کانٹے بن کر پھول چُبھے ہیں اپنے دل کے اندر
کیسے کیسے زخم چھُپے ہیں اپنے دل کے اندر
سحر حسن نے اپنے د ل کے اندر چھپے ہوئے زخموں کو ،الفاظ کے روپ میں پروکر ،روایتی اور نئے ہئیتی قالب میں ڈھال کر ،ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اُن کی چبھن ہم اپنے دل میں محسوس کر سکتے ہیں۔
سحر حسن سے کراچی پریس کلب میں ملاقات ہوئی تھی۔ اُن کا مجموعۂ کلام ’’ خوابوں کی تتلیاں‘‘ شائع ہونے جا رہا تھا اور اُن کی خواہش تھی کہ میں اُس پر کچھ لکھوں۔ ’’مسودہ کہاں ہے؟‘‘میرے پوچھنے پر انہوں نے کمپوزڈ بائینڈ کیا ہوا مسودہ میرے ہاتھ میں تھما دیا ۔ ان کی شاعری پابند تھی ،آزاد یانثری شاعری تھی؟ اور بھی کچھ سوالات ، شاعری کے حوالے سے میں نے کر ڈالے اور وہیں کھڑے کھڑے مسودے کی ورق گردانی بھی کرتا رہا ۔ اُن سے یہ ساری بات چیت سندھی میں ہو رہی تھی ،لیکن اُن کی شاعری اردو میں تھی ! گھر آکر میں نے مسودہ پڑھا ۔’’کتھا احساسات کی‘‘….( جو کہ اِس مجموعۂ کلام کا پیش لفظ ہے اور سحر حسن کا تحریر کردہ ہے ) پڑھ کر لگا جیسے کہ طویل مختصر کہانی یا ناولٹ ہو۔ اُسے پڑھ کر یہ گتھی بھی سلجھ گئی کہ سندھو اور گنگا جمنی تہذیب کے سنگم سے جوندی پھوٹ کر بہی تھی اور اپنے ساگرکے اَور رواں تھی، وہ سحر حسن تھی ۔
بچپن میں سحر حسن ،چھوئی موئی کے پودے کو چھُو کر حیران ہوتی کہ یہ حرکت کیسے کرتا ہے ؟تتلیوں کو دیکھ کر سوچتی کہ اُن کے پروں پر یہ شبنمی رنگ کس نے5 paintکیے ہیں ؟ جگنوؤں کو پکڑ کر کھوج لگاتی کہ یہ دن میں کیوں نہیں چمکتے ؟اسٹریٹ لائٹس کو توڑ کر گھر لانے کو کہتی ۔ اُن کی شاعری میں بھی یہ تین عناصر رنگ، روشنی اور حرکت موجود ہیں لیکن پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ رنگ، روشنی اور حرکت کو چاہنے اور اُن کے بارے میں سوچنے اور کھوجنے والی لڑکی سحر حسن اپنے ہی خوابوں سے مکرنے لگی، جس کا عکس اُن کے اِس شعر(فرد ) میں جھلکتا ہے :
کیوں گھسیٹ لاتے ہیں آپ مجھ کو محفل میں
روشنی سے رنگوں سے ، اَب مری نہیں بنتی
لیکن وقت گزرتا رہتا ہے ،موسم بدلتے رہتے ہیں ، اندر کے بھی اور باہر کے بھی ۔
’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ‘‘۔منظربدلتے رہتے ہیں اور:
کہانی لمحہ بھر میں کچھ سے کچھ ہو جایا کرتی ہے
تپتا آگ اُگلتا سورج ڈوب جاتا ہے (کسی اور دیس میں اُبھرنے کے لیے) شام رات میں ڈھل جاتی ہے اورستاروں سے مانگ بھر لیتی ہے ۔چاند کا جھومر ماتھے پر سجا لیتی ہے لیکن سحر حسن یہی بات دل کے آنگن کے حوالے سے کرتی ہیں:
دل کے آنگن میں چاند ٹھہرا ہے
چار سو اَب نیا سویرا ہے
موسموں کا بدل گیا ہے مزاج
تتلیوں کا چمن میں ڈیرا ہے
وہ جو مجھ سے خفا رہے برسوں
اُنہی رنگوں نے آ کے گھیرا ہے
کڑی دھوپ میں کچھ گھنے سایہ دار شجر بھی اُن کی راہ میں تھے :
منزلیں ہیں کٹھن راستہ دھوپ ہے
یہ تمازت بھی سائے کا بہروپ ہے
جب کبھی ڈگمگائے ہیں میرے قدم
سر پہ اُمید کا شبنمی روپ ہے
اِن شبنمی روپ کرداروں کا ذکر انہوں نے ’’کتھااحساسات کی…. ’’میں بڑی عقیدت و محبت سے کیا ہے ۔اِن کرداروں میں اُن کے تایا زاد بھائی رحمت اللہ کاچھیلو بھی ہیں جنہوں نے انہیں سندھی پڑھائی ۔بڑے ماموں محمد نسیم خان بھی ہیں ،جو فی البدیہہ شاعری کرتے اور ’’نانی ماں‘‘ بھی۔
