علاء الدین خانزادہ ہمدم‘ محبتوں کا سفر کرتے کرتے محبتوں کی پہچان بن گئے ہیں۔ یہ جواں فکر شاعر بھی ہیں اور جواں مرد صحافی بھی۔ ان کی شاعری میں غزل کے مختلف رنگ نظر آرہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار حکومت سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے معروف صحافی اور شاعر علاء الدین خانزادہ ہمدم کے شعری مجموعہ ’’محبتوں کا سفر‘‘ کی تقریبِ اجراء میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کراچی پریس کلب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا صحافیوں‘ ادیبوں اور شاعروں کا احترام کرنا ہماری سماجی اور ثقافتی ذمے داری ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشرتی برائیوں کو سامنے لاتا ہے۔ ان کے خیالات و افکار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس ڈگر پر جارہا ہے۔ یہ لوگ ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں‘ یہ لوگ محبتوں کے سفیر ہیں‘ ان قلم کاروں کی فہرست میں علاء الدین خانزادہ ہمدم بھی شامل ہیں جو صحافتی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کر رہے ہیں اور کراچی پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ کراچی پریس کلب اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ میں اس شان دار تقریب کے انعقاد پر کراچی پریس کلب کے عہدیداران و اراکین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اس ادارے کی ادبی کمیٹی بھی قائل ستائش ہے جس کے تحت آج کی تقریب منعقد ہوئی۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور حکومتِ سندھ کا حصہ ہوں ہماری حکومت کراچی میں امن وامان کی بحالی کے لیے سرگرم ہے۔ کراچی لاوارث شہر نہیں ہے‘ یہ مغلوں کا دلّی نہیں ہے کہ کوئی ’’طالع آزما‘‘ اس شہر کو برباد کردے۔ ہم اسے آباد رکھیں گے۔ اس شہر میں بسنے والے تمام لوگ محبتوں کے مبلغ ہیں۔
تقریب کے مہمانِ اعزازی پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ کی شاعری زندگی کی حقیقتوں سے عبارت ہے انہوں نے اپنے اندر کے اضطراب اور باہر کے مشاہدات کو‘ شاعری کے خوب صورت پیرائے میں رقم کیا ہے۔ انہوں نے مفاہمت نہیں کی بلکہ سچائیاں رقم کی ہیں۔ انہوں نے ایک دیانت دار صحافی ہونے کے ناتے حقائق لکھے ہیں یہ آج بھی مظالم کے سامنے سینہ سپر ہیں انہوں نے ارباب اقتدار کے منفی رویوں پر بہت شدت سے احتجاج کیا ہے۔ یہ حالات کا دیانت دارانہ تجزیہ کرتے ہیں ان کی پوری شاعری محسوسات اور مشاہدات کا حسین امتزاج ہے۔ انہیں لفظیات کے دروبست پر مہارت حاصل ہے یہ اپنی صلاحیتوں کے باعث آج کے ادبی منظر نامے میں موجود ہیں ان کے یہاں تمام شعری نزاکتیں اپنے عروج پر ہیں۔ اس پُروقار تقریب کے صدر پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ علاء الدین خانزادہ ہمدم ایک کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آسمانِ صحافت کے تابندہ مہتاب ہیں۔ یہ مزاحیہ شاعری میں بھی نام کما رہے ہیں اور نعتیہ شاعری میں بھی ایک اچھے نعت گو کے طور پر اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ ان کے کلام کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ’’سچ بولتے‘‘ ہیں اور سہل ممتنع میں باآسانی بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ ان کا دھیما لہجہ قاری و سامعین کے دلوں میں اتر جاتا ہے۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ یہ محبتوں کے آدمی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اس پنڈال میں زندگی کے تمام شعبوں کی اہم شخصیات موجود ہیں بلاشبہ یہ ایک کامیاب تقریب ہے جس کا کریڈٹ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی اور کراچی پریس کلب کے عہدیداران و اراکین کو جاتا ہے۔ کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ ہمدم ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں یہ کراچی پریس کلب کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے صحافی بھائیوں اور بہنوں کے دکھ درد بانٹتے ہیں‘ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی صحافتی مصروفیات میں سے وقت نکال کر شاعری کرتے ہیں۔ 190 صفحات پر مشتمل ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ آج ہمارے سامنے ہے مجھے یقین ہے کہ یہ مجموعۂ کلام ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاء الدین خانزادہ ہمدم بہت کم وقت میں کامیاب شاعر بن گئے ہیں۔ انہوں نے صحیح سمت میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور بہت کامیابی سے منزلیں طے کر رہے ہیں۔ یہ صحافت اور شاعری کی ضرورتوں کا ادراک رکھتے ہیں اور دونوں شعبوں میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے روح رواں زیب اذکار نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ خانزادہ بطور صحافی بہت بولڈ ہیں یہ سنجیدہ شاعری بھی کر رہے ہیں اور مزاح نگاری میں بھی عمل دخل رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے تجربات کو شاعری کا محور بنایا ہے میرے نزدیک ان کی شاعری ہر دور میں پڑھی جائے گی۔ مجید رحمانی نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ شعر و سخن اور علم وادب کے قبیلے کے اہم فرد ہیں‘ ان کی شاعری میں جمالیاتی حسن بھی ہے اور غمِ دوراں کے مسائل بھی۔ انیق احمد نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ بلند حوصلہ صحافی ہیں انہوں نے اپنے قلم پر آنچ نہیں آنے دی جو کچھ دیکھا اس کو پوری سچائی کے ساتھ تحریر کیا یہ اپنی زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب اپنے ہم عصروں میں الگ شناخت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کراچی شہر کاعروج و زوال دیکھاہے‘ انہوں نے ’’شہر آشوب‘‘ لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بھاری بھاری تراکیب سے اجتناب برتا ہے‘ ان کی شاعری میں تہہ داریاں ہیں۔ حسیب عنبر حسیب نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ پیشہ ور صحافی ہیں‘ شاعری ان کا ناگزیر شوق ہے‘ ان پر صحافت حاوی ہے کیونکہ شاعری فل ٹائم جاب ہے اور یہ اپنی صحافتی مصروفیت میں سے شاعری کو فل ٹائم نہیں دے پارہے پھر بھی ان کی شاعری جان دار ہے انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ ظلم و تشدد‘ وحشت و بربریت کا منظر نامہ لکھا ہے۔ ہر زمانے میں اظہارِ خیال پر پابندیاں عائد رہتی ہیں‘ عوام الناس تک صرف وہ ’’سچ‘‘ پہنچتا ہے جو حکومتِ وقت چاہتی ہے اس تناظر میں حق نوائی جرم بن جاتا ہے لیکن علاء الدین خانزادہ کا کمال یہء ہے کہ وہ اپنے طنز و مزاح کی شاعرعی کے پردے میں سچائی کے مناظر دکھاتے رہتے ہیں۔ اجمل سراج نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ کا ظاہر و باطن ایک ہے یعنی ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے یہ قلندر صفت انسان ہیں‘ منکسر المزاجی ان کی طبیعت کا حصہ ہے‘ صحافتی دنیا میں علاء الدین خانزادہ ایک معتبر نام ہے اور اب انہوں نے اردو ادب میں بھی اپنی انٹری ڈال دی ہے۔ یہ مستقل مزاجی سے اشعار کہہ رہے ہیں‘ ان کی شاعری زندہ الفاظ سے مزین ہیں‘ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں ان کی شاعری میں ان کی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ انہوں نے بہت سے زمینی حقائق رنگِ غزل میں پیش کیے ہیں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر میدانِ زندگی میں کامیابیوں سے ہم کنار فرمائے۔ صاحبِ اعزاز علاء الدین خانزادہ نے اپنی غزلیں سنانے سے پہلے منتظمین تقریب اور شرکاء تقریب کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہا کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے زندگی بھر عملی جدوجہد کی ہے اور اپنے بچوں کو حلال رزق مہیا کیا ہے میں نے سچائیاں رقم کی ہیں جس کی پاداش میں مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر میں اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری سے انجام دے رہا ہوں۔ اس موقع پر علاء الدین خانزادہ نے اپنی شاعری سنا کر خوب داد وصول کی۔ پروگرام کی نظامت خالد ریاض فرشوری نے کی جنہوں نے اسکرپٹ کے مطابق جملے بازی کی اور کبھی کبھار چند جملے اپنی طرف سے ادا کیے۔ ان کی خوب صورت نظامت کی تعریف فاضل جمیلی نے بھی اپنے کلماتِ تشکر میں کی۔
۔۔۔*۔۔۔
