سوویت یونین کے انہدام کے بعد ’’سرد جنگ‘‘ کا خاتمہ ہوگیا۔ سوویت یونین کے انہدام کا اصل سبب تو افغانستان سے پسپائی تھا، لیکن اس شکست نے کمیونزم کا خاتمہ کردیا۔ کمیونزم کی شکست کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے اہلِ دانش کو نئی اصطلاحات کی ضرورت تھی تاکہ وہ چھوٹی قوموں اور دنیا بھر کے عوام کے خلاف استحصال پر پردہ ڈال سکیں۔ یہی سبب ہے کہ سرمایہ داریت(Capitalism) کی اصطلاح عوام کی نظر میں گالی بن چکی ہے۔ کمیونزم کے جبر کے خاتمے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و استحصال کو ’’آزاد معیشت‘‘، ’’منڈی کی معیشت‘‘ اور ’’عالمگیریت‘‘ کی اصطلاحوں کے پردے میں چھپایا گیا۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے تمام قوموں کو حکم دیا کہ وہ اپنے تمام اقتصادی وسائل کو عالمی سرمایہ داروں کے لیے کھول دیں۔ اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے قرضوں کو حربے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ رشوت، بدعنوانی اور کمیشن کے ذریعے حکمرانوں کو بدعنوان کیا گیا اور جمہوریت کے پردے میں ہر ملک میں حکومت سازی میں مداخلت کی گئی۔ دعویٰ تو یہ کیا گیا تھا کہ معاشی خوشحالی کی یہ واحد ضمانت ہے، لیکن نجکاری کے نام پر عالمی سرمایہ داروں کو ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور یورپ کے چھوٹے ممالک کے وسائل پر اجارہ داری دے دی گئی۔ ایک ایسی کنٹرولڈ معیشت مسلط کردی گئی جس پر آزاد معیشت کا لیبل لگا ہوا تھا۔ نجکاری کا عمل پاکستان میں جو تباہ کاری لایا ہے اس کا ایک مظہر کراچی ہے، جہاں بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے ای ایس سی کو فروخت کردیا گیا۔ یہ سودا خود ایک بہت بڑا مالیاتی اسکینڈل تھا، لیکن دس برسوں میں شہریوں کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ نجکاری کے بعد صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ ادارے کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے حوالے سے سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’’کے الیکٹرک‘‘ کے خلاف کارروائی کرے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے بہت زیادہ نرخوں، زائد بلنگ، لوڈشیڈنگ اور دیگر زیادتیوں نے کراچی کے شہریوں اور معاشی ڈھانچے کو برباد کردیا ہے۔ جس روز صوبائی اسمبلی میں انتہائی کم نمائندگی رکھنے والی حزبِ اختلاف کے نمائندے نے قرارداد پیش کی تھی اُسی روز کے الیکٹرک کے بجلی کے نرخوں کے بارے میں نیپرا کا اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ صوبہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کا المیہ یہ بھی ہے کہ منتخب اداروں کے باوجود یہ شہر عملاً عوام کی نمائندگی سے محروم ہے۔ اجلاس میں کے الیکٹرک کے خلاف عوام کا مقدمہ جماعت اسلامی نے پیش کیا۔ بجلی کے بحران نے شہریوں کی معمول کی ز ندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے۔ توانائی کا بحران ویسے تو پورے ملک کا مسئلہ ہے، لیکن کراچی پاکستان کا صنعتی و اقتصادی دارالخلافہ ہے، ملک کا سب سے بڑا ساحلی شہر ہے۔ جدید دور میں ساحلی شہروں کی اقتصادی اور تزویراتی اہمیت بھی ہوتی ہی، اس اعتبار سے کراچی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے کراچی میں توانائی کے بحران کے اثرات ملک کی اقتصادیات پر بھی پڑتے ہیں۔ کراچی میں توانائی کے بحران کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں نجکاری تمام حکومتوں کی اقتصادی پالیسی کا مرکزی ستون بن چکی ہے۔ یہ تصور کم از کم تمام سیاسی قیادتوں نے قبول کرلیا ہے کہ نجکاری ہی ملک کے اقتصادی مسائل کا حل ہے۔ بجلی کی پیداوار کے نظام کا بڑا حصہ نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا ہے، جبکہ بجلی کی پیداوار کے ساتھ تقسیم کا نظام صرف کراچی میں نجی شعبے کے حوالے کیا گیا۔ نجکاری کے دیگر تجربات کی طرح نہ صرف یہ کہ یہ تجربہ ناکام ہوا ہے بلکہ شہر کے باشندوں کے لیے عذاب بن گیا ہے۔ جتنا احتجاج کے الیکٹرک کے خلاف ہوا ہے، اتنا کسی بھی ادارے کے خلاف نہیں کیا گیا۔ لیکن کے الیکٹرک کے مالکان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کا ادارہ سب سے زیادہ غیر موثر ہوچکا ہے۔ ایک وقت یہ تھا کہ بڑی بڑی جابر حکومتیں عوام کے احتجاج سے خوفزدہ رہتی تھیں لیکن جب سے عوام کی نمائندگی پر قابض طبقات بدعنوان ہوئے ہیں، اس کے بعد سے کسی بھی حکومت کو چاہے وہ فوجی آمریت ہو یا سیاسی آمریت، عوام دشمن فیصلے کرتے ہوئے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ کراچی کبھی سیاسی طور پر بیدار، متحرک اور آزاد شہر تھا، لیکن اس شہر کے آزاد کردار کو تبدیل کرنے کے لیے فسادات کرائے گئے اور اس شہر کو ٹارگٹ کلرز اور بھتا خوروں کا شہر بنادیا گیا۔ گزشتہ تین عشروں کی سیاست نے آج اس شہر کو بے سہارا کردیا ہے۔ اس شہر کے بے سہارا ہونے کی سب سے بڑی علامت ’’کے الیکٹرک‘‘ کا بے خوف و خطر شہریوں کا استحصال ہے۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی کراچی نے نیپرا کے اجلاس میں کے الیکٹرک کے استحصال اور ظلم اورکرپشن کے خلاف عوام کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک، نیپرا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 2009ء میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ عوام کے سامنے لایا جائے۔ شہریوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کے الیکٹرک کا مالک کون ہے؟ شہر میں لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے، نرخوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس کے ساتھ مختلف ناموں سے شہریوں سے اربوں روپے کا بھتا بھی وصول کیا جارہا ہے۔ اگر اس شہر میں کوئی حقیقی سیاسی قیادت ہوتی تو کے الیکٹرک کے مالکان اتنی آسانی سے اس شہر کے باشندوں کو لوٹنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ اس تجربے کے بعد کے الیکٹرک کو دوبارہ قومی تحویل میں لے لیے جانے کا جواز پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن دہشت گردی،‘ جرائم اور بدعنوانی میں ملوث ہوجانے والی سیاسی قیادت اور افسر شاہی کی طاقت اور سرپرستی کی وجہ سے کے الیکٹرک آزادی کے ساتھ شہریوں کا استحصال کررہا ہے۔ اگر ہم صوبائی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کو دیکھیں تو اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ صرف عوام کے نمائندوں کا زبانی جمع خرچ ہے۔ بجلی کا بحران پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ یہ بحران مصنوعی ہے اور صرف اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ بلاجواز نرخوں میں اضافہ کیا جائے۔ کے الیکٹرک کے تجربے نے بتادیا ہے کہ نجکاری لوٹ مار کا نظام ہے۔ اس نظام کے خلاف مزاحمت کو روکنے کے لیے امریکہ نے ایسی سیاسی قیادتوں کی سرپرستی کی ہے جو نہ آزادانہ کردار ادا کرسکیں، نہ اپنے عوام کی نمائندگی کریں۔پاکستان میں دہشت گردی، بدامنی اور عدم استحکام کی پشت پر کام کرنے والی قوتوں کا ایک پس منظر یہ بھی ہے۔