پاکستان اسٹڈی سینٹرکا شمار پشاور یونیورسٹی کے اُن چند نمایاں اداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پچھلے چند برسوں کے دوران علم وتحقیق کے میدان میں معیار کے لحاظ سے نمایاں ترقی کی ہے۔ اس کا سہرا اس سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام کے سر ہے‘ جو دن رات اس کی ترقی اور یہاں زیر تعلیم ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ وطالبات کی علمی آبیاری کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پاکستان اسٹڈی سینٹر کے زیراہتمام پچھلے دنوں پشاور یونیورسٹی کے باڑہ گلی سمر کیمپس میں Research Techniques and Creative Writing Skills کے موضوع پر ایک تین روزہ قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا‘جس میں ملک بھر سے مختلف تعلیمی ماہرین نے ورکشاپ کے شرکاء کو جن کی اکثریت ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالروں پر مشتمل تھی، مختلف موضوعات پر لیکچر دیئے۔ اس ورکشاپ کا ایک اہم پہلو اس کا لچکدار شیڈول تھا ‘جس میں ورکنگ سیشنز کے علاوہ شرکاء کی سیر وسیاحت کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا۔ یہ ورکشاپ چھ ورکنگ سیشنز پر مشتمل تھی۔ افتتاحی سیشن کا آغاز حافظ شمس الحق کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ورکشاپ کے اغراض ومقاصد پر سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس ورکشاپ کے انعقاد کا مقصد ریسرچ اسکالروں کو جدید تحقیق کے جملہ لوازمات سے عملی آگاہی فراہم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں 17 اور 23 سال کی درمیانی عمر کے نوجوانوں میں سے جنہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہونا چاہیے، 94 فیصد اعلیٰ تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ کسی ملک کی مجموعی ترقی میں سب سے زیادہ حصہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کا ہوتا ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اعلیٰ تعلیم پر توجہ دیئے بغیر ان کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہوا جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنی نوجوان نسل میں تحقیق اور غور وفکر کے کلچر کو عام کرنا ہوگا۔
افتتاحی سیشن کے مہمانِ خصوصی ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینٹیز یونیورسٹی آف پشاور پروفیسر ڈاکٹر سید منہاج الحسن تھے۔ انھوں نے اس ورکشاپ کے انعقاد پر پاکستان اسٹڈی سینٹر کی انتظامیہ اور بالخصوص پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام کے جذبے اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے انھیں اور پاکستان اسٹڈی سینٹر کو جامعہ پشاور کے دیگر اداروں کے لیے رول ماڈل قرار دیا۔ پروفیسر منہاج الحسن نے کہا کہ سماجی علوم میں تحقیق کی اہمیت کسی بھی دوسرے شعبے میں تحقیق سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہے۔ سماجی علوم کے شعبوں میں تحقیق کو لیبارٹریوں تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ اپنی وسعت اور گہرائی کے اعتبار سے زیادہ مشکل اور مشقت طلب کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحقیق کے لیے مالی وسائل اور وقت کے ساتھ ساتھ کمٹمنٹ اور وژن کی شفافیت اہمیت کے حامل ہیں۔ ورکشاپ کے پہلے ورکنگ سیشن کی صدارت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ کلچرل ریسرچ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر سید عمر حیات نے کی۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ کلچرل ریسرچ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادکے ریسرچ فیلو ڈاکٹر حمایت اللہ یعقوبی نے ’تحقیقی مقالہ کیسے لکھا جائے‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی محقق اور لکھاری کے لیے کوئی بھی تحقیقی مضمون لکھنے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ وہ یہ مضمون کیوں لکھنا چاہتا ہے اور اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کسی بھی پی ایچ ڈی مقالے کی منظوری کے لیے شرط عائد کررکھی ہے کہ مقالے کی منظوری سے پہلے مقالہ نگار کا کم از کم ایک تحقیقی مضمون ایچ ای سی کے کسی بھی منظور شدہ تحقیقی جریدے میں شائع ہونا لازمی ہے۔ اس شرط کو پورا کیے بغیر پی ایچ ڈی کے کسی بھی مقالے کی منظوری نہیں دی جاتی۔ انھوں نے کہا کہ تحقیقی مضامین لکھتے وقت بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھنا چاہیے اور تحریر میں غیر ضروری اور غیر متعلقہ الفاظ اور جملوں کے استعمال سے ہرممکن گریز کرنا چاہیے۔
شعبہ سیاسیات یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کے چیئرمین ڈاکٹر خان فقیر نے سائٹیشن اور ببلیوگرافی کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ محققین کو اینڈ نوٹ لکھتے وقت جہاں اپنے مقاصد سے واقف ہونا چاہیے وہیں اینڈ نوٹ کے استعمال میں احتیاط اور توجہ کے ساتھ وہ تمام جدید بین الاقوامی قواعد استعمال کرنے چاہئیں جنہیں کسی بھی معیاری مضمون کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
