میں عمران خان کی قیادت میں وجود میں آنے والی تحریک انصاف نے وقت کے ساتھ رینگتے رینگتے نومبر 2011ء میں لاہور کے مینارِ پاکستان کے زیرسایہ ہونے والے عظیم الشان جلسۂ عام کے نتیجے میں ایک انقلابی کروٹ لی اور عوامی مقبولیت کی منزلیں تیزی سے طے کرنے لگی۔ پھر مئی 2013ء کے عام انتخابات ہوئے تو یہ ملکی اقتدار کی مسند تک تو نہ پہنچ سکی البتہ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لحاظ سے ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی بن کر افقِ سیاست پر نمودار ہوئی، جب کہ ووٹوں کی تعداد کے تناسب سے تحریک انصاف پیپلز پارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ گئی اور نواز لیگ کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی، اور صوبہ خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے تعاون سے صوبائی حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہی۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت حاصل نہ کرسکنے کے باوجود انتخابات 2013ء کے بعد تحریک انصاف حزبِ اختلاف کی متحرک ترین جماعت بن کر میدان میں اتری اور سیاسی افق پر چھا گئی۔ 2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کو جواز بناکر اسلام آباد کی جانب مارچ کیا اور وفاقی دارالحکومت کے اہم ترین مقام پارلیمنٹ ہاؤس کے بالمقابل 126 دن کا دھرنا دے کر ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا۔ مگر جن مقاصد کی خاطر یہ زبردست جدوجہدکی گئی تھی ان میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہ ہوسکا۔ آخر آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ کے نتیجے میں اس طویل دھرنے سے عمران کی گلوخلاصی ہوئی اور پھر اس دھرنے کے دوران دیئے گئے استعفے بھی واپس لے لیے گئے اور سول نافرمانی کے اعلانات پر بھی خاموشی اختیار کرلی گئی۔ تاہم
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں بھی جنوں میرا
پانامہ لیکس نے عمران خان کے جنون کو نئی مہمیز بخش دی اور انہوں نے حکمران خاندان کی کرپشن کے خلاف تحریک کا ایک نئے جوش و جذبے سے آغاز کردیا۔ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آخر انہوں نے حکمرانوں کے جاتی امرا کے محلات کی جانب عوامی مارچ کا اعلان کردیا جس پر حکومتی ایوانوں میں زبردست کھلبلی مچ گئی اور ماضی میں خود بھی سابق صدر فاروق لغاری کے گاؤں اور عدالتِ عظمیٰ پر حملے کی مثالیں قائم کرنے والی حکمران جماعت کو چادر اور چار دیواری کا تقدس یاد آگیا، چنانچہ پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا دیا گیا جس نے عمران کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ جاتی امرا نہیں جائیں گے بلکہ ان محلات سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر اڈہ پلاٹ تک ہی جائیں گے اور وہاں بھی کوئی طویل دھرنا نہیں دیں گے بلکہ جلسہ کرکے واپس آجائیں گے۔
زبردست تیاریوں کے بعد آخر 30 ستمبر کا وہ دن آگیا جب ملک بھر سے تحریک انصاف کے قافلے رائے ونڈ کی جانب رواں دواں تھے۔ ’’رائے ونڈ مارچ‘‘ یقیناًکامیاب تھا اور جلسے کی حاضری بھی بھرپور تھی اور کارکنوں کا جوش و خروش بھی مثالی تھا، جس کے اظہار کے لیے جلسہ گاہ میں ’ناچ گانے‘ کا بھی خوب خوب مظاہرہ کیا گیا جو اب تحریک انصاف کے پروگراموں کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔
رائے ونڈ مارچ کے اعلان کے فوری بعد اگرچہ مسلم لیگی جیالوں کی جانب سے شدید غیر ذمہ دارانہ ردعمل سامنے آیا تھا اور مسلح جتھوں کی تشکیل اور مقابلے کے اعلانات کیے گئے تھے ‘ تاہم جلسے کے موقع پر حکومت اور حکمرانوں کی جانب سے مثبت رویہ دیکھنے میں آیا، اور نہ صرف یہ کہ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ جلسے کے راستے میں نہیں ڈالی گئی بلکہ سیکورٹی اور دیگر انتظامی امور میں ہر ممکن تعاون کے ذریعے ایک اچھی مثال قائم کی گئی۔
مارچ کے اعلان کے بعد بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی بھی خاصی شدت اختیار کرچکی تھی اور عمران خان پر دباؤ تھا کہ ملکی حالات کے پیش نظر وہ اپنا یہ مارچ منسوخ کردیں، مگر عمران نے ایسا کرنے کے بجائے اعلان کیا کہ وہ جلسے سے اپنے خطاب میں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی زبردست پیغام دیں گے۔ چنانچہ اپنے خطاب کے اختتام پر عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ تمام تر اندرونی اختلافات کے باوجود ملک کے دفاع اور دشمن کے مقابلے میں ہم متحد ہیں اور بھارتی وزیراعظم نے اگر کسی قسم کی جارحیت کی کوشش کی تو دشمن کو عبرتناک سبق سکھایا جائے گا۔
