1990ء کی بات ہے، ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ دہلی میں بطور سب ایڈیٹر تقرر ہوا۔ اردو کے مشہور و معروف ادیب، مصنف اور نقاد، الٰہ آباد یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر احتشام حسین کے خلفِ اکبر سید جعفر عباس سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ جعفر عباس کا نئی دنیا میں طنز و مزاح کا مستقل کالم ’’آئینہ‘‘ بہت مقبول تھا۔ اس میں وہ روزمرہ کی زندگی میں درپیش حالات و مسائل پر بڑے لطیف اور دلچسپ پیرایہ میں نقد و تبصرہ فرماتے تھے۔ جب ایڈیٹر نئی دنیا نے روزنامہ ’’عوام‘‘ حاصل کرکے شائع کرنا شروع کیا تو آپ روزانہ پابندی سے اپنے مخصوص انداز میں ’’جام بکف‘‘ کے عنوان سے بھی لکھنے لگے۔ سید جعفر عباس پروفیسر احتشام حسین کے چار صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ایم اے اردو میں پوری یونیورسٹی میں اول آئے۔ کچھ دن آل انڈیا ریڈیو دہلی میں کام کیا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر بھی مقرر ہوئے تھے۔ کچھ دن سوویت یونین کے کلچرل ہاؤس دہلی میں بھی کام کیا۔ ادب کا اچھا ذوق پایا تھا۔ ’’فخر ایشیا ذوالفقار علی بھٹو‘‘ اور ناول ’’ٹوٹتے لمحوں کا کرب‘‘ کے مصنف تھے۔ یہ جس وقت کی بات ہے وہ ملازمت کی پابندیوں سے آزاد تھے۔
دفتر میں تقریباً روزانہ ہی تشریف لاتے۔ اپنا کالم لکھنے کے لیے ہفتے میں ایک بار تو ضرور ہی آتے۔ کالم دفتر ہی میں کسی سب ایڈیٹر کی میز پر اُس کے سامنے بیٹھ کر قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ مذہب کے سخت مخالف تھے۔ مذہبی طبقے سے بیزار تھے اور مذہبی تعلیمات و خوبیوں سے ناآشنا تھے۔ خود پروفیسر احتشام حسین ترقی پسندوں کے سرخیل تھے۔ ان کی تربیت سیکولر تعلیم اور کمیونزم و سوشلزم کے دورِ عروج میں ہوئی۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ بن سکتے تھے سب کچھ تھے۔ داڑھی، کرتا، ٹوپی والی مولویانہ وضع قطع پسند نہ تھی۔ اس وضع قطع اور حلیہ کے باعث یا اپنی افتادِ طبع سے اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی بات کہی تو پہلے ہی دن مرکزِ توجہ بن گئے۔ اسلام کے سلسلے میں خلافِ واقعہ بات سنی تو دل و دماغ پر سخت چوٹ لگی، لیکن پہلے ہی روز الجھ جانا خلافِ مصلحت جانا۔ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ آخر ’’نئی دنیا‘‘ کے بلاشرکت غیرے مالک، ایڈیٹر و پرنٹر پبلشر شاہد صدیقی کے برادر نسبتی (بہنوئی) تھے۔ کارکنان عموماً انہیں انکل کہتے اور ہر بات پر ’’جی انکل‘‘ کہنا گویا سب کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ بات کاٹنے یا اختلاف کرنے کی کون جرأت کرسکتا تھا! ان کے جانے کے بعد ان کے حالات و کوائف کا پتا لگایا، تفصیلات معلوم کیں، آئندہ بھی کئی روز تک اسی طرح کے طنز و طعن سننے کو ملتے رہے۔ آخر ایک روز نہ رہا گیا۔ تحمل کے ساتھ دبی آواز میں صدائے احتجاج بلند کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ وہ دوسروں کی میز پر ہی آکر بیٹھتے تھے، ابھی تک میرے پاس آکر بیٹھے بھی نہ تھے، براہِ راست مخاطب بھی نہ ہوئے تھے۔ میز پر سرجھکائے لکھ رہا تھا۔ نیا نیا تقرر تھا، رفقا سے بھی بے تکلفی نہ ہوئی تھی، ان کی بات سنی تو تھوڑا سر اٹھاکر چہرے کا رخ اُن کی طرف کرکے آہستہ سے کہا:’’ایسا نہیں ہے‘‘۔
