(بچے انتظار کررہے ہیں (محمد عمر احمد خان

253

ا13165ک دن بڑا افسوس ناک واقعہ پیش آیا، جب زمین پر بسنے والے ہر ملک سے، ایک۔۔۔ایک بچہ، اچانک غائب ہوگیا۔ یہ خبر ہی ایسی تھی کہ پوری دنیا میں کہرام مچ گیا، ہر طرف ان بچوں کی ڈھونڈ مچ گئی، لیکن کچھ پتا نہ چلا کہ انہیں زمین کھاگئی یا آسماں نِگل گیا ہے۔۔۔ لیکن بچے جہاں تھے، بہت محفوظ اور بہت خوش تھے۔ وہ اس وقت آلودگی اور تمام خرافات سے پاک ایک خوب صورت سیّارے پر تھے۔ ان بچوں کو نیلی پیلی، سی ون تھرٹی سے بھی کئی گُنا بڑی سی ایک اڑن طشتری اُڑاکر اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ بچوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ ایک اجلاس میں شرکت کریں گے، جو صرف ان ہی کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔
پہلے بچوں کو خوب صورت سیّارے کی سیر کرائی گئی۔ وہاں بچوں کو بھاری بستے اُٹھانے پڑتے تھے، نہ زیادہ ہوم ورک ملتا تھا۔ ہر بچے کی اپنی اُڑن طشتری کار تھی، جس میں جب جی چاہتا، وہ بیٹھتا اور آسمان کی سیر کو نکل جاتا۔ وہاں کے زیادہ تر بچے سائنسی اور تخلیقی سوچ کے حامل تھے۔ سیّارے کی فضا میں ہر وقت قسم قسم کی دل کش، رنگ برنگ اڑن طشتریاں اڑتی نظر آتیں۔ ماحول آلودگی سے پاک، صاف تھا، خوب صورت گاڑیاں ہوائی جہاز کی طرح آسمان میں فراٹے بھرتیں، لیکن کسی سے دھواں خارج نہیں ہوتا تھا۔ سیّارے میں کوئی پولیس نہیں تھی، اس لیے کوئی جُرم بھی نہیں ہوتا تھا، نہ ہی کوئی بیماری تھی، کسی کو نزلہ ہوتا تھا نہ کھانسی، ہر کوئی فِٹ اور تن درست نظر آتا تھا۔
سیّارے کی سیر کے بعد بچوں کو ایک بڑے سے دل کش ہال میں لے جایا گیا، جہاں سیّارے کے سربراہ نے ان کا استقبال کیا، پہلے بچوں کی تواضع عمدہ کھانوں اور مزے دار آئس کریم اور فالودے سے کی گئی، پھر تربیتی نشست میں تمام بچّوں کو صاف رہنے، پُرامن فضا قائم کرنے اور بھائی چارے کو عام کرنے کے نت نئے طریقے بتائے گئے اور ان سے حلف لیا گیا کہ وہ اپنی دنیا سے آلودگی، ڈاکے، جھگڑے اور خوف ناک جنگوں کے خاتمے کے لیے کام کریں گے۔ آخر میں سیّارے کے صدر نے بچوں سے خطاب کیا، سربراہ نے کہا:
’’بچّے من کے سچّے ہوتے ہیں اور لڑنے کے بعد دوبارہ مل جاتے ہیں، اس لیے ہم نے من کے سچّے، اچھے بچّوں کو یہاں بُلایا ہے، ہمیں پوری اُمید ہے کہ تمام بچّے یہاں سے واپس جاکر اپنی دنیا کو صاف رکھیں گے اور دوسرے لوگوں کو پیارومحبت، بھائی چارے اور صفائی ستھرائی کا درس دیں گے۔‘‘
سیّارے کے سربراہ نے مزید کہا:
’’آپ کی دنیا کے لوگ کائنات کے دوسرے سیّاروں پر آباد ہونے کا سوچ رہے ہیں، جس میں ہمارا سیّارہ بھی شامل ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ زمینی لوگ ہمارے سیّارے کا بھی وہی حشر کریں، جو وہ اپنی دنیا کا کررہے ہیں۔ بڑے ممالک چھوٹے ملکوں پر قبضہ کرلیتے ہیں، ڈرون طیاروں سے میزائل برساکر بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سُلا دیا جاتا ہے، کہیں پانی، کہیں تیل، توکہیں دوسرے ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ اگر انسان ہمارے سیّارے پر آگیا تو ہمارا بھی یہی حشرکرے گا، اس لیے ہم نے آپ بچوں کو بلایا ہے کہ اپنے ملک کے سربراہوں کو بھی سمجھائیں کہ وہ ہمارے سیّارے پر نہ آئیں اور اپنے سیّّارے کو بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک کریں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ہم زمین پر آکر تمام آلودگی مِٹادیں گے، خاص کر دنیا کے تین بڑے شیطان ملک ہماری فہرست میں ہیں، جو ہمہ وقت زمین پر فساد پھیلانے کی کارستانیاں کرتے ہیں، ان کے ساتھ ایک اور ملک بھی ہے، جو انسانیت کا بڑا دشمن بن کر دنیا کی نظروں میں آرہا ہے۔ آپ تمام بچوں کو ان شیطان ممالک پر بھی نظر رکھنی ہے۔
تمام بچّوں نے وعدہ کیا کہ وہ واپس جاکر دنیا کے بُرے ممالک کے سربراہان کو سمجھائیں گے کہ وہ دنیا میں فساد نہ پھیلائیں اور اِسے امن کا گہوارہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
تربیتی نشست کے اختتام پر بچوں کو بہت سارے تحائف کے ساتھ ان کے ملکوں میں پہنچا دیا گیا۔ تمام بچوں نے اپنے اپنے میڈیا پر نامعلوم خوب صورت سیّارے کے سربراہ کا پیغام لوگوں کو، خاص طور پر اپنے حکمرانوں تک پہنچایا۔ اس سیّارے کے پیغام کے بعد بہت سے بڑے ممالک سُدھرگئے، سوائے چند ایک کے، جن میں ’’بِچھو بادشاہ‘‘ ، جس کی فطرت میں ڈنک مارنا شامل ہے اور جو دنیا کا نام نہاد تھانے دار بنا ہوا ہے، وہ۔۔۔ دوسرے نمبر پر مظلوم کشمیریوں کا قاتل ملک اور تیسرے نمبر پر مظلوم فلسطینیوں کا دشمن ملک، ان ممالک کی بدمعاشیوں سے ایک دنیا عاجز آچکی ہے اور جو کسی کی اچھی بات کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگوں کو وقت سمجھاتا ہے اور سبق سِکھانے کے لیے وقت ظالموں سے کبھی دور نہیں رہتا۔ ہوسکتا ہے، نامعلوم سیّارے کو انہیں لگام دینے کے لیے ایک دن زمین پر آنا پڑے۔
بچے اُس وقت کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں!! nn

حصہ