قربانی پر اعتراض کرنے والوں کی باتوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن جب قربانی پر بے جا اعتراض کرنے والے بعض نہیں آتے تو ان کو جواب کیوں نہ دیا جائے؟ قربانی پر معترض لوگوں کاخیال ہے کہ دُنیا کے رازق وہ ہیں، رازق ہونے کی اس غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کو قربانی کے موقعے پر غریب کا دکھ بہت ستاتا ہے غریب کے دکھ کے مارے ان لوگوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ قربانی پر خرچ کیے جانے والے پیسے سے کسی غریب لڑکی کی شادی کروادی جائے یا اس پیسے سے کسی کے گھر راشن ڈلوا دیا جائے یا قربانی کے بجائے کسی غریب رشتہ دار کی مدد کردی جائے لیکن جیسے ہی قربانی کے دن ختم ہوتے ہیں ان ھمدردوں کی ساری ہمدردی بھی ختم ہوجاتی ہے اور جب یہی حضرات کئی لاکھ کا ٹچ موبائل خرید رہے ہوتے ہیں تو انہیں خیال نہیں آتا کہ اتنا مہنگا موبائل لینے کے بجائے پیسے بچا کر کسی غریب لڑکی کی شادی کروادی جائے یا کسی ایک سال یورپ کے ٹور کی رقم بچاکر کسی بیمار کا علاج کروادیا جائے۔
مہندی، مایوں، برائیڈل شاور اورولیمے جیسی تقریبات ضرور ہوں گی اور لگژری ہوں گی،لاکھوں روپیہ فوٹو گرافی پر ضرور خرچ ہوں گے، دلہن کا قیمتی جوڑا ضرور بنے گا، کپڑا، جوتا برانڈڈ ہونا چاہیے، ہرسال گھر کا فرنیچر ضرور تبدیل ہوگا، ایل سی ڈی کی جگہ ایل ای ڈی لگانا ضروری ہے، نئے ماڈل کی گاڑی تو نہایت ہی ضروری ہے لیکن قربانی کے ایک بکرے یا ایک گائے سے ان کی ساری معیشت اُلٹ جاتی ہے۔
ان نادانوں کو کوئی بتائے کہ قربانی کا سارے کا سارا فائدہ غریبوں کو ہی پہنچتا ہے، کسی بینک کی کوئی قرضہ اسکیم ایسی نہیں ہے جس کا رُخ دیہاتوں اور غریب دیہاتیوں کی طرف ہو جب کہ قربانی کے نتیجے میں سرمائے کا رُخ دیہاتوں کی طرف ہوجاتا ہے، قربانی کے جانور گاؤں دیہات میں پالے جاتے ہیں، غریب ان جانوروں کو پالتے ہیں اور سارا سال ان جانوروں کی اچھی قیمت کے لیے بقرعید کا انتظار کرتے ہیں، گائے کا چارا کون سرمایہ دار بیچتا ہے قربانی کے موقعے پر گلی محلے میں چارے کی عارضی دکانیں سج جاتی ہیں، قسائی کون سرمایہ دار ہوتا ہے قربانی کے موقع پر قسائی اتنا کما لیتے ہیں کہ کوئی عمرہ کرنے جاتا ہے کوئی اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کردیتا ہے اور کوئی اپنے گھر کی ٹپکتی چھت کو پکا کرلیتا ہے۔
ڈیپ فریزر بھرنے کے بعد بھی قربانی کا گوشت غریب تک پہنچ ہی جاتا ہے، جانور کی کھال سے چمڑے کی صنعت کو کھال کی صورت میں تیس فیصدخام مال مل جاتا ہے، فلاحی اداروں کو قربانی کی کھالوں سے بڑی رقم مل جاتی ہے جو مختلف رفاہی کاموں پر خرچ ہوتی ہے ان رفاہی کاموں کے بینی فشری غریب ہی ہوتے ہیں، جانورکی ھڈیوں سے لاکھوں روپیہ کا کاروبار ہوتا ہے انسان کی ناقص عقل سوچ سکے یا نہ سوچ سکے اور انسان کی محدود نظر دیکھ سکے یا نہ دیکھ سکے لیکن نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے قربانی کے نتیجے میں کاروبار کا پہیہ چلتا ہے اور غریب کو فائدہ ہوتا ہے۔
