بنگلا دیش میں جب قانون میں ترمیم کرکے متحدہ پاکستان کی محبت کے الزام میں عبدالقادر ملاّ کو پھانسی دی گئی تو کلیجہ منہ کو آگیا تھا، خیال تھا کہ حسینہ واجد حکومت انتقام کی جس آگ میں جل رہی ہے، وہ آگ اس پھانسی سے بجھ جائے گی۔ جب منصورہ میں اس عمل کے خلاف ردعمل دینے کا کہا گیا تو یہی پیغام ملا کہ جماعت اسلامی بنگلا دیش مقامی حالات سامنے رکھ کر ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتی ہے جس سے حسینہ حکومت کے ردعمل کی سطح ایک حد سے اوپر نہ جائے۔ لیکن حسینہ حکومت نے ایک طے شدہ سہ فریقی معاہدے کا گریبان چاک کرکے نشانِ حیدر راشد منہاس کی شہادت کا سبب بننے والے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کی باقیات بنگلا دیش منتقل کیں اور اس کے بعد پھانسیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ عبدالقادر ملاّ کے بعد مطیع الرحمن نظامی اور صلاح الدین کو پھانسی دی گئی اور اب میر قاسم علی اس راہ کے مسافر بنائے گئے ہیں۔ اس پھانسی کے خلاف پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی سطح پر صرف جماعت اسلامی نے ردعمل بھی دکھایا اور بنگلا دیش کو سقوطِ ڈھاکا کے بعد سہ فریقی معاہدے کا پابند بنانے کے لیے حکومت کے علاوہ مسلم دنیا اور اقوام عالم کے سامنے مطالبہ بھی اٹھایا، لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، اور حسینہ واجد حکومت کی پیاس ابھی بھی نہیں بجھی ہے، وہ مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھارت کے خلاف لڑنے والے فوجیوں کے نام مانگنے کی جانب پیش قدمی کرنے کی تیاریوں میں ہے۔
جماعت اسلامی نے ان پھانسیوں پر حکومت کی مسلسل خاموشی کے خلاف شاہراہ دستور پر دھرنا دیا، جس سے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ، جماعت اسلامی پنجاب کے امیر میاں مقصود احمد، اسلامی تحریک کے رہنما علامہ عارف واحدی، جمعیت علماء اسلام کے مفتی عبداللہ، جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ پیر عبدالرحیم نقشبندی، مولانا عبدالاکبر چترالی، اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ سید صہیب الدین کاکاخیل، جمعیت طلبہ عربیہ کے منتظم اعلیٰ عبدالرحمان عباسی، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر زبیر فاروق خان، راولپنڈی کے امیر شمس الرحمان سواتی اور دیگر نے خطاب کیا۔
شاہراہِ دستور پر دیے جانے والے اس دھرنے نے ملک کی پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں کے لیے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ یہ معاملہ صرف جماعت اسلامی کا نہیں ہے، بلکہ ہر انصاف پسند انسان کا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی قبیلے اور گروہ سے ہو۔ اس دھرنے میں البدر اور الشمس تحریک کے وارث ہی شریک ہوئے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی آبادی تقریباً ساٹھ ستّر لاکھ ہوگی، اتنی بڑی آبادی کے شہروں میں دھرنے میں شریک ہونے والے سرپھرے دیوانوں کی تعداد چند ہزار تھی۔ اگرچہ دھرنے کی تیاری کے لیے وقت بھی بہت کم تھا، عید کی تعطیلات بھی ایک وجہ کہی جاسکتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں شہروں میں جماعت اسلامی کے کارکن اور برادر تنظیمیں کوشش کرتیں تو دھرنے کی حاضری اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی تھی۔
دھرنے کے شرکاء سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’بنگلادیش میں پھانسیوں کا معاملہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور سلامتی کونسل میں مدعی بن کر اٹھایا جائے، حسینہ واجد سے گلہ نہیں، اس کا نام تاریخ میں ایک قاتلہ کے طور پر لکھا جائے گا۔ مجھے گلہ اپنے حکمرانوں سے ہے جن سے میں نے بار بار ملاقات کی اور کہا کہ پاکستان سے محبت کے جرم میں جو پھانسیاں لگائی جارہی ہیں ان کو رکوانے کے لیے کردار ادا کریں۔ میر قاسم علی کے چہرے پر پھانسی کے وقت نور اور روشنی تھی لیکن اندھیرا اسلام آباد میں تھا۔‘‘
