اپنا سفری سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھتے ہی میں نے اسپورٹس سوٹ زیب تن کیا اور ہلکی پھلکی ورزش کے لیے ہوٹل کے فٹنس کلب کی طرف چل دیا۔ جاگنگ مشین پر دوڑتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ والی مشین پر ایک عمر رسیدہ امریکی مہمان نظر آرہا تھا، میری عمر کے مقابلے میں تو اچھا خاصا ضعیف تھا۔ کچھ تعارفی کلمات کے بعد ایک دوسرے کے مشاغل اور دوسرے اُمور پر بات چیت ہوئی۔ ہم دونوں میں کئی مشاغل، عادات اور قدریں مشترک تھیں اِس لیے گفتگو کافی دل چسپ رہی۔
ہوٹل سے باہر آتے جاتے اکثر اُس سے ملاقات ہوتی تھی۔ ایک بات جو مجھے شدت کے ساتھ محسوس ہوتی تھی وہ اس امریکی بڈھے کا ہربار مجھے دیکھ کر ایک خاص انداز سے مسکرانا تھا، پتا نہیں اس کی مسکراہٹ کے پیچھے کیا راز تھا؟
آخری دن میں اپنا سامان باندھ کر نیچے اتروا کر استقبالیہ پر گیا، چیک آؤٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد لابی میں بیٹھنے کے لیے مڑا تو پہلے سے وہاں بیٹھے اُس بوڑھے پر میری نظر پڑ گئی جو دیکھتے ہی مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ اُس نے مجھے کافی کی دعوت دی۔ چونکہ فی الوقت مجھے فرصت اور میرے پاس کافی فارغ وقت تھا اس لیے میں نے یہ پیش کش بہ خوشی قبول کرلی۔
اس بار میں نے چھوٹتے ہی اس سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا کہ:
’’کیا میں آپ کی اس مسکراہٹ کا راز جان سکتا ہوں جو ہر بار مجھے دیکھ کر آپ کے چہرے پر آئی ہے؟‘‘
اُس نے ہنستے ہوئے جواب دیا: ’’میں نے جب بھی تمہیں دیکھا، مجھے اپنی جوانی یاد آگئی۔
میں نے اپنی زندگی کے بیشتر قیمتی سال اپنے کاروبار کی بہتری اور ترقی میں لگا دیے۔ کاروبار خوب پھلا پھولا۔ جب ہر طرف سے فارغ ہوا اور اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑاتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ میں نے فوائد سے زیادہ ایسے نقصانات کیے ہیں جن کا تدارک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں مگر میں نے بہت کچھ کھو کر بھی ایک سبق ضرور حاصل کیا ہے جس کو تم چاہو تو ایک بوڑھے کی نصیحت کا نام دے سکتے ہو۔‘‘
اُس نے مجھے کہا: ’’تم میرے ساتھ چلو، آج کا دن میں ایک یاٹ پر گزارنا چاہ رہا ہوں، مزید باتیں وہیں پر کریں گے۔‘‘
مجھے اپنے چند اہم کام نمٹانے تھے جن کی وجہ سے میں یہاں آیا تھا اس لیے مجھے معذرت کرنا پڑی۔ اُس نے پھر کہا: ’’چلو آج شام کا کھانا کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھاتے ہیں‘‘۔ مگر میرا پروگرام پہلے سے طے تھا کہ آج کا کھانا اُس کمپنی کے لوگوں کے ساتھ کھاؤں گا جن سے ڈیل کرنے کے لیے میں اِدھر آیا تھا۔ اس طرح مجھے اُس بوڑھے کی اس دعوت سے بھی معذرت کرنا پڑی۔
تاہم اُس کی باتوں میں میرا تجسس اپنی جگہ برقرار تھا جو میں چھپا نہ سکا اور اُسے کہا کہ وہ اگر مہربانی کرے تو اپنی حکمت و دانائی والی بات مجھے یہیں بتا دے۔
اس بار وہ یوں گویا ہوا: ’’ہر انسان اپنی زندگی میں تین مراحل سے گزرتا ہے اور تین چیزوں کے حصول کے لیے تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔
جوانی میں اُس کے پاس کوئی کام نہ ہونے یا کام کی زیادتی نہ ہونے کی وجہ سے وقت اور فراغت کی کمی نہیں ہوتی، جوانی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے لیے اُس کے پاس جوش، طاقت اور ہمت بھی وافر ہوتی ہے مگر اُس کے پاس پیسہ اور وسائل نہیں ہوتے جس سے وہ سیروسیاحت پر نکل سکے یا اپنے لیے ایک گاڑی یا ایک گھر خرید سکے‘ جن کی وہ خواہش اور تمنا کرتا ہے اور ان وسائل کے سہارے اپنی جوانی سے بھرپور استفادہ اور ہر دن عید اور ہر رات شبِ برأت جیسے سماں کے ساتھ گزار سکے۔
