رعونت پہ خاک

378
علی خان
بقر عید کی آمد آمد ہے۔ ٹی وی چینلز کو نیا مشغلہ ہاتھ آگیا۔ ہر گھر سے گائے، بیلوں کے ڈکرانے اور بکروں کے ممیانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ڈکرانے کی آوازوں سے کئی لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید الطاف حسین کا خطاب نشر کرنے پر سے پابندی اٹھ گئی۔ اب یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ مانا کہ وہ ایشیا کا سب سے بڑا غدار اور دہشت گرد ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قربانی کے جانوروں کی توہین کی جائے۔ یہ جانور تو اللہ کی راہ میں قربان ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن ہر جانور کی قربانی تو جائز بھی نہیں۔ جس جانور میں عیب ہو، سینگ ٹوٹا ہوا ہو، لنگڑا، کانا ہو، اس کی قربانی نہیں کی جاتی۔
الطاف حسین یقیناًپاکستان کا غدار ہے لیکن وہ پاکستانی کہاں ہے؟ عرصہ ہوا اس نے اپنی اور اپنی پارٹی کی خدمات برطانیہ، امریکا اور بھارت کے حوالے کر دیں۔ یہ محض الزام نہیں ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر کو، جسے ان کے ہم وطن امریکی صدر کا ’’پوڈل‘‘ کہتے تھے، اس کے نام بھارتی پوڈل کا خط ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں اس نے اپنی اور اپنی پارٹی کی خدمات برطانیہ کے حوالے کرنے اور پارٹی کے ذریعے پاکستان اور افغانستان میں جاسوسی کی پیشکش کی تھی۔ اس کی پاکستان سے غداری تو پہلے دن سے ثابت ہے۔ لیکن اس غداری میں اس کے سب بغل بچے شامل تھے جو اب نئے نئے لبادے اوڑھ کر سامنے آرہے ہیں۔ کوئی پاک سرزمین پارٹی بنا کر بیٹھ گیا اور کوئی ایم کیو ایم میں پاکستان کا لاحقہ لگا کر اپنی ڈفلی پر اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ لیکن یہ سب ایک ہی ’’تھیلے‘‘ بلکہ بوری کے چٹے بٹے اور ’’چٹوّٹے‘‘ ہیں۔
الطاف حسین کے غداروں‘‘ میں ایک جی وار آفاق احمد ہی نکلے جنہوں نے اس وقت بغاوت کا علم بلند کیا جب کوئی الطاف کے سامنے چوں بھی نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے عامر خان کو ملا کر اپنی مہاجر قومی موومنٹ بنائی اور فرق پیدا کرنے کے لیے اس میں حقیقی کا لاحقہ لگا دیا۔ اس حقیقی کے پیچھے بھی ایجنسیوں کی آشیرواد تھی جو سمجھ گئی تھیں کہ الطاف کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ اس جن کی پرورش فوج ہی نے کی تھی۔ جنرل ضیا الحق اور حمید گل مرحوم اس کے خالق تھے جن کو سندھ کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ نے یہ سجھاؤ دیا تھا کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کا زور توڑنے کے لیے الطاف حسین کی سرپرستی کی جائے۔ حمید گل کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو جی ایم سید کی جیے سندھ پارٹی کے مقابلے کے لیے میدان میں اتارا گیا ہے۔ ان کی آنکھیں اس وقت بھی نہیں کھلیں جب الطاف حسین جا کر جی ایم سید کے چرنوں میں بیٹھ گیا اور ان کی سال گرہ کے اس کیک پر چھری چلائی جس پر پاکستان کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ الطاف حسین نے کہا کہ ہم وہ غلطی نہیں دہرائیں گے جو مشرقی پاکستان میں بہاریوں نے کی۔
آفاق اور عامر کو الطاف حسین اپنے شیر کہا کرتا تھا اور جسے دھمکانا ہوتا تھا اسے کہتا تھا کہ اپنے شیروں کے حوالے کر دوں گا۔ اب ان میں سے ایک شیر تو جیل سے نجات حاصل کرنے کے لیے پھر سرکس میں آگیا۔ جسارت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے دہشت گردوں‘ قاتلوں اور بھتا خوروں کو قابو میں رکھنا ڈاکٹر عمران فاروق کے بس کی بات نہیں۔ وہ تو نام نہاد ڈاکٹر عامر لیاقت کو بھی قابو میں نہ رکھ سکے جو اپنی آرزؤں کا خون ہونے پر منہ پھلا کر ایک طرف جا بیٹھے۔ عامر خان کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ہے۔ جن دنوں فاروق ستار بلدیہ کراچی کے میئر تھے‘ تب بھی عامر خان ان کے برابر میں کرسی ڈالے بیٹھے مونچھوں پر تاؤ دیتے رہتے تھے اور معاملات طے ہوجاتے تھے۔ آفاق اور عامر کو جب کراچی کا قبضہ دلایا گیا تھا تو حقیقی کے افراد کو رینجرز کی حفاظت میں لا کر یونٹ اور سیکٹروں کے دفاتر میں بٹھایا گیا تھا۔ الطاف حسین سے عاجز ہونے والوں نے حقیقی سے امید وابستہ کرلی لیکن یہ شیر بھی اسی روش پر چل پڑے جس کی تربیت ان کے ٹرینر نے دی تھی۔
آفاق اور عامر کی کہانی تو پرانی ہوگئی لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ مصطفی کمال اور ان کے تمام ساتھی الطاف حسین کے ساتھ اور اس کے ہر گناہ میں شریک تھے۔ اب اچانک ضمیر جاگ گیا۔ اب مصطفی کمال الطاف کی شراب نوشی کی کہانیاں بھی بیان کرتے ہیں لیکن جب ایم کیو ایم قائم ہوئی تھی تو الطاف اس وقت بھی شراب پیتا تھا۔ پیسوں کی فراوانی نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت اعلیٰ درجے کی شراب دستیاب نہیں تھی۔ ابتداء میں ایم کیو ایم میں شامل ہونے والے تاسیسی ارکان بتاتے تھے کہ نائن زیرو پر فلسفہ محبت سمجھانے کے لیے جب اجتماع ہوتا تھا تو ایک کمرے کی طرف جانے سے روک دیا جاتا تھا جہاں بھائی شغل مے نوشی میں مصروف ہوتا۔ مصطفی کمال ہو یا فاروق ستار‘ ان سب کو ایک ایک بات کا علم تھا لیکن آنکھوں پر مفادات یا خوف کی پٹی باندھ رکھی تھی۔ کسی میں جرأت نہیں تھی کہ الطاف کے کسی قول و فعل سے اختلاف کرتا۔ انہی لوگوں نے ایک دہشت گرد اور غدار کو اپنے سر کا تاج بنا رکھا تھا۔ مصطفی کمال‘ ان کے ساتھی اور فاروق ستار اینڈ کمپنی آج لندن میں ہوتے تو سب کے سب ندیم نصرت اور واسع جلیل ہوتے۔ مصطفی عزیز آبادی وہاں نہ ہوتا تو آج بھی لانڈھی میں درزی کا کام کررہا ہوتا۔ اس نے اپنے نام کے ساتھ عزیز آباد کی نسبت لگا رکھی ہے حالانکہ وہ لانڈھی کا ہے اور لوگ آج بھی اس کی خیاطی کو یاد کرتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ الطاف حسین کے جرائم میں اس کے تمام نئے‘ پرانے ساتھی شامل تھے اور لباس بدلنے کے باوجود اب بھی بہت سے اس کے ساتھ ہوں گے۔ خود فاروق ستار نے کہا کہ ہم بان�ئ جماعت کا احترام کرتے تھے اور کرتے رہیں گے۔ اب جس کا احترام کیا جائے اسے غدار اور قاتل کس منہ سے کہا جائے گا۔
ایم کیو ایم کی بنیاد رکھنے والوں میں رئیس امروہوی ان کے بھائی سید محمد تقی‘ تاج حیدر کے والد اور بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین اور ماسٹر حیدر وغیرہ شامل تھے۔ اس سے کچھ ہی عرصے پہلے کراچی میں بدترین شیعہ سنی فساد ہوا تھا‘ ایم کیو ایم بننے کے بعد ایسا فساد نہیں ہوا اور جو ہوا وہ سنی۔سنی فساد ہوا۔ ایم کیو ایم جو مہاجروں کے تحفظ کا نعرہ لگا کر کامیاب ہوئی تھی‘ اس کے ہاتھوں زیادہ تر مہاجر اور سنی ہی مارے گئے۔
