یہ حسنِ اتفاق ہے جب بھی ہم پاکستان کے تناظر میں ترقی کی شرح، غربت کے خاتمے، تعلیم کی صورت حال، عدم مساوات یا پھر تبدیلئ آب و ہوا اور ایسے ہی دوسرے ترقیاتی پیمانہ ناپنے والے ہندسوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو عین اسی وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہوتا ہے۔ پچھلے سال ان ہی دنوں میں جب راقم الحروف نے پاکستان کے ترقیاتی اہداف (MDG’s) کے حصول میں ناکامی کی فکر انگیز داستان فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کے لیے پیش کی تھی، اُس وقت بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس نیویارک میں جاری تھا، بلکہ گزشتہ اجلاس میں رکن ممالک کو ترقی کے نئے اہداف دئیے گئے جس کو Sustainable Development Goals کا نام دیا گیا۔ SDG’s کے 17 اہداف 2030ء تک تمام رکن ممالک کو حاصل کرنے ہیں جس میں ایک ہدف ایسا بھی ہے جو صرف سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن اس کو حاصل کرنا کم از کم ایسی دنیا جس میں ہم سب آجکل سانس لے رہے ہیں، میں ناممکن نظر آتا ہے، اور وہ ہے دنیا سے’’غربت کا مکمل خاتمہ‘‘۔ اب کوئی اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں بیٹھے ہوئے بابوؤں سے پوچھے کہ پاکستان کی جس ’حکمران اشرافیہ‘ کو MDG’s کے آٹھ مقاصد حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان گنتی کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو MDG’s کے حصول میں مکمل طور پر ناکام ہوئے، وہ ان نئے اہداف (SDG’s) کے حصول کے لیے کیوں کر توجہ دے گی!
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جاری ہے اور اس اجلاس کے ایجنڈے میں SDG’s پر عمل درآمد کا جائزہ لینا، پناہ گزینوں کا مسئلہ، شام کی صورت حال اور تبدیلئ آب و ہوا جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ اس دفعہ ہم فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کے لیے ایک ذرا مختلف داستان کا احوال پیش کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جسے اقوام متحدہ ترقیاتی ادارہ (United Nations Development Program) کہتے ہیں، یہ ایک نہایت فعال ادارہ ہے جو معاشرے میں ہر سطح کے لوگوں کے ساتھ مل کر ایسی اقوام کی تعمیر میں مدد دے رہا ہے جو بحرانوں کا مقابلہ کرسکیں اور اس طرز کی افزائش کو آگے بڑھائیں اور دیرپا بنائیں جس سے ہرشخص کے معیارِ زندگی میں بہتری آئے۔170 سے زائد ممالک اور علاقائی حدود میں UNDP لوگوں کو بااختیار بنانے اور خطرات کے مقابلے کی صلاحیت رکھنے والی اقوام متحدہ کی تعمیر میں مدد کے لیے عالمی تجربات اور مقامی معلومات پر مبنی رہنمائی فراہم کررہا ہے۔
اس تمہیدکی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ’بزنس ریکارڈر‘ نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام برائے پاکستا ن کے کنٹری ڈائریکٹر مارک آندرے فرانشے (Marc-Andre Franche) کا ایک چشم کشا انٹرویو شائع کیا۔ اس انٹرویو کے مندرجات کا چرچا انگریزی میڈیا میں پچھلے دنوں بے انتہا رہا اور مختلف زاویوں سے ان باتوں کا جائزہ لیا گیا جو مارک آندرے نے کہیں، لیکن ملک کے اردو ذرائع ابلاغ نے اس انٹرویو کو اہمیت کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے اردو ذرائع ابلاغ عوام الناس تک وہ فکر انگیز باتیں جو اس انٹرویو میں کی گئیں، پہنچانا نہیں چاہتے تھے، شاید اس خطرے کے پیش نظر کہ عام لوگوں کو کہیں سچائیوں کا علم نہ ہوجائے۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو لیکن یہ ظاہر ہے کہ ذرائع ابلاغ کے بھی تمام مالی مفادات (چاہے وہ برقی ہوں یا طباعتی) اُسی ’’اشرافیہ‘‘ سے وابستہ ہیں جس کو انٹرویو میں مجرم ٹھیرایا گیا ہے۔ برقی میڈیا کا رونا ہی بے کار ہے، ہمارے پرنٹ میڈیا کے بھی ایجنڈے پر نہ اس ملک کے 40 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ ہیں اور نہ ان کے گمبھیر مسائل۔ فقط کوئی شے اہم ہے تو وہ صرف ’’سیاست‘‘ کے نام پر ہیجان خیزی اور ’’تفریح‘‘ کے نام پر اوباشی و آوارگی۔
اقوام متحدہ ترقیاتی ادارہ (UNDP) کے کنٹری ڈائریکٹر مارک آندرے فرانشے نے چار سال کا عرصہ پاکستان میں گزارا اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ مختلف فورم پر پاکستان کے معاشی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بھرپور انداز میں کھل کر بات کی، جس کی عموماً ایسے عہدوں پر براجمان شخصیات سے توقع نہیں کی جاتی۔ انٹرویو کا متن پڑھ کر شاید قارئین کو ایسا لگے کہ انہوں نے کسی بین الاقوامی سول سرونٹ کا ناقدانہ جائزہ نہیں پڑھا بلکہ کوئی پرانے انداز کا ڈھیٹ کمیونسٹ اپنا غصہ نکال رہا ہے۔ انٹرویو پڑھنے کے بعد سوچیے گا ضرور کہ کیا واقعی پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جیسا کہ مارک آندرے نے بتایا! ذاتی طور پر مجھے تو ایسا لگا جیسے کارل مارکس انیسویں صدی کی بے حس ’’یورپی اشرافیہ‘‘ کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہو۔
انٹرویو کا متن پیش کرنے سے پہلے UNDP کے دائرۂ کار اور بجٹ کے حوالے سے بنیادی معلومات یہاں پیش کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ ترقیاتی ادارہ نے 1960ء سے پاکستان میں اپنے ترقیاتی کامو ں کا آغا ز کیا تھا۔ UNDP پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2015ء میں دی گئی معلومات کے مطابق 2015ء میں UNDP پاکستان نے چار شعبوں میں کا م کیا:
1۔ جمہوری طرزِ حکمرانی26فیصد
2۔ بحرانوں کی روک تھام اور بحالی54فیصد
3۔ ماحولیات و تبدیلئ آب و ہوا16فیصد
4۔ ترقیاتی پالیسی 4فیصد
اب دیکھتے ہیں کہ سال 2015ء میں کتنی رقم اقوام متحدہ ترقیاتی ادارہ پاکستان نے دوسرے شراکت داروں کے تعاون سے پاکستان میں حکومتی اداروں کے ذریعے سے خرچ کی۔
2015ء کے اخراجات 5 کروڑ 30 لاکھ امریکی ڈالر ہیں جو ظاہر ہے ایک خطیر رقم ہے۔ اس مضمون میں ایک نقشہ (flow diagram) بھی شامل کیا گیا ہے جو UNDP پاکستان کی 2013ء تا2017ء کی ترجیحات کو ظاہر کررہا ہے۔
ذیل میں انٹرویو کا مکمل متن پیش کیا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
س: بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ اب آپ پاکستان سے واپس جارہے ہیں تو آپ کے کیا تاثرات اور احساسات ہیں؟
ج: جب آپ کسی ملک میں چار سال کا عرصہ گزارتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس ملک کی پیچیدگیوں کو سمجھیں۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں کتنی دفعہ بلوچستان گیا۔ مجھے یقین ہے کہ میں خیبر پختون خوا کے ہر ضلع میں گیا، میں نے کئی دفعہ شمالی علاقہ جات کا سفر کیا، اور ظاہر ہے میں سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں متواتر سفر کرتا رہا ہوں، تو میں یہاں سے اور یہاں کے لوگوں سے بہت متاثر ہوکر جارہا ہوں۔ جب آپ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی تھی کہ یہ ملک اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا۔ بہت زیادہ شکوک و شبہات تھے کہ یہ ملک چل سکے گا یا نہیں۔ لیکن ایسا ہوا۔ یہ سب کچھ بہت جلدی ہوا اور پاکستان نے کم عرصے میں بہت کچھ حاصل کیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں یہ دیکھ کر بہت زیادہ مایوس ہوجاتا ہوں کہ اس ملک کے عوام اتنے قابل اور ذہین ہونے کے باوجود غربت اور عدم مساوات کے خاتمے، جدید ریاست کے قیام اور اداروں کی فعالیت کے حوالے سے اس قدر کامیابی حاصل نہیں کرسکے جتنی ان کو کرنی چاہیے تھی۔ یہ میرا کام نہیں کہ میں بتاؤں کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ 2016ء میں بھی38 فیصدپاکستانی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ ایسے اضلاع ہیں جہاں لوگ افریقی صحرائے اعظم میں بسنے والوں کی طرح زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ یہاں تک کہ اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور عورتوں اور فاٹا کے لوگوں کو عزت تک نہیں دی جاتی۔ ایک ایسا ملک جو اس قابل بھی نہیں کہ سب مل کر مردم شماری ہی کروا سکیں، یا پھر اس قابل بھی نہیں کہ فاٹا میں اصلاحات کے لیے مل کر دباؤ ڈال سکیں۔ ایک ایسا علاقہ جو رسم و رواج کے حوالے سے آج بھی سترہویں صدی میں زندہ ہے۔ یہ بہت حد تک قبٖٖضے جیسی صورت حال ہے۔
س: کیا کوئی پریشان کن سوچ آپ کے ذہن پر قبضہ جمائے ہوئے ہوگی جب آپ اقوام متحدہ کے صدر دفترنیویارک جانے کے لیے فلائٹ پر ہوں گے؟
ج: ایک سوچ جس کے ساتھ میں یہاں سے جاؤں گا وہ یہ ہے کہ ملک میں اس وقت ہی تبدیلی آسکتی ہے جب بااثر ادارے اور لوگ۔۔۔ امراء اور سیاست دان اپنے قلیل المیعاد مفادات کی قیمت پر اپنے اجتماعی اور قومی مفاد کو ترجیح دینے کے بارے میں سوچیں۔ آپ کے پاس اشرافیہ اور سیاست دانوں کا ایسا طبقہ نہیں ہونا چاہیے جو اپنی طاقت کو اپنی دولت بڑھانے اور اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر پاکستان ایک جدید، روشن خیال اور فلاحی ریاست میں تبدیل ہونا چاہتا ہے تو اسے اس بنیادی خامی کو دور کرنا ہوگا۔ سیاسی اور معاشی اشرافیہ کو بھی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
س: ہم کچھ نکات جن کا آپ نے ذکر کیا اس پر دوبارہ واپس آئیں گے، لیکن اس سے پہلے کچھ ادارہ جاتی معاملات پر نگاہ ڈالیں گے۔ آپ اس عہدے پر چار سال رہے لیکن زیادہ تر غیر ملکی، جو ترقیاتی کاموں کے لیے آتے ہیں، وہ ایک یا دو سال ہی گزارتے ہیں جو کہ ناکافی مدت ہے، کیونکہ چھ سے نو ماہ تو آپ کو معاشیات، نظام، نظام کو چلانے والوں کو جاننے اور سمجھنے میں لگ جاتے ہیں اور جب آپ کام کرنے کے لیے تیار ہوپاتے ہیں تو واپس جانے کا وقت آجاتا ہے، کیا آپ اس تجزیے سے اتفاق کریں گے؟
ج: پاکستان کے لیے UNDP کی سرکاری مدت ملازمت دو سال ہے، حالانکہ میں اپنی تمام تعیناتیوں میں تقریباً چار سال گزارتا رہا ہوں لیکن میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ میں ہمیشہ سے اپنے بین الاقوامی برادری کے دوستوں پر تنقید کرتا رہا ہوں جو ایک یا دو سال کی تعیناتی گزارتے ہیں جو کہ ظاہر ہے بہت مختصر عرصہ ہوتا ہے کسی بھی ملک کی پیچیدگیوں اور مسائل کو جاننے اور سمجھنے کے لیے۔ یہ بھی درست ہے کہ غیر ملکیوں کو صحیح رویّے اور نظریے کے ساتھ آنا چاہیے۔ آپ کو کبھی بھی اس ذہن کے ساتھ نہیں آنا چاہیے کہ آپ پاکستان کو کچھ پڑھائیں گے یا احکامات دیں گے۔ میرے خیال میں کوئی شخص جب بھی کسی دوسرے ملک جائے تو اُس کو انتہائی عاجزی و انکسار کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اور حقیقتاً میرا کام معاشرے کے مختلف طبقوں کے مسائل کو سننا اور ان کے حل کے لیے معاونت فراہم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