جب نانی ماں نے پہلی بار
خاکی رنگ کے تھیلے پر
حرف لکھ کر مجھے دکھائے تھے
مرے ہاتھ قلم تھمایا تھا
پھر تختی لکھنا سکھائی تھی
’’ماں کی زباں بندی نے ‘‘ سحر حسن کو لکھنے اور بولنے کی راہ سُجھائی ۔نظم ’’سر کاچھیلو! ایک معلم ‘‘ سحر حسن نے اپنے بابا جانی کے حوالے سے لکھی ہے ۔’’کتھااحساسات کی ‘‘….میں ایک جگہ اپنے بابا جانی کے حوالے سے سحر حسن کہتی ہیں کہ وہ اُن کے پڑھنے سے چِڑتے اور کہتے کہ ’’تمہیں کونسا ڈاکٹر بننا ہے ؟اور یہیں سے سحر حسن کے اندر ایک خاموش آواز گونجی کہ’’ میں پڑھ کر دکھاؤں گی ‘‘۔اور پھر انہوں نے جب اے گریڈ میں میٹرک کیا تو اُسی بابا جانی نے اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیر کر کہا میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بناؤں گا۔ لیکن سحر حسن نے انکار کر دیا! اور ایک الگ راہ کی تلاش میں سرگرداں رہیں، جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ پھر انہیں ’’دربدی راس آنے لگی ‘‘ لیکن پھر خود ہی یہ کہا ہے کہ :
زندگی تیری ہمسفر ہوں میں
کون کہتا ہے دربدر ہوں میں
شاعری کا سر چشمہ زندگی ہے۔ زندگی جو ماضی بھی ہے، حال بھی اور مستقبل بھی۔ ذات سے اجتماع تک زندگی ہمارے آس پاس ،دور و نزدیک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کو گزارنا ،دیکھنا ،پرکھنا اور شاعری کا موضوع بنانا شاعر کی فطرت ہے ۔
میں نے لکھا وہی جو دیکھا ہے
ہے یہ فتنہ تو فتنہ گر ہوں میں
اَب یقین و گماں سے آگے ہوں
فکر و فن کی نئی ڈگر ہوں میں
سحر حسن اِسی فکر و فن کی نئی ڈگر پر ،زندگی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ،آگے بڑھ رہی ہیں لیکن یہاں ایک بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ جیسا دیکھنا ویسا لکھنا سے’’ دکھانا‘‘ بھی مقصود ہونا چاہیے ۔یعنی خیال کی منظومیت ،نہ کہ خیال کی مظلومیت ! یہاں عبارت و ہئیت کا مرحلہ آتا ہے۔خیال ،عبارت اور ہئیت کو متوازن ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں مطالعہ اور مسلسل مشق آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔سیکھنے کا عمل اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے،آخری سانس تک۔
سحر حسن کے اِس مجموعۂ کلام ’’خوابوں کی تتلیاں ‘‘ میں پابند،آزاد ،بے قافیا اور نثری شاعری ہے ۔ اُن کا اپنا ایک منفرد لہجہ اور اسلوب ہے۔ یوں تو شاعروں کے کئی ایک مسائل ہیں، جن میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،لیکن اُن میں نئے لکھنے والوں کو بھی انیک مسائل درپیش ہیں ۔سب سے بڑا اور مشترکہ مسئلہ آلودگی سے پاک ،شفاف فضا اور ماحول کا نہ ہونا ہے، جس میں شاعری سانس لیتی ہے ۔خصوصا شاعرات کے لیے تو یہ مسائل اور بھی زیادہ گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ لیکن اِن مسائل کی وجہ سے شاعری کی قوتِ مدافعت بھی بڑھ جاتی ہے :
نوکری کرنے گھر سے باہر نکلی ہو
پھول کنول ہو کیچڑ سے گھبرانا مت
آج کے دور پر سحر حسن کا یہ شعر دیکھیے، کس قدر relavent ہے ۔
سوال روٹی کا ہم نے کیا جو آقا سے
جلا کے فصل کہا اُس نے’’ پھانک لے اِس کو ‘‘!
