ایک اور ایک گیارہ

256

نورِ اسلام

نہ جانے عاصمہ میں اتنا اعتماد کہاں سے آگیا ہے؟ کل تک جو اتنی ڈری سہمی تھی، آج بہت پُراعتماد ہوگئی ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ شگفتہ اور ثمینہ اپنی ہم جماعت کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ مس نادیہ کے سوالات کے جوابات بھی بہت تیزی سے اور بالکل صحیح دے رہی تھی، جیسے آنکھوں سے پڑھ کر سنا رہی ہو۔ اس کا ذہن اتنا تیز کیسے ہوگیا!
دیکھو سامنے سے عاصمہ آرہی ہے۔ چلو اس سے پوچھتے ہیں کہ کون سی گولی کھا لی ہے تم نے؟ کون سا دم و درود کروا لیا ہے جو ایک دم اتنی پُراعتماد ہوگئی ہو۔ دونوں عاصمہ کے پاس پہنچیں اور فوراً ہی سوالات کی بوچھاڑکردی۔
عاصمہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’میرا ساتھی مجھے مل گیا ہے، میری زندگی کا خلا دور ہوگیا ہے۔ اب تم اصرار کررہی ہو تو بتاتی ہوں کہ میں اندر سے بہت ڈری سہمی رہتی تھی۔ مجھے ہر لمحے سہارے کی ضرورت ہوتی تھی۔ کہیں کسی نے کچھ پوچھ لیا تو میں گھبرا جاتی تھی۔ ایک انجانے خوف کا شکار رہتی تھی۔ پڑھتے وقت سو طرح کے وسوسے آتے اور سارا یاد کیا ہوا بھول جاتی تھی۔ میرے گھر والے بھی میری اس عادت سے پریشان تھے۔ پھر ہمارا پچھلے ماہ چھٹیوں میں اپنی پھوپھی کے ہاں کراچی جانا ہوا، وہاں میری کزن صوفیہ تھی۔ اُس نے میری حالت دیکھی تو بولی ’’دیکھو! تم ہر وقت کسی نہ کسی وہم، خوف اور وسوسے کا شکار رہتی ہو، ذرا ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ وجہ کیا ہے؟ تمہیں یہ احساسِ محرومی کیوں ہے کہ تم اکیلی ہو جب کہ تمہارے ماں باپ، بہن بھائی سب تم سے اتنا پیار کرتے ہیں۔‘‘
میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا یہ سب تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔ پھر میں نے صوفیہ سے کہا ’’میری بات سمجھنے والا کوئی نہیں، میں اس دنیا میں سب سے آگے نکلنا چاہتی ہوں اور ہر دفعہ مجھ سے آگے کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ مجھے سراہا جائے، مگر یہاں ہر ایک اپنی دنیا میں مگن ہے۔ میں اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتی ہوں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ امی ابو ہیں تو بہت اچھے، لیکن میرے دل کی بات وہ بھی نہیں سمجھتے۔ بہن بھائی کھیل کود کے شوقین ہیں اور سنجیدہ باتیں وہ کرنا نہیں چاہتے، میری ہم جولیاں مجھے بزدل اور ڈرپوک سمجھتی ہیں، اس لیے میں اندر سے خوف اور وسوسوں کا شکار ہوں۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘ صوفیہ نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا ’’ویسے عاصمہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں بھی ایسی ہی تھی، پھر میری ایک سہیلی نے مجھے اللہ سے متعارف کروایا، اس نے مجھ سے کہا کہ ’’ہر وقت یہ خیال کرو کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے، تم جہاں کہیں بھی جاؤ، جو کام بھی کرو، جس سے بھی بات کرو، اپنے ساتھ اللہ کو محسوس کرو۔ وہ سن رہا ہے، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سمجھ رہا ہے، وہ تمہارے دل کے احساسات جانتا ہے۔ پھر دیکھو تمہارے اندر کتنی مضبوطی اور اعتماد آئے گا۔ بس ذرا اپنا دل اللہ کے حوالے کرکے دیکھو‘‘۔ صوفیہ روانی سے بولے جارہی تھی اور میں اپنے دل میں اللہ کو محسوس کررہی تھی۔ جس لمحے میں نے یہ محسوس کرلیا کہ میں اکیلی نہیں، میرے ساتھ ایک اور ذات بھی ہے جو اللہ ہے تو مجھ میں عجیب سی طاقت آگئی، اور میرا اپنے اوپر اعتماد بڑھ گیا۔ میں جب نماز پڑھتی تو اللہ کو اپنے سامنے پاتی، جب اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتی تو اللہ کو اپنے ساتھ بیٹھا پاتی۔ میں جب پڑھائی کرتی تو اللہ تعالیٰ سے کہتی کہ آپ میری مدد کریں، مجھے یاد کروا دیں۔ جب باورچی خانے میں امی کا ہاتھ بٹاتی تو اللہ سے مدد مانگتی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے جلدی جلدی سارے کام کروا لے، اور سکون اور اطمینان میرے دل میں اتر جاتا۔ میری زندگی کا خلا پُر ہوچکا تھا، اللہ تعالیٰ سے میں دل کی ہر بات کہہ لیتی، اور جب اللہ تعالیٰ کا خط بندے کے نام (قرآن پاک) پڑھتی تو مجھے لگتا کہ جیسے اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کررہے ہیں۔‘‘
عاصمہ نہایت جذباتی ہوچکی تھی اور احساسِ تشکر سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ شگفتہ اور ثمینہ بھی حیران کھڑی ساری باتیں سن رہی تھیں۔ پھر عاصمہ بولی ’’میں چاہتی تھی کہ دنیا میں سب سے آگے نکل جاؤں تو اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ یہ حقیر دنیا مقابلے بازی سے جیتنے کے لیے نہیں۔ اللہ کی محبت میں سب سے آگے نکلو۔ میں چاہتی تھی کہ مجھے سراہا جائے مگر اللہ نے بتایا کہ میں ہر لمحے تمہیں دیکھ رہا ہوں اور دنیا والے صرف ظاہری خوبیاں دیکھتے ہیں، میں تو تمہارے دل میں آنے والے خیالات تک سے واقف ہوں۔ میں چاہتی تھی کہ سب مجھے بزدل اور ڈرپوک کہنا چھوڑ دیں، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ میں جس کے ساتھ ہوتا ہوں وہ پُراعتماد ہوجاتا ہے۔ یقیناًایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں بے خوف ہوکر سارے کام کرلیتی ہوں چونکہ مجھے اندازہ ہے کہ جس سہارے کی مجھے ضرورت تھی وہ مجھے مل گیا ہے۔‘‘

Back to Conversion Tool

حصہ