عابد علی جوکھیو

317

کچھ ادھر کچھ ادھر عابد علی جوکھیو
13130ھارت کا جنگی جنون
پانی بند کرنے کی دھمکی کو ہم اعلانِ جنگ سمجھتے ہیں اور بھارت نے جس دن پانی بند کرنے کی کوشش کی اسی دن جنگ شروع ہوجائے گی، بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی غلطی کی تو بکھر جائے گا اور اس کا نام و نشان زمین پر نہیں رہے گا، پاکستان اسلامی نظریاتی مملکت ہے جس کے دفاع کو ہم مقدس جہاد سمجھتے ہیں۔ بھارت نے مہم جوئی کی تو 1965ء سے بری شکست اس کا مقدر بنے گی۔
(سراج الحق، امیر جماعت اسلامی)
’سرجن‘ نریندر مودی کی ’سرجیکل‘ اسٹرائیک۔۔۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں اڑی کے مقام پر واقع بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر مسلح افراد کے حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں سب سے زیادہ دہرائی جانے والی ترکیب تھی۔۔۔ ’سرجیکل اسٹرائیک‘
حملے کے اگلے روز ہی بھارتی میڈیا نے یہ خبر چلا دی کہ بھارت نے آخر پاکستان کو سبق سکھانے کے فیصلے پر عمل درآمد کردیا اور ایک سرجیکل اسٹرائیک میں 10 دہشت گردوں کو مار گرایا گیا۔ اس خبر کا چلنا تھا کہ بھارت میں ہر طرف داد و تحسین کے غلغلے بلند ہونے لگے، وہ دھماچوکڑی کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میڈیا اب جنگی رہنمائی کا فریضہ بھی اپنے ذمہ لیے ہوئے تھا۔ بحث جاری تھی کہ یہیں رک جایا جائے یا پھر سزا کے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
کہاں تو اس قدر شور اور پھر اچانک ایک گہرا سکوت طاری ہوگیا۔
بھارتی فوج نے اس نوع کے کسی بھی واقعے کی تصدیق سے انکار کردیا۔ اب بغلیں بجانے کے بجائے بغلیں جھانکنے کا سفر شروع ہوا۔ ہر کوئی یہی پوچھتا پھر رہا تھا کہ آخر یہ خبر جاری کہاں سے ہوئی؟ اس کی تصدیق کیوں نہیں کی گئی؟ اس کا سورس کیا یا کون تھا؟ وغیرہ۔
(عاصم اللہ بخش)
خدا کرے!!!
بھارتی ڈی جی ایم او کا دعویٰ سن کر ہنسی آتی ہے، ٹینشن اپنے عروج پر ہو، بھارتی سینا آئے اور پھر واپس بھی اپنے پیروں پر جائے، سجیلے جوان ابھی اتنے گئے گزرے بھی نہیں۔۔۔ ہمیں ان کی بہادری، شجاعت اور جذبے پر دو سو فیصد یقین ہے۔
لیکن
تردید کی پاکستانی تاریخ بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔۔۔
ایبٹ آباد آپریشن کا بھی پہلے پہل انکار کیا گیا پھر جب امریکی صدر نے بیان جاری کیا تو ہم پر سکتہ طاری ہوگیا اور کئی ہفتے تک لفظ نہ بولا گیا۔ ڈرون حملے، القاعدہ نیٹ ورک، حقانی نیٹ ورک اور داعش کی موجودگی کی بھی پہلے ہم نے تردید کی تھی اور پھر مان لیا تھا۔ اللہ کرے اِس بار ایسا ہی ہو جس طرح بتایا جا رہا ہے، خدا کرے اِس بار تمام پاکستانی سچ بول رہے ہوں۔۔۔ سب مل کر بولو۔ آمین
(ساحر بلوچ)
