(فہم دین کا چراغ (پروفیسر خورشید احمد

1063

(دوسرا اور آخری حصہ)
اوپر ہم نے تفہیم القرآن کی جن دو خصوصیات کا ذکر کیا ہے، یہ دونوں فرداً فرداً بھی تفہیم میں بالکل نئے انداز اور نئے زورِِ احساس کے ساتھ موجود ہیں اور پھر دونوں کا ایک تفسیر میں ایسا حَسین اجتماع تو یقیناًبالکل منفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تفہیم القرآن ہمارے تفسیری ادب کے زریں سلسلے کی ایک خوبصورت کڑی ہے اور ماضی کی روایات سے پیوستہ اور ان کی بہترین امین ہے، وہیں ایک انفرادی رنگ کی حامل بھی ہے۔ گویا: سب کے درمیاں سب سے الگ۔
تفہیم القرآن کی یہ دونوں خصوصیات سب سے بنیادی اور اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب بطور تفسیر تو جو اہمیت رکھتی ہے وہ اپنی جگہ ہے، لیکن ہماری نگاہ میں اس کی اصل اہمیت اس نقطہ نظر کو واضح کرنے میں ہے جس سے قرآن پر غور مطلوب ہے اور جس کی روشنی میں انسان کو کتاب اللہ سے تعلق استوار کرنا چاہیے۔ یہ تفسیر سے زیادہ فہم قرآن کی ایک راہ کی نشان دہی کرتی ہے اور بعید نہیں کہ اس بنا پر رب القرآن نے مؤلف کے دل میں یہ بات ڈالی ہو کہ اس کا عنوان تفہیم القرآن رکھیں۔
اسی بنا پر ہم یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ تفہیم القرآن ہماری اہم اور مہتم بالشان تفاسیر سے قاری کو مستغنی نہیں کرتی بلکہ ان تک پہنچنے کے لیے اسے تیار کرتی ہے۔ اس سے دراصل قرآن کے طالب علم کو ایک بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ تفہیم کے ساتھ ساتھ پورے تفسیری ادب سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ماضی کے ذخیر ے سے بھرپور طور پر مستفید ہوسکتا ہے۔
دیگر خصوصیات
اب ہم تفہیم القرآن کی دیگر خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں، جو اب بنیادی خصوصیات سے اس طرح نکلتی ہیں جس طرح جڑ سے شاخیں، پتیاں اور پھول۔
1۔ براہِ راست تعلق: اس تفسیر میں کوشش کی گئی ہے کہ قاری کا قرآن سے براہِ راست تعلق استوار ہو۔ دیباچہ، ترجمہ اور حواشی اس کا ذریعہ ہیں۔ دیباچے میں سورت کے مضامین کا خلاصہ بھی سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ترجمے کے ذریعے قرآن کے مفہوم کو ادا کیا گیا ہے۔ حواشی کو بالعموم آیت کے مفہوم کی وضاحت، تاریخی معلومات کی فراہمی، قرآن کے ان دوسرے مقامات کی نشان دہی جہاں اسی موضوع پر مزید رہنمائی موجود ہے، اخلاقی، تمدنی، معاشی، سیاسی، قانونی اور بین الاقوامی تعلیمات کی تشریح و توضیح اور ان کی ہمارے اپنے دور کے مسائل سے مناسبت، دعوتی اعتبار سے اہم مقامات کی طرف توجہ کو منعطف کرانے اور شکوک وشبہات کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ بالعموم یہ حواشی مختصر مگر جامع ہیں اور ہر موقع پر قرآن کی مرکزی اور محوری کیفیت کو برقرار رکھتے ہیں۔
تفہیم میں روایتی مباحث نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ کتاب اسرائیلیات سے بالکل پاک ہے۔ وہ تمام کلامی بحثیں بھی جو ماضی کے ادوار سے تعلق رکھتی ہیں، ان کا کوئی حصہ اس میں نہیں ہے۔ فقہی بحثیں بھی محدود ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ گروہی عصبیت سے آزاد ہوکر قرآن کے احکام وقواعد کی نشان دہی کردی جائے، اور یہ انھی خصوصیات کی بنا پر ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
