قارئین کو گزری ہوئی عیدالاضحی مبارک، جسے اب بھی کچھ لوگ عیدالضحیٰ کہتے اور لکھتے ہیں۔ اپنی اپنی عید ہے، ہم کیا کرسکتے ہیں، جو چاہیں کہیں۔ بھولے بھالے لوگ بکرا عید بھی تو کہتے ہیں خواہ گائے ذبح کرتے ہوں۔
گزشتہ دنوں کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے خبروں کے صفحے پر تجزیے کے نام سے دلچسپ کالم پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک محاورہ ’’برات عاشقاں بر شاخِ آہو‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ ویسے یہ محاورہ کسی ناممکن بات کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’شاخ آہو‘‘ یعنی ہرن کے سینگ۔ اب سینگوں پر عاشقوں کی بارات کیا، کسی بھی قسم کی بارات نہیں ٹھیر سکتی، مکھی مچھروں کی ہو تو ہو۔ اس محاورے کو استاد ابراہیم ذوق نے ایک شعر میں بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں:
سوالِ بوسہ کو ٹالا جواب چین ابرو سے
براتِ عاشقاں بر شاخ آہو اس کو کہتے ہیں
واضح ہو کہ ’’چین ابرو‘‘ کا تعلق ملک چین سے ہرگز نہیں۔ یہ وہی چین ہے جو ماتھے پر سلوٹ کی شکل میں نمودار ہوکر ’’چیں بجبیں‘‘ بن جاتی ہے اور بہت سے قلم کار اسے ’’چین بچیں‘‘ لکھ ڈالتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے نہیں، قلم کاروں کے لیے یہ اعادہ ضروری ہے کہ ’’اہلیان‘‘ کی ترکیب بے معنی ہے، مثلاً اہلیانِ شہر۔ جمع کے لیے ’اہل‘ بھی کافی ہے۔ ویسے بھی اہل عربی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’اہلیان‘ بہ ترکیبِ فارسی بنائی گئی ہے۔ لیکن عربی کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن کی جمع اردو قاعدے کے مطابق بنا لی گئی۔ اصل بات یہ ہے کہ اہلیان غیرضروری ہے۔ اہل کا مطلب ہے صاحب، خداوند وغیرہ۔
اہلِ علم، اہلِ قلم، اہل اللہ وغیرہ جمع کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص اہلِ قلم ہے یا اہلِ علم ہے۔ اہل کا مطلب ہے لایق، مناسب اور صلاحیت رکھنے والا۔ اردو میں اہلِ بیت کا استعمال بہت عام ہے یعنی گھر کے لوگ۔ یہ خصوصاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور خاندان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کوئی اہلیانِ بیت نہیں کہتا۔ اسی طرح اہلِ خانہ یعنی گھر کے لوگ۔ اگر بہت سے ہوں تب بھی کسی سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ ’’میرے اہلیانِ خانہ‘‘۔ اہل الرائے، اہل اللہ، اہلِ دل، اہلِ باطن وغیرہ۔ پھر جب ’اہل‘ بطور جمع کفایت کررہا ہے تو زبردستی اہلیان لکھ کر فصاحت کو مجروح نہ کیا جائے۔ حکیم عاجز مرحوم کا مصرع ہے