سلطان بایزید ثانی مجموعی طور پر 32سال تک عثمانی سلطنت کا بادشاہ رہا۔ تاریخ میں اس کو مزاجاً صلح پسند اور جنگ و جدل سے پرہیز رکھنے والے بادشاہ کے طور پر لکھا گیا ہے۔ مگر جس طرح کی عظیم سلطنت سلطان بایزید کے حصے میں آئی تھی اس کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے باپ سلطان محمد فاتح کی عظیم فتوحات کو آگے بڑھاتا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بایزید نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلی کمزوری تو یہ دکھائی کہ ینگ چری فوج کے مطالبات پر ان کے لیے سالانہ مراعات اور خزانے سے مالی امداد منظور کرلی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس وقت کی خانہ جنگی کی کیفیت میں وقت کا تقاضہ ہو، مگر جمشید کے معاملے میں روا رکھے جانے والے سلوک پر اٹلی اور روڈس کے عیسائی حکمرانوں کے آگے یوں خاموشی سے سر تسلیم خم کردینا اور کسی قسم کا تعرض نہ کرنا میری نظر میں سوائے بزدلی اور کم فہمی کے کچھ نہیں تھا۔
اس کا سب سے جانباز سپہ سالار احمد قیدوق پاشا جو نہ صرف اچھا منتظم تھا بلکہ فوج میں بھی نہایت مقبول تھا، پراٹرانٹو کے محاذ پر کامیاب جنگی کارروائی نے اس کی بہادری پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ بایزید چاہتا تو اس سے فتوحات کے سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا تھا، لیکن بایزید نے اپنے اس باصلاحیت سپہ سالار کے ساتھ بہت برا رویہ رکھا۔ اور جب احمد قیدوق پاشا نے بادشاہ کو توجہ دلائی کہ اس کی پالیسی عثمانی سلطنت کے مفاد میں نہیں ہے تو اس کو قید کروا دیا۔ چونکہ احمد قیدوق فوج میں بہت مقبول تھا اس لیے فوج نے بادشاہ کے اس فیصلے پر اپنی شدید ناراضی کا اظہار کیا اور بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ مجبور ہوکر بایزید نے سپہ سالار کو رہا کرکے فوج کے حوالے کردیا، مگر اس کے بعد فوج کو سرحدی علاقوں کے دور افتادہ مقام پر کسی مہم پر روانہ کردیا گیا۔ دارالحکومت فوج سے خالی ہوچکا تھا۔ بایزید نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے اس اہم سپہ سالار کو ایک مرتبہ پھر قید کرلیا اور قید کے دوران ہی قتل کروا دیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کا یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا۔
مصر کے مملوکی حکمران ایشیائے کوچک کے علاقوں پر حملے کرتے رہے اور سلطنتِ عثمانی ان کو روکنے میں ناکام رہی۔ مملوکی حکمرانوں نے کئی سرحدی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔ ان مملوکیوں سے سلطان بایزید نے امن معاہدے بھی کیے اور مقبوضہ علاقے مملوکیوں کے پاس ہی رہے۔ تاہم اتنا ضرور ہوا کہ سلطان نے ان کو مجبور کیا کہ ان علاقوں کی آمدن حرمین شریفین کے اخراجات اور حجاج کی بہبود پر خرچ کی جائے گی۔
سلطان بایزید نے اپنے دورِ حکومت میں بحری فوج کو بہت ترقی دی اور مستحکم کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے اپنے بھائی جمشید اور عیسائی حکمرانوں کی جانب سے یہ خطرہ تھا کہ وہ کسی بھی وقت عثمانی سلطنت پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ روڈس، اٹلی اور دیگر مملکتوں سے امن معاہدے بھی کیے۔
یہ وہی دور تھا جب شہزادہ جمشید ڈی آبسن کی قید میں تھا اور اندلس کے مظلوم مسلمانوں اور شاہ غرناطہ نے اندلس کو بچانے کے لیے سلطان بایزید ثانی سے مدد کی درخوا ست کی تھی۔ سلطان نے اسپین میں غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ کی مدد کی درخواست پر پہلے تو کوئی خاص توجہ نہ دی، پھر بہت تذبذب کا مظاہرہ کرنے کے بعد نہایت معمولی بحری بیڑہ امیرالبحر کمال رئیس کی قیادت میں اسپین کی جانب روانہ کیا جس میں چند بحری کشتیاں اور دو درمیانے درجے کے جنگی جہاز شامل تھے۔ یہ مدد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق تھی۔ ڈوبتے ہوئے غرناطہ میں اسلامی حکومت کا چراغ گل ہونے کو تھا۔