تفہیم القرآن کے مقدمے میں اصولِ تفسیر کی روایتی بحثوں کا سراغ نہیں ملتا۔ صرف شانِ نزول کا ذکر ہے، مگر ایک مختلف انداز میں۔ نہ ناسخ ومنسوخ کی بحث ہے، نہ محکم و متشابہ کی، نہ اعجازالقرآن کی روایتی بحث، نہ امثال، اقسام اور قصصِ قرآن کی۔ یہ نہیں ہے کہ تفہیم میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ اپنے اپنے مقام پر تمام ضروری باتیں بیان کردی گئی ہیں، لیکن تفسیر کے بنیادی نقطۂ نظر کو نظرانداز نہیں ہونے دیا گیا۔ ان کی جگہ اصل توجہ اس پر صرف کی گئی ہے کہ قرآن کا موضوع، اس کا مرکزی مضمون اور اس کا مقصد و مدعا واضح کیا جائے۔ اس کی دعوت اور تصورِ حیات کو دل ونگاہ پر غالب کیا جائے اور اس ’’قرآنی سلوک‘‘ سے قاری کو روشناس کیا جائے، جس کے ذریعے قرآن ایک نیا انسان اور ایک نیا معاشرہ تیار کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبِ تفہیم القرآن نے مختلف بحثوں میں الجھنے کے بجائے، توجہ قرآن کی بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم کو متعین کرنے پر صرف کی ہے، تاکہ نقطہ نظر کی اصلاح ہوجائے اور پھر یہ کیفیت ہو کہ :
جان چو دیگر شد، جہاں دیگر شود
2۔ نظمِ قرآن: تفہیم کی دوسری خصوصیت نظمِ قرآن کا ایک نیا تصور ہے۔ نظمِ قرآن تفسیر کا ایک مہتم بالشان موضوع رہا ہے۔ مفسرین نے بالعموم سورتوں کے باہمی رابطے پر توجہ دی ہے۔ قرآن کے چند خادموں نے آیات کے باہمی رابطے کو متعین کرنے کی سعی کی ہے۔ کچھ اور اہلِ علم نے پوری سورت کو ایک وحدت تصور کرکے، اس کا عمود متعین کرنے کی سعی کی ہے اور آیات کے اس عمود سے سورت کے تمام مضامین کے رابطے کو ظاہر کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں ان سب کی جھلک نظر آتی ہے، لیکن اس میں جس تصورِِ نظم پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے موضوع، مرکزی مضمون اور مدعا سے ہر سورت اور ہر آیت کا ربط کیا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ:
’’یہ کتاب کہیں اپنے موضوع اور اپنے مدعا اور مرکزی مضمون سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔ اوّل سے لے کر آخر تک، اس کے مختلف النوع مضامین اس کے مرکزی مضمون کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ برنگ جواہر ہار کے رشتے میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں۔ اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ ’’دعوت‘‘کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔‘‘
(سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، اول،ص20)
یہ تفہیم کا ایک نہایت اہم کارنامہ ہے اور یہ نظمِ قرآن کے سلسلے کی خدمات میں سے ایک عظیم خدمت ہے۔ سید مودودیؒ نے اپنی بحث کو اصطلاحات کے استعمال سے بوجھل نہیں کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تفہیم القرآن، نظمِ قرآن کے ایک نئے پہلو کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس میں ہرسورت اور اس کے مضامین اور آیات کا ربط قرآن کے مقصد اور اس کی دعوت سے تلاش کیا گیا ہے، اور یہ وہ ربط ہے جو دور ازکار تاویلات کے بغیر قرآن سے خودبخود متبادر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ تفہیم القرآن کا ایک کارنامہ ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ صحیح نقطۂ نظر کی طرف توجہ مبذول کرائی بلکہ قرآن کے اس نظم اور ربط کو ہر سورت اور اس کے ہر اہم مقام پر متعین کرنے کی کوشش کی۔ تفہیم القرآن میں سورتوں کے دیباچے اس سلسلے میں بڑے راہ کشا ہیں اور حواشی میں بھی اس کام کے ہر پہلو کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
3۔ ترجمہ قرآن: تیسری چیز جو توجہ کو جذب کرتی ہے وہ تفہیم القرآن کا ترجمہ قرآن ہے۔ یہ ترجمہ کئی حیثیتوں سے منفرد ہے۔ اس میں لفظی ترجمے سے ہٹ کر ترجمانی کی راہ اختیار کی گئی ہے لیکن خوبی یہ ہے کہ کسی مقام پر بھی ترجمے کی حدود سے تجاوز نہیں کیا گیا۔ یہ بامحاورہ ترجموں سے بھی مختلف ہے۔ بامحاورہ ترجموں میں بھی بنیادی اکائی آیت کو بنایا جاتا ہے اورآیات کے درمیان معنوی تسلسل کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ میرے علم کی حد تک تفہیم میں پہلی مرتبہ کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ مسلسل ہو اور صرف ترجمہ کے پڑھنے سے بھی وہ تاثر پیدا ہوسکے، جو قرآن کا مقصود ہے۔
