ملک اور اپنی قوم کی تاریخ کا مطالعہ کسی نہ کسی درجے میں ضرور عبادت کا درجہ رکھتا ہوگا۔ ماضی کو سمجھے بغیر حال کو کیسے جانا جاسکتا ہے اور مستقبل کے حوادث سے بچنے کے لیے کیسے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے؟ کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو بار بار دہراتی ہے چاہے تلوار کی جگہ تجارت حاصل کرلے لیکن پیکرِِ ظاہر کے اندر وہی روح کام کررہی ہے یعنی ہوسِِ ملک گیری اور کمزور کی کمزوری کو اپنے عیش و نشاط کا سامان بنانا۔۔۔ چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کی غذا بن رہی ہیں۔
9/11 کے بعد زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے، انسانی اقدار حیرت انگیز تبدیلیوں سے دوچار ہورہی ہیں، لیکن ایک قدر جو کبھی نہیں بدلی جاسکے گی اور ہمیشہ سے اپنی جگہ اٹل ہے وہ یہ کہ غیرت مند اور جرأت مند اقوام کسی کے آگے سر نگوں ہونا پسند نہیں کرتیں، وہ زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں مگر غلامی کی زنجیریں پہننا پسند نہیں کرتیں۔
انسانی تاریخ حق اور باطل کے معرکوں کی تاریخ ہے اور اس بات کی شہادت بھی کہ مجبور اور مظلوم انسانوں نے کسی سہارے کو تلاش کرنے کے بجائے اپنے لہو سے آزادی کے دیپ جلائے اور مؤرخ کو یہ پیغام دیا کہ ’’انقلاب باہر سے نہیں اندر سے آتا ہے۔‘‘
مسلمان فاتحین کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اُن کی تلواریں کبھی ہوسِ ملک گیری کے لیے نیام سے باہر نہیں آئیں، نہ دادِ شجاعت کے لیے انہوں نے سروں پر کفن باندھا۔۔۔ بلکہ انصاف کے لیے ترستی ہوئی اقوام کو اُن کا حق دلانے کے لیے خود کو میدانِ جنگ کے حوالے کیا، اس لیے کہ مسلمان کا ضمیر ہمیشہ مساوات، اخوت اور انسانی برادری کے تحفظ جیسے قیمتی جذبات سے گندھا ہوا ہوتا ہے۔ مسلمان ہونے کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ظلم جہاں کہیں اور جس روپ میں ہو، اس کا استیصال ان کا فرضِ منصبی ہے۔
رہی وطن کی محبت، تو یہ رشتہ ہر انسان کے رگ و پے میں سرایت کیے رہتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی یہ رشتہ وفا کا امتحان مانگتا ہے۔ جب میڈیا کی سرحدوں پر ہنگامہ بپا ہو اور ریاست ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کررہی ہو، کہیں دور سے طبلِ جنگ بجنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہوں، میڈیا بھی ریٹنگ بڑھانے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہو، سرحد کے اُس پار پارلیمان ہو یا عسکری قیادت، اخبارات و رسائل ہوں یا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا۔۔۔ ان کا بیانیہ یہ ہو کہ ’’دشمن (پاکستان) ایک دانت توڑے تو اُس کا پورا جبڑا توڑنا ہوگا‘‘۔ لوگ خوف میں مبتلا ہوں کہ ایٹمی جنگ چھڑنے کو ہے، کشتے کے پشتے لگنے کو ہیں اور پاکستان (دشمنوں کے منہ میں خاک) دنیا کے نقشے سے مٹنے کو ہے، پاکستان تنہائی کا شکار ہے، پاکستان دہشت گرد ہے، بلوچستان کی آزادی قریب ہے، کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔۔۔ اعلامیے پر اعلامیے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت نے تحریکِ آزادئ کشمیر میں جو روح دوڑا دی ہے وہ خودساختہ اڑی حملے کرا رہی ہے اور کشمیریوں کا حوصلہ اتنا کہ برہان مظفر وانی شہید کے والد کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے بعد بھی میرے بیٹے کو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ اس ایک ہیرو نے بھارت پر بدحواسی اور کپکپاہٹ طاری کررکھی ہے۔ اب دنیا کی توجہ کشمیر سے نہیں ہٹائی جاسکتی۔ اہلِ کشمیر نے بلا مبالغہ ان چراغوں کو اپنے لہو سے روشن کیا ہوا ہے، مگر اس حساس موقع پر سوال یہ ہے کہ ہماری حب الوطنی ہم سے کیا تقاضا کررہی ہے؟ کیا یہ وقت ہے نوجوانوں کو ’’کوک اسٹوڈیو‘‘ میں منہمک رکھنے کا؟ یا یہ وقت ہے اُن کے جذبوں کو گرمانے، انہیں مثبت سوچ دینے اور پاکستان کی تکمیل کی خاطر (مقبوضہ کشمیر تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے) سب کچھ قربان کرنے کے جذبے بیدار کرنے کا؟ یہ وقت ہے کہ نوجوانوں کو طاؤس و رباب کی غفلت اور جہالت سے نکالا جائے اور انہیں کہکشاں سے زیادہ درخشاں ان کے روشن ماضی سے روشناس کرایا جائے، کیونکہ تاریخ کے آئینے کو سامنے رکھے بغیر ہم ماضی کی یاد کو مستقبل کی امنگوں میں تبدیل نہیں کرسکتے۔
آیئے تاریخ سے کچھ گرد جھاڑئیے۔ یہ 75 ہجری ہے اور یہ زین بن عامرؒ ہیں۔ 80 برس ان کی عمر ہے، وہ جوانی کا شہہ سوار جو ایران میں کسریٰ اور شام و فلسطین میں قیصر کی سلطنت کو پامال کرنے والی فوج کا حصہ تھا، جب ضعیفی نے بازو اس قابل نہ چھوڑے کہ تلوار اٹھا سکے تو تبلیغ کا راستہ اپنایا۔ مکتب میں تدریس شروع کی۔ وہ دن الوداعی جلسہ کا دن تھا۔ طلبہ فارغ التحصیل ہورہے تھے۔ ابن عامر والئ بصرہ کی موجودگی میں الوداعی خطبے میں کہتے ہیں:
’’نوجوانو! اب تمہارا حوادث کی دنیا میں قدم رکھنے کا وقت آپہنچا ہے، زندگی ایک مسلسل جہاد ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا مبارک ترین فعل یہ ہے کہ وہ اپنے آقاؐ کی محبت میں اپنی جان تک پیش کردینے سے دریغ نہ کرے۔ جب تک اس مقدس جذبے سے تمہارے دل سرشار رہیں گے، تمہیں اپنی دنیا و آخرت دونوں روشن نظر آئیں گی۔ یاد رکھو جب اس جذبے سے تم محروم ہوجاؤ گے تو دنیا میں تمہارا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا اور آخرت بھی تمہیں تاریخ نظر آئے گی، کمزوری تمہارا دامن اس طرح پکڑ لے گی کہ تم ہاتھ پاؤں تک نہ ہلا سکو گے۔ کفر کی وہ طاقتیں جو مجاہدوں کے راستے میں ذرّوں سے بھی زیادہ ناپائیدار ہیں، تمہیں پتھر کی مضبوط چٹانیں دکھائی دیں گی۔ دنیا کی عیار قومیں تمہیں مغلوب کرلیں گی، تم غلام بنا دئیے جاؤ گے، تم اُس وقت بھی خود کو مسلمان تصور کرو گے لیکن تم اسلام سے کوسوں دور ہوگے۔ یاد رکھو صداقت پر ایمان لانے کے باوجود اگر تم میں صداقت کے لیے قربانی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی تو یہ سمجھ لینا کہ تمہارا ایمان کمزور ہے۔ ایمان کی پختگی کے لیے آگ اور خون کے دریا کو عبور کرنا ضروری ہے، جب تمہیں موت زندگی سے عزیز نظر آئے تو یہ سمجھنا کہ تم زندہ ہو، اور جب تمہارے شوقِ شہادت پر موت کا خوف غالب آجائے تو تمہاری حالت اُس مُردے کی سی ہوگی جو قبر کے اندر سانس لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔‘‘
سچ ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ آج صدیوں بعد ابنِ عامرؒ کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ حق و باطل کی جنگوں کی چالیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں اور مزاج بھی اور غیرت کے امتحان بھی۔ کیا آج ابنِ عامرؒ زندہ ہوتے تو کشمیر کے مظالم پر یہی الفاط نہ کہتے ’’مسلمانو! میں حیران ہوں کہ سندھ کے راجا کو ہماری غیرت کے امتحان کی جرأت کیونکر ہوئی! اس نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ مسلمان خانہ جنگیوں کے باعث اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی بہو بیٹیوں کی توہین خاموشی سے برداشت کرلیں گے۔ مجاہدو! یہ تمہاری غیرت کے امتحان کا وقت ہے، میرا یہ مطلب نہیں کہ تم اپنے دل میں انتقام کا جذبہ لے کر اٹھو۔ لیکن راجا داہر نے چند مسلمانوں کو قید کرکے ہمیں سندھ کے لاکھوں انسانوں کو اس کے آہنی استبداد سے نجات دلانے کی دعوت دی ہے۔ مجاہدو! اٹھو اور فتح و نصرت کے نقارے بجاتے ہوئے ہندوستان کی آخری حد تک پہنچ جاؤ۔‘‘
(داستانِ مجاہد، نسیم حجازی صفحہ 68)