آخرکار 892ھ بمطابق 1492ء میں اسپین میں آخری مسلم ریاست غرناطہ کے حکمران ابوعبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے عیسائی حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اسپین کی آخری ریاست غرناطہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی۔
اس سقوط کے بعد معاہدے میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن عیسائی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کردیا گیا۔ مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایا گیا، جنہوں نے اس سے انکار کیا انہیں جلاوطن کردیا گیا۔
ہاں یہ ضرور ہوا کہ جب سلطان بایزید کو جمشید کے مرنے کی خبر ملی اور وہ عثمانی سلطنت پر عیسائیوں اور جمشید کے ممکنہ حملوں سے بے خوف ہوا تو اس نے یونان، اٹلی اور وینس کے جزیروں پر بحری حملے شروع کیے۔ اس کا سبب بھی میری نگاہ میں یہ تھا کہ بایزید اپنی ینگ چری فوج کو مصروف رکھنا چاہتا تھا۔
اس کے علاوہ ہرزیگووینا کی ریاست جو محمد فاتح کے دور سے عثمانی سلطنت کی باج گزار تھی، سلطان بایزید نے اسے مکمل فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ ہنگری اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن فتح کی نوبت نہ آسکی اور بالآخر صلح ہوگئی۔ بایزید کے دور میں چھوٹے بڑے کئی بحری معرکے بھی ہوئے اور 1498ء میں وینس سے ہونے والی جنگ میں ترکوں نے تین قلعے فتح کیے۔
بایزید کے دور میں ہی ترکی اور مصر کی دشمنی کا آغاز ہوا۔ مملوکوں سے دشمنی کی وجہ تو یہ تھی کہ مصر کے مملوکی حکمرانوں نے جمشید کی حمایت کی تھی، دوسری وجہ مملوکوں کا ایشیائے کوچک کے علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔ جبکہ مشرقی سمت ایران میں صفوی حکومت کے قیام سے عثمانی سلطنت میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ ایرانی صفوی حکمران سرحدی علاقوں میں مستقل شورشیں برپا کررہے تھے۔
بایزید نے ہی سقوطِ غرناطہ کے بعد وہاں سے نکالے گئے مسلمانوں اور یہودیوں کو بچانے کے لیے امیرالبحر کمال رئیس کی زیر قیادت کئی بحری مہمات بھیجیں، جنہوں نے ہزاروں مسلمانوں اور یہودیوں کی جانیں بچائیں۔
بایزید کا خاتمہ بھی عجب انتشار و افتراق کے عالم میں ہوا۔ سلطان بایزید ثانی کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے پانچ اوائل عمری میں وفات پاگئے، باقی تین بیٹے احمد، سلیم اور قرقود تھے۔ قرقود سب سے بڑا تھا جبکہ سلیم سب سے چھوٹا تھا۔ اقتدار کی طلب تینوں بھائیوں کو آمنے سامنے لے آئی اور بیٹوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ قرقود اور احمد ایشیائے کوچک میں عامل و فرماں روا تھے۔ جانشینی کے لیے سلطان کی نظر انتخاب دوسرے بیٹے احمد پر تھی لیکن چھوٹا بیٹا سلیم فوجی قابلیت کا حامل تھا اور فوج میں زیادہ اثر رسوخ رکھتا تھا جس کی بناء پر فوج اس کی پشت پر تھی۔ سلیم اپنے باپ کی نیت سے باخبر تھا۔ فوج سے سازباز کرنے کے بعد شہزادہ سلیم طرابزون سے قسطنطنیہ روانہ ہوا۔ بایزید کو جب شہزادہ سلیم کی آمد اور ارا دوں کا اندازہ ہوا تو سلطان نے اسے واپس جانے کا حکم دیا، لیکن طاقت کے نشے میں چُور سلیم اپنے باپ یعنی سلطان بایزید سے جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔ سلطان اور شہزادے کے درمیان جنگ ہوئی جس میں شہزادہ سلیم کو شکست ہوئی اور اس نے جان بچانے کے لیے کریمیا جانے کا قصد کیا، اور یہی اس کے لیے بہتر تھا، کیونکہ کریمیا کا فرماں روا شہزادہ سلیم کا سسر تھا۔ سسر کی مدد سے سلیم دوبارہ قسطنطنیہ آیا اور فوج کی مدد حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے باپ سے سلطنت سے دست برداری کا مطالبہ کردیا۔