تفہیم کے ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں تقریر کی زبان کا ترجمہ تحریر کی زبان میں کیا گیا ہے اور اس طرح صرف ترجمانی ہی کا حق ادا نہیں ہوا، بلکہ فہم قرآن کی بھی ایک نئی راہ کھل گئی ہے۔ تفہیم القرآن کے ترجمے میں تقریر کی زبان کو تحریر کی زبان میں تبدیل کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے ترجمے میں معنوی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر پیراگراف بندی کی ہے۔
اس طرح صرف بیان کا تسلسل ہی باقی نہیں رکھا گیا، بلکہ ایک بات سے دوسری بات کی طرف مراجعت کی نشان دہی بھی کردی ہے۔ ترجمے میں یہ پیراگراف بندی ایک بڑا تاریخی کام اور انقلابی اقدام ہے۔ اس کی مدد سے قرآن کے مطالب کی تفہیم آسان ہوگئی ہے۔ تقریر میں جوکام وقوف، سانس کے لینے، اور آواز اور لہجے کی تبدیلی سے کیا جاتا ہے، تحریر میں وہی کام قوسین کی وضاحتوں اور پیراگراف بندی سے لیا گیا ہے۔ یہ کام تفہیم القرآن میں پہلی بار ہوا ہے۔ غالباً تفہیم سے پہلے دنیا کی کسی اور زبان میں بھی یہ خدمت انجام نہیں دی گئی۔ اس حیثیت سے اسے تفہیم القرآن کی اوّلیات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
4۔ سورتوں کے دیباچے: تفہیم القرآن کی اوّلیات میں سورتوں کے دیباچوں کا بھی شمار ہے۔ ہر سورت کے تاریخی پس منظر کے ساتھ اس کے مرکزی مضمون اور موضوعات کا تعین کیا گیا ہے اور اس مرکزی مضمون اور ان موضوعات کا نظم و تعلق قرآن کے مجموعی مدعا اور مرکزی مضمون اور قرآن کی دعوت سے بیان کیا گیا ہے۔ اسبابِ نزول پر عام طور پر بڑی قیمتی بحثیں کی گئی ہیں اور بڑے لطیف نکات بیان کیے گئے ہیں۔ ہمارے علم میں نہیں کہ اس سے پہلے خارجی اور داخلی شہادت کی روشنی میں سورتوں کے دیباچوں کے ذریعے مطالبِ قرآن کا ایسا مربوط سلسلہ کسی نے مرتب کیا ہو، اور یہ خدمت پورے قرآن کے بارے میں انجام دی ہو۔
5۔ احکام القرآن: تفہیم القرآن کی ایک اور خصوصیت اس میں بیان کردہ فقہی احکام ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ قرآن پاک کی جس آیت سے کوئی حکم مستنبط ہے، اسے اسی مقام پر بیان کردیا جائے۔ نیز جن دوسرے مقامات پر اس سلسلے کے احکام پائے جاتے ہیں، ان کی نشان دہی بھی کردی جائے۔اس طرح تفہیم القرآن میں قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ہر موضوع پر قرآن کی مجموعی تعلیمات اور قرآن کے بتائے ہوئے نظامِ اخلاق وتمدن کے مجموعی خاکے کی روشنی میں احکام کی وضاحت کی جائے اور زندگی کے پورے نقشے میں ان کے مقام کو متعین کیا جائے۔
پھر تفہیم القرآن میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے کسی آیت یا حکم کی جو تعبیر و تشریح کی ہے اسے بیان کردیا جائے۔ جہاں صحابہ کے درمیان یا بعد کے علماکے درمیان اختلاف ہے، اس کی بھی نشان دہی کردی جائے اور جس بنیاد پر اختلاف ہے، اس کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے۔ بالعموم کسی تشریح میں حنفی نقطہ نظر کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، البتہ دوسرے مکاتب کا نقطۂ نظر بھی بیان کردیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے تفہیم القرآن میں فقہی مذاہب کے تقابلی مطالعے کی ایک مفید کوشش کی گئی ہے، جو آئندہ تحقیق کرنے والوں کے لیے بڑی مددگار ہوسکتی ہے اور امت میں بحیثیتِ مجموعی توسع اور تعاون کی راہیں کھول سکتی ہے۔
6۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ: تفہیم القرآن میں یہودیت، عیسائیت اور قرآن کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ ان مباحث میں مناظرے کا رنگ نہیں پایا جاتا۔ ان میں کوشش کی گئی ہے کہ ایک طرف ان اعتراضات کا کافی وشافی جواب دے دیا جائے، جو مسیحی اہلِ قلم اور مغربی مستشرقین نے قرآن پر کیے ہیں۔ دوسری طرف قرآن کے انداز اور موجودہ بائیبل کے انداز کا فرق واضح کردیا جائے تاکہ بے میل وحی اور وحی محرّف ایک دوسرے سے ممیز وممتاز ہوجائیں۔
مولانا مودودیؒ قرآن کو اپنی دلیل کی بنیاد بناتے ہیں، پھر دوسرے مذاہب نے جس شکل میں موضوع زیرِ بحث کو پیش کیا ہے اس پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور دونوں کے فرق کو نمایاں کرتے ہیں۔ اپنے مؤقف کی تائید میں وہ تاریخی تحقیق، جدید انتقاد بائیبل اور دوسرے علوم کی تازہ ترین تحقیقات کو سامنے لاتے ہیں۔ اسی انداز میں وہ جدید نظریات اور تحریکات کا مطالعہ بھی کرتے ہیں اور ان کے زیرِاثر افراد نے قرآن کی جو غلط تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے، اس پر محاکمہ کرتے ہیں۔
تفہیم القرآن میں طبیعیات، حیوانیات، حیاتیات، فلکیات، علم الانسان اور جغرافیہ سے لے کر معاشیات، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، فلسفہ و منطق، تاریخ اور تقابلِ ادیان کے بے شمار مباحث بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ ان سب علوم سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن قرآن کو ہر جگہ حَکَمْ بناکر۔ یہ علوم کہیں بھی ان کو اپنی رو میں بہا کر نہیں لے جاتے۔ اس نقطے سے تفہیم القرآن میں تقابلِ ادیان و نظریات کے مطالعے کی ایک نئی مجتہدانہ نہج قائم کی گئی ہے۔
یہ چیز ان کی تفسیر کو ایک عصری تفسیر بناتی ہے۔ وہ عصری مسائل اور علوم سے بھرپور تعرض کرتے ہیں لیکن کہیں بھی عصری نعرے اور مروجہ خیالات ان پر مسلط نہیں ہوجاتے۔
7۔ تجدید کی روایت: اوپر جو بات عرض کی گئی ہے اسی سے تفہیم کی ساتویں خصوصیت ہمارے سامنے آتی ہے۔۔۔ یعنی قدامت اور تجدّد کے درمیان تجدید کی درمیانی اور حیات افروز روایت کا قیام اور اس کا استحکام۔ مولانا مودودیؒ کے قلم نے انتہاؤں سے اجتناب کیا ہے۔ انھوں نے اس روایتی تصور کے خلاف بھی بغاوت کی جس میں خدا کے دین کو انفرادی زندگی اور مسجد اور مسکن کی دنیا میں عملاً محدود کردیا گیا تھا۔ اور اس تجدّد کے خلاف بھی جہاد کیا، جس نے اسلام کا نام تو ضرور لیا مگر زمانے کے ہر نظریے اور طور طریقے کو جزوِدین بنانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں قرآن کو بازیچۂ اطفال بنا دیا۔
صاحبِ تفہیم القرآن نے اپنے دور کے تقاضوں کو خوب اچھی طرح سمجھا لیکن وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے کہ زمین و آسمان کے خالق نے غالباً ۔۔۔ العیاذ باللہ۔۔۔ ’’غلطی‘‘سے اپنی کتاب میں یہ اور یہ باتیں درج کردی ہیں جن کے معنی کی اب یوں اور یوں ’’تصحیح‘‘ کرنی ہوگی۔ جن اہلِ تجدّد نے یہ کام کیا ہے، مولانا مودودیؒ نے ان کا سخت ترین محاسبہ کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ قرآن کو اس طرح بیان کیا جائے جیسا کہ وہ ہے۔ نیز یہ جذبہ اور احساس پیدا کیا جائے کہ ضرورت قرآن کو بدلنے کی نہیں، قرآن کے مطابق خود کو بدلنے کی ہے۔ یہ اسلام کی روشن تجدیدی روایت ہے جسے دورِ نبوت سے آج تک صلحائے امت نے پیش کیا ہے اور تفہیم القرآن نے اسی راہ کو پیش کرنے اور روشن تر کرنے کی کوشش کی ہے۔
