146گنل بند ہونے کا اشارہ ہوتے ہی چند ٹریفک پولیس اہلکار روڈ کے بیچ میںآگئے اور موٹر سائیکل سواروں کی پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔ کسی کی بائیک کی چابی نکال دی گئی اور اسے پکڑکرسائیڈ پر لے جایاگیا تو کسی نے مٹھی میں چند نوٹ پکڑ کر سامنے اہلکار کو دے دیے۔ اور چلتا بنا۔ یہ مناظر روزانہ اپنی آنکھوں سے ہزاروں لوگ دیکھتے ہیں۔ کہیں نوجوان ٹریفک اہلکار سے الجھتا ہوا نظر آتا ہے تو کہیں پولیس اہلکار کسی نوجوان کو بیچ سڑک پر مارپیٹ کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں ۔ وجہ صرف ایک ہی ہوتی ہے اور وہ ہے کہ تمام دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود چائے پانی نہ دینا۔ آج پورے شہرکے ہر چوک‘ ہرسڑک اورموڑپر ٹریفک اہلکار وں کی ایک فوج موجودہوتی ہے۔جو ہرآنے جانے والے موٹرسائیکل سوار کو روک کر چالان پکڑانے کاسلسلہ بڑے زور وشور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔جہاں چالان کٹ رہے ہیں تو وہیں پولیس اہلکاروں سے لڑائی جھگڑابھی معمول بنتاجارہاہے۔ آج نوجوان قانون سے باغی ہوتا جارہاہے جس کی وجہ انصاف کا نہ ہوناہے۔آج کا نوجوانوں میں یہ اس بات کا احساس بھی شدت سے پیدا ہورہا ہے کہ آخر یہ کیسا قانون ہے کہ اربوں کھربوں لوٹنے والے آزادگھوم رہے ہیں‘عدالتوں سے ضمانتیں لے کر سینہ تان کرچل رہے ہیں اور پکڑا صرف وہ جاتا ہے جس نے ہیلمنٹ نہیں پہنایا پھر جس کی موٹر سائیکل کی لائٹ خراب ہے۔ آج کا نوجوان یہ سوچتا ہے کہ عدالتوں میں کیس موجود ہیں، مگر شنوائی نہیں ہورہی ‘ پولیس موجود ہے مگر مجرم آزاد گھوم رہے ہیں‘ ملک میں قانون توموجود ہے مگر عملدرآمد کرانے والے ادارے مفلوج ہوچکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان اداروں میں کام کرنے والے لوگوں نے ہی اپنے اداروں کوپاؤں پر کھڑاہونے کے بجائے اسے بے ساکھی پکڑا دی ہے۔ اور اس کا خمیازہ آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ بہرحال بات ہورہی ہے ایک اور نئے نوٹی فیکیشن کی جس میں پھر سے ہیلمٹ کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے۔ مگر اس بار انوکھی پابندی اور نت نئے بیانات نے ہیلمٹ کو متنازع بنا دیا ہے۔ متنازع اس لیے کہاکہ اب کوئی بھی اپنی ذاتی دشمنی نکالنا چاہے تو اسے آرام سے ہیلمٹ نہ پہننے کے جرم میں اندر کراسکتا ہے۔
ہیلمٹ کااستعمال زمانہ قدیم سے چلتا آرہا ہے اور اس کی افادیت سے آج بھی انکارنہیں کیاجاسکتا۔ پہلے لوہے کے ہیلمٹ جنگوں کے دوران استعمال کیے جاتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے آج ہیلمٹ کی سیکڑوں اقسام مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ ہیلمٹ کسی حادثے کے دوران سر پر لگنے والی چوٹ سے آپ کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یورپ میں موٹرسائیکل اور سائیکل سوار پر ہیلمٹ کااستعمال لازمی ہے۔
کراچی میں ہر سال ایک مرتبہ ہیلمٹ کی پابندی لازمی قرار دیے جانے کے حوالے سے ایک اجلاس ہوتا ہے اوراس سے کراچی ٹریفک پولیس کی چاندی ہوجاتی ہیں۔ ویسے تو روز ہی ٹریفک پولیس کی عید ہوتی ہے مگر جب اعلیٰ سطح سے پابندی کا نوٹیفیکیشن آجائے تو پھر ٹریفک پولیس کی موجیں دوگنی ہوجاتی ہیں۔ دن بھرمیں ایک اہلکار100چالان کرکے سرکاری خزانے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف اضافہ کرتا ہے تو دوسری طرف 500 موٹر سائیکل سواروں سے 50سے 100روپے کی جیب خرچی بھی وصول کرکے نہ صرف اپنا بلکہ افسران کا بھی پیٹ بھرتارہتا ہے۔ اس طرح سرکار ی خزانہ بھی خوش اور محکمہ بھی ۔