شاید آفس میں لفظ ’’نہیں‘‘ سننے کا پہلا اتفاق تھا۔ ’’جی انکل‘‘ کے سوا کسی کو کچھ کہنے کا یارا نہ تھا۔ اپنے راز و اسرار اللہ تعالیٰ خود ہی بہتر طور پر جانتا ہے۔ جانے کون سی گھڑی تھی، گردن اٹھائی، میری طرف دیکھا اور خاموشی اختیار کرلی کہ جانے یہ گستاخ کون ہے؟ کہاں سے آگیا ہے؟ میں اپنے کام میں لگا رہا، وہ تھوڑی دیر خاموش بیٹھے دیکھتے رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔ بعد میں کسی ساتھی نے بھی اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کہی۔ چند روز کے وقفے سے حسب معمول اپنے مخصوص انداز میں آئے، ایک سب ایڈیٹر کے پاس بیٹھے، اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور چلے گئے۔ کچھ دن بعد پھر کچھ اسی طرح کی بات کہی، لیکن جب نہ رہا گیا تو پھر یہی کہہ دیا ’’ایسا نہیں ہے‘‘۔ نہ جانے کیا ہوا پھر ایسی باتیں بند کردیں اور براہِ راست دریافت کرنے لگے: ’’قاسمی صاحب! اس بارے میں آپ کا مذہب کیا کہتا ہے؟ اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟‘‘ اپنی معلومات اور اُن کے مزاج و افتادِ طبع کے مطابق بالخصوص پس منظرکو پیش نظر رکھ کر جواب دیتا، قائل اور مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح ربط و ضبط بڑھنے لگا۔ بہت اچھے خوشگوار تعلقات قائم ہوگئے۔ برادرم معصوم مراد آبادی کے چلے جانے کے بعد اب وہ میرے پاس ہی آکر بیٹھتے تھے۔ حسبِ موقع کچھ امور کے بارے میں، مَیں ہی سوال کردیتا، بلکہ کمیونزم و سوشلزم پر چوٹ بھی کردیتا۔ ایک روز صفدر ہاشمی کا ذکر چھیڑنے کے بعد کہا: ’’جعفر صاحب! مسلمان کمیونسٹوں میں اپنی لاش نذرِِ آتش کروانے کی خواہش اور وصیت کا رجحان کیوں ہے؟ یہ خود کمیونزم یا سوشلزم کا حکم یا تعلیم تو نہیں ہے۔ سوویت یونین، چین اور کسی بھی کمیونسٹ ملک میں یہ روایت نہیں ہے۔ اگر کمیونزم کا مطلب اپنے آبائی مذہب یا روایات سے بغاوت کرنا ہے تو یہ بات ہندوؤں میں پائی جانی چاہیے کہ وہ اپنے مرنے کے بعد دفن ہونے یا کسی اور طریقے کی خواہش و وصیت کریں، لیکن صرف مسلمانوں میں سے کمیونسٹ بننے والوں کو ہی نذرِ آتش کیے جانے کی وصیت کرتے دیکھا جاتا ہے، کیا یہ ان کا احساسِِ کمتری اور ذہنی مرعوبیت کے سوا کچھ اور ہے؟‘‘