8۔ نیا علم الکلام: تفہیم القرآن کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس نے ایک نئے علم الکلام کی بنیاد رکھی ہے۔ ہر دور کے مسائل اور بحثیں مختلف ہوتی ہیں۔ ہر دور کی اپنی علمی سطح ہوتی ہے اور وہ علوم بھی جدا جدا ہوتے ہیں جن کا مختلف زمانوں میں چلن اور غلبہ ہو۔ مسیحی پادریوں نے جو سوالات اٹھائے، نیز سرسید اسکول کی طرف سے جو باتیں پیش کی گئیں، ان کا محاکمہ کرنے کی کوشش ہمارے ہاں ضرور کی گئی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب کے اُس فکری غلبے کو ہدف نہیں بنایا گیا، جس کے زیرِاثر یہاں یہ اعتراضات اٹھائے جارہے تھے۔
اگر یونانی فکرکے حملے کے وقت اور فلسفے اور اعتزال کے چیلنج کے جواب میں ایک نئے علم الکلام کی ضرورت پیدا ہوئی تھی تو آج مغربی علوم وفنون اور مغربی تہذیب کے غلبے کے زیراثر دور میں اس کی ضرورت شدید تر تھی۔ علامہ شبلی نعمانیؒ [م:18نومبر1914ء] اور مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اس سلسلے میں مفید کوششیں کیں، لیکن وہ ابتدائی مراحل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے بھی بڑی نتیجہ خیز کوشش کی اور فکرِ جدید کا مقابلہ کرنے کے خطوط واضح کیے۔
البتہ اس نئے علم الکلام کی زیادہ مفصل، گہری اور جامع مثال مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں ملتی ہے۔ ’’تنقیحات‘‘، ’’پردہ‘‘، ’’سود‘‘، ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘، ’’تفہیمات‘‘، ’’تعلیمات‘‘، ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ اس نقطہ نظر سے مولانائے محترم کی بڑی گراں قدر تصانیف ہیں، لیکن اس علم الکلام کی سب سے نمائندہ کتاب تفہیم القرآن ہے۔ یہ اس نئے علم الکلام کی بہترین مثال ہی نہیں، مستقبل کے لیے اس کا ماخذ بھی ہوگی۔
ابھی تک اس جدید علم الکلام کے اصول کسی نے علیحدہ مرتب نہیں کیے، اور یہ کام ہوتا بھی بعد والوں کا ہے کہ وہ ان کا استخراج کریں۔ اگر اس سلسلے میں ایک ابتدائی کوشش کی جائے تو تفہیم القرآن کے علم الکلام کی بنیادی باتیں یہ نظرآتی ہیں:
l دلیل کو قرآن پاک کی مجموعی تعلیمات پر مرتب کیا جائے۔ ایک ایک آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ کسی ایک آیت کا حقیقی مفہوم اس پوری رہنمائی سے صرفِ نظر کرکے سمجھا جاسکتا ہے جو خود اس موضوع پر قرآن پاک میں دوسرے مقامات پر دی گئی ہے۔ نیز ایک ایک مسئلے اور بحث کو اُسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب زندگی کے اس مکمل نقشے میں اس کا صحیح مقام متعین ہوجائے جو قرآن پیش کرتا ہے۔
اس طرح اس علم الکلام میں قرآن کی پوری رہنمائی کو بنیاد بنایا گیا ہے اور یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر جو غلط فہمیاں اور غلط تعبیرات اس زمانے میں رائج ہوئی ہیں، ان کی ایک بنیادی وجہ پورے قرآن، اس کی تمام تعلیمات اور اس کی عملی تصویر ۔۔۔سنّتِ رسول اللہ۔۔۔ پر انحصار کرنے کے بجائے محض اجزا سے انہماک ہے۔
l اس علم الکلام کے دروبست کو مرتب کرنے میں یہ بات ملحوظ رہی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اصل بیماریاں جہالت، وقت کے نظریات سے مرعوبیت، تناقض اور ایک مخصوص گروہ میں کھلی علمی بددیانتی ہیں۔ ان کا تدارک اس طرح کیا جائے کہ ایک طرف اسلام کی تعلیمات کو عام فہم انداز میں بیان کیا جائے تاکہ دین کے باب میں جہالت دور ہو۔ دوسری طرف مغربی فکر کی بنیادوں،اس کے اہم نظریات اور تحریکات پر بھر پور تنقید کے ذریعے دکھایا جائے کہ ان میں سے کیا صحیح اور موجبِ خیر ہے اور کیا باطل اور موجبِ فساد۔ یہ علمی محاکمہ مغرب کے اخلاقی مؤقف (امپیر یلزم اور قوموں پرظلم وزیادتی) کی بنیاد پر بھی ہو اور اس کے فکری نظام، تمدنی اقدار، معاشی نظام، سیاسی تحریکا ت اور معاشرتی اخلاق پر بھی۔ اس طرح مرعوبیت کا طلسم ٹوٹے، احساسِ کمتری دور ہو ا ور اپنے تہذیب و تمدن پر اعتماد پیدا ہو۔