س:2011ء میں اُس وقت کے UNDP پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے UNDP میں نمو پذیری (growth) اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو پروان چڑھانے کے کام پر بہت توجہ دی، خاص طور پر پیداواری حکمت عملی کے نظام (New growth strategic framework) پر۔۔۔ تاہم آپ کے دور میں نموپذیری کے اوپر توجہ میں کمی اور تنزلی نظر آتی ہے، اس کے پس پردہ کیا وجوہات ہیں؟
ج: میرے خیال میں ہماری نمو پذیری پر توجہ مرکوز رہی ہے لیکن یہ درست ہے کہ معاشی نمو پذیری کی حکمت عملی کے جس نظام کو پچھلی انتظامیہ نے تیار کیا تھا وہ نئے اہلکاروں نے مکمل طور پر نہیں اپنایا۔ البتہ اس نظام (frame work)کے بہت سے اجزاء کو ویژن 2025 میں رکھا گیا ہے۔ آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہم یہاں حکومت کی خدمت کے لیے ہیں۔
س:UNDP پاکستان کی ترجیحات اور کام کون طے کرتا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کا صدر دفتر؟ کنٹری ڈائریکٹر کے پاس کتنی گنجائش اور اختیار ہوتا ہے؟
ج: ہم اقوام متحدہ کی عمومی ترقیاتی ایجنسی ہیں اور اس طرح سے ہم ہر ملک کے حساب سے کام کرتے ہیں، کیونکہ ہم کوئی مخصوص ایجنسی نہیں جس کا کوئی مخصوص دائرۂ کار ہو۔ ہمارے پاس ایک دستاویز ہے جسے ہم UNDP Strategic plan کہتے ہیں جہاں پر ہم پوری دنیا کے لیے ترجیحات طے کرتے ہیں اور پاکستان کے لیے ہم اُس چیز کا انتخاب کرتے ہیں جس میں حکومت کی دلچسپی نظر آتی ہے، اور پھر وہ لائحہ عمل جس پر ہم متفق ہوجاتے ہیں اُس پر باضابطہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ دستخط ہوتے ہیں۔ جب میں آیا تھا تو میرے پاس بہت کم گنجائش تھی۔ میری تمام تر توجہ اس حکمت عملی (vision 2025) پر عمل درآمد پر تھی، اور میرے خیال میں ہم نے کم و بیش وہ حاصل کرلیا ہے۔
س:آپ کے خیال میں کیا ترکہ یا میراث آپUNDP پاکستان کے لیے چھوڑکے جارہے ہیں؟
ج: میرا نہیں خیال کہ کسی ایک پراجیکٹ کے ذریعے آپ دنیا کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ لیکن کچھ چیزیں ہیں جو میں پیچھے چھوڑ کر جارہا ہوں اور مجھے فخر ہے اس کام پر جو میری ٹیم نے انجام دیے۔
پہلا کام یہ کہ UNDP پاکستان غربت میں کمی، مساوات، فاٹا، اصلاحات اور ایسے ہی دوسرے منصوبوں میں عوامی بحث کے لیے ایک رابطہ کار کے طور پر کام کررہا ہے اور UNDP کا یہ کردار بڑھتا جارہا ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کی مجھے امید ہے کہ میرے پیش رو جاری رکھیں گے۔ جب میں پاکستان آیا تھا تو کچھ عرصے سے یہ کردار ہم ادا نہیں کررہے تھے کیونکہ ہماری ساری توجہ قدرتی آفات پر تھی۔ ہم ہمیشہ سے نئے بحرانوں پر ردِعمل ظاہر کررہے تھے۔ میرے پاس یہ موقع تھا کہ میں بڑے کردار کے لیے کام کروں جو نہ صرف پالیسیاں بنانے میں حکومت کی مدد کرے بلکہ سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر پالیسی پر مکالمے کے لیے موقع فراہم کرسکوں۔