قربانی اللہ کاحکم ہے، قربانی کو اللہ نے اپنی نشانی کہا ہے، قربانی انبیاء کی سنّت ہے اور قربانی کا جانور اسماعیل علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے، شفیق باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پیارے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم ہوا سعادت مند بیٹا ایسا آمادہ ہوا کہ باپ سے کہا کہ الٹا لٹا کر مجھے ذبح کیجیے کہیں میرے چہرے کو دیکھ کر گلے پر چھری پھیرنے میں باپ کی محبت آڑے نہ آجائے، قربان ایسی قربانی پراور لاکھوں سلام بیٹے کی سعادت مندی پر، لیکن اللہ کو تو محض باپ بیٹے کا امتحان لینا مقصود تھا لہٰذا حضرت اسماعیلؑ کو دنبے سے بدل دیا گیا اور باپ بیٹا آزمائش پر پورا اترے، لیکن ہم نے ہر عبادت کو کھیل تماشا بنادیا ہے، رمضان رمضان فیسٹول ہوگیا ہے اور بقرعید پر قربان ہونے والا جانور جوکہ اصل میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے ہم نے اُس کا نام قطرینہ، کرینہ، ببلو، چھمو رکھ دیا ہے، قربانی کے جانور کو ہمارے بیوپاری بھائی طبلے کی تھاپ پر نچواتے ہیں، حکم ہے کہ صحت مند جانور کی قربانی کرو ہم نے جانور کو منوں اور ٹنوں میں تولنا شروع کردیا ہے، ہمیں بتایا گیا کہ قربانی کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تمہاری نیت دیکھتا ہے لیکن ہمارے میڈیا نے بچوں اور بڑوں کو جانور کے ساتھ سیلفیاں بنانے پرلگا دیا ہے، اللہ کو اپنے بندوں سے شکوہ ہے کہ اُس کے بندے سوچتے کم ہیں لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سوچتے ہی نہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے لیدر انڈسٹری مندی کا شکار ہے، کئی بڑی ٹینڈریز یا تو بند ہوگئی ہیں یا ان کا کام بہت محدود ہوگیا ہے لہٰذا اس کا اثر کھالوں کی قیمت پر بھی پڑا ہے آج سے چھ سال پہلے بکرے کی جو کھال پانچ سو روپیہ میں فروخت ہورہی تھی اب اس کھال کو سو روپے میں لینے والے بھی کم ہیں، لہٰذا کئی مدارس اور مساجد نے اجتماعی قربانی کرنا ختم کردی ہے، جب کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی میں کمی آئی ہے، کھالوں کی قیمت میں کمی کے مسئلے پر کیسے قابو پایا جائے اس پر غور اور اقدامات کرنا رفاہی ادروں کے ذمہ داران کا کام ہے اور وہ کچھ نہ کچھ کر بھی رہے ہوں گے۔
لیکن جن رفاہی اداروں کا مشن فلاحِ دُنیا کے ساتھ فلاحِ آخرت بھی ہو اُن کے لیے تعداد اور قیمت ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اپنی بات اور خیالات سب تک پہنچانا بھی اُن کا بڑا کام ہے لہٰذا چرم قربانی مہم کو عمومی رابطے کا موثر ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، تیس برس بعد یہ پہلا موقعہ ہوگا کہ بات کرنے والا اور بات سُننے والے دونوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا، اس موقع پر اپنے مسلمان بھائیوں تک یہ بات پہچانے کی ضرورت ہے کہ قربانی انبیاء کی سنّت