4129فشاں نوید
162قت کا پہیہ مسلسل گردش میں ہے۔ چشمِ فلک نے بھی دیکھا اور اہلِ زمین نے بھی کہ کیسا رقت آمیز تھا وہ منظر، جب بوڑھا شفیق باپ اپنے کم سن لختِ جگر سے کہہ رہا ہے ’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، بتا تیری کیا رائے ہے؟‘‘ اور لائق فرزند نے پورے عزم سے جواب دیا ’’ابا جان آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے۔‘‘ (الصافات 102)
اب حضرت ابراہیم ؑ تھے اور حضرت اسمعیلؑ ۔۔۔ دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہونے والا تھا۔ صحرا کی اس تپتی ریت پر اپنے معصوم لختِ جگر کو لٹا کر اس کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر تیز چھری اس کی گردن پر پھیر دی اور اس معصوم جان نے اپنی گردن اس لیے زمین پر ڈال دی کہ اس کے باپ تعمیل حکمِ ربی کے ماسوا کچھ نہیں کرتے۔
صحرا، پہاڑ، سورج بھی اطاعت و فرماں برداری کا یہ روح پرور منظر جھک کر دیکھ رہے ہیں کہ رحمتِ خداوندی جوش میں آجاتی ہے۔ ’’اے ابراہیِمؑ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں، یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی۔‘‘ (الصافات 106)
حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر کر جانثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کرلی، لیکن قدرت کو بیٹے کی قربانی منظور نہ تھی، بس عشق کا اتنا ہی امتحان مطلوب تھا۔ مینڈھے کو بھیج کر حضرت اسماعیلؑ کو بچا لیا گیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اس عظیم قربانی کی یاد ہر سال تازہ کریں جو ان کے جدِّ امجد نے پیش کی تھی۔
لیکن۔۔۔ قربانی کا یہ مطالبہ اچانک تو نہیں کردیا گیا تھا۔ یوں تو کوئی اپنی پسندیدہ ترین چیز ایک اشارے پر قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہوجاتا۔ حضرت ابراہیمؑ تو ہیں ہی قربانیوں کی تفسیر۔ وہ کون سی آزمائش تھی جس میں آپ پورے نہیں اترے! خاندان، برادری، وطنِ عزیز تو چھوٹی چیزیں ہیں، آپ تو آتشِ نمرود میں کود پڑے، بے آب و گیاہ وادی میں اپنے خاندان کو چھوڑ آئے، اور جب وہی بیٹا پل کر جوان ہوا تو حکم ملا کہ خود اس کو ذبح کردو۔ دنیا میں کسی انسان کو جو عظیم ترین آزمائشیں پیش آسکتی ہیں وہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیش آئیں، اور پھر آزمائش میں پورا اتر کر ’’مسلم حنیف‘‘ بن کر اسلام کی کامل ترین تصویر رہتی دنیا تک چھوڑ گئے۔
’’جب اس سے اس کے رب نے کہا مسلم ہوجاؤ، تو اس نے بے تامل کہا، میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا۔‘‘ (البقرہ:13)
اور واقعتا اگر ہماری پوری زندگی گواہی نہیں دے رہی کہ ہم مسلم اور وفادار ہیں تو اللہ کو نہ گوشت مطلوب ہے نہ خون، نہ کوئی جشنِ قربانی۔
حقیقتاً تو جانوروں کے گلے پر چھری چلانے سے پہلے خود سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اسی طرح تیرے وفادار ہیں جیسے ہمارے آباء حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام تھے، اور تیرا اشارہ ہوا تو ہم بھی حضرت اسماعیلؑ کی طرح اپنی گردن تیرے حضور پیش کردیں گے۔ اور قربانی کے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ جانثاری کے انہی جذبات کا عکس ہے کہ:
’’میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔‘‘
اب اگر یہ جذبہ اور ارادہ نہ ہو تو محض گوشت بانٹنے، کھانے اور کھلانے کی کوئی تقریب تو مطلوب نہیں۔ اللہ سے یہ عہد کرنے کے بعد کہ میں ’’رب العالمین کا مسلم ہوں‘‘ کہاں خودسری کی گنجائش رہتی ہے! جانوروں کا فدیہ دیں اور پیروی اپنے من مانے طریقوں کی کریں۔ کیا جانوروں کے فدیے دے کر ہم نے خود کو اس لیے چھڑایا کہ اب ہم ہر باغی کے مددگار بن جائیں؟ نہ ہمیں معروف کے حکم سے کوئی غرض ہے نہ منکر کے پھیلنے سے کوئی خدشہ۔ ہماری بے حسی نے جس بے حیائی کی دنیا آباد کی ہے اس کی ایک جھلک میڈیا منٹوں میں پیش کردیتا ہے۔ جرائم کی داستانوں کو چٹخارے لے کر اور زیبِ داستاں کے لیے بیان کیا جارہا ہے۔ ننھی معصوم بچیوں کے ساتھ جو واقعات ہورہے ہیں، لگتا ہے ہم ابلیس کی سرزمین کے باسی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دین و ایمان، اپنی نسل، اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ انہی اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے ہم کتنے کوشاں ہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے شہروں کے چوک، چوراہوں سے گزر جائیں، موبائل کمپنیوں کے اشتہارات ہوں یا فوڈ کمپنیوں کے، یا خواتین کے کپڑے بنانے والی کمپنیوں کے۔۔۔ قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کی برہنہ تشہیر ہم میں سے کسی کے ایمان پر کوئی حرف نہیں آنے دیتی۔ ہمارے اخلاقی نظام کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ سفاکی کا عالم یہ ہے کہ ایک خودکش حملے میں سینکڑوں جانیں بھی چلی جائیں تو ہمارے نہ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، نہ دعوتیں اور تقریبات متاثر ہوتی ہیں۔
جرائم کی جس طرح تشہیر کی جارہی ہے اس سے مجرمانہ ذہنیت کو فروغ مل رہا ہے، کیونکہ ان جرائم کی وجوہات کی نہ تشخیص کی جارہی ہے، نہ روکنے کے اقدامات۔ جب قاتلوں، چوروں، ڈاکوؤں کو ایوان ہائے اقتدار پناہ دے دیں تو معاشرتی فساد کو پھیلنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے! ہماری فلم، ٹی وی، تھیٹر کیا کچھ پیش کررہے ہیں! صبح ہوتے ہی مارننگ شوز، جو رقص و موسیقی اور بے ہنگم قہقہوں اور لایعنی گفتگو کا ایک طوفانِ بدتمیزی بپا کردیتے ہیں ان سب کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ اب ایمان کے تیسرے درجے یعنی کراہیت سے بھی ہم عاری ہوگئے ہیں۔
پچھلے ہفتے ڈائیوو میں سفر کیا۔ بس کی میزبان لڑکی کے ایک ہاتھ میں ہیڈ فون اور دوسرے ہاتھ میں میگزینز اور اخبار۔ بس کی پچھلی نشست پر ہونے کے باعث جائزہ لینا میرے لیے آسان تھا کہ مسافروں بالخصوص نوجوانوں نے ہیڈفون لینا پسند کیے۔ پھر ٹی وی پر جو عریاں ترین اشتہارات اور انڈین فلم چلی وہ ایسی کہ الامان الحفیظ۔ جب میزبان سے احتجاج کیا تو وہ معصومیت سے بولی ’’آپ خود دیکھ لیں مسافر کس شوق سے دیکھ رہے ہیں، ہم تو مسافروں کے آرام اور تفریح کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ اور یہی تفریح ہے جو اب خبرنامے کے دوران بھی قوم کو مہیا کی جاتی ہے جب دورانِ خبرنامہ بالی ووڈ کی فلموں کے چنیدہ عریاں مناظر اسکرین پر پیش کیے جاتے ہیں۔ 24 گھنٹے کی نشریات میں کتنے گھنٹے کوئی بامقصد چیز پیش کی جاتی ہے اور کتنے گھنٹے عریاں اور بے مقصد تفریح۔۔۔ اس جائزے کے لیے کسی کا دانشور ہونا بھی ضروری نہیں۔
ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت، نظامِ عدل، امن وامان، تعلیم ہر شعبہ خدا کی بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔ جتنی ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے دجالی تہذیب فتح کے لشکر اتار رہی ہے اور پیروانِ ابراہیم گوشت کے تہوار کو ’’قربانی‘‘ سمجھ رہے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ نے کچھ ایسی ہی تہذیب کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا تھا۔ اس جھوٹی تہذیب کے بتوں کو خانۂ خدا میں رسوا کیا تھا، منہ کے بل گرا دیا تھا۔۔۔ ہم اسی جاہلانہ تہذیب کے پروردہ بن کر، خاموش تماشائی بن کر۔۔۔ سب کچھ برداشت کرکے محض دجالی تہذیب کے نوحے پڑھ کر اور حقیقتاً اپنے مفادات کے بندے بن کر کب ’’آدابِ فرزندی‘‘ نبھا سکتے ہیں! ہمارے پڑوس میں کیا ہورہا ہے؟ ملک میں کیا ہورہا ہے؟ بچوں کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟ جس موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے حوالے ہم نے اپنی نوجوان نسل کو کردیا وہ ان کو اخلاقی اور روحانی طور پر کن دنیاؤں کی سیر کرا رہے ہیں! کتنا ایمان اور قوتِ عمل باقی رہنے دی اس ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہماری نوجوان نسل میں۔۔۔؟ یہ سوچنے، سمجھنے کی فرصت نہیں۔ اس وقت ہمارے پاس کیونکہ پے در پے حادثات، سانحات، خوف کی فضا نے ہماری فکر کو بھی شل کردیا ہے اور خونِ مسلم کی اس ارزانی میں بھی ہمیں فکر ہے تو اپنی ذات اور خاندان کی، اور وہ بھی ان کی دائمی بقا کی نہیں۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی مروجہ تہذیب سے بغاوت کی تھی، آج سنتِ ابراہیمیؑ کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم میں سے کتنے اس دجالی تہذیب کے خاتمے کے لیے اپنا کچھ وقت، مال یا صلاحیتیں قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ یا سالانہ تقریبات میں ایک عیدالاضحی فیسٹول اور۔۔۔۔۔۔!!
nn