سال تک دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، پُرتشدد ہڑتالوں کا شکار شہر کراچی تبدیلی کے ایک نئے دور سے گزر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم نے اس شہر کے لوگوں کو جن عنوانات کے ساتھ زخم دیے ہیں ان میں سے ایک ’’کے الیکٹرک‘‘ کی دہشت گردی ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔ شہری روزانہ کی بنیاد پر اس دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ سابقہ کے ای ایس سی میں پائی جانے والی بدترین بدانتظامی اور مالی بدعنوانی کے سبب وفاقی حکومت نے اس کی نجکاری کی تھی جس کا بنیادی مقصد لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور صارفین کو بلا تعطل سستی بجلی فراہم کرنا تھا۔ لیکن کراچی کے شہری بوگس بلنگ، طویل لوڈشیڈنگ، آئے دن بجلی مہنگی ہوجانے کی وجہ سے ذہنی اذیت کا آج بھی پہلے سے زیادہ شکار ہیں۔ شہریوں سے مختلف ناموں سے اربوں روپے کی جبری بھتہ وصولی معمول کا حصہ بن گئی ہے، اور سالوں سے جاری اس بدمعاشی پر سب خاموش رہے، صرف جماعت اسلامی پہلے دن سے اس ظلم پر صدائے احتجاج بلند کررہی ہے اور اب جب یہ آواز شہر کے لوگوں کی آواز بن گئی ہے تو کراچی کے شہریوں کو اضافی بل بھجوانے، لوڈشیڈنگ اور دیگر زیادتیوں کے خلاف سندھ اسمبلی نے قرارداد بھی منظور کرلی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور دیگر اقدامات نے صارفین کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ قرارداد میں وفاقی حکومت، نیپرا اور نیب سے کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف کے الیکٹرک کی انٹی گریٹڈ ملٹی ایئر ٹیرف ((Integrated Multi- Year Tariff; I- MYT کے حوالے سے ٹیرف پٹیشن کی ایک اور سماعت کراچی میں دو روز منعقد ہوئی جس کی صدارت چیئرمین نیپرا بریگیڈیئر ریٹائرڈ طارق سدوزئی نے کی۔ دیگر اراکین میجر (ر) ہارون رشید، محسود الحسن نقوی اور ہدایت اللہ خان بھی موجود تھے۔
کے الیکٹرک کا اپنے دعوے میں کہنا تھا کہ کمپنی کے پلان کے تحت جنریشن کی گنجائش میں 4,283میگا واٹ کا اضافہ کیا جائے گا اور average fleet efficiency میں 37 فیصد سے بڑھاکر مالی سال 2026ء تک 43.3 فیصد تک لے جایا جائے گا، جب کہ ترسیل کے نظام میں 28 فیصدکے اضافے(km) سمیت پاور ٹرانسفارمز کی گنجائش میں 3,370MVA کا اضافہ کیا جائے گا۔ مزید برآں ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات کو مالی سال 2015ء کے مقابلے میں 23.7 فیصد سے کم کرکے مالی سال 2026ء تک 13.8 فیصد تک لایا جائے گا۔ اس عرصے کے دوران ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں 1000 نئے فیڈرز کا اضافہ کیا جائے گا۔ کے الیکٹرک نے اپنے دعوے میں مزید کہا کہ گزشتہI-MYT کے ذریعے کے الیکٹرک نے 120.7 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جو اس وقت کے پیش کردہ پلان سے بہت زیادہ ہے۔ مالی سال 2009ء سے مالی سال 2015ء کے دوران ادارے نے اپنی پیداواری گنجائش میں 1037 میگاواٹ اور ترسیل کی گنجائش میں 768MVAکا اضافہ کیا ہے۔ اپنی اس سرمایہ کاری کے ذریعے ادارہ ترسیل اور تقسیم کے نقصانات کو 36 فیصد سے کم کرکے 24 فیصد تک لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ کے الیکٹرک کے دعووں کے جواب میں امیر جماعت اسلامی نے نیپرا کے اجلاس میں کراچی کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف عوام کا مقدمہ اور عوامی احساسات و جذبات پر مبنی اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2009ء میں جو معاہدے کیے گئے تھے ان کو اب تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، کے الیکٹرک نے اپنے ملازمین کی چھانٹی کرکے تعداد 17ہزار سے کم کرکے 10ہزار کردی ہے لیکن پھر بھی اضافی ملازمین کے نام پر 15پیسے فی یونٹ کے حساب سے صارفین سے اربوں روپے وصول کیے جارہے ہیں، کے الیکٹرک کی دس سالہ نااہلی، ناکامی اور بدانتظامی کا سارا بوجھ صارفین پر کیوں لادا جارہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق 1100میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تھی جس میں صرف 360 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوسکا، میٹر ریڈنگ کے ذریعے عوام سے زائد بل وصول کیے جارہے ہیں، ڈبل بینک چارجز وصول کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاق سے400 ارب روپے زرتلافی (سبسڈی) کے نام پر وصول کیے گئے، فیول ایڈجسٹمنٹ کا فائدہ عوام کو نہیں ملا، بوگس اور ایوریج بلنگ مسئلہ ہے جس کی روزانہ ڈھائی سے تین ہزار افراد شکایات درج کراتے ہیں، کنڈا سسٹم کا نظام اب تک قائم ہے جس میں غریب عوام کے پیسوں کو لوٹا جارہا ہے، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور آئے دن اس کے نظام میں آنے والے فالٹس کی وجہ سے کراچی کی معاشی و اقتصادی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں، بجلی کے بریک ڈاؤن سے کراچی کو پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے شہری شدید گرمیوں میں دہرے عذاب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے سوال اٹھایا کہ نج کاری کا عمل قانونی ہے یا نہیں؟ اس کا مالک کون ہے کسی کو نہیں پتا۔ 16ارب روپے میں کے الیکٹرک کو خریدا گیا تھا اور اب اسے 150ارب روپے میں فروخت کیا جارہا ہے،کے الیکٹرک نے دس سال سے کراچی کے عوام کا خون نچوڑ رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیپرا جو فیصلے صارفین کے حق میں کرتا ہے اُن پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اور جو فیصلے کے الیکٹرک کے حق میں ہوتے ہیں اُن پر فوراً عملدرآمد ہوجاتا ہے۔ Claw backکے معاملے میں کے الیکٹرک نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع لیا ہوا ہے۔Claw backکی مد میں 17ارب روپے صارفین کو اداکرنے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کے الیکٹرک کی سابقہ کارکردگی پر بھی اجلاس میں سوال اٹھائے اور اجلاس میں موجود تمام افراد نے کے الیکٹرک کے ٹیرف 2016ء سے اختلاف کیا اور سابقہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق ٹیرف میں کمی کا مطالبہ کیا۔ کے الیکٹرک کے 23 فیصد نقصانات اُس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں، اس کے باوجود ڈبل منافع حاصل کیا جارہا ہے۔ یہ منافع اوور بلنگ، بینک چارجز اور بوگس بلنگ کے ذریعے شہریوں سے وصول کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009ء میں جو معاہدے کیے گئے تھے اُن کی کسی شق کی پاسداری نہیں کی گئی۔ انہوں نے نیپرا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’دو روز سے نیپرا کا اجلاس جاری ہے، اس میں صرف زبانی جمع خرچ ہورہا ہے، اس پر عملدرآمد کچھ نہیں ہوتا۔ گزشتہ دس سال سے کے الیکٹرک شہریوں کو ریلیف دینے میں ناکام رہا ہے جس سے عوام شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سوا سال سے جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج کیا ہوا ہے جس کی صرف ایک سماعت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیپرا کے اجلاس میں وفاقی حکومت کی عدم موجودگی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کے الیکٹرک اور وفاق کے درمیان مُک مُکا ہوچکا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیپرا کے الیکٹرک کے گزشتہ دس سالہ معاہدے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کرے، جب تک کے الیکٹرک سابقہ رپورٹ عوام کے سامنے نہیں لائے گا اُس وقت تک اگلے ٹیرف میں اضافہ کسی صورت بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اگر نیپرا نے کے الیکٹرک کی گزشتہ دس سالہ معاہدے اورکارکردگی کی رپورٹ پیش نہ کی تو کراچی کے عوام سڑکوں پر دھرنا دیں گے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سربراہ عادل گیلانی نے نیپرا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس ترمیمی ایگریمنٹ کے تحت ٹیرف بنایا گیا ہے یہ غیرقانونی ہے، ہم نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے، اس پر بات نہیں ہونی چاہیے۔ کنزیومر فورم کے چیئرمین چودھری مظہر علی نے کہا کہ اس وقت ٹیرف بہت زیادہ ہے، 2013ء میں کے الیکٹرک نے 11ہزار 4 سو ملین یونٹ فروخت کیے اور چھ ارب روپے کا منافع ہوا، 2014ء میں 13ہزار 8 سو ملین یونٹ فروخت کرکے بارہ ارب اٹھاسی کروڑ روپے کا منافع کمایا، بجلی کی فروخت میں صرف 12فیصد اضافہ ہوا لیکن منافع میں سو فی صد اضافہ ہوگیا، اس طرح 2015ء میں 14ہزار 8سو ملین یونٹ فروخت کرکے اٹھائیس ارب روپے منافع کمایا لیکن بجلی کی فروخت میں صرف 11فی صد اضافہ ہوا اور منافع 120فی صد تھا، اس کا مطلب ہوا کہ موجودہ ٹیرف بہت زیادہ ہے، انہوں نے کہا کہ پرانے ٹیرف کو جاری رکھنا صارفین کے مفاد میں نہیں ہے۔ کراچی چیمبر کے نمائندے تنویر باری، میجر (ری) نقوی، انیل ممتاز نے بھی بحث میں حصہ لیا اور بجلی سے متعلق مختلف مسائل کی نشاندہی کی۔ چیئرمین نیپرا بریگیڈیئر (ر) طارق سدوزئی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صارفین کے مسائل حل ہوں، نیپرا نے صارفین کے مفاد میں متعدد فیصلے کیے اور بجلی کمپنیوں پر جرمانہ کیے ہیں۔
نیپرا کی سماعت اور سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کے مقدمے کا کب کوئی ایسا فیصلہ آئے گا جو کراچی کے لوگوں کو کے الیکٹرک کی دہشت گردی سے نجات دلا سکے گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن حالات بتارہے ہیں کہ کراچی کے مسائل پر اگر ریاست اور ریاست کے اداروں نے سنجیدہ فیصلے نہیں کیے تو آنے والے وقت میں کراچی ماضی سے زیادہ بدترین حالات کی طرف ایک بار پھر لوٹ جائے گا جس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے۔ کیونکہ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ کراچی کا اصل مقدمہ لڑنے اور اس کی ملکیت کوئی بھی لینے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی کو نہ مسلم لیگ اپنا سمجھتی ہے، نہ پیپلز پارٹی اپنا سمجھتی ہے اور نہ ایم کیو ایم نے اپنا سمجھ کر اس کی کبھی خدمت کی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ کراچی کے لوگوں کا ساتھ دیا ہے۔ جہاں ماضی میں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی قیادت میں کراچی کی بے مثال خدمت کی گئی ہے، وہاں آج بھی کراچی کے لوگوں کا مقدمہ جماعت اسلامی ہی لڑ رہی ہے، اور اس کی کوشش ہے کہ نظریاتی، علمی اور سیاسی قیادت کے مرکز کراچی کو اس کی حقیقی روشنی اور شناخت پھر مل جائے۔
nn