ورکشاپ کے دوسرے دن کے ورکنگ سیشن کی صدارت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر حنیف خلیل نے کی، جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پاکستان اسٹڈی سینٹر کے اسسٹنٹ پروفیسر شہباز خان نے انجام دیئے۔ خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غالب خان نے بین الاقوامی تحقیقی جرائد میں مضامین کی اشاعت کے طریقہ کار اور اہمیت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سطح پر اس وقت ایچ ای سی کے تحت مجموعی طور پر مختلف کیٹیگریزکے 138تحقیقی جرائد شائع ہورہے
(باقی صفحہ 49 پر)
ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تقریباً تمام اہم ملکی اور بین الاقوامی تحقیقی جرائد آن لائن دستیاب ہیں جن میں مضامین شائع کرانے کے اصول و ضوابط اور طریقہ کار کے حوالے سے مناسب راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ پاکستان کسٹم کے ایڈیشنل کمشنر کرم الٰہی نے مؤثر تحریری صلاحیتوں کی افادیت کے موضوع پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معیاری مضمون کی تخلیق کے لیے سب سے پہلے تحقیقی سوالات کا ذہن میں آنا ضروری ہے۔ بعد کے مراحل میں اعداد وشمار کا جمع کیا جانا، آؤٹ لائنز ، جملوں کی ترتیب اور خیالات کو منظم انداز میں کسی منطقی انجام تک پہنچانا کسی بھی معیاری تحقیقی مضمون کا لازمی خاصہ ہیں۔ ڈاکٹر حنیف خلیل نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق بنیادی طور پر حق کی تلاش کوکہتے ہیں۔ محققین کا بنیادی کام چھپے رازوں سے پردہ اٹھانا ہے۔ ایک عام مضمون اور ایک تحقیقی مضمون میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، لہٰذا محققین کو یہ پہلو لازماً پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انھوں نے شرکاء کو ہدایت کی کہ اپنے اندر تحقیقی سوچ پروان چڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مطالعے اور مثبت تنقیدی سوچ کی عادت کو اپنائیں۔
ورکشاپ کے آخری روز ورکنگ سیشن کی صدارت پاکستان اسٹڈی ڈپارٹمنٹ ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قاضی سلطان محمود نے کی۔ اس سیشن کے پہلے مقررشعبہ سماجی بہبود یونیورسٹی آف پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ابرار تھے جنہوں نے پراجیکٹ کی تیاری کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پراجیکٹ کے مقاصد اور اہداف واضح ہونے چاہئیں۔ کوئی بھی پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے اس کے مختلف عناصر مثلاً فیزیبلٹی رپورٹ کی تیاری، وسائل کی دستیابی، پراجیکٹ سے مستفید ہونے والوں کی تفصیل اور پراجیکٹ کی تکمیل کا دورانیہ اور عمل درآمد کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ زرعی یونیورسٹی پشاور کے پاکستان اسٹڈی ڈپارٹمنٹ کے لیکچرر ڈاکڑ فرمان اللہ نے Steps Involved in Quantitative Research Proposalsکے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہاکہ تحقیق کا عنوان اتنا واضح اور جامع ہونا چاہیے کہ اس کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہوجائے کہ اس تحقیق میں کس ایشو کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اسی طرح تحقیق کے مقاصد اور طریقہ کار بھی بالکل واضح ہونے چاہئیں اور تحقیق کے دوران ابہامات اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والے عوامل سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے۔
ورکشاپ کے اختتامی سیشن کے مہمان خصوصی باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے وائس چانسلر اور خیبر پختون خوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے سابق چیئرمین، معروف ماہر تعلیم اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحیم مروت تھے، جبکہ موڈریٹر کے فرائض پی ایچ ڈی اسکالر حامدہ اصغر نے انجام دیئے۔ پاکستان اسٹڈی سینٹر کے لیکچرر محمد اقبال نے ورکشاپ کی رپورٹ پیش کی، جبکہ کلماتِ تشکر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام نے ادا کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحیم مروت نے اس کامیاب ورکشاپ کے انعقاد پر پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر اور انتظامیہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ورکشاپس وقت کی ضرورت ہیں اور ان کے انعقاد کو ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے طلبہ وطالبات کے لیے لازمی بنانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ تحقیق بنیادی طور پر اجتہاد ہے جس کے ذریعے وقت کے پیش آمدہ مسائل کا علم و بصیرت اور تحقیق کی بنیاد پر حل تجویز کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحقیق ایک ہنر ہے جس سے بہرہ مند ہوکر ہی کوئی محقق اپنے اہداف اور مقاصد کو حاصل کرسکتا ہے۔ آخر میں مہمانِ خصوصی نے شرکاء میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے، جبکہ پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام نے مہمان خصوصی کو یادگاری شیلڈ پیش کی۔