رنگ کا ٹی شرٹ پہنے، وہ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے اس لائن پر کھڑی سیٹی بجنے کی منتظر تھی کہ دوڑ کا آغاز ہونے والا تھا۔ یہ حال ہی میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس کا ایک منظر تھا۔ یہ سومیٹر کی ضعیف افراد کی دوڑ تھی۔ کوئی درجن بھر لوگوں میں سب سے کم عمر شخص کی عمر 75 برس تھی۔ کوئی 80 برس کا تھا تو کوئی 85 برس کا۔ ایک صاحب کی عمر97 برس تھی اور درمیانے سے قد کی چھوٹے بالوں والی اس خاتون کی عمر پورے سو (100) برس تھی۔ دوڑ کا آغاز ہوا۔ ہر لمحہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ سب اپنے ممکانات کی دنیا میں دوڑ رہے تھے، کچھ چل رہے تھے تو کچھ خود کو گھسیٹ گھسیٹ کر ھدف تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔ میرا تجسس لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ ساری دنیا دیکھ رہی تھی ان اولوالعزم لوگوں کو، کون جیتا کون ہارا، یہ بہت چھوٹی بات تھی۔ یہ بہت بڑی بات تھی کہ سب ھدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہر لمحہ بڑھ رہے ہیں۔ کوئی سستایا نہیں، کوئی لمحہ بھر رکا نہیں، کسی نے سہارے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا، کوئی واکر یا اسٹک کے سہارے آگے نہیں بڑھ رہا تھا، سب اپنے قدموں پر آگے بڑھ رہے تھے اور اولمپکس کے میدان سے ساری دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ 97 برس کی عمر میں بھی آگے بڑھنا ہے اور 100برس کی عمر میں بھی ایک کھلاڑی جیسا مسابقت کا جذبہ برقرار رکھنا ہے، ہارنا نہیں ہے، مصائب وآلام سے شکست نہیں کھانا ہے، بڑھتے جانا ہے، برابر بڑھتے جانا ہے۔ سب لمحہ بہ لمحہ ھدف سے قریب ہورہے ہیں، کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس کے پیچھے کتنے لوگ ہیں ، ہر اک یہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے آگے کتنے لوگ ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی لمحہ بھر کو بھی اپنے ھدف سے نظریں نہیں ہٹائیں، کسی نے سامعین کی تالیوں، فوٹو گرافرز کے کیمروں اور اطراف کے ہجوم پر کوئی توجہ نہ دی۔ کوئی رکا نہیں، تھما نہیں، سب آگے بڑھتے گئے ، بڑھتے گئے۔ کمال کی بات یہ کہ ہر اک اس ھدف تک پہنچ کررہا۔
فلک شگاف تالیوں کی گونج میں سو میٹر دوڑ کا یہ مقابلہ اختتام کو پہنچا تو فوٹوگرافرز نے اس 100 برس کی خاتون کو گھیرلیا، جس نے بغیر کسی سہارے سومیٹر کا ھدف عبور کرلیا تھا، اس میں اب بھی اتنی توانائی تھی کہ کیمروں کا سامنا کرسکے اور سوالوں کے جواب دے سکے۔ وہی پوچھا گیا اس سے جو سب جاننا چاہتے تھے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ بے ترتیب سانسوں کے درمیان اس نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ Love Yourself خود سے محبت کرو۔ یہ خود سے محبت کتنا قوی جذبہ ہے زندہ رہنے کے لیے، مگر یہ خود سے محبت جب منفی روپ میں ڈھل جاتی ہے تو خود کے سوا کسی سے محبت نہیں رہتی، جب یہ خود پسندی بن جاتی ہے تو اپنے علاوہ کوئی دوڑتا ہوا اچھا نہیں لگتا اور کبھی یہ خود پسندی حسد بن جاتی ہے، جب اپنے علاوہ سب کو شکست یافتہ دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ جب دوسروں کی کم زوریاں ہماری قوت بن جاتی ہیں اور خود ہی منفی دائروں کی مسافر بن جاتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ دائروں کے مسافر کی کوئی منزل نہیں ہوتی، انسان تھک جاتا ہے اپنے انا کے بتوں کی پرستش کرتے کرتے، مگر منزل سے دور۔
یہ خود سے محبت مثبت دائروں میں ہی رہی ہوگی، جس نے سو برس کی عمر میں بھی اسے اولمپکس کا کھلاڑی بنادیا۔ دوسری بات اس خاتون نے بمشکل ترتیب دیے گئے جملے میں جو کہی وہ یہ تھے کہ Love Whatever you want to do جو مقصد ہے، جو مشن ہے جس کام کو پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے اس سے محبت کرو۔ وہ اپنے مقصد اور کاموں سے عشق کرتے کرتے آج سو برس کی عمر میں اولمپک کی کھلاڑی بن گئی۔ بن محبت کے کب زندگی گزرتی ہے۔ سب سوال یہ ہے کہ محبت کس سے کی گئی ہے؟ اگر ادنیٰ خواہشات کے حصول ہی کو مقصد زندگی سمجھ لیا گیا، کچھ چھوٹے چھوٹے اھداف پر ہی نظر مرکوز رہی تو ہر ھدف کے حصول کے بعد کاملیت کا ایک گمان ہوگا۔ ہر ھدف کا حصول انسان کو کِبر کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ بڑی گاڑی، بڑا بنگلہ، بڑا بینک بیلنس، اس کی نظروں میں دوسروں کو حقیر بنادے گا۔ زندگی کے اھداف اتنے چھوٹے بھی نہیں ہونے چاہئیں کہ ہر ھدف کے حصول کے بعد ہم سستانے بیٹھ جائیں یا خوامخواہ ہی خود کو ’’وِنر‘‘ سمجھ کر ساری زندگی وکٹری اسٹینڈ پر خود کو محسوس کرتے ہوئے گزاردیں۔ آپ نے بھی اپنے اطراف میں ایسے لوگ دیکھے ہوں گے، جو اپنے سے کسی درجے میں کم مخلوق خدا کو چیونٹیوں کی طرح مسل کر لذت محسوس کرتے ہیں، مگر بڑا مقصد زندگی اور اس سے محبت ایسا توانا جذبہ ہے جو یقیناًسو برس کی عمر کو بھی ضعف کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ ’’اپنے مقصد سے محبت‘‘ کتنا بڑا ہے یہ پیغام کہ خود سے محبت ہی درحقیقت اپنے مقصد زندگی سے محبت ہے کہ ’’مقصد زندگی‘‘ کو ہی زندگی بنالیا جائے۔۔۔۔۔۔ پھر مدت کوئی چیز نہیں رہتی بلکہ زندگی کا تسلسل بن جاتی ہے۔ سو برس کی عمر کا کوئی فرد اگر اولمپکس کے میدان میں کھڑے ہوکر یہ پیغام دے تو اس پر لمحہ بھر کو رکنا ضرور چاہیے، ٹھہرنا ضرور چاہیے ۔۔۔!!
