حضرت ابراہیم علیہ السلام نے معاشرے کے افراد کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے جس طرح انہیں بات دلائل سے سمجھائی اس اصول کے تحت کام کرتے ہوئے انگزائٹی اور ڈپریشن کے ہر مریض کا علاج بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
کلینک پر ایک مریضہ آئی جس کا نام صائمہ تھا، عمر 22 سال تھی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ صائمہ کی امی نے بتایا کہ ’’ہماری زندگی پُرسکون تھی۔ بیٹی کا رشتہ آیا، لڑکے کا کاروبار تھا پاکستان اور دبئی دنوں جگہ، ہم نے سوچا رشتہ اچھا ہے، فوراً شادی کردی۔ چند دن بعد ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہ تو بہت تیز لوگ ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر تنقید کرتے ہیں، سچ بات سننا انہیں ناپسند ہے۔ بس اپنی چلاتے ہیں۔ صائمہ پڑھی لکھی ہے، لیکن سسرال والوں کو اس کی قدر نہیں۔ اس نے سوشل ورک میں ماسٹر کیا ہے۔ یہ اگر بات بھی کرے تو ایسا جواب آتا ہے کہ بندہ پریشان ہی ہوجائے۔ ہم نے تو بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی لیکن ان جاہلوں کو تو قدر ہی نہیں۔ الٹا پڑھا لکھا ہونے کو مذاق بناتے ہیں۔‘‘
مریضہ سے کہا: ’’پہلے آپ اِس وقت کی تکلیف بتائیں‘‘۔ اس نے کہا: ’’میرا سانس سسرال میں ہی پھولا ہوا تھا۔ میرا کمرہ دوسری منزل پر ہے۔ بیس سیڑھیاں بالکل سیدھی ہیں۔ چند دن بعد صرف سیڑھیاں چڑھنے پر سانس پھولتا تھا، اب تو کوئی بات بھی کرے تو ڈر لگنے لگتا ہے اور سانس ایسا لگتا ہے کہ اندر ہی نہیں جارہی۔ ساس، نند، شوہر کوئی بھی کچھ پوچھے تو ڈر لگتا ہے، خاص طور پر نندوں سے‘‘۔
صائمہ نے بتایا کہ ’’اب تو میری حالت یہ ہوگئی تھی کہ کسی نے کچھ کہا تو ڈر لگنے لگتا۔ مجھے ان گندے لوگوں سے نفرت محسوس ہوتی ہے، ان سے متلی ہوتی ہے۔ میری ساس کے کہنے پر شوہر مجھے امی کے گھر چھوڑ گیا۔‘‘
صائمہ کا معائنہ کیا گیا، اس کی نبض تیز تھی۔ گھبراہٹ تھی۔ خون کی کمی بھی لگ رہی تھی۔ صائمہ کو انگرائٹی کے لیے دوا دی۔ خون کی کمی کے لیے ٹیسٹ کرایا، اس کا ہیموگلوبن 8 تھا۔ سانس پھولنا ہی تھی۔ خون کی کمی کا علاج کیا گیا۔ نیند کے لیے دوا دی اور مشورہ دیا کہ ابھی امی ہی کے گھر رہیں۔ ایک ہفتہ میں بہتری ہونا شروع ہوگئی۔ دو ہفتے بعد جب صائمہ کی طبیعت بہتر ہوئی تو اس سے تفصیلی گفتگو کی اور حالات پوچھے۔
صائمہ نے بتایا: ’’میں نے سوشل ورک میں ماسٹر کیا ہے۔ شادی کے تیسرے دن میں نند اور شوہر کے ساتھ امی کے گھر سے اپنے سسرال جارہی تھی کہ میری نند نے کار کا شیشہ کھول کر جوس کا ڈبہ سڑک پر پھینک دیا۔ میرے تو جیسے آگ لگ گئی۔ ہم نے سوشل ورک میں ایک بڑا پراجیکٹ کیا تھا جس کا ایک نتیجہ یہ آیا تھا کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ چلتی کار میں سے سڑکوں پر کچرا پھینکتے ہیں۔ میں نے اس پراجیکٹ کی کئی باتیں کار میں موجود افراد کو بتائیں اور جب نند نے کہا کہ ’’بھابھی سب ہی ایسا کرتے ہیں، میرے جوس کا ایک ڈبہ پھینکنے سے کوئی قیامت تو نہیں آجائے گی‘‘ تو مجھے شدید غصہ آیا۔ میں نے اسے سنا دیں کہ تم کیسی بات کرتی ہو۔ یہ طریقہ تو جاہلوں کا ہے۔ مہذب معاشروں میں کوئی بچہ بھی ایسی حرکت نہیں کرتا۔ میری دوسری نند بھی ساتھ ہی تھی، وہ ناراض ہوگئی اور کہا کہ تمِ نے ہمیں غیر مہذب کہا۔ میرا شوہر بھی بول پڑا صائمہ بس کرو۔۔۔ میں اُس وقت خاموش ہوگئی۔ غصہ بہت تھا۔ گھر پہنچے۔ نند نے ساس کو بتایا۔ ساس بھی غصہ ہوئیں۔ میرے شوہر نے مجھ سے بات کی تو میں نے کہا کہ آپ بھی غلط بات کی حمایت کریں گے! میں نے کون سی غلط بات کی ہے؟
اس نے کہا بات تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔ میں نے کہا کہ حق اور سچ بات کہنی چاہیے۔
اگلے دن میں کمرے سے نکل کر نیچے آرہی تھی تو دیکھا کہ میری ساس نے اپنی نواسی کے کنگھی کی اور بال وہیں ڈال دیے۔ وہ اڑ کر کچن میں آگئے۔ مجھے غصہ آرہا تھا۔ ناشتے کی میز پر پہنچی تو ہوا کے جھونکے سے بال اُڑ کر ناشتے کی میز پر سالن میں آگئے۔ ایک دو بال ہی تھے۔ میں نے غصے میں کہا مجھے ناشتا نہیں کرنا۔ بال میں جوئیں بھی ہوتی ہیں، ان میں انفیکشن ہوتا ہے۔ کتنی طرح کے وائرس آج کل کیڑوں مکوڑوں سے پھیل رہے ہیں۔ اگر ہم صفائی کا خیال نہیں رکھیں گے تو بیمار ہوجائیں گے۔ مجھے متلی ہونے لگی اور میں ٹیبل سے اٹھ گئی۔ ہمارے سسرال میں یہ رواج ہے کہ چھٹی والے دن سب ایک ساتھ ناشتا کرتے ہیں۔ میری ساس نے اس بات کا بہت برا منایا اور مجھ سے کہا کہ تم بہت صفائی پسند، پڑھی لکھی ہو۔ ابھی چند دن شادی کو ہوئے ہیں اور تم نے ہمیں غیر مہذب، گندا سب کچھ کہہ دیا۔ ہمارے گھر کا نظام ایسا تھا کہ سب ساتھ ناشتا کرتے، کسی بچے کی ہمت نہیں تھی کہ چھٹی والے دن ساتھ ناشتا نہ کرے۔ دیگر دنوں میں تو سب کو کام پر جانا ہوتا ہے اس لیے ناشتا کرکے جاب پر چلے جاتے ہیں لیکن چھٹی کے دن خاندان ایک ہوتا ہے۔ تم نے خاندان کے اکٹھا ہونے میں رکاوٹ ڈال دی، ایک غلط روایت قائم کردی، ہمارے بیٹوں کو ہمت نہیں تھی۔ تم نے یہ کام کردیا۔‘‘
اس کے چند دن بعد صائمہ کے ہاں کھیر پکانے کی تقریب ہوئی۔ صائمہ نے کھیر پکائی، یہ اشارہ تھا کہ اب وہ کچن میں کام شروع کرے گی۔ صائمہ نے کہا کہ ’’کچن میں مجھے صفائی کا معیار اچھا نہ لگا۔ میں نے خود صفائی شروع کی۔ ماسی کو بھی ڈانٹا۔ اس نے کہا ہم تو اسی طرح کرتے رہے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہیں کس نے یہ طریقہ بتایا کہ ہاتھ صابن سے دھوئے بغیر آٹا گوندھو، سبزی کاٹو! برتن بھی صاف نہیں۔ برتن اس طرح دھوئے جاتے ہیں کہ ان میں چکنائی رہ جائے؟ وہ بولی: اماں نے تو کبھی اعتراض نہیں کیا اور برتن میں نے نہیں دھوئے، کل میری چھٹی تھی، شاید یہ اماں نے دھوئے ہیں۔۔۔ انہیں ہی کہیں۔
اماں سن رہی تھیں انہوں نے کہا کہ تمہیں تو ہماری ہر چیز پر اعتراض ہے۔ تمہاری تعلیم یہ سکھاتی ہے کہ تم ہمارے اتنے سال کے تجربے کو غلط کہہ رہی ہو! انہوں نے خوب ڈانٹا۔ ماسی کے سامنے ہی خوب سنائیں۔ میں بہت شرمندگی محسوس کررہی تھی۔ اتنے میں نند آگئی۔ اس نے پوچھا: کیا ہوا اماں؟ اماں نے بتایا کہ اسے ہمارا کچن، ہمارے برتن سب گندے لگتے ہیں۔ نند بھی چیخنے لگی۔