آج ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے نوجوانوں سے بینائی چھین کر یقیناًہماری بھی غیرت کا امتحان لیا ہے۔ 5 فروری کو ہاتھوں کی زنجیر بنانے والے عملاً کیا قربانی دیتے ہیں؟
فیس بک اور ٹوئٹر کی دنیا کے نوجوان کیسے جان سکتے ہیں کہ تیر اندازی، نیزہ بازی اور شہ سواری کیا چیز ہوتی ہے۔ جم جانے والوں کے بازوؤں میں ضرور قوت ہوتی ہے مگر دل میں وہ جرأت کون پیدا کرے کہ وہ اس قوت سے ظالم سے مظلوم کو اُس کا حق دلوائیں؟
حضرت خالد بن ولیدؓ، ابوعبیدہؓ، سعد بن وقاصؓ، طارق بن زیادؒ ، محمد بن قاسمؒ ، محمود غزنویؒ ، شہاب الدین غوریؒ کے تذکرے اب بھی کتابوں میں موجود ہیں، لیکن تاریخ کی کتابوں میں۔۔۔ اور ہماری یہ تاریخ نہ درسی کتب بتاتی ہیں نہ میڈیا، نہ ہم مائیں ہی اپنی نسلوں کو مسلمان فاتحین کی تاریخ کے یہ روشن باب دکھاتی ہیں۔ ہمیں تو ڈرایا جاتا ہے کہ آئی ایِِم ایف نے قرضہ بند کردیا تو کیا ہوگا؟ ورلڈ بینک نے آنکھیں چرا لیں تو ہم کیا کھائیں گے؟ امریکا ناراض ہوگیا تو پتھر کے دور میں پہنچا دے گا، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار نہ دیا تو وقت کی ناٹو فورسز سے کون نمٹے گا؟ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے نے ہماری آنکھوں پر کچھ ایسی پٹی باندھی کہ ہمیں مقبوضہ وادی کے امراضِِ چشم کے اسپتال کے وہ مناظر نظر ہی نہیں آتے جہاں نوجوانوں اور بچوں کے آپریشن پر آپریشن ہورہے ہیں، ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں یا سیاہ چشمے لگے ہوئے ہیں۔ ڈیٰڑھ ہزار لوگ بینائی سے مکمل محروم ہوچکے ہیں۔ والدین افسردگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، اپنے بچوں کی بینائی چلے جانے اور ان کا مستقبل تاریک ہونے پر۔۔۔ مگر بینائی سے محرومی پر بھی وہ مایوس نہیں، کہ اگر پیلٹ گنوں کے استعمال سے ان کی بینائی سے محرومی بھارتی قیادت کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں۔
محرم الحرام کی آمد۔۔۔ شہیدانِ کربلا کے تذکرے۔۔۔ کاش ہم دیکھ سکتے کہ خونیں لکیر کے اُس پار ہر شہر کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ کا سخت ترین کرفیو، شاہراہوں اور پلوں کو خاردار تاروں سے ڈھانپ دیا گیا ہے، وہ مظالم جو اسرائیل غزہ میں کرنے سے ہچکچاتا ہوگا، بھارتی فوج بے دھڑک کر گزرتی ہے۔ وادی کے ہر گھر میں بلا اجازت فوجی داخل ہوجاتے ہیں کہ اُن کے خیال میں ہر گھر دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے، جس کو چاہیں اٹھا کر لے جائیں اور اجتماعی جیلوں میں ڈال دیں، تعذیب کا جو چاہیں انداز اختیار کریں۔ لیکن ان کے پنجرے شاہین سے قوتِ پرواز چھیننے میں ناکام ہیں، جونہی موقع ملتا ہے دوبارہ چٹانوں کی چوٹیوں کا رُخ کرتے ہیں اور پھڑپھڑانا شروع کردیتے ہیں۔ ماؤں کی کوکھیں برابر مجاہدوں کو جنم دے رہی ہیں، ان کو یقین ہے کہ قوموں کی زندگی میں 50 اور 60 سال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، کیونکہ قیام پاکستان کی بنیاد 1857ء کی جنگِ آزادی میں رکھی گئی اور عملاً 90 برس بعد اس کا قیام عمل میں آیا۔ نصف صدی سے وہ اسی آس پر جی رہے ہیں اور پُرامید نظروں سے ہماری سمت دیکھ رہے ہیں۔ اب جب کہ بھارت نے ہمیں للکارا ہے کہ ان کے ساتھ وفا کی ہمیں قیمت ادا کرنا ہوگی، ہمارے پاس دینے کو کیا کیا ہے؟ اور اس قربانی کے لیے کیا تیاری کی ہے ہم نے؟ کتنے سچے ہیں ہم اپنے ایمان کی صداقت میں، وقت ہم سے گواہی طلب کررہا ہے۔ چناروں کے اُس پار شفق کی لالی نے اُفق پر تحریر کیا ہے:
وفا تو کانٹوں کی سرزمیں ہے، یہاں وہی جاں نثار آئے
سکوں میں جس کو بے کلی ہو، تڑپ میں جس کو قرار آئے
وفا کے ایوانِ مرمریں پر جَلی قلم سے لکھا ہوا ہے
یہاں وہی سرفراز ہوگا جو سر کی بازی بھی ہار آئے