تیسری بات پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اس نے کہی کہ Exercise atleast once a day۔۔۔ جینے والے محض جیتے نہیں بلکہ زندہ رہتے ہیں زندہ دلوں کی طرح۔ ایک صدی کی عمر میں کوئی صحت مند زندگی کی شناخت نہیں بھولا۔۔۔ زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہے، مصائب نے اسے مار نہیں ڈالا۔ مشکلات اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں، حوادثِ زمانہ نے اسے شکستہ نہیں ہونے دیا، غمِ روزگار کو اس نے غم ہی نہیں سمجھا، جی داروں کی طرح جی کے دکھایا اور اسپتال کے بستر سے نہیں اولمپک کے میدان سے دنیا کو بحیثیت کھلاڑی بتارہی ہے کہ اپنی صحت کی قدر کرنا سیکھیں اگر اپنے مقصد زندگی سے عشق رکھتے ہیں اور خود سے محبت کرتے ہیں تو۔۔۔
ہاں دوڑنا تو مجھے بھی تھا میں بھول ہی گئی کہ میں بھی میدانِ عمل میں ایک مسابقت کے میدان میں ہوں، جہاں روزوشب قافلے دوڑ رہے ہیں اور فلک نے مجھے بھی پکارا ہے کہ ’’وسارعو الیٰ مغفرۃ‘‘۔۔۔آہستہ آہستہ نہیں بیساکھیوں کے سہارے نہیں ، گرتے پڑتے نہیں، سرعت کے ساتھ، تیزی کے ساتھ، سبقت لے جاؤ۔۔۔ اسی لیے دعا سکھائی گئی ’’متقیوں کا امام بننے کی‘‘ نیکیاں کرنے پر ہی بس نہ کرو بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی فکر کرو۔۔۔ بازی لے جاؤ، جنت اور رب کی رضا جذبہ ہی ایسا ہے کہ ٹھہرنے نہ دے، سستانے نہ دے۔۔۔ بے کل رکھے ھدف کے حصول تک۔ یہاں قناعت اور سست رفتاری موت ہے اور تکاثر کی دوڑ بھی ہلاکت ہے کہ الھٰکم التکاثر نے معیار زندگی کو معیار بندگی پر غالب کردیا۔ اور جوٹھوکر لگی تو سنبھل ہی نہ سکے۔۔۔ یہاں سمتِ سفر کا نظروں سے اوجھل ہونا ہی منزلوں سے صدیوں کی مسافت کا سبب بن جاتا ہے۔ یہاں فراغت نام کی کوئی چیز نہیں کہ مقابلے کے میدان میں لمحہ بھر کی فراغت بھی منزل سے دور کردیتی ہے اور کندھوں پر بہت سا بوجھ بھی قدموں کو بوجھل بنادیتا ہے۔۔۔ ہم جنت کے راہی۔۔۔ اتنا سازوسامان اکٹھا کرچکے اور کرنے کی دھن میں مگن ہیں کہ اتنی کثرت سامانی نے ہر قدم کو بوجھل بنادیا ہے۔۔۔ اور پرکشش راستے نے نظروں سے ھدف ہی دور کردیا، راستہ کی کشش نے ساری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی جب کہ اللہ کے نبیؐ تو ارشاد فرماگئے ہیں کہ ’’آدمی کے اسلام کی خوبی اور کمال میں یہ بات شامل ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو ترک کردے‘‘ (جامع ترمذی) اس لیے کہ مقابلے کی یہ دوڑ کب ختم ہوگی، کب اختتامی گھنٹی بجے گی؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔۔۔ حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا: ’’جب شام آئے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کرو۔۔۔ اور تنگ دستی کی حالت میں بیماری کے لیے اور زندگی میں موت کے لیے تیاری کرلے۔ (بخاری شریف) اس لیے کہ اس دوڑ میں ’’آگے والے ہی آگے والے ہیں، وہی مقرب لوگ ہیں، نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے ، مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘ (سورۃ الواقعہ)
بھاگتے دوڑتے اگر کوئی ایسا سوداگر نصیب ہوجائے تو سودے میں حرج بھی نہیں کہ ۔۔۔
مسکراہٹ ادھار دیناذرا
کچھ ستارے خریدنے ہیں مجھے
ایک آنسو کا مول کیا لوگے
آج سارے خریدنے ہیں مجھے
بول تتلی کے دام کتنے ہیں
رنگ پیارے خریدنے ہیں مجھے
سر خوشی میں جو بیچ آیا تھا
غم وہ سارے خریدنے ہیں مجھے
زندگے کے جوار بھاٹے میں
کچھ شرارے خریدنے ہیں مجھے
میں سمندر خرید بیٹھا ہوں
اب کنارے خریدنے ہیں مجھے