ایک بار ترجمان اہلِ حدیث دہلی میں، ایک نشست میں دی گئی طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیے جانے کے سلسلے میں اہلِ حدیث کی اپنی مخصوص رائے شائع ہوئی تو میڈیا سے وابستہ یار لوگ اسے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت لے اڑے۔ تاثر یہ دیا کہ مولوی لوگوں نے نام نہاد دانشوروں کے دباؤ میں رجعتِ قہقری اختیار کرلی۔ اپنا مؤقف ترک کردیا۔ روشن خیال طبقے کی بات مان لی۔ طلاق طلاق طلاق کہہ دینے والے مردوں کے ظلم سے عورتوں کو چھٹکارا مل گیا۔ تحریک حقوقِ نسواں کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوگئی۔ اب مولویوں کو دوسرے امور ومسائل پر بھی جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ پہلے ایک اخبار نے لکھا، پھر دوسرے نے اٹھایا۔ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے زرد صحافت اور میڈیا کے مخصوص طرزعمل کا سلسلہ چل نکلا۔ ایک ایک کرکے اخبارات، جرائد ورسائل اس مسئلے کو اچھالتے رہے۔ بات ریڈیو اور ٹی وی تک پہنچ گئی، حتیٰ کہ خبر رساں ایجنسیوں نے بھی اپنا کردار ادا کرنا ضروری سمجھا۔ بعض غیر اہلِ حدیث علما نے اپنا مؤقف رکھا تو اس کو مخصوص چشمہ سے دیکھا اور اپنی مخصوص سوچ کے تحت خاص طرز و انداز میں اس کو شائع کیا گیا۔
اس بحث و مباحثہ کے دوران سید جعفر عباس نے ایک روز کہا: ’’مولانا! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ جواب میں جمہور علما کی رائے، ان کے دلائل اور اسباب و علل سے نظریہ اہلِ حدیث اور اس کے مالہ وماعلیہ اپنی بساط کے مطابق تفصیل سے بیان کیے جس سے وہ مطمئن ہوگئے، مگر اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے فائدہ اٹھانے کے خیال سے اگلے روز مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد پنجم لاکر پیش کردی، جس میں سورۂ طلاق میں مولانا نے بہت تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے کہ اردو میں اتنی مدلل تفصیل کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ عرض کیا: ’’جعفرصاحب! کل آپ کے سوال کا تفصیل سے جواب دینے کی کوشش کی تھی، پھر بھی زبانی گفتگو میں بہت سی باتیں رہ جاتی ہیں، شاید کچھ گوشے آپ کے ذہن میں تشنہ رہ گئے ہوں گے، مزید تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ فرمائیں۔‘‘
فرمایا: ’’ویسے تو میں آپ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تھا اور میرے ذہن میں کوئی سوال وضاحت طلب بھی نہیں آرہا ہے۔ پھر بھی میں مزید تفصیل ووضاحت اور اطمینانِِ قلب و انشراحِِ صدر کی غرض سے اسے پڑھوں گا، یوں بھی مجھے خوشی ہے کہ آپ مولانا مودودیؒ کی تفسیر دے رہے ہیں کہ میں نے سنا ہے مودودیؒ صاحب عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب بھی ہیں اور ان کی تحریروں میں ادب کی زبردست چاشنی پائی جاتی ہے، میں اس کو اطمینان سے پڑھوں گا۔‘‘