بلاشبہ سینیٹر سراج الحق نے یہ معاملہ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے سامنے بھی اٹھایا، لیکن اُن کی جانب سے خاموشی کے سوا کوئی ردعمل نہیں آیا۔ مطیع الرحمن نظانی کی پھانسی کے بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جماعت اسلامی کی قیادت کو عالمی عدالتِ انصاف میں جانے کا مشورہ دیا تھا، جب ان سے کہا گیا کہ یہ کام حکومت خود کیوں نہیں کرتی؟ تو وہ بھی خاموش ہوگئے۔ حکومت کی صفوں میں کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آیا جو قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان، نواب سلیم اللہ خان کا حقیقی سیاسی وارث بنتا۔ بلاشبہ یہ معاملہ جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ خالص انسانی معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور مسلم ممالک کی تنظیموں کی اس معاملے میں خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ حکومت کی جانب سے تو پرلے درجے کی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں متعین بنگلادیش کے ہائی کمشنر کو بلاکر احتجاجی نوٹ تک نہیں دیا گیا۔ پانامہ لیکس پر تو وزیراعظم اقتدار بچاؤ مہم میں متحرک ہوئے، خود ٹی وی پر آئے اور دو بار اپنے خاندان کی صفائی پیش کی۔ ان پھانسیوں پر ملک کا میڈیا، اینکرز اور پارلیمنٹ تک سب خاموش ہیں۔ ان سب کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی بنگلا دیش جانے اور جماعت اسلامی پاکستان جانے۔۔۔ ان تمام کی خاموشی تو ’پرائی شادی میں عبداللہ کیوں دیوانہ بنا رہے!‘ والا معاملہ ہے، لیکن سراج الحق کا اعلان ہے کہ کوئی ساتھ دے نہ دے، وہ حکومت کی بے حسی بے نقاب کرتے ہوئے یہ مشن آگے بڑھاتے رہیں گے، اور قومی خزانے میں کرپشن کے خلاف بھی ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کی جاتی رہے گی۔ اسی لیے دھرنے میں عید کے بعد 29 ستمبر کو کرپشن کے خلاف فیصل آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
وزیراعظم میاں نوازشریف آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک روانہ ہورہے ہیں، یقیناًوہاں ان کی عالمی رہنماؤں سے ملاقات بھی ہوگی، لیکن دفتر خارجہ نے اس بات کی ابھی تک تصدیق نہیں کی کہ آیا وزیراعظم وہاں بنگلادیش کی وزیراعظم سے ملاقات کریں گے، اور پھانسیوں پر اپنی حکومت کی جانب سے کسی تشویش کا اظہار کریں گے؟ امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کیا ردعمل دکھائے گی؟ اس بارے میں بھی فی الحال کوئی آگاہی نہیں ملی، البتہ حکومت نے کشمیر کے محاذ پر کچھ کچھ سرگرمی دکھائی ہے۔ سید علی گیلانی کے چار نکات قبول کرکے کشمیر میں امن کے قیام اور مسئلہ کے حل کے لیے چار نکات کے جواب میں اپنی جانب سے چھ نکات پیش کیے ہیں، پارلیمانی وفود بھی بیرونِ ملک بھجوائے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ محمد اعجازالحق نے وزیراعظم کو تجویز دی ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کو اپنے ساتھ اقوام متحدہ لے جائیں اور وہاں سب مل کر کشمیر کا مسئلہ عالمی برادری کے سامنے پیش کریں۔ وزیراعظم نے تو اس تجویز کو مثبت قرار دیا ہے، اب پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ردعمل کا انتظار ہے۔ اگر پارلیمنٹ کی یہ شخصیات وزیراعظم کے ساتھ اقوام متحدہ جانے کو تیار ہوجائیں تو پاکستان کشمیر کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑ سکے گا، ورنہ اندرون ملک پانامہ لیکس کا محاذ تو ہے ہی، جہاں آئے روز سیاسی ملاکھڑا ہورہا ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر ملک سے کرپشن ختم کرنے میں حکومت مخلص ہو تو یہ کام ایک روز میں ہوسکتا ہے، لیکن مفادات پر زد پڑتی ہے اسی لیے مسئلہ حل نہیں ہورہا۔