سیاست کے جس قبیح چہرے کو سحر حسن نے بے نقاب کیا ہے وہ ہم ہر روز دیکھتے ہیں ۔سفارش رشوت ، نا اہلی ،لاقانونیت ،بدامنی ،تفرقے بازی، قتل و غارت …یہ سب اِسی سیاست کا کیا دھرا ہے۔ سحر حسن نے اِس موضوع کو غزل میں برتا ہے ،جو کہ نظم کا ،بلکہ نثر کا موضوع ہے اور وہ اِس میں کامیاب بھی رہی ہیں ۔
کپڑا ، مکان اور کبھی روٹی کے نام پر
چالیں بدل بدل کے سیاست خرید لے
دعوؤں پہ منصفوں کے بھٹکتی ہے مفلسی
قاتل ہے شاہِ وقت عدالت خرید لے
ہر چیز بکاؤ ہے ۔اقدار ،روایات ،شہر ،گاؤں ،عزت، جان ، مال۔ اِس بازار میں ہر چیز پر اُس کی قیمت کی چٹ چسپاں ہے ۔ یقیناً ایسے ’’بے ہنر زمانے میں ،رائیگاں سفر اپنا‘‘ لگتا ہے لیکن رائیگاں ہی سہی ،کوشش تو کریں ،آگے بڑھتے رہنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔اُس دن کی اُمیدپر ، جس دن ابرِ کرم برسے گا:
ابر کرم کی ایک ہی بوند سے
اُڑتی گرد یہ چھٹ جائے گی
اُس دن شاید کھل کر ہنسوں گی
سارے زخمی احساسوں کو یکجا کر کے
چیخ چیخ کے خود سے کہوں گی
زندہ ہوں میں زندہ ہوں!
سحر حسن کے اِس مجموعۂ کلام میں کئی تخلیقات اہم ہیں۔مثلا ایک نظم ہے’’بھڑاس‘‘۔ اِس میں وہ کہتی ہیں کہ وہ ذہن میں گُھپے چُبھے الفاظ کی کیلیں اور نشتر کاغذ پر لکھ لیتی ہیں،لیکن دنیا کے اور لوگ (عام لوگ) اپنی بھڑاس کیسے نکالتے ہوں گے ؟اِس سوال کا جواب کس کے پاس ہے ؟ ’’تم اُداس مت ہونا ‘‘،’’لفظ برتنے والی لڑکی‘‘،’’تنہائی ‘‘،’’پورا چاند کہاں ہے میرا‘‘….ایسی تخلیقات ہیں جن سے کوئی بند یا سطریں الگ کر دینا ایسے ہے جیسے دھارے میں سے لہر/ لہروں کو الگ کر دینا۔ اِس لیے یہ تخلیقات آپ کو مکمل پڑھنی ہوں گی ۔ اُن کی ایک نظم ’’آنکھیں‘‘ بڑی خوبصورت نظم ہے، اِسے میں نے کئی بار پڑھا ہے اور وہ مجھے ہر بار نئی نئی سی لگی ہے اور من کو موہ لیتی ہے:
باغیچے میں تتلی کے سنگ اُڑتی دو مَن مو ہنی آنکھیں
پلکوں کی جھالر میں چُھپ کر جاگتی سپنے بُنتی آنکھیں
انسانی وجود میں آنکھیں روح کی اَور کھلتی ہوئی کھڑکیاں ہیں ۔سحر حسن کا ’’آنکھوں‘‘ پر ایک اور خوبصورت شعر دیکھیے :
سب کتابوں میں پھول رکھتے ہیں
اُس نے رکھ دیں کتاب میں آنکھیں
سحر حسن کی ایک غزل کا یہ مطلع:
جنوں کے راستے یوں تو کٹھن سے لگتے ہیں
مگر یہ راستے منزل تلک نکلتے ہیں
پڑھ کر مجھے بچپن میں دادی سے سنی ہوئی ایک کہانی یاد آگئی ۔جس میں ایک شہزادہ کسی منزل/ مقصد کو پانے کے لیے تن تنہا نکل پڑتا ہے۔ ایک دوراہے پر وہ گھوڑے کی باگ کھینچ لیتا ہے ۔وہاں اُسے ایک جوگی ملتا ہے ۔شہزادہ اُس سے منزل کا پتہ پوچھتا ہے۔ جوگی اُس سے کہتا ہے کہ ایک راہ آسان ہے لیکن طویل ہے اور منزل تک پہنچتے پہنچتے عمر بیت جائے گی ۔دوسری راہ مختصر ہے لیکن کٹھن اور خطرات سے بھری ہے اور اس میں جان بھی جا سکتی ہے ! شہزادہ گھوڑے کو ایڑ لگاتا ہے اور اسے دوسری راہ پر سر پٹ دوڑاتا چلا جاتا ہے ! سحر حسن نے بھی اپنے مقصد کو پانے کے لیے کٹھن اور خطرات سے بھری راہ کو خود چنا ہے اور اُمید ہے کہ وہ اِس سفر کو جاری رکھیں گی ،اِس یقین کے ساتھ کہ حوصلوں کو مات نہیں سپنوں کو موت نہیں !
پھول جیسے راستے
جو نظر آتے رہے
وہ ہمیں چبھتے رہے
اور ہم ثابت قدم اتنے
کہ اُن پر مستقل چلتے رہے !