دوسرا کام یہ کیا کہ میں نے صوبوں، فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بڑی سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ ہمارا پشاور کا دفتر افرادی قوت کے حساب سے ہمارے اسلام آباد کے دفتر سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ ہماری فنڈنگ کا ایک بہت بڑا حصہ صوبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ پہلے ہم خاص طور پر وفاقی حکومت کے ساتھ کام کرتے تھے، یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہےUNDPپاکستان میں۔ پراجیکٹ پر عمل درآمد کے لیے لامرکزیت کرچکا ہوں اور اپنے زیادہ مضبوط دفاتر بلوچستان اور پشاور میں قائم کیے ہیں۔
تیسرا میں نے UNDP پاکستان کو ایک مرکز پر لانے میں مدد دی۔ UNDP بہت سارے مختلف کام کرنے کا عادی تھا۔ شروع کے چھے مہینے جب میں یہاں تھا ہم نے 144 پراجیکٹ بند کیے تھے اور اب ان کے بجائے ہم صرف 7 شعبوں میں ارتکاز کررہے ہیں، اسی میں اپنی مہارت کو بڑھا رہے ہیں اور سول سوسائٹی اور حکومت کے ساتھ ان ہی 7 شعبوں میں ہم مصروف ہیں۔
س:صوبوں کے درمیان UNDP کے فنڈز کی تقسیم کا تناسب کیا ہے؟
ج: ہمارے پاس پاکستان میں تقریباً 287 ملازمین ہیں، ان میں سے 135 پشاور میں ہیں۔ تقریباً ہمارے 35فیصد فنڈ فاٹا پر خرچ ہوتے ہیں۔ 35فیصد ہی خیبر پختون خوا پر، 15فیصد بلوچستان پر اور جو باقی بچے ہیں وہ ہم قومی سطح پر خرچ کرتے ہیں جس میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی شامل ہیں۔ تو سب ملا کر تقریباً ہمارا 85 فیصد فنڈ فاٹا، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں خرچ ہورہا ہے۔
س: UNDP کی اپنی Human Development Index کے مطابق بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ آپ کا نہیں خیال کے 15فیصد ترقیاتی بجٹ بہت ہی قلیل تناسب ہے؟
ج: یہ یقینی طور پر کراچی اور لاہور کے تناسب سے بہت بڑا ہے۔ بلوچستان میں پراجیکٹ پر عمل درآمد کرنا آسان نہیں، یہ بھی بہت مشکل ہوتا ہے کہ ہم اپنے شراکت داروں کو بلوچستان میں کام کرنے کے لیے تیار کرسکیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم بلوچستان کے لیے زیادہ رقم مختص کرسکیں۔
س: دوسرے صوبوں کے مقامی حکومتوں کے نظام (لوکل باڈیز) کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
ج: صوبوں نے مقامی حکومتوں کے نظام کے جو قوانین وضع کیے ہیں ہم بنیادی طور پر ان کے معیار سے بہت دلبرداشتہ ہیں۔ صرف خیبر پختون خوا کا قانون لائقِ احترام ہے جو مقامی حکومتوں کو مالی وسائل اور اختیارات دیتا ہے۔ مقامی حکومتوں کا یہ مطلب نہیں کہ آپ انہیں منتخب کریں اور پھر ان کو اختیارات اور مالی وسائل دینے سے انکار کردیں۔ ہم ان قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے پیروی کررہے ہیں، البتہ خیبر پختون خوا میں کیونکہ انہوں نے ایک مکمل قانون بنایا ہے تو ہم خیبر پختون خوا کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں جس کے تحت ہم ان کو مقامی نظام چلانے کے لیے معاونت فراہم کریں گے۔ پہلے مرحلے میں ہم سات اضلاع میں کام کریں گے، ہر ڈویژن سے ایک ضلع لیں گے۔
س:آپ کا نہیں خیال کہ اب تک UNDP جن کاموں میں مصروف رہا ہے ان کے بارے میں زیادہ عالمانہ گفتگو میڈیا میں نہیں ہوئی؟ کیا یہ کوئی ایسی ضروری چیز ہے جس کے لیے آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے پیش رو کے UNDP کے ایجنڈ ے پر سب سے اوپر ہو؟