ایک روز کہا: ’’قاسمی صاحب! میں نے وہ بحث پوری پڑھ لی ہے مگر مجھے اس تفسیر کے پڑھنے میں مزا آرہا ہے، میں اس میں سے کچھ اور چیزیں پڑھنا چاہتا ہوں اس لیے ابھی آپ کو واپس نہیں کروں گا‘‘۔ میرا تو مقصد ہی یہ تھا، خوشی کا اظہار کیا اور تفسیر کی کچھ خوبیوں اور خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہوئے اُن کے شوقِ مطالعہ کو مہمیز دینے کی کوشش کی۔ سلسلہ چلتا رہا۔ بیچ بیچ میں کچھ سوالات بھی کرتے رہے اور وضاحت طلب کرتے رہے۔ میں بھی وقتاً فوقتاً یہ پتا لگانے کی غرض سے کہ وہ مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہیں اورکہاں کہاں سے کون کون سی بحثیں پڑھ رہے ہیں، سوالات کرتا رہا۔ ایک روز بتایا: ’’جستہ جستہ کچھ چیزیں دیکھنے کے بعد بالاستیعاب مطالعہ کا فیصلہ کرلیا ہے، دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔‘‘
جلد مکمل پڑھ لینے کے بعد واپس لاکر دیتے ہوئے کہا: ’’قاسمی صاحب! یہ تو میں نے مکمل پڑھ لی۔ آپ نے ایک خاص بحث کے توسط سے یہ پانچویں جلد لاکر دی تھی، اب آپ مجھے شروع ہی سے اس تفسیر کا مطالعہ کرادیں۔ پہلی جلد لادیں‘‘۔ خود اُن کے مطالبے پر جلد اول پیش کردی۔ مطالعہ چلتا رہا۔ کچھ وضاحت طلب امور و مسائل پر سوالات بھی کرتے رہے۔ ایک روز فرمایا: ’’قاسمی صاحب! آپ ایک ایک جلد کب تک لاکر دیتے رہیں گے، مجھے تو اس میں بڑا لطف آرہا ہے اور شوق و شغف بڑھتا جارہا ہے، آپ مجھے تفہیم القرآن کا مکمل سیٹ فراہم کرادیں‘‘۔ ساتھ ہی باہمی بے تکلفی کی بنیاد پر اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ’’بھئی ایک بات ہے، میں رقم ایک بار میں ادا نہیں کروں گا،آپ خود اس کا انتظام کریں اور کالم کا جو معاوضہ مجھے ملتا ہے، ہر مہینہ خود ہی اس میں سے چھین لیا کرنا‘‘۔ تفہیم القرآن کا مکمل سیٹ پیش کردیا۔ دیکھ کر زبردست خوشی کا اظہار کیا۔ جلد ہی کل رقم بھی ادا کردی۔ اولاً جمعہ کی نماز میں ہمارے ساتھ جانے لگے، پھر پنج وقتہ نماز کے پابند ہوگئے۔
ایک روز کمال سنجیدگی سے دردمندانہ انداز میں فرمایا: ’’مولانا! آپ کے طفیل میں نے قرآن کے احکام و تعلیمات ازاول تا آخر پڑھ لیے، مودودی صاحب کے مخصوص انداز کی وجہ سے ہر بات اچھی طرح ذہن نشین بھی ہوگئی۔ دل دینِ اسلام سے مطمئن ہوگیا۔ اب جی چاہتا ہے قرآن کا متن بھی پڑھ لوں۔ میں قرآن کا متن عربی زبان میں پڑھنا چاہتا ہوں اور یہ کام صرف آپ کرا سکتے ہیں۔ آپ کے سوا مجھے قرآن کوئی نہیں پڑھا سکتا۔ میں اپنے گھر کے ماحول اور تعلیم و تربیت کے انداز کی وجہ سے بچپن میں قرآن نہیں پڑھ سکا، آگے چل کر کمیونزم اپناکر مسلمان بھی نہ رہا، اسلام سے دور بلکہ بیزار و خائف ہوگیا، اب آپ نے جب یہاں تک پہنچا دیا ہے تو قرآن کریم کا متن بھی آپ پڑھا دیجیے۔‘‘