پاک فوج پہاڑی پتھروں کی بے رنگ کھردری دیوار ہے، ٹیک لگانے پر چبھتی بھی ہے اور ہمیں اپنی مرضی سے کیل بھی ٹھونکنے نہیں دیتی، ٹیڑھی کردیتی ہے، دیکھنے میں بہت سوں کو یہ خاکی دیوار بھلی بھی نہیں لگتی لیکن ہمارے گھروں کی خوش رنگ ہموار چار دیواریں اور اس کی رونقیں اسی کھردری دیوار سے ہیں۔
(احسان کوہاٹی)
امن قائم رہنا چاہیے۔۔۔ یہ بہت ضروری ہے۔۔۔ ترقی کرتی معیشت کے لیے امن ہی سب سے بہتر ہے۔ انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ جنگ کی صورت میں اس کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ پاکستان تحمل اور برداشت سے جو کام لے رہا ہے وہ اچھا ہے۔
(سید ممتاز حسین شاہ)
یہ ایٹم بم اور یہ بڑے بڑے میزائل۔۔۔ اتوار بازار میں نیلام کے لیے رکھو، کوئی اچھا دام مل جائے گا۔۔۔ کل ایران سے، آج انڈیا سے، پرسوں افغانستان سے فائر ہوا اور ہوگا، تو ہم لوگوں کو خوش کیوں کرتے ہیں کہ ہم ہر قسم کے دفاع کے لہے تیار ہیں۔۔۔!
(آغا صاحب)
کشمیر کی آزادی تک جنگ رہے گی۔۔۔ جنگ رہے گی۔ ہم کشمیری پاکستان کے ساتھ ہیں۔ عالمی برادری کی خاموش منافقت ہے۔ ہم انڈیا کا نہ حصہ تھے، نہ ہیں اور نہ ہوں گے، ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔
(شاہ پل خان)
جب تک کارگل جیسا معرکہ نہیں ہوگا کشمیر آزاد نہیں ہوسکتا۔ اُس وقت ہم نے جیتا ہوا کشمیر اُن کی تھالی میں رکھ دیا امریکا کے کہنے پر۔
(عدیل اصغر)
اصل میں پاکستان انڈیا کی جنگ نیوز اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر لڑ رہے ہیں۔ یہ فوجی بھی پریشان ہیں، بموں سے زیادہ تو ان کی آواز ہے۔۔۔
(ابراہیم پاشا)
مودی کان کھول کے سن لے۔۔۔
ہم وہ قوم ہیں جو
واپڈا کے لائن مین کو بجلی کے کھمبے پر چڑھا دیکھ لیں تو گھنٹوں نیچے کھڑے ہوکر دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ کب نیچے اترے گا۔
کسی کو راستہ پوچھتے دیکھ لیں تو اپنا ضروری کام چھوڑ کر پہلے اسے مطلوبہ ایڈریس پر پہنچا آتے ہیں۔۔۔
سڑک پر دو گاڑیوں کا معمولی ایکسیڈنٹ دیکھ لیں تو یہ دیکھنے وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں کہ غلطی کس کی تھی؟
بی اے کے فائنل امتحان والے دن صبح صبح موٹرسائیکل کا چالان کروا کر ٹریفک وارڈن سے لڑکر سارا دن تھانے میں گزار آتے ہیں لیکن اسے اپنا ڈرائیونگ لائسنس نہیں دیتے۔
رات کو 2 کلو مٹن کڑاہی کھا کر آدھے گھنٹے بعد دہی بھلے کی ریڑھی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سوتے وقت بھوک نہ لگ جائے۔
ہم جیسی تماش بین قوم کے لیے جنگ ایک بہت بڑی تفریح سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر مودی کو ایڈونچر کا شوق ہے تو وہ پورا کرکے دیکھ لے، ہم نے انڈیا کو مار مار کر نیپال سے بھی چھوٹا ملک نہ بنا دیا تو جو چور کی سزا، وہ میری!