پھر اس تناقض کو خصوصی ہدف بنایا جائے تاکہ جو مسلمان بن کر رہنا چاہتاہو وہ پورا مسلمان ہو، اور جو دوسرے نظاموں کا حامی بننا پسند کرے اس پر بھی دھوکے یا غلط فہمی کا کوئی نقاب باقی نہ رہے۔ اسی طرح جو لوگ دین کے معاملے میں کھلی کھلی بددیانتی کررہے ہیں، ان کے علمی بودے پن اور اخلاقی کمزوری کو کھول کر بیان کیا جائے، اور وہ اپنے صحیح رنگ میں سب کے سامنے آجائیں۔
اس تنقیدی اور علمی کوشش میں ایک طرف اُن علمی اور اخلاقی کمزوریوں کو سامنے رکھا گیا، جو کئی برسوں کی غلامی اور جمود کی وجہ سے خود مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھیں اور دوسری طرف دورِ حاضر میں فتنہ وفساد کے اصل سرچشمے۔۔۔یورپ کی غالب مادہ پر ستانہ تہذیب اور اس کی تحریکوں ۔۔۔کو ہدف بنایا گیا، تاکہ ضرب اصل منبع پر لگائی جائے، محض ان آواز ہائے باز گشت کا تعاقب نہ کیا جائے جو مسلم معاشرے میں سنائی دے رہی ہیں۔
l اس علم الکلام میں فطری طور پر علم کے مآخذ سے بحث کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ یورپ کا اصل دعویٰ ہی یہ ہے کہ وحی غیر ضروری ہے۔ انسانی عقل اور تجربہ تہذیب وتمدن کی صورت گری کے لیے کافی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کا دعویٰ یہ ہے کہ عقل اور تجربہ اسی وقت مفید ہیں جب وحی کی روشنی میں اپنا وظیفہ انجام دیں، ورنہ یہ اسی طرح حقیقت کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں، جس طرح روشنی کی عدم موجودگی میں انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصرہے۔ اور وحی کی روشنی قرآن پاک ہے۔ [اس نئے علم الکلام میں وحی، عقل اور تجربے کے صحیح مقام کومتعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نیز اس کوواضح کیا گیا ہے کہ جدید علوم کی فراہم کردہ معلومات میں کیا پہلو افادیت کے ہیں اور بحیثیت ذریعہ ان کی دقتیں اور حدود کیا ہیں۔)
l اس علم الکلام نے جو طرزِ استدلال اختیار کیا ہے، اس میں عقلِ سلیم کو ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عقل کی نفی کرتا ہے اور نہ مجرّد عقل پر کامل انحصار۔ تفہیم القرآن میں قدم قدم پر عقل سلیم ہی کو اپیل کیا گیا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ عقل سلامتی و راستی سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہو۔ یہی قرآن کا طرزِ استدلال ہے۔ اس میں منطقی ربط اور اندرونی توافق اور مطابقت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقیقتِ نفس الامری کا شعور اور اس سے مطابقت بھی پیدا کی جاتی ہے۔ نیز نتائج کی روشنی میں بھی ایک خاص رویّے کی افادیت یا مضرت ثابت کی جاتی ہے۔
یہ استدلال محض عقلی نہیں ہوتا گو اس میں عقل کے لیے پوری پوری اپیل ہوتی ہے۔ یہ عقل کے ساتھ ساتھ انسان کی پوری شخصیت کو، اس کے تاریخی اور اخلاقی وجود کو، اس کے جذبات اور احساسات کو، اس کے موازنے اور تقابل کی حِس کو اپیل کرتا ہے۔ اس طرح جس دل کو مطمئن کرتا ہے اس کو ایک نئی شخصیت میں ڈھال دیتا ہے۔ یہ صرف قائل ہی نہیں کرتا، تبدیل بھی کرتا ہے۔ اس میں محسوس و معلوم سے دلیل کا صغریٰ اور کبریٰ تیار ہوتا ہے اور جانی پہچانی حقیقتوں پر تفکر کے ذریعے حقیقت کی معرفت پیدا کی جاتی ہے۔ جدید علم الکلام میں اسی طرزِ استدلال کو اختیار کیا گیاہے۔
lقرآن کے طرزِ استدلال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مخالف کو اس کے اپنے تسلیم شدہ اصولوں یا علوم سے لاجواب کرتا ہے۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قوم کو اس طرف متوجہ کرنا کہ: ’’جس بت کو تم معبود اور کارساز سمجھتے ہو، اس کے بارے میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اس نے دوسرے چھوٹے بتوں کو توڑ دیا ہوگا۔‘‘