اگلے دن کچن کی الماری میں لال بیگ دیکھ کر غصہ آیا۔ میں نے اماں سے کچھ نہیں کہا۔ اپنے شوہر کو کہا کہ اس پر فیومیگیشن کرالیں یا الماریاں نئی لگوا لیں۔ شوہر نے جیسے ہی ماں سے بات کی، وہ غصے میں آگئیں، کہنے لگیں: اب تم بھی اپنی بیوی کی زبان بول رہے ہو۔ 28 سال تمہاری پرورش کی۔ یہ کچن اچھا تھا، اب اس میں برائیاں نظر آگئیں! انہوں نے شوہر کو خوب سنائیں۔۔۔ مجھے بھی سنائیں۔ شوہر نے بھی مجھے سنائیں۔۔۔ نندوں نے بھی خوب مذاق اڑایا۔
اب مجھے سانس لینے میں مشکل ہونے لگی۔ دم گھٹتا محسوس ہوا۔ کوئی جیسے ہی بات کرتا، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی۔ سانس رکتا ہوا محسوس ہوتا۔ مجھے بھوک کم لگنے لگی، بس چند نوالے کھاتی۔
محلے کے ڈاکٹر صاحب کو دکھایا، ان کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر ساس نے بیٹے سے کہا کہ اسے اس کی امی کے گھر چھوڑ آؤ شاید وہاں کے ڈاکٹر کے علاج سے ٹھیک ہوجائے۔‘‘
صائمہ اور اس کا خاندان مذہبی کہلاتا ہے۔ نماز پڑھنے، روزہ رکھنے والے، ہر سوال قربانی کرنے والے لوگ ہیں‘ کئی مرتبہ عمرہ کرچکے ہیں۔
میں نے انہیں بتایا کہ ’’اگر آپ اس کتاب قرآن میں دیے گئے طریقے کے مطابق سسرال میں رہتیں تو مسائل نہ ہوتے‘‘۔ صائمہ نے کہا ’’وہاں میں نماز پڑھتی تھی، تسبیح پڑھتی تھی، حق سچ بات برملا کہتی۔ جو سچ ہوتا اسے کہنے میں کسی سے نہ ڈرتی، اور کیا اسلامی طریقہ ہے؟‘‘
اسے بتایا کہ ’’آپ طریقۂ ابراہیمی ؑ اختیار کرتیں تو مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا‘‘۔ اس نے کہا ’’میرے شوہر نے عمرہ، حج کیا ہوا ہے، میں نے بھی عمرہ کیا ہوا ہے اور کیا طریقۂ ابراہیمیؑ اختیار کریں؟‘‘
اسے بتایا کہ ’’ابراہیم ؑ نے اصول دیا ہے کہ جب انسانوں کے کسی گروہ میں رہیں تو ان کی باتوں کی مخالفت نہ کریں، نہ ان کے غلط کاموں پر انہیں غلط کہیں بلکہ انتظار کریں، اور جو غلطی وہ کررہے ہیں اس کے غلط نتیجے تک انہیں کچھ نہ کہیں۔ جب وہ خود اس کا غلط نتیجہ نکلتا دیکھیں گے تو آپ کی بات سن لیں گے۔ یہ طریقۂ ابراہیمی ؑ ہے جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ سسرال میں طریقۂ ابراہیمیؑ کے مطابق خاموشی سے اُن کے ساتھ رہتیں، غلط چیزوں کی فوری نشان دہی نہ کرتیں، مثلاً جوس کا ڈبہ سڑک پر پھینکنا، یا بالوں کو گھر میں پھینکنا، یا کچن کی صفائی پر تنقید۔۔۔ یہ سب نہ کرتیں تو کوئی بھی آپ سے نہ لڑتا، نہ ہی آپ کی طبیعت خراب ہوتی۔
طریقۂ ابراہیمی ؑ پر اب عمل کرنا شروع کردیں۔ سسرال میں صبر کرنے اور غلط کاموں کا رزلٹ آنے کا انتظار کریں اور جب مثال کے طور پر کوئی بیمار ہو تو اُس وقت کہہ دیں کہ شاید اس کی وجہ لال بیگ ہیں، ان کا خاتمہ کرتے ہیں، تو آپ کی بات لوگ سنیں گے اور شاید قبول بھی کرلیں۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ نے انسانی نفسیات کا یہ علم دیا ہے، اس پر عمل کرکے کوئی بھی لڑکی بآسانی سسرال میں ایڈجسٹ ہوسکتی ہے۔ بہت اچھی بہو کہلا سکتی ہے۔ یہ ہے عملی ثواب، جو دنیا ہی میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ طریقۂ ابراہیمیؑ کا ثو اب دنیا میں دیکھیں اور گارنٹی ہے کہ آخرت بھی اچھی ہوگی۔