فوج نے بایزید کا محاصرہ کرلیا۔ فوج کے عزائم دیکھتے ہوئے سلطان بایزید نے 1512ء میں سلیم کے حق میں دست بردار ہونے کا فیصلہ کرلیا اور تخت چھوڑ دیا۔ پھر زندگی کے بقیہ ایام ایشیائے کوچک کے شہر ڈیموٹیکا میں گزارنے کی خواہش لے کر سفر کا آغاز کردیا، لیکن وہاں تک پہنچ ہی نہ سکا اور تین دن بعد راستے میں ہی انتقال کیا۔ سلیم نے اس کی میت استنبول منگوائی اور بایزید مسجد کے پہلو میں دفن کیا۔
سلطان سلیم اول (مقب بہ وز) بن سلطان بایزید ثانی نے اپنے والد بایزید ثانی کو تخت سے اتارا اور خود حکومت سنبھالی۔ شاہی رسم و رواج کے مطابق اس نے تخت سنبھالتے ہی اپنے تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کرڈالا تھا۔
سلطان سلیم اوّل (مقب بہ وز) بن سلطان بایزید ثانی عثمانی سلطنت کا نواں فرماں روا اور پہلا امیرالمومنین کہلایا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ آخری عباسی خلیفہ محمد المتوکل الثانی نے سلطان سلیم اول کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسے خلیفہ تسلیم کیا۔
سلطان سلیم اول نے عثمانی سلطنت کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی طرف بہت سے علاقوں کو فتح کیا اور ایران کے صفوی بادشاہ کو بارہا مختلف معرکوں میں شکست سے دوچار کیا، جس کی وجہ سے اس کو بہ وز یعنی شکرا بھی کہا جاتا ہے بمعنی: تیز و ظالم
اس نے جنگِ مرج دابق اور جنگِ ردانیہ میں مملوکوں کو شکست دے کر شام، فلسطین اور مصر کو عثمانی قلمرو میں شامل کیا۔ مملوکوں کی اس شکست سے حجاز اور اس میں واقع مکہ و مدینہ کے مقدس شہر بھی عثمانی سلطنت کا حصہ قرار پائے۔ اس فتح کے بعد قاہرہ میں مملوکوں کے زیرنگیں آخری عباسی خلیفہ المتوکل ثالث سلیم اول کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگیا اور یوں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہوگئی۔ اس طرح مسلمانوں کی خلافت کا مرکز قسطنطنیہ اور عثمانی سلطنت قرار پایا۔
سلطان سلیم اول نے ایران کے شاہ اسماعیل اوّل کو جنگِ چالدران میں بدترین شکست دی اور صفویوں کے دارالحکومت تبریز پر بھی قبضہ کرلیا، تاہم اس نے دانستہ طور پر ایران کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا۔کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ سلطان سلیم کی اہلِ تشیع سے شدید نفرت تھی، اور چونکہ ایران میں اہلِ تشیع کی اکثریت تھی لہٰذا سلطان سلیم ایران کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے پر رضامند نہیں ہوا۔
اپنے دورِ حکومت میں سلیم نے عثمانی سلطنت کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر سے 65 لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچادیا۔
عباسی خلفاء کے دور میں خلیفہ کو حاکم الحرمین الشریفین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن سلطان سلیم نے اس کی جگہ خادم الحرمین الشریفین کہلانے کا فرمان جاری کیا۔
1520 عیسوی میں سلطان سلیم بن بایزید ثانی روڈس کے عیسائی بادشاہ کی سرکوبی کے لیے اپنے لشکر کو تیار کررہا تھا کہ داعئ اجل کا بلاوا آگیا، اورجب سلطان سلیم اول بن بایزید ثانی بہ وز قسطنطنیہ سے اورنا کی جانب عازم سفر تھا کہ راستے میں ہی انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت سلطان سلیم کی عمر 54 سال تھی۔ اس کا عہدِ اقتدار نو سال کے عرصے پر محیط رہا۔ سلطان سلیم کا دور اِس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ وہ عباسی خلافت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کا پہلا عثمانی امیرالمومنین قرار پایا۔
( جاری ہے )