(شاہد خان)
*۔۔۔*۔۔۔*
جماعت اسلامی کا فیس بک پیج
فیس بک نے جماعت اسلامی کا آفیشل پیج ختم کردیا۔ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اس اقدام کی وجہ کشمیر ایشو ہے۔ جماعت اسلامی کا فیس بک پیج نہایت مؤثر انداز سے جماعت کی دعوت اور مختلف ایشوز پر جماعت کے مؤقف کو عوام الناس تک پہنچانے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس لیے اس پیج کا ختم کیا جانا وابستگانِ جماعت کے لیے تکلیف دہ ہے۔
جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کو چاہیے کہ فوری طور پر متبادل منصوبہ تشکیل دے اور اس نقصان کے ازالے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ فیس بک پر نئے پیجز بھی بنائے جاسکتے ہیں اور دعوت، سیاست اور کچھ اہم لیکن حساس موضوعات کو الگ الگ کرکے بھی لوگوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ بہرحال سوشل میڈیا دورِ حاضر میں عوام الناس سے رابطے کا ایک فوری اور اہم ذریعہ ہے اور جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم اس محاذ پر مؤثر انداز سے ڈٹی ہوئی ہے اور مبارک باد کی مستحق ہے۔
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔۔۔
(ڈاکٹر فیاض عالم)
فلسطین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کے لیے فیس بک انتظامیہ نے معاون کا کردار ادا کرنے کے لیے نہ صرف فلسطینی نوجوانوں کے اکاؤنٹس ڈیلیٹ کیے بلکہ ان کا ڈیٹا اسرائیلی فوج کے حوالے کیا جہاں سے اسرائیلی فوج نے آئی پی ایڈریس سے ان کی لوکیشن کا پتا معلوم کرکے ان کو حراست میں لے لیا، پھر ان سے فیس بک استعمال نہ کرنے کا وعدہ لے کر رہا کیا۔
الکفر ملۃ واحدۃ کا ثبوت دیتے ہوئے فیس بک نے انڈیا کے لیے کام آتے ہوئے آج جماعت اسلامی پاکستان کا آفیشل پیج جس کے 3 ملین سے زائد لائیکس تھے، ڈیلیٹ کردیا ہے۔
شاید مارک زکر برگ نے انڈین کرنل دھنویر سنگھ کی وہ بات سن لی تھی کہ مقبوضہ کشمیر کی بڑی بیماری کا نام جماعت اسلامی ہے۔ اسی لیے انہوں نے مسیحائی کا حق ادا کیا ہے۔ کہیں یہ بیماری پوری دنیا کے جسم میں سرایت نہ کرجائے۔
یہ حقیقت تو آشکار ہوچکی ہے کفر اب مسلمانوں کے لیے صف بندی کرچکا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اب کئی اکاؤنٹس ڈیلیٹ بھی ہوں گے اور نئے بھی بنیں گے۔ یہ سلسلہ کہاں تک جانے والا ہے یہ تو وقت بتائے گا۔
(منصوری)
مغرب کا آزادئ اظہار کا پرچار محض ایک ڈھونگ ہے، فیس بک کی طرف سے جماعت اسلامی کے آفیشل پیج سمیت کئی دوسرے پیجز کو ریموو کرنا اُن کی اسلام دشمنی کو عیاں کرتا ہے اور آزادئ رائے کے دہرے معیار کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔
(میاں مقصود احمد)
فیس بک کی جانب سے جماعت اسلامی کا آفیشل پیج ڈیلیٹ کرنے کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
(مفتی سید عدنان کاکاخیل)
جماعت اسلامی پاکستان کا فیس بک پیج بحال