ج:میرا خیال ہے کہ جن مسائل کے حل کے لیے ہم کام کرتے رہے ان کے بارے میں میڈیا میں آگاہی دینے کے حوالے سے ہم کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ میں نے اشرافیہ کی بات کی، میڈیا والے بھی اشرافیہ ہیں۔ یقیناًمیڈیا ایک کاروبار ہے، لیکن جو کاروبار لوگوں کی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ نہیں ڈالتا اس کی افادیت بہت کم ہوتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ میڈیا پیسہ بنائے، لیکن میڈیا جمہوریت کا ایک ستون ہے اور اسے لوگوں کو آگاہی اور تعلیم دینا ہوگی۔ بدقسمتی سے حکومت کا فوج پر انحصار بڑھتا جارہا ہے اور کسی قدر طاقتور قوتیں اپنی مرضی سے میڈیا کو استعمال کررہی ہیں۔ یہی قوتیں جمہوریت کو فرسودہ بناتی ہیں اور آگے چل کر ملک کے بنیادی اداروں کی جڑیں بھی کمزور ہوتی چلی جائیں گی۔
س:کیا آپ اپنے پیش رو کو سفارش کریں گے کہ وہ میڈیا کو توجہ دلائے کہ میڈیا کس معاشی ایجنڈے کی تیاری کی طرف قدم بڑھائے؟
ج: ہم کوئی مخصوص پراجیکٹ تو اس پر نہیں کرسکتے لیکن دوسرے منصوبوں جیسے غربت، موسمیاتی تبدیلی وغیرہ میں ہمارا بہت زور ہے کہ ہم میڈیا کو اپنے ساتھ شامل رکھیں۔
س: لیکن ایسے تمام کام صرف اس حد تک محدود رہتے ہیں کہ رپورٹروں کے لیے کوئی سیمینار کرا دیا، یا پھر مدیروں کی کوئی گول میز کانفرنس آگاہی فراہم کرنے کے لیے کرا دی، جس کے اثرات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے میڈیا کا زیادہ تر مرکزِ نگاہ معاشی و اقتصادی سیاست ہوتی ہے یا پھر تفریحی پروگرامات۔ تو یہ تمام سیمینار وغیرہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرپاتے۔ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ معاشی و اقتصادی میڈیا کی مارکیٹ پیدا کرنے کے حوالے سے کسی خاص قسم کی تحقیق کی ضرورت ہے، جمہوریت کے ستون کے طور پر ایک معاشی میڈیا جو میڈیا کے مالکان کے ساتھ مل کر منظم اور فعال کیا جا سکتا ہو؟
ج:لازمی طور پر یہ ایسی چیز ہے جس پرUNDP کچھ کرسکتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ UN کی تمام ایجنسیوں کو اپنے حکومتی شراکت اداروں کے ساتھ مل کر یہ کرنا چاہیے۔ ہماری ضرورت ہے کہ ہم اس میں حکومت کو بھی شامل کریں۔
س:عدم مساوات کو 21 ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاق و سباق میں آپ زیادہ فکرمند دولت اور آمدنی کی غیر مساوی تقسیم کے حوالے سے ہیں یا پھرحقوق اور مواقع کی غیر مساوی تقسیم کے حوالے سے؟ اور کیا اس نقطے پر UNDPکوپاکستان میں توجہ دینا چاہیے؟
ج:اقوام متحدہ کے تمام ترقیاتی اہداف میں اگر کوئی ایک مسئلہ ہر جگہ نظر آئے گا تو وہ یہ ہوگا کہ دنیا عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کیا کرے گی۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف ترقی یافتہ ملکوں کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اور عدم مساوات کا حل نکالنا غربت کا حل نکالنے سے زیادہ مشکل ہے۔
پاکستان کے سیاق و سباق میں مجھے دونوں کی فکر ہے۔ لیکن مجھے زیادہ پریشانی حقوق اور مواقع کی غیر مساوی تقسیم کی ہے۔ مواقع کی نسلی عصبیت پاکستان میں خوفناک ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوان کوشش کررہے ہیں کہ یہ ملک چھوڑ جائیں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس پر UNDP کام جاری رکھے گا اور عدم مساوات کے حوالے سے اعلیٰ معیار کے ڈیٹا اور تجرباتی کاموں کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کرتا رہے گا۔