رات گئے جلسے سے عمران خان کے خطاب میں اگرچہ کوئی نئی بات نہیں تھی تاہم آغاز میں ویڈیو ڈاکومنٹری کے ذریعے حکمرانوں پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات کے دستاویزی ثبوت اپنے سامعین کو دکھاکر ایک اچھی روایت قائم کی گئی۔ اپنے خطاب میں جہاں عمران خان نے حکمران خاندان خصوصاً وزیراعظم کو پانامہ لیکس کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انہوں نے احتساب کے ریاستی اداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے اور ان کے سربراہان عمران خان کا خصوصی ہدف تھے کہ وہ ایک شخص نوازشریف کی خاطر ملک کے بیس کروڑ عوام کے مفادات کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں اور پانامہ لیکس کے حوالے سے کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے مسلسل پہلوتہی کررہے ہیں۔ حدودِ احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے عمران خان نے عدالتِ عظمیٰ کے کردار پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور استدعا کی کہ عدالتِ عظمیٰ عوام کے حقوق کے تحفظ، ملک کو کرپشن سے نجات دلانے اور عدالت کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ عمران خان کا بجا طور پر کہنا تھا کہ جب ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں صحیح انداز میں ادا نہیں کرتے اور عوام کو انصاف فراہم نہیں ہوتا تو لوگ مایوسی کے عالم میں خونیں انقلاب کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے خطاب کی تان اس بات پر توڑی کہ اگر وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش نہ کیا تو محرم الحرام کے بعد اسلام آباد کو بند کردیا جائے گا۔
انتہائی نوعیت کے اس الٹی میٹم کے بعد ایک خوشگوار موڑ ملکی سیاست میں یہ آیا کہ وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر اور ملکی سلامتی کے حوالے سے کل جماعتی کانفرنس پیر 3 اکتوبر کو منعقد کی جس میں شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ کے سوا تحریک انصاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کو مدعو کیا گیا۔ عمران خان خود تو اس میں شریک نہیں ہوئے البتہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کو اس میں بھجوایا۔ اس طرح کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے کی صورت میں قومی یکجہتی اور اتحاد کا ایک پیغام عالمی سطح پر دیا گیا جسے تمام سیاسی و سفارتی حلقوں نے سراہا۔
(باقی صفحہ 41پر)
قومی اتحاد کی مظہر اس کل جماعتی کانفرنس کی کامیابی کے بعد حکومت نے 5 اکتوبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا، مقصد اس کا بھی یہی تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کو زیربحث لاکر عالمی سطح پر بھارت کے ظالمانہ کردار کو اجاگر کیا جائے۔ مگر عمران خان نے حیران کن طور پر اس مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ منگل کے روز بنی گالہ میں تحریک انصاف کے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نوازشریف خود کو پانامہ کی کرپشن سے بچانے کے لیے مشترکہ اجلاس بلا رہے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو استعمال کررہے ہیں، انہیں وزیراعظم نہیں مانتا، انہیں دو آپشن دیتا ہوں، ایک یہ کہ وہ مستعفی ہوجائیں اور ن لیگ کا کوئی اور رکن وزیراعظم بن جائے، دوسرا آپشن یہ کہ نوازشریف اپوزیشن کے ٹی او آرز پر فوری طور پر خود کو احتساب کے لیے پیش کردیں، ہم اس پارلیمنٹ کی اب توثیق نہیں کریں گے، مشترکہ اجلاس میں جانا نوازشریف کو تسلیم کرنے کے برابر ہوگا۔
عمران خان کی پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی منطق فہم سے بالاتر ہے۔ یہ فیصلہ اُن کے رویّے پر جذباتیت کے غلبے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں شاید اندازہ نہیں کہ ان کے اس طرزعمل اور تنہا فیصلوں کے باعث ہی حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں ان کے ساتھ چلنے سے گریزاں ہیں، اور یہ بات طے ہے کہ تنہا پرواز کے ذریعے وہ اپنے مقاصد بہرحال حاصل نہیں کرسکتے، اس سے ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی انتشار بڑھ رہا ہے، چنانچہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس فیصلے پر انہیں تحریک انصاف کے اندر بھی شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے قریب ترین ساتھی بھی اس فیصلے پر خوش اور مطمئن نہیں۔ عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح یکطرفہ فیصلوں کے ذریعے حزب اختلاف کی تقسیم کرکے وہ کرپشن کے خلاف تحریک کی خدمت کررہے ہیں یا اس کے لیے نقصان اور حکمرانوں کے لیے تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔۔۔؟