اکادمی ادبیات پاکستان‘ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو مہینے میں چار مرتبہ اپنے دفتر میں مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد کراتے ہیں اسی سلسلے کے حوالے سے نامور شاعر‘ مترجم اور کہانی نویس رشید بھٹی کی یاد میں ایک پروگرام منعقد ہوا جس کی صدارت ممتاز شاعر و ادیب ڈاکٹر عابد مظہر نے کی اس موقع پر انہوں نے صدارتی خطاب میں رشید بھٹی کے فن و شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے کہا کہ اردو‘ سندھی مشاعروں کا انعقاد اکادمی ادبیات پاکستان کے منشور میں شامل ہے اس قسم کے مشاعروں سے سندھی‘ اردو ادیبوں اور شاعروں کے درمیان محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ سندھی‘ اردو شعراء ہمارے صوبے کا سرمایہ ہیں ان دونوں زبانوں کی ترویج و اشاعت ہماری ذمے داری ہے جب تک ہم نئی نسل کو ’’رشتۂ مواخات‘‘ سے ہم آہنگ نہیں کریں گے‘ ہمارا صوبہ ترقی نہیں کرسکتا۔ سندھ کے تمام لکھاریوں کا فرض ہے کہ وہ بحالئ امن امان میں اپنا کردار ادا کریں۔ صاحبِ صدر نے رشید بھٹی کے بارے میں کہ اکہ وہ اپنے وقت کے بہت اہم ادیب تھے‘ وہ ترقی پسند تھے اور شوشلسٹ اور مارکسٹ نظریات کے حامل تھے۔مہمان خصوصی نامور ادیب اور روزنامہ اوصاف کے گروپ ایڈیٹر ابرار بختیار نے کہا کہ اکادمی ادبیات سندھ اس طرأ کی نامور شخصیت کے نام پر ادبی نشست معنقد کرکے نئے شعراء کو پڑھنے کا موقع فراہم کرکے ادب کو فعال کرنے کا اہم کردار ادا کر رہی ہے میں اس موقع پر قادر بخش سومرو کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ نامور محقق‘ پی ٹی وی پروڈیوسر غلام مصطفی سولنگی نے خصوصی لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ رشید بھٹی سندھی زبان و ادب کے اہم ستون تھے‘ وہ ایک نظریاتی ادیب تھے‘ ترجمہ نگاری‘ افسانہ نگاری‘ ناول نگاری اور سیاسی ادب میں ان کی حیثیت مسلم ہے۔ وہ ایک انسان دوست ادیب اور روشن خیال انسان تھے۔ سندھی ادبی سنگت کو انہوں نے مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ مغربی ادب کو سندھ میں روشناس کرانے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔ وہ سندھ کی قومی تحریکوں میں بھی بڑے سرگرم رہے اور جیلیں بھی دیکھیں ان کے افسانو ں کے مجموعے سندھ کی سماجی تاریخ ہیں۔ وہ سندھی ادب کے افق پر ہمیشہ تاباں رہیں گے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ رشید بھٹی نے معاشی مسائل کو اپنا موضوع بنایا تھا‘ انہوں نے اپنی کہانیوں میں طنز و مزاح کے لہجے میں سچائیاں رقم کی ہیں انہوں نے سماجی برائیوں کو اپنے افسانوں کا محور بنایا ہے۔ تقریب میں خانہ فرہنگ ایران کراچی کے ڈائریکٹر محمد رضا باقری نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ مشاعرے میں ڈاکٹر سید عابد مظہر‘ اکرا الحق شوق‘ اظہر بانبھن‘ نصیر سومرو‘ سعیدالظفر صدیقی‘ افروز رضوی‘ عشرت حبیب‘ تاجبر بونیر بابا‘ مہرالنساء جمالی‘ شہناز رضوی‘ وقار زیدی‘ اختر علیم سید‘ تاج علی رعنا‘ شاہین شمس زیدی‘ خالد انور‘ محمد قدیر خان‘ ضیا شہزاد‘ الحاج نجمی‘ سعد الدین سعد‘ آتش پنہیار‘ شہباز احمد‘ حنیف عابد‘ شاہ نواز‘ پیاسی گبول‘ فرخ اظہار‘ غازی بھوپالی‘ الطاف احمد‘ جاوید صدیقی‘ آصف علی آصف‘ سیف الرحمن سیفی‘ محمد آفاق راجپوت‘ شاہینہ فلک صدیقی‘ خورشید اختر‘ ڈاکٹر نوارہ مختیار مانا‘ فرخ جعفری‘ عبدالصمد تاجی‘ شام درانی نے اپنا کلام سنا کر رشید بھٹی کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
ادارۂ فکرِ نو کراچی ہر سال معروف شاعر و صحافی خالد علیگ کی یاد میں ادبی ریفرنس کا اہتمام کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے اس تناظر میں مورخہ 17 ستمبر کو خالد علیگ کی نویں برسی کے موقع پر ادارۂ فکرِ نو کراچی کے تحت گورنمنٹ کالج برائے خواتین کورنگی نمبر 4 میں ایک پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کی بہت سی اہم شخصیات نأ شرکت کی۔ پروگرام کے دو حصے تھے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ رسا چغتائی نے دونوں ادوار کی صدارت کی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سابقہ نائب صدر محمود احمد خان مہمان خصوصی تھے‘ معروف سماجی رہنما مظہر ہانی مہمان اعزازی تھے جب کہ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ علی کوثر نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی۔ فرید احمد خورشیدی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ادارۂ فکر نو کے تاحیات صدر محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اس موقع پر انہوں نے اپنے ادارے کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا۔ فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ سراج الدین سراجن‘ عبدالصمد تاجی اور علی کوثر نے خالد علیگ کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے خالد علیگ کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خالد علیگ ترقی پسند تحریک کے اہم فرد تھے انہوں نے اپنی زندگی اپنے نظریات کے مطابق گزاری۔ انہوں نے اصولوں پر سودا بازی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہوئے۔ انہوں نے ایک زمیں دار گھرانے میں آنکھ کھولی اوروڈیرہ شاہی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور اس نظام کے خلاف آواز بلند جس کی پاداش میں وہ ’’جیل یاترا‘‘ سے آشنا ہوئے۔ وہ دکھی انسانیت کے علمبردار تھے وہ ’’غزالِ دستِ سگاں‘‘ تھے‘ وہ قلندرانہ صفت انسان تھے انہوں نے روکھی سوکھی کھائی لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ وہ ایک خوددار شخص تھے۔ غربت و افلاس کے باوجود بھی وہ مہمان نواز تھے۔ وہ صاحبِ بصیرت صحافی اور شاعر ابراہیم جلیس کے بعد روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر منتخب ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو جیل چلے گئے اور پیپلزپارٹی کا ڈاؤن فال شروع ہوا تو روزنامہ مساوات بند کردیا گیا۔ محترمہ نصرت بھٹو نے خالد علیگ کی خدمت میں کثیر رقم کا چیک پیش کیا تو خالد بھائی نے نصرت بھٹو سے کہا کہ مساوات کے تمام ورکز کے واجبات ادا کردیے جائیں تب میں بھی اپنی تنخواہ لے لوں گا۔ کئی مرتبہ اربابِ اقتدار نے انہیں خطیر رقومات کے چیک پیش کے لیکن انہوں نے ہر مالی امداد کو ٹھکرایا۔ شاداب احسانی نے مزید کہا کہ وہ شاعری کے میدان میں بھی منفرد مقام کے حامل تھے وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے‘ وہ زندگی سے بھرپور‘ اشعار کہتے تھے وہ ہر طبقۂ فکر کی مشکلات اپنی شاعری میں بیان کرتے تھے وہ حکومتِ وقت کے مظالم کے خلاف بات کرتے تھے ان کے بہت سے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ ان کی شاعرانہ حیثیت مسلم ہے آرٹس کونسل پاکستان کراچی کو چاہیے کہ وہ خالد علیگ کے حوالے سے بھی ہر سال کوئی پروگرام منعقد کرے۔ مہمان خصوصی محمود احمد خان نے کہا کہ خالد علیگ ایک ’’رول ماڈل‘‘ تھے۔ وہ کھرے انسان تھے ان کی شاعری مظلوموں کی آواز ہے۔ اس موقع پر مہمان خصوصی نے شاداب احسانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خالد بھائی کے زمانے میں مساوات کے اداریوں کو آپ کتابی شکل دے دیجیے میں اس سلسلے میں ہونے والے تمام اخراجات برداشت کروں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں ادارۂ فکر نو کے ساتھ خالد بھائی کے ہر پروگرام میں مالی معاونت کروں گا۔ مہمانِ اعزازی مظہر ہانی نے کہا کہ میں نے خالد بھائی کے ساتھ طویل عرصہ گزارا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ خالد بھائی کا انتقال ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے وہ محبتوں کے انسان تھے انہوں نے زندگی بھر دکھی انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی آبیاری بھی کی۔
ادارۂ فکر نو کے روح رواں معروف صحافی اور شاعر اختر سعیدی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ خالد علیگ ان کے محسن تھے ہمیں فخر ہے کہ وہ لانڈھی کورنگی کے رہائشی تھے‘ وہ ہمارے لیے شجرِ سایہ دار تھے ان کی صحبت و قربت ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی وہ اردو ادب کی عظیم قلم کاروں میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہر زندہ قوم اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی ہے اسی فلسفے کے تحت ہم ہر سال ان کی برسی کے موقع پر شہر کے ممتاز صاحبان علم و دانش ک لیے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعراء نے اپنا کلام سنایا ان میں رشید اثر‘ ظفر محمد خاں ظفر‘ ڈاکٹر اکرام الحق شوق‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ فیروز ناطق خسرو‘ غلام علی وفا‘ سلیم فوز‘ اختر سعیدی‘ سراج الدین سراج‘ محمد علی گوہر‘ شاہد کمال‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ فرخ اظہار‘ یوسف چشتی‘ ماہ نور خانزادہ‘ کشور عدیل جعفری‘ محسن سلیم‘ سخاوت علی نادر‘ سلمان عزمی عارف نذیر‘ صدیقی راز ایڈووکیٹ‘ عبدالصمد تاجی‘ سلیم شہزاد‘ الحاج نجمی‘ سعد الدین سعد عاشق۱ حسین شوزوکی‘ علی کوثر اور زبیر صدیقی شامل تھے۔