س: گفتگو کے آغاز میں آپ نے اشرافیہ کے کردار پر زور دیا تھا۔ اشرافیہ کیوں چاہے گی کہ کھیل نئے سرے سے شروع ہو؟ غربت اور عدم مساوات اس وقت کم ہوتی ہیں جب کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو (جیسے غریبوں کی طرف سے انتقامی کارروائی یا بغاوت، یا اشرافیہ کے اپنے درمیان تناؤ وغیرہ) جو اشرافیہ کو مجبور کردے کہ وہ غریبوں کے ساتھ مل کر کوئی حکمت عملی یا اتحاد بنائے۔ کیا آپ ایسی کوئی صورت حال پاکستان میں ابھرتی ہوئی دیکھ رہے ہیں؟
ج: مجھے فوری بغاوت کے آثار تو ابھرتے ہوئے نظر نہیں آرہے، لیکن ایسی صورت حال بتدریج بن رہی ہے جس میں 40فیصد آبادی کو مسلسل غربت پر راضی رکھنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔
س: لیکن اشرافیہ کو اس وقت بھی مجبور نہیں کیا گیا تھا کہ وہ غریبوں کے فائدے کے لیے کام کرے جب غربت بہت زیادہ تھی۔ تو اب اشرافیہ ایسا کیوں کرے جب کہ غربت میں کچھ کمی آرہی ہے؟
ج: اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ہے ذاتی مفاد، اگر آپ اپنی مصنوعات کو زیادہ بیچنا چاہتے ہیں توآپ کو زیادہ خریداروں کی ضرورت ہوگی اور اس کے لیے بہتر معیشت کی ضرورت ہے۔ بہت سے چھوٹے گروہوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے جیسے کہ بابر علی (لمز کے با نی) یا سیالکوٹ کے صنعت کار و تاجر، جنہوں نے ہوائی اڈہ بنانے کے لیے حکومت کا انتظار نہیں کیا۔ وہ اس بات کو فطری سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ کو اپنے کاروبار کو بڑھانے اور وسعت دینے کے لیے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اس مہینے میں کراچی میں تھا، وہاں حالات بہت دہشت ناک ہیں۔ کراچی بالکل تباہی کے دہانے پر ہے۔ کراچی کو پاکستان کے معاشی انجن کے طور پر اگر چلانا ہے تو لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ ایک ایسے شہر میں جہاں عوامی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں آپ نہ وہاں زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کا کاروبار ترقی کرسکے گا۔
س: لیکن جب اشرافیہ کی اپنی چار دیواری (Gated communities) کالونیاں ہوں تو وہ غریب کے لیے کیوں فکر مند ہوں گے؟
ج: پاکستان ایسے کبھی بھی قائم نہیں رہ سکے گا کہ آپ نے معاشرے سے اپنے آپ کو علیحدہ کرکے چار دیواری میں محصور کرلیا ہو، تاکہ نظر ہی نہ پڑے۔ ایک جانب لوگوں کی بے ترتیب
(باقی صفحہ 41پر)
آبادیاں ہیں اور دوسری طرف بڑے بڑے شاپنگ مال جہاں عام آدمی قدم رکھتے ہوئے گھبراتا ہے۔ کیا یہ ایسا سماج ہے کہ کوئی بھی اپنے بچوں کو مسلسل رکھنا پسند کرے۔
س:تو کیا ہم آپ پر زور دے سکتے ہیں کہ آپ پیش گوئی کریں کہ یہ نقطہ ابال کب تک آئے گا؟
ج: میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن دوسرے ملکوں کے تاریخی شواہد کی بنیاد پر یہ جانتا ہوں کہ تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ ایسی اشرافیہ تادیر نہیں چل سکتی جو دولت کمانے کے لیے تو سستی، اَن پڑھ لیبر کی ناواقفیت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے مگر اپنی پارٹیاں لندن میں، شاپنگ دبئی میں اور جائداد یورپ اور امریکہ میں رکھے۔ اشرافیہ کو بالآخر خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں یہ ملک چاہیے یا نہیں۔
میں کچھ جاگیرداروں سے مل چکا ہوں جو زمین کا صدیوں سے استحصال کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پانی کا بھی ایک پیسہ نہیں دیتے، اور اس طرح انہوں نے لوگوں کو جبری مشقت میں باندھا ہوا ہے، اس کے باوجود وہ اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کے پاس مدد کے لیے جاتے ہیں۔