ہنستے ہوئے تعجب و حیرت کے ساتھ کہا: ’’ایسا آپ کیوں کہتے ہیں کہ میرے سوا کوئی نہیں پڑھا سکے گا؟‘‘ ان کا جواب تھا: ’’آپ سمجھ سکتے ہیں میں اس بڑھاپے میں کسی سے کہوں کہ مجھے آپ قرآن پڑھا دیجیے، تو مجھ پر کتنا زور پڑے گا، کیسی شرم آئے گی، اور اگر دل پر پتھر رکھ کر نفس کو مار کر کسی کے پاس چلا بھی جاؤں تو اولاً کون میری بات کا یقین کرے گا کہ میں مصنف اور کیا کیا ہوتے ہوئے قرآن پڑھنا نہیں جانتا! اور اگر کسی طرح یقین دلا بھی دوں کہ میں مذاق نہیں کررہا ہوں، اس معاملے میں سنجیدہ ہوں تو کون ہے جو میرا لحاظ کرتے ہوئے میری ہر غلطی پر ٹوک دے گا اور صحیح پڑھا دے گا؟ جب کہ آپ کے اور میرے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے، آپ میرے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں، مجھے بھی آپ سے کوئی لحاظ نہیں ہے اور آپ یوں بھی ٹوکنے میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔‘‘
الغرض قرأتِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اپنی لاابالی افتادِ طبع کے بالکل برعکس پوری پابندی اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا شروع کردیا۔ ایک مکان متعین کرلیا، بہت کم ایسا ہوا کہ مجھے ان کا انتظار کرنا پڑا ہو۔ کیونکہ بہرحال میں ٹرین سے وقتِ مقررہ پر ڈیوٹی جاتے ہوئے راستے میں واقع اس کوٹھی پر پہنچ جاتا تھا، جبکہ جعفر صاحب کو تھری وہیلر سے صرف قرآن پڑھنے کے لیے اس جگہ پہنچنا پڑتا تھا۔ طریقۂ تدریس کے سلسلے میں عرض کیا: ’’آپ اردو کے آدمی ہیں، اردو اور عربی کا خط ایک ہی ہے، حروفِ تہجی اردو کے 36 ہیں جبکہ عربی کے ان سے کم 28 ہی ہیں۔ زیر، زبر، پیش اور جزم، تشدید کو بھی آپ جانتے ہیں۔ آپ کے لیے قرآن کریم میں کوئی چیز نئی نہیں ہے۔ قرآن پڑھنا آپ کے لیے کوئی مشکل بات نہیں ہے، بالکل آسان ہے، بس آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ اردو ہماری مادری زبان ہے، ہم اسے بولتے، سمجھتے، لکھتے پڑھتے ہیں، اپنے حساب سے خود ہی زیر، زبر، پیش لگاتے چلے جاتے ہیں۔ قرآن کریم پڑھتے ہوئے آپ کو لکھے ہوئے زیر، زبر، پیش، جزم و تشدید پر توجہ دینی ہوگی۔ اپنے حساب سے نہیں، لکھے ہوئے کو دیکھ کر پڑھنا ہوگا۔ ان باتوں کا خیال رکھیے۔ اور اللہ کا نام لے کر شروع کردیا۔ پہلے دن دو صفحات، دوسرے دن چار صفحات، پاؤ پارہ، آدھا پارہ اور پھر ایک پارہ پڑھنے لگے۔ آگے چل کر دو پارے روزانہ پڑھتے ہوئے ایک ماہ پورا ہونے سے پہلے قرآن کریم مکمل کرلیا۔
رمضان کے بعد ایک روز فرمایا: ’’مولانا! آج میں آپ کی بدولت خوشی اور فخر سے پھولا نہیں سما رہا ہوں‘‘۔ عرض کیا: ’’آج ایسی کون سی بات ہوگئی؟‘‘ فرمایا: ’’ہمارے خاندان کے ایک چچا کا کل انتقال ہوگیا، آج صبح قرآن خوانی کا انتظام کیا گیا۔ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے، سب پڑھے لکھے لوگ ہیں، لیکن قرآن پڑھنے والے صرف کرایہ پر بلائے گئے لوگ بیٹھے تھے۔ اتنے بڑے خاندان کے مردوں میں سے تنہا مرد میں ہی قرآن کریم پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا۔ یا اندر زنان خانے میں کچھ لڑکیاں اور خواتین پڑھنے والی تھیں۔ یہ سعادت مجھے آپ ہی کے طفیل تو نصیب ہوئی۔‘‘