جدید علم الکلام میں مغرب پر تنقید کے سلسلے میں اسی اسلوب کو بھرپور انداز میں استعمال کیاگیا ہے۔ تفہیم القرآن میں اس کی نہایت عمدہ مثالیں ملتی ہیں:
lتفہیم القرآن نے جو علم الکلام پیدا کیا ہے، اس میں اسلامی احکام کی حکمت اور اس دور کے مسائل اور ادارات سے اس کی مناسبت کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہ چیز ایک طرف قرآن کی تعلیمات پر اعتماد اور یقین کو بڑھاتی ہے تو دوسری طرف قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے کہ اس کی تعلیمات پر زمانے کے تغیرات کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ آج بھی اتنی ہی تازہ، پُرتاثیر اور بروقت ہیں، جتنی ساتویں صدی میں تھیں۔
lقرآن کے طرزِ استدلال کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں قلب ونظر کے اطمینان کے ساتھ ساتھ ہر قدم پر تزکیہ نفس کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ پوری شخصیت مطلوبہ سمت میں ترقی کرسکے۔ تفہیم القرآن میں اسی طریقے کو اختیار کیا گیاہے۔ اس میں تفہیم اور تزکیہ ہر جگہ شانہ بشانہ رہتے ہیں۔ یعنی اس علم الکلام میں اصل گوہرِ مطلوب محض ایمان اور نیک عمل ہے۔ ان دونوں کو ہر قدم پر مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ جو شے رگوں میں دوڑے پھرے وہی آنکھ سے بھی ٹپکے۔
یہ ہیں تفہیم القرآن میں جلوہ گر ہونے والے علم الکلام کے چند خدوخال!
9۔ اشاریہ: تفہیم القرآن کی ایک اور منفرد خصوصیت اس کا اشاریہ ہے۔ قرآن پاک کے متعدد بڑے عمدہ اور قیمتی اشاریے دنیا کی مختلف زبانوں میں موجود ہیں لیکن تفہیم القرآن میں جو اشاریہ بنایا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قرآن اور تفہیم القرآن کے تمام اہم مباحث کا ایک آئینہ ہے۔ کسی بھی اصولی یا جزوی مسئلے پر قرآن پاک میں جہاں جہاں بھی کوئی بات کہی گئی ہے اس کا احاطہ اس میں کرلیا گیا ہے۔ موضوعات کی کثرت، تنوع اور تفصیل کی بدولت قرآن پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ اشاریہ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ اگر ’تفہیم القرآن‘ علوم کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، تو یہ اشاریہ اس انسائیکلوپیڈیا تک لے جانے والا زینہ ہے۔ میں اس اشاریے کو بھی تفہیم القرآن کی اولیات میں شمار کرتا ہوں۔ اس لیے کہ تفسیر قرآن کے ساتھ قرآن کے موضوعات پر ایسا اشاریہ اس سے پہلے کبھی مرتب نہیں کیا گیا۔
تفہیم القرآن اور دورِ جدید کا چیلنج
دورِ حاضر کے چیلنج کو مختلف طریقوں سے سمجھا اور بیان کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کے ایک ماننے والے اور تفہیم القرآن کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اس پر غور کرتا ہوں تو اس چیلنج کے تین پہلو نمایاں محسوس ہوتے ہیں:
lدورِ جدید میں تقریباً عالم گیر پیمانے پر وحی کا انکار یا اس سے صرفِ نظر کرکے زندگی کا پورا نقشہ ذاتی اور قومی تعصبات یا لادینی نظریات کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔ مغرب کی لادینی اقوام کے تصورات اسی ذیل میںآتے ہیں۔ ہندومت، بدھ مذہب اور دوسرے غیر الہامی مذاہب کے پیرو بھی ایک حد تک اسی گروہ میں شامل ہیں۔
lجو وحی کے قائل ہیں، وہ بھی اس کے سلسلے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک تسلیم نہیں کرتے بلکہ اُس وحی کو آخری سمجھتے ہیں جو ان کے نبی پر نازل ہوئی۔ اسلام کو وہ مبنی بر وحی مذہب تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہودیت اور عیسائیت کے پیرو اسی گروہ سے متعلق ہیں۔
lمسلمان، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبئ برحق سمجھتے ہیں، ان کا ایک بڑا حصہ عملاً دین ودنیا کی تقسیم و تفریق کا قائل اور اس پر عامل ہوگیا ہے۔ اس تفریقِِ دین ودنیا کی ایک مذہبی روایت ہے جس میں دین کو انفرادی زندگی کے چند خاص دائروں اور اجتماعی زندگی کے چند مظاہر تک محدود کرلیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک دنیاوی سلسلہ ہے جس میں گو اجتماعی اور ایک حد تک انفرادی زندگی کے لیے دین کو ترک تو نہیں کیا گیا مگر اس کی اصل تعلیمات کے حقیقی مفہوم کو تبدیل کردیا گیا ہے یا کیا جارہا ہے۔ یہ گروہ اسلام کا پیوند دوسرے نظاموں اور نظریات سے لگاتا ہے اور اسلام کے احکام کی ایسی تاویلات کرتا ہے جو دراصل تحریف کے مترادف ہیں۔
جس چیز کو ہم ’دورِ جدید کا چیلنج‘ کہتے ہیں، وہ دراصل ان تین، بلکہ چار چیلنجوں پر مشتمل ہے۔ تفہیم القرآن نے ان چاروں کا جواب اپنے انداز میں دیا ہے:
اوّل ا لذکر کے مقابلے میں تفہیم القرآن نے وحی کے اثبات کا رویہ اختیار کیا ہے اور محکم دلائل سے یہ دکھایا ہے کہ انسان خدا کی رہنمائی کا محتاج ہے اور اس رہنمائی کے ماننے اور اس پر عمل کرنے پر اس کی نجات اور فلاح وکامیابی کا انحصار ہے۔
ثانی الذکر کے مقابلے میں تفہیم القرآن نے یہ دکھایا ہے کہ جو اپنے آپ کو وحی کا اجارہ دار سمجھ رہے ہیں وہ کتمانِ حق اور التباسِ حق کے مجرم ہیں۔ بائیبل نے اپنی اصل شکل میں مجموعی طور پر اسی دعوت کو پیش کیا تھا جو قرآن پاک نے پیش کی ہے، لیکن بائیبل کے ماننے والوں نے اس کی شکل ایسی بگاڑ دی ہے کہ آج اس میں وحی الٰہی کی مکمل تصویر دیکھی نہیں جاسکتی۔ آج اگر کسی مقام پر وحی کی رہنمائی بلا میل اور بلا کم وکاست مل سکتی ہے تو وہ صرف قرآن پاک ہے۔
آخرالذکر دونوں گروہوں کو مخاطب کرکے تفہیم القرآن ان کی غلطیوں کو قرآن اور عقل کی روشنی میں بیان کرتی ہے اور قرآن کی تعلیمات کو دو اور دوچارکی طرح واضح کردیتی ہے۔ مذہب کے محدود اور جامد تصور کو وہ بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے، قرآن کے انقلابی پیغام کی وضاحت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ قرآن کس طرح زندگی کے ایک ایک گوشے کی تعمیر و تشکیلِ نو کرتا ہے۔
پھر تفہیم القرآن یہ بتاتی ہے کہ نجات اور کامیابی کے لیے کوئی مختصر راستہ (short cut) نہیں ہے۔ زندگی کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ پوری زندگی خدا کی بندگی میں گزرے اور خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری وساری ہو۔ نماز اور عبادت کا حق بھی اسی وقت ادا ہوتا ہے جب ان کے ساتھ زندگی اور نظام زندگی کو گناہ اور طاغوت کی بندگی سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی جائے۔
تفہیم القرآن، متجددین کی غلط فہمیوں، یا بہ الفاظِ صحیح تر، اُن غلط فہمیوں کو، جن میں وہ دوسروں کو مبتلا کرتے ہیں، دور کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اطاعت یا بغاوت کے راستے تو قابلِ فہم ہیں، لیکن مان کر نہ ماننے کا یہ رویہ عقل، قرآن اور بنیادی اخلاق ہر چیز کے خلاف ہے۔
اس طرح تفہیم القرآن نے دورِجدید کے چیلنج کے ہر پہلو کا مثبت، مؤثر اور مدلل جواب دیا ہے اور یہ کہ ایک نئے علمِ کلام کے ذریعے قرآن کے تصورِ دین اور زندگی کے پروگرام کو مثبت طورپر پیش کیا ہے۔ اس طرح اس کتاب نے وہ کام کیا ہے، جس کو انجام دینے کے لیے لائبریریاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ اس دور کا بہترین لٹریچر ہی نہیں، لٹریچر ساز اور انسان گرہے۔۔۔ اس سے وہ انسان بھی تیار ہو رہے ہیں اور ہوں گے جو دورِ جدید کے چیلنج کا جواب دے سکیں، اور اس جھیل سے وہ دریا بھی نکلیں گے جو فکر و نظر اور علم وادب کی نئی نئی وادیوں کو سیراب کریں گے۔
[ہفت روزہ ’’آئین‘‘ لاہور، تفہیم القرآن نمبر،
مدیر: مظفر بیگ، دسمبر1972ء،ص9۔32]
nn

حصہ