چندروزقبل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایک بار پھر موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ کی پابندی لازمی قرار د ی۔جس میںیہ بھی کہاگیا کہ موٹر سائیکل سوار خواتین اور بچے بھی اس پابندی سے مستثنیٰ نہیں ہوں گے، ان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ ٹریفک اہلکاروں کواس مرتبہ ذرا سختی سے نمٹنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ساتھ ہی ڈی آئی جی ٹریفک نے ایک اور تجویز بھی دے دی کہ ہیلمٹ پر چالان150روپے سے بڑھاکر 1000روپے کردیے جائیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو موٹر سائیکل سوار 200روپے سے کم میں بات کرے گا اس کا چالان لازمی اور جو 200 روپے سے زیادہ کی چائے پانی دے گا اس کا چالان معاف کردیاجائے گا۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اوریہاں پرخواتین کی اکثریت برقعہ اوڑھتی ہیں یا پھر اسکارف کا استعمال کرتی ہیں اور یہاں پر نہ ہی خواتین مردوں کی طرح موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہیں اور نہ ہی جینز، شرٹ پہن کر گھومتی ہیں۔یورپ میں یہ پابندی اس لیے بھی لگتی ہے کہ وہاں پر جس قسم کامعاشرہ ہے، اس سے ہر شخص واقف ہے۔ وہاں نہ تو برقعے کا رواج ہے نہ ہی اسکارف کا، اس لیے وہاں پر اس قسم کی پابندی سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم کراچی میں اس قسم کی پابندی جس میں عورت ‘ بچے بھی مستثنیٰ نہ ہوں بالکل ہضم نہیں ہوتی۔اور ہر بارکی طرح اس بار بھی یہ پابندی کا شوشہ صرف چندروز کے لیے ہی ہوگا اور پھر بعد میں اسے بھی واپس لے لیاجائے گا۔ لیکن یہ چند روز عوام پر جس دوہری مصیبت کا باعث بنیں گے، اس کا اندازہ شاید سرکاری مرسیڈیز میں گھومنے والوں کو بالکل بھی نہیں ہے۔
محکمہ ٹریفک پولیس جس انداز میں کام کرر ہا ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ چارجڈ پارکنگ پر پابندی کے باوجود شہر میں جگہ جگہ چارجڈپارکنگ محکمے کا منہ چڑا رہی ہیں۔اور ان چارجڈ پارکنگ سے بھی محکمے کو کروڑوں روپے ماہانہ کی آمدنی ہورہی ہے ۔ دوسری طرف نوپارکنگ پر کھڑی موٹرسائیکل اٹھانے کا ٹھیکہ بھی پرائیوٹ انتظامیہ کو دیاگیا ہے، جو دن دگنی اوررات چگنی ترقی کررہاہے۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پرلاکھوں روپے عوام سے ناجائز طریقے سے وصول کیے جارہے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھاجائے تو ملک میں سب سے امیر ترین محکمہ ٹریفک پولیس کا ہی ہے مگر یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ ہی محکمہ ہر وقت فنڈزکی کمی کا رونا روکر اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
ہماری چندموٹرسائیکل سوار شہریوں سے اس سے حوالے سے بات چیت ہوئی جس پر ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ کروڑوں اربوں روپے لوٹنے والے بھاگ گئے اور جو پکڑا گیا وہ ہیلمٹ نہ پہننے والا ہے۔ نوجوانوں میں اس طرح کی سوچ ایک لمحہ فکریہ نہیں توکیا ہے۔آج ملک میں قانون ایک مذاق بن چکا ہے۔
موٹر سائیکل سوار عامر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ سراسرزیادتی ہے۔ پہلے ہی مہنگائی نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے اب یہ ڈراما ہمیں مزید پریشان کرے گا۔ کیوں کہ ہر سال یہ پابندی لگتی ہے اور ہر سال کرپٹ پولیس اہلکار کروڑوں روپے کی کمائی کرتے ہیں۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ موٹرسائیکل سوار اسرار احمد کاکہنا تھا کہ یہ فضول کی پابندی ہے۔ اس پر عوام کبھی بھی عمل نہیں کرسکتے۔ اب آئے روز لڑائی جھگڑے معمول بن جائیں گے ۔ شریف شہری صرف اس جرم میں جیلوں میں رہیں گے کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی یا پھر ان کورشوت نہ دینے پر جھوٹاالزام عائد کرکے جیل بھیج دیاجائے گا۔ اس ملک کے قانون سے کون واقف نہیں۔ یہاں گناہ گار آزاد گھومتاہے اور بے گناہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی گنوا دیتا ہے۔ جن کی شنوائی بھی نہیں ہوتی۔ ایک اور موٹر سائیکل سوار عامرحسین کاکہناتھاکہ یہ پابندی بلاوجہ عوام کوتنگ کرنے کے لیے لگائی گئی ہے۔ کیا ہمارے وزیراعلیٰ کو معلوم نہیں کہ اس پابندی سے کتنے لوگوں کے بینک اکاؤنٹس میں اضافہ ہوگا؟ اورنہ جانے کتنے افراد سٹی کورٹ میں اپنی ضمانتیں کروا رہے ہوں گے صرف اس لیے کہ وہ پولیس اہلکاروں کے سامنے جھکے نہیں تھے۔ کراچی کی پولیس ایک ’’مافیا‘‘کے طورپر جانی جاتی ہے، جوہرکام اپنی مرضی کا کرتی ہے۔ اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ بھلاکیسے ممکن ہے کہ عورت اور بچے ہیلمٹ پہنے۔میری والدہ ایک بزرگ خاتون ہیں وہ میرے ساتھ ہفتے میں ایک بار اسپتال آتی ہیں۔ وہ برقعہ پہن کر کس طرح ہیلمٹ پہنیں گی؟ جب ہم نے کہا کہ اس طرح وہ لوگ آپ کا چالان کردیں گے پھرآپ کیاکریں گے؟ جس پر موٹر سائیکل سوارکاکہنا تھا کہ چالان کردیں کوئی بات نہیں مگر والدہ کوہیلمٹ نہیں پہناسکتا۔ حکومت پابندی لگانا تو جانتی ہے مگر سڑکیں بھی بنائیں ۔جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے اس پر کسی کا دھیان نہیں ‘ بس ایک موٹر سائیکل پر ہیلمٹ ہی نظرآتا ہے۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو پابندی پر اعتراض نہیں مگر اس کے پیچھے جو مقاصد ہیں، ان پر سخت اعتراض ہے۔ عوام کو کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ‘ آج کاشہری پارکنگ اور نوپارکنگ کے چکروں میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈپر کہیں بھی پارکنگ موجود نہیں ‘اورجو پارکنگ موجود ہیں وہ بینک اور دیگر دفاتر کے ذاتی استعمال کی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی شخص نے کسی بینک میں 2منٹ کے لیے بھی جانا ہے تو وہ اس سوچ کے ساتھ نہیں جاتا کہ کہیں موٹر سائیکل نہ اٹھا کر لے جائیں اور بدلے میں 700روپے نہ دینے پڑ جائیں۔ حکومت عوام کو کسی قسم کی سہولت دینے سے قاصرہے۔ ہماری سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں مگراس پر کسی کی توجہ نہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ غیر حاضر ہیں ‘مگر حکومت کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں‘سرکاری دفاتر میں رشوت کابازار گرم ہے وہ بھی حکومت کی سردردی نہیں‘ نادرا کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے مگر مجال ہے کسی کے کان پر کوئی جوں تک رینگ جائے۔ اسی طرح شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں مگر صفائی ستھرائی پر مامور عملہ یا توتنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کام پر نہیں آرہا یا پھر وہ بھی پکے سرکاری ملازم ہوگئے ہیں جو صرف تنخواہ وقت پر مانگتے ہیں باقی کام جب موڈ ہو، تب تک کریں گے۔ شہر کراچی پانی کو ترس رہا ہے مگر وزیراعلیٰ صاحب کو اس پر بھی کوئی پریشانی نہیں۔ شاید ان کے گھر پانی کے ٹینکر پہنچ جاتے ہوں گے اس لیے وہ اس معاملے سے بھی بے غم ہیں۔ پہلے ان مسائل پر توجہ دی جائے ان مسائل کو حل کیاجائے تو پھر عوام بھی اس قسم کی پابندی کو ہنسی خوشی قبول کریں گے۔ ورنہ آج کا نوجوان تو ویسے ہی قانون سے باغی ہوتا جارہاہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کا یہ نوجوان بے روزگاری اور اس قسم کی پابندیوں سے تنگ آکر کوئی دوسرا راستہ نہ اختیار کرلیں۔ ہماری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ پہلے وہ ان مسائل پر توجہ دیں پھر پابندی لگانے کا فیصلہ کریں۔۔۔!!
nn