضبوط ہوگا کہ ہمیں تنہا ہی آگے بڑھنا چاہیے۔
اس وقت ایک مسئلہ سڑکوں کی احتجاجی سیاست ہے اور دوسری جانب عدلیہ اور الیکشن کمیشن میں وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کا مقدمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اداروں پر تنقید کرتے ہوئے عدلیہ پر ہاتھ ہلکا رکھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ عدلیہ کا بڑا فیصلہ قومی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عمران خان رائے ونڈ کے جلسے کی کامیابی کا اثر کب تک میڈیا، تحریک انصاف اور اپنے مخالفین کے درمیان قائم رکھتے ہیں۔ کیونکہ جو ماحول رائے ونڈ کے جلسے سے پیدا ہوا اس دباؤ کو قائم رکھنا ہی تحریک انصاف کا اصل امتحان ہوگا۔
اگرچہ حکومت سمجھ رہی تھی کہ تحریک انصاف کا سونامی مُردہ ہوگیا ہے، لیکن اس جلسے کے بعد بہت سے حکومتی افراد نے اعتراف کیا کہ عمران خان کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ وہ مسلسل نوازشریف پر سیاسی دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ حالیہ کئی ضمنی انتخابات میں اگرچہ وہ ہار گئے ہیں، لیکن ہار کا کم مارجن ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ووٹ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دباؤ مزید بڑھتا ہے تو اس کا نقصان نوازشریف کے ساتھ ساتھ پوری جماعت کو ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعظم نوازشریف پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے، یہ دباؤ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی ہے۔ پاناما لیکس کے بعد ان کا اخلاقی مقدمہ کمزور ہورہا ہے۔ لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف پانامہ لیکس کے معاملے میں بہت کچھ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جیسے جیسے یہ معاملہ آگے بڑھے گا وزیراعظم کو مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل مسئلہ حکومت کا نہیں بلکہ وزیراعظم نوازشریف کا ہے۔ وہ بڑے فیصلے کرنے کے بجائے ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کرکے مسئلے کی شدت کو بڑھا رہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے قریبی ساتھی ایک خاص حکمت کے تحت اپنے حامیوں کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عمران خان تنہا نہیں بلکہ ان کے پیچھے پس پردہ طاقتیں ہیں جو نوازشریف کو کمزور کرکے دباؤ میں لانا چاہتی ہیں یا ان کے خلاف کسی بڑے فیصلے کی سوچ رکھتی ہیں۔ عمران خان نے اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دے کر حکومت کو عملاً بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ کہنا آسان نہیں۔ لیکن ایسی حکمت عملی اختیار کرکے عمران خان ملکی سیاست میں حکومت کو جہاں ایک نئی مشکل میں ڈالیں گے وہیں قومی سیاست ایک بڑی محاذ آرائی کی جانب بڑھے گی جو حکومت سمیت جمہوری عمل کے مفاد میں نہیں ہوگی اور حکومت کو یقیناًاس کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ اس لیے اس دھمکی کو ہلکا لینے کے بجائے مسائل کے حل کی طرف بڑھنا چاہیے اور یہی حکمت عملی حکومت کے مفاد میں ہوسکتی ہے۔ اگرچہ حکومت نے حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو بھارت کی جارحیت اور مسئلہ کشمیر پر اکٹھا کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم سب ایک ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر عمران خان کی مزاحمت کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے حکومت کو یہ موقع نہیں دیا اوراب تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم کیونکہ متنازع ہیں اس لییان کی صدارت ہونے والے اجلاس میں شرکت مناسب نہیں۔عمران خان نے وزیراعظم نوازشریف کو دو آپشن دیے ہیں۔ اول وہ خود کوپاناما لیکس کے معاملے پر احتساب کے لیے پیش کریں، یا دوئم خود مستعفی ہونے کا اعلان کریں۔ عمران خان کی اس حکمت عملی پر یقیناًخاصی تنقید ہوگی، لیکن عمران خان کا خیال ہے کہ ہمیں اپنی توجہ حکومت اور نوازشریف کے خلاف تحریک پر دینی چاہیے اور اسی پر توجہ دے کر ہم حکومت اور نوازشریف کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
nn