اس کے بعد انسان دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے، جب وہ ایک پختہ مرد بن چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں وہ کام کاج یا تجارت وغیرہ میں گِھر کر رہ جاتا ہے تاکہ ایک اچھے مستقبل، اپنے اور اپنے کنبے کے لیے محفوظ وسائل جمع کرسکے۔ اس مرحلے میں بھی طاقت‘ ہمت اور امنگیں قائم و دائم ہوتی ہیں مگر اُس کے پاس اب ان سب کاموں کے الیے وقت نہیں ہوتا، ایسا وقت جس کو وہ اپنی ذات یا اپنے کنبے کے ساتھ لذت و فرحت سے گزار سکے۔ کیونکہ وہ اپنے کاموں یا اپنی تجارت اور اس سے جڑے سفر میں پھنس چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کئی قربانیاں دیتا ہے جنہیں وہ اپنے اچھے مستقبل کے نام کررہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان اپنی زندگی کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ تب پیرانہ سالی اس پر غالب آچکی ہوتی ہے۔ اب اس کے پاس مال و دولت کے ساتھ وقت کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ وہ مال و دولت جو اُس نے اپنی راحت و آسائش، ایک اچھے اور محفوظ مستقبل اور اُن خوابوں کی تکمیل کے لیے جمع کیا ہوتا ہے جو وہ اپنی جوانی میں دیکھا کرتا تھا۔ مگر۔۔۔
اب اُسے پتا چلتا ہے کہ اب تو اُس کی ہمت اور نشاط گہنا چکی ہے جو اُس کی جوانی میں اُس کے پاس ہوا کرتی تھی۔
اب اُس کے اندر سفر و سیاحت کا شوق دَم توڑ چکا ہوتا ہے۔ ایک نئی چمچماتی ہوئی کار لینے کی خواہش، ایک نئے خوب صورت اور پُرتعیش گھر کا تصور ناپید یا بے مزا ہوچکا ہوتا ہے۔
اس مرحلے میں انسان اپنی اولاد کو ڈھونڈنا چاہتا ہے جن کے ساتھ وہ بیٹھک جما سکے، جن کے ساتھ کسی سفر پر نکل سکے، جو اُس کے ساتھ میل جول اور معاشرت رکھیں، اُس سے ملنے کے لیے آئیں، اُس کے ساتھ اپنا وقت بِتائیں۔ مگر اُسے پتا چلتا ہے کہ وہ تو جوان ہوکر اپنی اپنی راہوں پر چل نکلے ہیں۔ ایک بوڑھے کے ساتھ بیٹھ کر بے لذت شامیں گزارنے یا غُل غپاڑا کیے بغیر محفلیں جمانے کی اُن کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اُن کی اپنی الگ دُنیا ہوتی ہے جس میں لذت و نشاط، ہمت و طاقت اور عیش و فرحت کی کہانیاں ہوتی ہیں۔
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ انسان اپنی زندگی کے اس مرحلے میں پہنچ کر یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ اپنے دوست بھی کھو چکا ہے۔ وہ دوست جن کو اُس نے اپنی مشغولیت اور پیسہ جمع کرنے کی دُھن میں قابل توجہ نہیں جانا، یا پھر اُس کے پاس اُن کے لیے اُس زمانے میں کوئی وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب اسے احساس ہوتا ہے کہ اُس کا جمع کیا ہوا یہ پیسہ نہ اُس کے وہ دن واپس لوٹا سکتا ہے جب اُس کی اولاد خواہش کرتی تھی کہ اُن کا باپ اپنا کچھ وقت اُن کے ساتھ بِتائے، اُنہیں سیروتفریح پر لے جائے، زیادہ دور نہ سہی‘ بس اُنہیں زندگی کی اس بے لذتی سے نکالے۔
اُسے اب احساس ہوتا ہے کہ اُس کا یہ مال تو اب اُس کی صحت بھی واپس نہیں لوٹا سکتا جب کہ فشارِ خون اور ذیابیطس کو ڈاکٹر بھی اس عمر میں کوئی اچھوتا مرض شمار نہیں کرتے۔ کمزوری، تھکن اور ہڈیاں دُکھنا تو بالکل ہی طبعی امراض قرار پاچکے ہوتے ہیں۔
اس طرح میں نے اپنی زندگی سے یہ تجربہ نکالا ہے جو میں تمہیں نصیحتاً کہنا چاہتا ہوں کہ:
اگر تم اپنے چند ہزار روپوں میں بھی چاہو تو اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ سکھ اور چین کی پُرلطف اور پُرمسرت زندگی گزارنے کا سوچ سکتے ہو، بجائے اس کے کہ جب تمہارے پاس لاکھوں اور کروڑوں روپے تو جمع ہوچکے ہوں گے مگر اُس وقت تم میری طرح حسرت و یاس کی تصویر ایک بڈھے بن چکے ہوگے۔‘‘