نئی سہ ماہی میں مختلف چینلز پر کچھ نئے ڈرامے بھی شروع ہوئے ہیں جو ایک معمول کی بات ہے، مگر اس میں غیر معمولی بات ان ڈراموں میں دکھائے جانے والے وہ نظریات ہیں جن کی اجازت نہ ہمارا مذہب دیتا ہے نہ ہمارا معاشرہ۔ ان ڈراموں میں غیر محسوس انداز میں اچھے کرداروں کو تخلیق کرکے اُن کی برائی کو قابلِ قبول انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ بظاہر مثبت سوچ کی عکاسی مگر پس منظر میں خاندان کو توڑنے والے نظریات کا فروغ جن کا مقصد ہے۔ اور یہ ڈرامے کچھ اس انداز میں پیش کیے جاتے ہیں کہ ناظرین پر مثبت پیغامات سے زیادہ ان کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
’ٹی وی ون‘ کی نئی ڈراما سیریل ’پری زاد‘ جس میں روتی دھوتی بیچاری عورت کے بجائے اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی لڑکی کی سرگزشت ہے۔ یہ کردار ادا کرنے والی سنبل اقبال اس ڈرامے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوشش کریں گی۔ پری زاد ایسی لڑکی ہے جو اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے مڈل کلاس گھرانے کو معاشی استحکام دینے کی خاطرصبح اسکول میں پڑھاتی ہے اور شام میں اپنے محلے کی بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا فرض سرانجام دے رہی ہوتی ہے۔ پری زاد ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو رشتوں کی چاہت پر اپنی محبت قربان کردینے کو ترجیح دیتی ہے۔ پری زاد کا بھائی بیرون ملک جاکر روزگار کمانے کی خواہش دل میں لے کر انسانی اسمگلروں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے، جس کی آزادی کی قیمت لاکھوں روپے رکھ دی جاتی ہے۔ پری زاد کا ریٹائر باپ یہ تاوان ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، اسی دوران پری زاد کے گھر اس کی بڑی بہن کے لیے ایک امیر آدمی منصور کا رشتہ آتا ہے جس کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا ہوتا ہے اور وہ دو نوجوان بیٹیوں کا باپ ہوتا ہے، جس کا کہنا ہوتا ہے کہ ہر باپ اپنی بیٹیوں سے پیار کرتا ہے اور میں بھی کرتا ہوں، میں نے ماں اور باپ دونوں کا پیار دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر منصور لڑکیوں کی زیادہ تعلیم اور آزادی کا قائل نہیں ہوتا، بڑی بیٹی کی شادی کے لیے وہ اپنی بہن کے بیٹے کا رشتہ قبول کرلیتا ہے اور بیٹی کو کہتا ہے کہ میں نے تمہارا رشتہ طے کردیا ہے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر چھوٹی بیٹی کی ذمہ داری کی اُسے فکر رہتی ہے کیونکہ لڑکیوں کی پھوپھی کہتی ہیں کہ ٹھیک کہتے ہیں لوگ، ماں کے بغیر پلنے والی لڑکیوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے، اورایسے میں اُس کا ایک قریبی دوست جو مذہبی رجحانات رکھتا ہے اسے دوسری شادی کا مشورہ دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ بڑی عمر کی عورت کے بجائے کم عمر لڑکی سے شادی کرنا۔۔۔ ایک تو وہ تمھاری بیٹیوں کی دوست بن کر رہے گی، دوسرے یہ کہ کم عمر لڑکی کو تم اپنی مرضی اور اپنے مزاج کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال سکتے ہو۔ اس لیے جب منصور کا رشتہ پری زاد کے گھر جاتا ہے تو منصور پری زاد کی بڑی بہن کے بجائے پری زاد کا انتخاب کرتا ہے، جبکہ پری زاد پہلے ہی اپنے ایک قریبی دوست علی کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے، مگر اپنے بھائی کا تاوان ادا کرنے کی خاطر وہ اپنی محبت کی قربانی دے دیتی ہے اور منصور سے شادی کے لیے راضی ہوجاتی ہے۔ یاد رہے سنبل اقبال اس سے قبل کچھ ایسے ہی کردار اور حالات کا سامنا ڈراما سیریل مائی ڈئیر سوتن میں بھی کرچکی ہیں جس میں وہ اپنے ہم عمر دوست کو چھوڑ کر دولت کی خاطر ایک بوڑھے امیر شخص سے شادی کرلیتی ہیں، یہ کردار قوی خان نے ادا کیا تھا، اور پھر وہ اپنے بوڑھے شوہر کی موت کی منتظر رہتی ہیں تاکہ اُس کی دولت کو حاصل کیا جاسکے۔ مگر شادی کے بعد منصور پری زاد کو تلقین کرتا ہے کہ شوہر کی اطاعت اور اُس کی خدمت ایک اچھی بیوی کا خاصہ ہے، بیوی کو صرف وہی کام انجام دینے چاہئیں جن میں اُس کے شوہر کی رضا ہو۔ اب تم میری تربیت کو سختی سمجھو یا رعب سمجھو، میں تو ایسا ہی ہوں۔ اس گھر کی چار دیواری ہی تمھاری دنیا ہے، جتنی جلدی ہوسکے اس بات کو سمجھ لو۔ پھر پری زاد کو محسوس ہوتا ہے کہ منصور کے ساتھ اس کی زندگی پابندیوں کی بیڑیوں میں جکڑی گزرے گی۔ اس کے ساتھ ہی منصور کا لالچی بھانجا ارشد اپنی نوجوان ممانی پری زاد میں دلچسپی لینا شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں پری زاد کے پرانے قریبی دوست علی کی واپسی پری زاد کی زندگی میں ہوتی ہے جس کا علم پری زاد کے شوہر منصور کو ہوجاتا ہے، بلکہ علی کو نادانستہ طور پر اپنے گھر لے کر آنے والا خود منصور ہی ہوتا ہے، جبکہ پری زاد جوکہ اپنی نئی شادی شدہ زندگی کو خوش اسلوبی سے گزارنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے وہ اپنی پرانی محبت کی یوں اچانک واپسی پر پریشان ہوجاتی ہے، اور ڈرامے کے پرومو میں ایک ڈائیلاگ ہے کہ ’’علی تم نے کہا تھا کہ تم برباد ہونے آئے ہو، لیکن نہیں، تم مجھے برباد کرنے آئے ہو‘‘۔ اور جب منصور کو پری زاد اور علی کے تعلقات کا علم ہوتا ہے تو وہ پری زاد کو آگاہ کرتا ہے کہ مجھ سے الگ ہوکر تم چاہو جس مرد کے ساتھ اپنی زندگی گزارو، لیکن میر ے ساتھ رہ کر تم یہ نہیں کرسکتیں۔ اس ڈرامے میں علی کا کردار ادا کرنے والے اصفر رحمن ’تمہاری نتاشا‘ نامی ڈرامے میں اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اس کے پرانے عاشق کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے والے ڈراموں کی طرح کیا اِس ڈرامے میں بھی شادی کسی اور سے اور محبت کسی اور سے کے نظریے ہی کو فروغ دیا جاتا ہے، یا مشرقی عورت کی وفاداری کی جاری روایات کی ترغیب دینا مقصود ہے، اس کا اندازہ تو ڈرامے کی آنے والی اقساط کے نشر کیے جانے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔
منصور کا کردار ادا کرنے والے فیصل رحمن پر اس کردار کے ڈائیلاگ ان کی نرم مزاج شخصیت پر کچھ بھاری بھرکم محسوس ہورہے ہیں۔ اس ڈرامے میں اُنھیں دو جوان بیٹیوں کے رعب دار باپ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جبکہ حقیقی زندگی میں فیصل اب تک کنوارے ہی ہیں۔ اور تو اور ڈرامے میں اُنھیں مذہبی رجحانات کا حامل دکھایا گیا ہے جو سہ روزہ پر بھی جاتا ہے، جبکہ ان کی ذات اور گھر کسی بھی جگہ مذہب کی جھلک نظر نہیں آرہی ہوتی، یا پھر شاید آجکل یہ بھی ایک فیشن بن گیا ہے کہ جس کردار کو سخت گیر یا ناپسندیدہ دکھانا مطلوب ہو اُسے مذہبی رنگ میں رنگ دیا جائے۔ پہلی قسط میں پری زاد کا باپ اپنے بے روزگار بیٹے پر لعنت و پھٹکار بھیجنے کے بعد نماز پڑھنے کے لیے جائے نماز تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو اطاعت گزاری اور گھر کی چار دیواری میں عزت و شرافت سے رہنے کی تلقین کرے تو ڈراموں میں اُسے بھی ایک ظالم شوہر کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ پری زاد میں بھی یہی کچھ ہوگا یا کچھ مختلف، یہ جاننے کے لیے ڈرامے کی مزید اقساط دیکھنی ہوں گے۔ اس ڈرامے میں پری زاد گھر کی چار دیواری کو قید خانہ تصور کرکے علی کو ذریعہ بناکر فرار کی راہ اختیار کرے گی یا منصور کے طے کردہ ضابطے اُسے تحفظ کا احساس دلائیں گے؟