ایک نابقہ روزگار ادیب تھے

333

مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو,آئیڈیا کمیونیکیشن اور البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام ’’خلیل الرحمن اعظمیٰ: ایک بازیافت‘‘ کے عنوان سے بین الاقوامی سیمینار علی گڑھ، میں عظیم الشان پیمانے پر ۲۵ ستمبر ۲۰۱۶ء ؁، منعقد کیا گیا۔ جس میں ملک کے مختلف جامعات سے پروفیسرز، ناقدین ادب، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ اور اساتذہ فن شریک رہے۔
خلیل الرحمن اعظمیٰ ایک چہلہ روزگار ادیب اور ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے اُردو ادب کی جدید روایت کو مستحکم کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا، ان خیالات کا اظہار معروف ادیب ونقاد پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اپنے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُردو زبان وادب کا عصری منظرنامہ خلیل الرحمن اعظمیٰ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیل الرحمن اعظمیٰ نے ترقی پسند تحریک اور نئے ادب کے درمیان راہ نکالی اور اس پر چلنے والے وہ پہلے شخص تھے ان کا ماننا تھا کہ مقصدیت کو ادب پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر پروفیسر سید محمد امین میاں قادری نے کی جبکہ معروف فکشن نگار سید محمد اشرف اور مجلسِ فخرِ بحرین کے بانئی شکیل احمد صبرحدی نے مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی، بحیثیت مہمانانِ اعزازی پروفیسر اشتیاق احمد ظلی، محترمہ راشدہ خلیل اور اجمل کمال (پاکستان)، ہما مرزا، ڈاکٹر سلمان خلیل الرحمن اور ڈاکٹر راحت ابرار نے پروگرام کو رونق بخشی، تعارفی کلما آئڈیا کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر محترم آصف اعظمیٰ نے پیش کئے، نظامت کے فرائض البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کے جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی نے انجام دیئے۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید محمد امین نے فرمایا کہ خلیل الرحمن اعظمیٰ کا مطالعہ انتہائی وسیع اور مشاہدہ بے حد عمیق تھا، وہ نہایت اچھے ادیب وشاعر ہونے کے ساتھ اچھے استاد تھے ’’مجھے ان کا شاگرد ہونے پر فخر ہے‘‘۔ محترم سید محمد اشرف نے کہا کہ خلیل الرحمن اعظمیٰ کی شاعری اور تنقید دونوں اُردو زبان وادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے کہا کہ خلیل الرحمن اعظمیٰ مشرقی اقدار اور اُردو کی تہذیبی شناخت کے امین تھے۔ بیگم، راشدہ خلیل صاحبہ نے کہا کہ خلیل الرحمن اعظمیٰ ایک اچھے انسان، اچھے شوہر اور مثالی باپ تھے، مجلسِ فخرِ بحرین کے بانئی محترم شکیل احمد صبرحدی نے فرمایا کہ ’’مجلسِ فخرِ بحرین اپنے مشاعروں اور سمیناروں کے ذریعہ اُردو زبان وادب کی مشترکہ تہذیبی روایات اور انسانیت کے پیغام کو عام کرنا چاہتی ہے۔ اُردو کے اس مشترکہ کلچر کو پروان چڑھانے اور اسے میل جول، اخوت ومحبت اور باہمی رواداری کی زبان بنانے میں کسی ایک کا نہیں ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا مساوی حصہ ہے، جس طرح اُردو کا خمیر ہندی، سنسکرت، عربی، فارسی، افغانی، پرتگالی اور انگریزی سے اٹھا ہے اسی طرح اس زبان کو ترقی دینے میں ہندوستان کی سبھی قوموں اور تہذیبوں نے حصہ لیا ہے۔ اپنے اس وصف کی وجہ سے اُردو زبان ہندوستان کے مشترکہ کلچر کی مظہر بن گئی ہے، اس زبان نے اپنے صدیوں کے ارتقائی عمل سے ایک ایسے معاشرہ کو جنم دیا ہے جو مذہبی اور لسانی تعصب سے بلند ہوکر وحد ت کے تصور کو پیش کرتا ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اُردو کا کردار صرف ہندوستانی ہے اُردو کے رگوں میں خالص ہندوستانی خون دوڑ رہا ہے۔ جس طرح ہندی کے ارتقائی مراحل میں حضرت امیر خسرو سے لے کر کبیراور رحیمن کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اُردو زبان وادب کے پودے کو تناور درخت بنانے میں برادرانِ وطن خصوصیت سے ہندو حضرات کا ناقابل فراموش حصہ رہا ہے۔اگر للو لال جی کوی ، پنڈت دیا شنکر نسیم ،برج نرائن چکبست ،پریم چند، تلوک چند محروم ، رگھوپتی رائے فراق ، آنند نرائن ملا، جگن ناتھ آزاد، گوپی چند نارنگ وغیرہ نے اُردو زبان کو اپنی تخلیقات کا وسیلہ بنایا۔ فرنگیوں نے جب ہندوستان کو تقسیم کرنا تھا تو اس کے باوجود کہ اُردو کو نام ایک انگریز نے او رسم الخط ایک ہندو تلک کاشمیری نے دیا تھا، اس پر مسلمانوں کی چھاپ لگا دی اور ہندی ہندوؤں کے ساتھ جوڑ دی گئی۔ تقسیم ہند سے پہلے اُردو جس طرح ہندوستان میں پنپ رہی تھی اور اس زبان میں کیسا کیسا ادب تخلیق ہوا، مگر بعد میں سرحد کے ساتھ زبانوں کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ ایسی زبان کیسے کسی ایک فرقہ و طبقہ کی زبان ہوسکتی ہے، اسے توہم صرف ایک زبان نہیں، ایک ثقافت، ایک تہذیب، ایک طرزِ زندگی سے موسوم کرسکتے ہیں، جو سبھی نسلوں اور مذہبی گروہوں کے آپسی اشتراک سے آج تک پھلتی پھولتی رہی ہے۔
خلیل الرحمن اعظمیٰ جیسے شعراء کی نسل نے ملک کی ہر دھڑکن، ہر کروٹ اور ہر انگڑائی کو شاعری کا جامہ پہنایا ہے، اعظمیٰ صاحب نیاپنی تخلیقات کے ذریعہ تہذیبی آزادی اور روایات کے حق میں آواز بلند کرکے انسانیت کو مستحکم بنانے پر زور دیا اور اس اجمالی جائزہ سے یہ حقیقت بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اُردو زبان کے آغاز سے آج تک اس میں نہ صرف ہماری قدروں کی بھرپور نمائندگی ملتی ہے بلکہ ہر دور میں مذہبی رواداری، قومی اتحاد وفرقہ وارانہ یک جہتی کی مثالیں بھی بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اُردو ہماری محبوب زبان اور مشترکہ تہذیب کی علامت ہے، اس ختی کی جو کئی مذہبوں، تہذیبوں اور زبانوں کا قدیم زمانہ سے گہوارہ رہا ہے اور بقول علامہ اقبال یہی اس ہماری طاقت کا راز ہے ۔؂
یونان و مصر روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
آصف اعظمیٰ نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے محسنین کو فراموش نہیں کرتیں اور یہ سمینار اس لحاظ سے ایک مبارک پھل ہے کہ آج اُردو کے ایک عظیم شاعر اور محسن کو یاد کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سمینار کے مقالات کتابی شکل میں شائع کئے جائیں گے جس کا اجراء بحرین میں منعقد ہونے والے عالمی مشاعرے میں کیا جائے گا۔ افتتاحی سیشن کے بعد ٹیکنیکل سیشن اول کی صدارت پروفیسر عبدالرحمن قدوائی اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے کی جب کہ دوسرے ٹیکنیکل سیشن کی صدارت پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر محمد زاہد نے کی۔ مذکورہ سیشن میں پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر صفیر افراہیم، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر قمر البدی فریدی، ڈاکٹر مشتاق احمد نوری، ڈاکٹر ابوبکر عباد، ڈاکٹر سراج اجملی، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر رفیع الدین، ڈاکٹر قمر عالم، ڈاکٹر محمد شارق، شہنواز فیاض اور سلمان فیصل نے مقالات پیش کئے۔ اس موقع پر پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر شاہد صدیقی، ڈاکٹر راشد انور، ڈاکٹر سیما صغیر، ڈاکٹر صفدر اشرف کے علاوہ یونیورسٹی اور شہر کے معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر ثمرین کے پی ایچ ڈی مقالہ کی کتاب خلیل الرحمن اعظمیٰ کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا اور یہ کامیاب سمینار اختتام پذیر ہوا۔
nn

حصہ