دنیا بھر سے ایک ہی دن میں 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے جماعت اسلامی کا پیج بلاک ہونے کی صورت میں فیس بک کو رپورٹ کیا، جس میں پاکستان سے 3 لاکھ سے زائد، امریکا سے 35 ہزار، سعودی عرب سے 12 ہزار، اور برطانیہ سے 9 ہزار سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ کامیاب ٹوئٹر مہم نے بھی ایک ہی دن میں خاصا گہرا اثر ڈالا، جب کہ فیس بک پر بھی براہِ راست لاکھوں تصاویر اور اسٹیٹس اپ لوڈ کیے گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اُمید کی آخری کرن
پچھلے ڈیڑھ ہفتوں سے ہم اسلام آباد میں عمران خان کی دھواں دھار تقاریر سن رہے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے اس معاشرے کو عروج صرف اور صرف یہی شخص دے سکتا ہے۔۔۔
جو سچا ہے، کھرا ہے، بے داغ ماضی ہے۔۔۔ کوئی کرپشن نہیں، ملک کے لیے سوچتا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
اس معاشرے کو اسی طرح کے جملہ کردار کی ضرورت ہے جس کا احاطہ اوپر کیا گیا ہے۔ اور کل تک ہم بشمول تمام محب وطن عمران خان کی اس کاوش کو سراہتے تھے اور امید کرتے تھے کہ عمران خان بجز اس کے کہ اپنے گرد وقت کے گرد آلود لوگوں کو اکٹھا کیے ہوئے ہے، ان شاء اللہ اس ملک کو بحرانوں سے نکال کر ’نیا پاکستان‘ بنائے گا۔۔۔
لیکن کل جو ٹی وی پر دیکھا گیا وہ انتہائی قابلِ شرم تھا۔ یوں کہیے کہ کردار ساز شخصیت کا سارا مجسمہ ریت کی دیوار ثابت ہوا اور اس ریت میں عوام کے سارے خواب ریزہ ریزہ ہوگئے۔۔۔ ہوا یوں کہ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ
عمران خان نے پورے الیکشن کو جعلی، پارلیمنٹ کو جعلی، جمہوریت کو جعلی صرف اور صرف اس لیے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے چوری کیا گیا اور اس تمام کارروائی میں ایک سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ملوث تھے، جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا اپنے بیٹے کی ملازمت کے مقابلے میں بہت ہی سستے داموں کیا۔۔۔
عمران خان کا یہ دعویٰ بہت جاندار تھا۔ لیکن کل جب سارے ٹی وی ٹاک شوز میں عمران خان کا مقدمہ برائے ہتک عزت دکھایا گیا، جس میں افتخار محمد چودھری صاحب نے اپنے ہتک عزت دعویٰ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا ہے عمران خان نے اسی کرپٹ، بے ضمیر اور دھاندلی کے ماسٹر مائنڈ جناب چیف جسٹس افتخار چودھری کو جواب دیتے ہوئے دستاویزات لکھیں، اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
’’میں نے جو بھی آپ (افتخار چودھری) کے خلاف بولا وہ میری شدید ذہنی پریشانی تھی اور الیکشن ہارنے کا دباؤتھا، وگرنہ میری نیت آپ کے بارے میں ایسی نہ تھی، کیونکہ آپ نے جس طرح ایک آمر کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا، اور جبر و استیصال کے آگے دیوار بن گئے اُس پر پوری قوم کو فخر ہے۔ اور آپ کا دامن پاک صاف ہے۔ وغیرہ وغیرہ‘‘
اہلِ علم و دانش! اتنا بڑا تضاد۔۔۔ کیا ہم ایسے شخص کو نجات دہندہ سمجھ لیں جو عوام کے سامنے کچھ، اور قانون و عدلیہ کے سامنے کچھ اور ہے۔۔۔! اور پھر اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ، جس میں صرف الزام۔۔۔ کوئی ثبوت ہی نہیں۔۔۔! کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
اس نظام میں ہر حکمران کرپٹ ہے تو کیا عمران پر بھی لازم تھا کہ وہ اس چور دروازے سے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا؟
(سید شاکر حسین رضوی)
nn

حصہ