پھر فرمایا: ’’قرآن خوانی سے فارغ ہونے کے بعد سب کزن بھائی بہن ملنے جلنے لگے تو ایک بہن نے کہا: کیا بات ہے جعفر! کمزور نظر آرہے ہو؟ تو ریحانہ (اہلیہ) نے کہا: آخر پورے ماہ کے روزے رکھے ہیں۔ دن بھر بھوکا پیاسا رہنا، جب کہ زندگی
(باقی صفحہ 48پر)
میں کبھی اس صورت حال سے دوچار نہیں ہوئے، کمزور نظر نہ آئیں گے تو اور کیا نظر آئیں گے؟ بہن نے کہا: بھابھی! کیا بات کررہی ہو! جعفر اور روزے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ریحانہ نے کہا: بھئی جعفر پنج وقتہ نماز کے بھی پابند ہوگئے ہیں۔ ساری بہنوں نے کہا: بھابھی! آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ کیسی باتیں کررہی ہیں؟ ریحانہ نے مزید کہا: بھئی جعفر نے قرآن بھی پڑھ لیا ہے، پابندی سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور پورا قرآن کریم مع ترجمہ و تفسیر پڑھ چکے ہیں۔ بہنوں نے چیخ کرکہا: بھابھی! کیا دھماکے کررہی ہیں! جعفر اور یہ سب باتیں؟ یہ کیسے ممکن ہوا؟ آخر یہ انقلاب کیسے آیا؟ کون سا معجزہ ہوا؟ انہوں نے کہا: ایک مولانا بھوت ان کے سر پر سوار ہوگئے، انہوں نے ان کی کایا پلٹ کردی، اب دینی معاملات میں یہ لاابالی تک نہیں رہے، ہر کام پوری سنجیدگی اور پابندی کے ساتھ کرتے ہیں۔ بہنوں نے کہا: یہ وہی جعفر ہیں کہ ہم بچپن میں قرآن پڑھنے بیٹھ جاتے تو ہماری چوٹیاں کھینچ کھینچ کر پریشان کرتے تھے، ملاّنی بنو گی ملاّنی؟‘‘ آپ اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ہمیشہ استاد کہہ کر پکارتے تھے۔ اس بارے میں کوئی لحاظ یا رو رعایت بھی نہیں کرتے تھے۔ ایک پروگرام میں سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال سے ملاقات کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہیں قاسمی صاحب! میرے استاذ‘‘۔ گجرال صاحب سے سوویت یونین کے زمانہ سے بہت گہرے تعلقات تھے، آپس میں بہت بے تکلفی تھی۔ بعد میں مَیں نے عرض کیا: ’’بھئی! یہ کیا حرکت ہے؟ ہر جگہ استاد، استادکرتے رہتے ہیں، کیا ضروری ہے عمرکے اس فاصلے کے باوجود ہر جگہ جتانا! اور کون سی استادی کردی میں نے؟‘‘ اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ’’کیوں نہ کہوں؟ آخر آپ میرے استاد ہیں، قرآن کریم کے استاد ہیں، اب بھی نہ کہوں گا تو اور کب کسی کو استاد کہہ سکتا ہوں۔ آپ میرے استاد ہیں تو بس ہیں، میں تو ہر جگہ اور ہمیشہ استاد ہی کہوں گا۔‘‘
’’نئی دنیا‘‘ سے علیحدگی کے بعد بھی برابر رابطہ قائم رہا۔ کوئی سوال پیش آجاتا فوراً ٹیلی فون اٹھا کر بات کرلیتے۔ ملاقات کے لیے آجاتے یا بلا لیتے۔ جس زمانے میں اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واچپائی کے گھٹنے کا آپریشن ہوا تھا ایک روز فون کرنے پر ریحانہ صاحبہ نے کہا: ’’مولانا! آپ کے شاگرد کو وزیراعظم والی بیماری لاحق ہے مگر ان کے لیے امریکہ سے ڈاکٹر کیسے آسکتا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت فرمائے، بہت خوبیاں تھیں۔۔۔