کے پندرہویں آرمی چیف جنرل راحیل شریف رواں سال 29 نومبر کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں اگرچہ ابھی دو ماہ باقی ہیں مگر عوام خصوصاً ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگ فکرمند ہیں کہ آئندہ کا سپہ سالارِ پاکستان کون ہوگا؟ ان کی فکر کی وجہ وہ خدشات ہیں جو جنرل راحیل شریف کے چلے جانے کے باعث حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ جنرل راحیل نے کراچی آپریشن کے ذریعے جس طرح امن و امان کی صورت حال بہتر کی اور ٹارگٹ کلرز و جرائم پیشہ افراد کا سدباب کیا اس کی مثال کم ازکم گزشتہ 22 سالوں میں نہیں ملتی۔ اس لیے سب ہی کی خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ لیکن چونکہ جنرل راحیل خود اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند نہیں ہیں اور اس حوالے سے واضح بیانات دے چکے ہیں، اس لیے حکومت کے لیے جنرل راحیل کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے قریب بھارت کی طرف سے جارحانہ کارروائیاں اور بدلتے ہوئے تیور بھی عسکری قوت کی تبدیلی کے معاملے پر حکومت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں۔ جبکہ ملک میں شدت پسندوں، دہشت گردوں کے خاتمے اور ان کے خلاف جاری کارروائیوں پر قوم جنرل راحیل شریف سے مطمئن نظر آتی ہے۔
طویل عرصے بعد لوگوں کی اکثریت فوج اور اس کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حوالے سے غیر معمولی طور پر مطمئن نظر آتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ 2007ء سے ملک میں مسلسل جاری جمہوریت عوام اور خواص دونوں ہی کی توقعات پر پوری نہیں اتر سکی۔ وفاق اور صوبوں کی سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کسی کو بھی کچھ نظر نہیں آتی، اس سے لوگ نالاں نظر آتے ہیں کیونکہ حکمرانوں کی کرپشن کے قصے اور ان کی جانب سے بے پناہ مراعات اور بھاری تنخواہیں وصول کرنے کے عمل کو وہ ملک کے خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ عام افراد کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومتیں کرپشن کا سدباب کرنے کے صرف دعوے کرتی ہیں لیکن عملاً سب الٹ نظر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کے بعد کون نیا آرمی چیف بنے گا یا بن سکتا ہے؟ اس سوال کی بازگشت ان دنوں عام ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی پیدا ہوا ہے کہ لوگوں کی خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف کی پالیسی کے مطابق نہ صرف آپریشن ضربِ عضب بلکہ کراچی آپریشن بھی مسلسل چلتا رہے، تاکہ خصوصاً کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں سیاست کی آڑ میں موجود جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ موجودہ فوجی سربراہ کے عزم کے مطابق ہوسکے۔
بات ہورہی تھی کہ کون آئندہ کا آرمی چیف ہوگا؟ پاکستان آرمی کے سینئر جرنیلوں کی فہرست کے مطابق چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات موجودہ جنرلوں میں سب سے سینئر ہیں، جبکہ اسی ترتیب سے ملتان کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، بہاولپور کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایولیوشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔ گوکہ آئندہ کے آرمی چیف کا فیصلہ ان ہی ناموں میں سے ہونا ہے۔ آئینِ پاکستان کے تحت نئے آرمی چیف کی تقرری کے حتمی فیصلے کا اختیار وزیراعظم کو ہے۔ وہ اپنے وزیر دفاع کے ذریعے سینئر جنرلوں کی فہرست آرمی سے مانگتے ہیں۔ عموماً تین یا پانچ سینئر جنرلوں میں سے ہی آرمی چیف کے نام کا تعین کیا جاتا ہے۔ سینیارٹی کی فہرست کے مطابق جونیئر جرنیل کی آرمی چیف کی حیثیت سے تقرری کے بعد ان سے اوپر رہ جانے والے سینئر جنرلوں کو ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ مذکورہ چار جنرلوں میں سے لیفٹیننٹ جنرل زبیر اور اشفاق کے درمیان لیفٹیننٹ جنرل واجد حسین اور لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ بھی ہیں، لیکن مذکورہ دونوں فنی لحاظ سے آرمی چیف نہیں بنائے جاسکتے، اس لیے کہ دونوں کے پاس کورکمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین ان دنوں ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آرمی اور ملکی قوانین کے تحت آرمی چیف خود بھی کسی آرمی افسر کا نام بطور نیا آرمی چیف نہیں دے سکتا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے ممکنہ امیدواروں میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر آئندہ سال کے پہلے مہینے میں ہی ریٹائر ہورہے ہیں۔ تاہم جنرل اشفاق ندیم، جاوید اقبال رمدے اور قمر باجوہ آئندہ سال اگست میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ اس طرح سینئر جنرلوں میں سے مذکورہ تین لیفٹیننٹ جنرلوں میں سے کوئی ایک آئندہ کا آرمی چیف بن سکتا ہے۔ تاہم وزیراعظم چاہیں تو ان چار کے علاوہ بھی کسی اور کو آرمی چیف مقرر کرسکتے ہیں، لیکن موجودہ صورت حال میں وزیراعظم میاں نوازشریف کے لیے ایسا کرنا اور اپنے اختیارات استعمال کرنا آسان نہیں ہے۔
nn