پانامہ لیکس بلاشبہ بڑا اسکینڈل ہے، لیکن پی ٹی سی ایل کی ایک بار پھر فروخت اس سے بھی کہیں بڑا اسکینڈل ہے۔ پرویزمشرف حکومت نے یہ ادارہ اتصالات کے ہاتھوں فروخت کیا اور اکیس فی صد شیئر دیے، لیکن اتصالات نے ایک قسط دی اور اس کے بعد آج تک لمبی خاموشی ہے۔ پرویزمشرف کے بعد ملک میں آصف علی زرداری کا دور آیا، اور اب نوازشریف کی حکومت ہے۔ دونوں اتصالات کے معاملے پر ایک صفحے پر ہیں کہ اگر اتصالات سے قسطیں مانگ لیں تو جواب میں وہ دبئی میں قیام اور کاروبار کرنا ناممکن بنادے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے آصف علی زرداری اور ان کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار اتصالات سے قسطیں نہیں مانگ رہے ہیں، اور یہ بات ایسے ہی نہیں کہی جارہی ہے بلکہ دونوں شخصیات نے ایک نجی محفل میں اس کا سنجیدہ انداز میں ذکر بھی کیا ہے۔ نواز حکومت نے تو پی ٹی سی ایل کی تمام جائداد، اراضی اور اثاثے بھی اتصالات کو دے دیے ہیں اور اب مزید نج کاری کے عمل سے گزر کر یہ کمپنی زونگ کے ہاتھوں فروخت ہونے جارہی ہے۔
ایک جانب یہ نج کاری متوقع ہے اور دوسری جانب پیمرا، نیپرا، اوگرا سمیت تمام ریگولیٹری اتھارٹیز کو پارلیمنٹ کے تابع بنایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں قانون سازی کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور بین الصوبائی رابطہ وزارت کو مشترکہ مفادات کونسل کے مستقل سیکریٹریٹ میں تبدیل کیے جانے پر غور ہورہا ہے۔ آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا ایک سیکریٹریٹ ہوگا۔ تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی، اسی لیے یہ تجویز دی گئی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا مستقل سیکریٹریٹ قائم کیا جائے۔ مستقل سیکریٹریٹ کے لیے وزیراعظم کو ایک سمری بھیج دی گئی ہے۔ پیمرا سمیت دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز کو حکومت اور پارلیمنٹ کے دائرۂ کار میں لایا جارہا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے وہ جواب دہ ہوتی ہے مگر فیصلے یہ ادارے کرتے ہیں، لہٰذا انہیں بھی پارلیمنٹ کے تحت لایا جانا ضروری ہے۔ جب ان کے فیصلوں پر حکومت کو جواب دینا پڑتا ہے تو ان کا کنٹرول بھی حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔ امکان یہی ہے کہ جلد وزیراعظم ان امور کی منظوری دے دیں گے۔
سب سے آخر میں ایک نہایت اہم بات۔۔۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اسد عمر کی سالگرہ کا کیک قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور میں کاٹا گیا۔ یہ ایک بالکل نئی روایت ہے کہ کسی رکن اسمبلی کی سالگرہ کا کیک اسمبلی میں کاٹا گیا ہو۔ اسد عمر کی سالگرہ کا کیک اُس وقت کاٹا گیا جب بنگلادیش میں پاکستان سے محبت کی پاداش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسی کے خلاف شاہراہ دستور پر دھرنا دیا جارہا تھا۔ مشرقی پاکستان ٹوٹنے کے الزام میں حمودالرحمن کمیشن نے اسد عمر کے والد جنرل (ر) غلام عمر کے باقاعدہ کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی۔ اب ان کے صاحب زادے قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور وہ بھی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کی پالیسی کے تابع رہ کر ان پھانسیوں پر خاموش رہے ہیں لیکن سالگرہ کا کیک کاٹ کر نئی روایت ضرور قائم کردی ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سینیٹ رضاربانی کی جمہوریت دوستی کے ثبوت میں ایک دستور گیلری قائم کی گئی ہے جس میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک دستورِ پاکستان کے سفر اور ملک میں فوجی حکومتوں کے ادوار کا بھی ذکر ہے۔ تاہم فوجی حکومتوں کو سیاہ رنگ سے واضح کیا گیا ہے اور ضیاء الحق دور میں کوڑوں کی سزا کی تلخ یادیں بھی گیلری کا حصہ بنائی گئی ہیں، تاہم جس شخص کو کوڑے کھاتے ہوئے ایک سیاسی کارکن کے طور پر دکھایا گیا اسے راولپنڈی سے جعلی پیر ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، ایک سیاسی کارکن کے طور پر اُس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے خیبر پختون خوا کے سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ اس ’’گلی دستور‘‘ کا دورہ کیا۔ سینیٹر سراج الحق اور سینیٹر شبلی فراز نے پاکستان میں لگنے والے چار مارشل لاؤں کی تاریخ اور اس حوالے سے سیاہ دیوار کو دیکھا۔پاکستان کے اتحاد اور آئین کے تحفظ سے متعلق قومی پرچم اور اس سے مزین ماڈل کے ساتھ سینیٹر سراج الحق اور سینیٹر احمد فراز کا خصوصی طور پر فوٹو لگایا گیا۔
nn