13200ج کل کیا کہنا، اکثر برقی اور طباعتی ذرائع ابلاغ میں چیدہ چیدہ شرکا جو ہر موضوع پر بار بار تبصرہ کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں، ان کا تکیہ کلام بن گیا ہے کہ پاکستان یکا اور تنہا ہوکر رہ گیا۔ وجہ؟
(1) وزیراعظم نواز شریف ’’عالمی برادری‘‘ کی توجہ تنازع کشمیر پر مبذول کرانے میں ناکام ہوگئے، کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسِ عام میں بان کی مون یا دیگر ممالک کے مندوبین نے کشمیر میں جاری بھارت کے مظالم پر تبصرہ نہیں کیا۔ اگر تبصرے سے ان کی مراد مذمت ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ ممکنہ حد تک متنازع امور پر غیر جانب دارانہ رویہ رکھے اور کبھی کبھار جب کوئی فریق انسانیت سوز جرائم کا مرتکب ہو تو اس کی سرزنش ضرور کردے۔
میں اپنے مضامین میں مسئلہ فلسطین، کشمیر اور دہشت گردی کی وارداتوں پر اُن کے جانب دارانہ رویوں پر اعتراض کرتا رہا ہوں، تاہم یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ امریکہ سمیت بڑی طاقتوں نے کشمیر میں بھارت کے مظالم اور اُس کے پاکستان سے مذاکرات نہ کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ بان کی مون کئی بار بھارت اور پاکستان کو کشمیر سمیت تمام متنازع امور کو مذاکرات سے حل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں، اور اسی طرح امریکہ نے بھارت کی جانب میلان کے باوجود دونوں ہمسایوں کو مذاکرات کے ذریعے مصالحت کی بار بار تلقین کی ہے اور اس کے لیے مصالحتی کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ کیا یہ پاکستان کے اس موقف کی تائید نہیں ہے کہ وہ بھارت سے مذاکرات پر ہمیشہ ٓمادہ رہتا ہے، لیکن بھارت مذاکرات کی پیشکش مسترد کرکے عالمی رائے عامہ کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔ یہاں تک اس نے جنوبی ایشیا تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) کی نومبر میں اسلام آباد میں سربراہ کانفرنس میں نہ صرف شرکت سے انکار کردیا بلکہ بنگلہ دیش، بھوٹان، افغانستان، نیپال اور سری لنکا کو بھی عدم شرکت پر مجبور کردیا۔