ہے، قربانی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے، قربانی اطاعت، سپردگی اور اللہ کی رضا میں راضی ہوجانے کا عمل ہے، لہٰذا قربانی کے ایک ایک عمل کو ثواب کا ذریعہ سمجھنا اور بنانا چاہیے، قربانی کا گوشت اور کھال دونوں ثواب کا سبب ہوسکتے ہیں اگر ہم اسے اللہ کے لیے اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیں، لوگوں کو یہ بات یاد کرانی چاہیے کہ قربانی کا زیادہ سے زیادہ گوشت بھی مساکین میں تقسیم کریں اور اس قربانی کی کھال کو بھی ثواب کا ذریعہ بنائیں۔
nn
مہندی، مایوں، برائیڈل شاور اورولیمے جیسی تقریبات ضرور ہوں گی اور لگژری ہوں گی،لاکھوں روپیہ فوٹو گرافی پر ضرور خرچ ہوں گے، دلہن کا قیمتی جوڑا ضرور بنے گا، کپڑا، جوتا برانڈڈ ہونا چاہیے، ہرسال گھر کا فرنیچر ضرور تبدیل ہوگا، ایل سی ڈی کی جگہ ایل ای ڈی لگانا ضروری ہے، نئے ماڈل کی گاڑی تو نہایت ہی ضروری ہے لیکن قربانی کے ایک بکرے یا ایک گائے سے ان کی ساری معیشت اُلٹ جاتی ہے۔
ان نادانوں کو کوئی بتائے کہ قربانی کا سارے کا سارا فائدہ غریبوں کو ہی پہنچتا ہے، کسی بینک کی کوئی قرضہ اسکیم ایسی نہیں ہے جس کا رُخ دیہاتوں اور غریب دیہاتیوں کی طرف ہو جب کہ قربانی کے نتیجے میں سرمائے کا رُخ دیہاتوں کی طرف ہوجاتا ہے، قربانی کے جانور گاؤں دیہات میں پالے جاتے ہیں، غریب ان جانوروں کو پالتے ہیں اور سارا سال ان جانوروں کی اچھی قیمت کے لیے بقرعید کا انتظار کرتے ہیں، گائے کا چارا کون سرمایہ دار بیچتا ہے قربانی کے موقعے پر گلی محلے میں چارے کی عارضی دکانیں سج جاتی ہیں، قسائی کون سرمایہ دار ہوتا ہے قربانی کے موقع پر قسائی اتنا کما لیتے ہیں کہ کوئی عمرہ کرنے جاتا ہے کوئی اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کردیتا ہے اور کوئی اپنے گھر کی ٹپکتی چھت کو پکا کرلیتا ہے۔
ڈیپ فریزر بھرنے کے بعد بھی قربانی کا گوشت غریب تک پہنچ ہی جاتا ہے، جانور کی کھال سے چمڑے کی صنعت کو کھال کی صورت میں تیس فیصدخام مال مل جاتا ہے، فلاحی اداروں کو قربانی کی کھالوں سے بڑی رقم مل جاتی ہے جو مختلف رفاہی کاموں پر خرچ ہوتی ہے ان رفاہی کاموں کے بینی فشری غریب ہی ہوتے ہیں، جانورکی ھڈیوں سے لاکھوں روپیہ کا کاروبار ہوتا ہے انسان کی ناقص عقل سوچ سکے یا نہ سوچ سکے اور انسان کی محدود نظر دیکھ سکے یا نہ دیکھ سکے لیکن نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے قربانی کے نتیجے میں کاروبار کا پہیہ چلتا ہے اور غریب کو فائدہ ہوتا ہے۔
قربانی اللہ کاحکم ہے، قربانی کو اللہ نے اپنی نشانی کہا ہے، قربانی انبیاء کی سنّت ہے اور قربانی کا جانور اسماعیل علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے، شفیق باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پیارے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم ہوا سعادت مند بیٹا ایسا آمادہ ہوا کہ باپ سے کہا کہ الٹا لٹا کر مجھے ذبح کیجیے کہیں میرے چہرے کو دیکھ کر گلے پر چھری پھیرنے میں باپ کی محبت آڑے نہ آجائے، قربان ایسی قربانی پراور لاکھوں سلام بیٹے کی سعادت مندی پر، لیکن اللہ کو تو محض باپ بیٹے کا امتحان لینا مقصود تھا لہٰذا حضرت اسماعیلؑ کو دنبے سے بدل دیا گیا اور باپ بیٹا آزمائش پر پورا اترے، لیکن ہم نے ہر عبادت کو کھیل تماشا بنادیا ہے، رمضان رمضان فیسٹول ہوگیا ہے اور بقرعید پر قربان ہونے والا جانور جوکہ اصل میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا قائم مقام ہوتا ہے ہم نے اُس کا نام قطرینہ، کرینہ، ببلو، چھمو رکھ دیا ہے، قربانی کے جانور کو ہمارے بیوپاری بھائی طبلے کی تھاپ پر نچواتے ہیں، حکم ہے کہ صحت مند جانور کی قربانی کرو ہم نے جانور کو منوں اور ٹنوں میں تولنا شروع کردیا ہے، ہمیں بتایا گیا کہ قربانی کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تمہاری نیت دیکھتا ہے لیکن ہمارے میڈیا نے بچوں اور بڑوں کو جانور کے ساتھ سیلفیاں بنانے پرلگا دیا ہے، اللہ کو اپنے بندوں سے شکوہ ہے کہ اُس کے بندے سوچتے کم ہیں لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سوچتے ہی نہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے لیدر انڈسٹری مندی کا شکار ہے، کئی بڑی ٹینڈریز یا تو بند ہوگئی ہیں یا ان کا کام بہت محدود ہوگیا ہے لہٰذا اس کا اثر کھالوں کی قیمت پر بھی پڑا ہے آج سے چھ سال پہلے بکرے کی جو کھال پانچ سو روپیہ میں فروخت ہورہی تھی اب اس کھال کو سو روپے میں لینے والے بھی کم ہیں، لہٰذا کئی مدارس اور مساجد نے اجتماعی قربانی کرنا ختم کردی ہے، جب کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی میں کمی آئی ہے، کھالوں کی قیمت میں کمی کے مسئلے پر کیسے قابو پایا جائے اس پر غور اور اقدامات کرنا رفاہی ادروں کے ذمہ داران کا کام ہے اور وہ کچھ نہ کچھ کر بھی رہے ہوں گے۔
لیکن جن رفاہی اداروں کا مشن فلاحِ دُنیا کے ساتھ فلاحِ آخرت بھی ہو اُن کے لیے تعداد اور قیمت ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اپنی بات اور خیالات سب تک پہنچانا بھی اُن کا بڑا کام ہے لہٰذا چرم قربانی مہم کو عمومی رابطے کا موثر ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، تیس برس بعد یہ پہلا موقعہ ہوگا کہ بات کرنے والا اور بات سُننے والے دونوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا، اس موقع پر اپنے مسلمان بھائیوں تک یہ بات پہچانے کی ضرورت ہے کہ قربانی انبیاء کی سنّت ہے، قربانی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے، قربانی اطاعت، سپردگی اور اللہ کی رضا میں راضی ہوجانے کا عمل ہے، لہٰذا قربانی کے ایک ایک عمل کو ثواب کا ذریعہ سمجھنا اور بنانا چاہیے، قربانی کا گوشت اور کھال دونوں ثواب کا سبب ہوسکتے ہیں اگر ہم اسے اللہ کے لیے اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیں، لوگوں کو یہ بات یاد کرانی چاہیے کہ قربانی کا زیادہ سے زیادہ گوشت بھی مساکین میں تقسیم کریں اور اس قربانی کی کھال کو بھی ثواب کا ذریعہ بنائیں۔
nn