ایسا نہیں ہے کہ ایم کیو ایم میں سب جاہل ہوں‘ بہت پڑھے لکھے اور بظاہر سمجھ دار لوگ بھی ہیں لیکن جب الطاف حسین کروٹن کے پتوں پر نمودار ہورہا تھا اور پتھروں میں جھلک رہا تھا‘ تب بھی اس پیر شجر و حجر کے کرتوتوں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ ایک مسجد کے صحن سے تو وہ ٹائل اکھڑوا لیا جس میں شیطان کے مریدوں کے بقول ان کے پیر کی شبیہ تھی۔ یہ پتھر الطاف کے گھر کے باہر نائن زیرو پر رکھوا دیا گیا۔ کیا اس وقت فاروق ستار‘ عامر خان‘ مصطفی کمال‘ رؤف صدیقی‘ حسنین رضا‘ انیس ایڈووکیٹ وغیرہ الطاف کے ساتھ نہیں تھے اور کیا اس ڈرامے میں یہ سب شریک نہیں تھے۔
یہ وقت کا ستم ہے کہ آج الطاف حسین کے جانشین ڈاکٹر فاروق ستار شور مچا رہے ہیں کہ مہاجروں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے‘ ہمارے کارکنوں کو مارا جارہا ہے‘ ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے تک تو ایم کیو ایم خود ہی یہ سب کچھ کر رہی تھی آج شکایت کیسی؟ کسی کی رات بھر دھلائی کی جاتی ہے تاکہ پرانا میل اتر جائے اور کسی کو صرف دو‘ تین گھنٹوں میں ڈرائی کلین کرکے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ دھلائی کرتے ہوئے رنگ کاٹ سوڈا بھی شامل کیا جارہا ہے اور باہر نکلنے والے اس مصرع کے مصداق ہوتے ہیں ’’تم نے دیکھا ہے کبھی ان کو بدلتے ہوئے رنگ۔‘‘ دھوبی گھاٹ میں رات بھر چڑھانے پر ایک بہت بڑے ریسرچ اسکالر تو بدک ہی گئے اور کہتے پھرے ’’آؤ دیکھو نا تماشا میری رسوائی کا۔‘‘
اور پھر تمام یقین دہانیوں کے باوجود گزشتہ جمعرات کو فاروق ستار اپنے پہلے امتحان میں ناکام ہوگئے۔ پی ایس 127 میں شکت ہوئی۔ فتح اور شکست تو ہوتی رہتی ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی اس پکی نشست پر ایم کیو ایم سے تین مرتبہ شکست کھا چکی ہے۔ لیکن وقت کا بڑا ستم یہ ہے کہ ہارنے کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما دھاندلی کا شور مچا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ ہمارے ووٹروں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا‘ ان کو خوف زدہ کیا گیا اور وہ سب باتیں جو اب تک ایم کیو ایم کے بارے میں کہی جاتی رہی ہیں۔ لیکن اچانک منظر بدل گیا۔ ایم کیو ایم وہ روایتی ہتھکنڈے استعمال نہیں کرسکی جس کے بل بوتے پر وہ جیتتی رہی ہے۔ لیکن پی ایس 127 پر ایم کیو ایم کو جتنے بھی ووٹ ملے‘ کیا وہ فاروق ستار یا ایم کیو ایم پاکستان کو ملے؟ ہرگز نہیں۔ آسیب اب تک چھایا ہوا ہے۔ اسی آسیب کا ٹکڑا مصطفی کمال تو اب بھی مصر ہے کہ فاروق ستار اور الطاف حسین میں رابطے ہیں اور سب کچھ ملی بھگت ہے۔ واسع جلیل بھی لندن سے شور مچا رہا ہے کہ بانی کے بغیر ایم کیو ایم کی کوئی حیثیت نہیں۔ ظاہر ہے شیطان کے بغیر اس کے چیلوں اور ان کی مجلسی شوریٰ کی کیا اہمیت۔
ایک لطیفہ یہ ہوا ہے کہ پی ایس 127 پر کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی کے نوخیز چیئرمین نے اعلان کیا ’’کراچی کس کا‘ بھٹو کا۔‘‘ انہیں نہ تو پاکستان کی سیاست کی الف بے سے واقفیت ہے اور نہ ہی وہ اپنی پارٹی کی صورت حال سے واقف ہیں۔ کراچی کبھی بھی بھٹو کا شہر نہیں رہا۔ یہاں کے عوام ہمیشہ سے بھٹو مخالف رہے ہیں۔ بھٹو نے جب اپنے دور اقتدار میں لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ کے سامنے جلسہ کیا تو لوگوں نے جوتے دکھائے۔ بھٹو بڑے ہوشیار شخص تھے انہوں نے برہم ہونے کے بجائے کہا ’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔‘‘ اب پیپلزپارٹی سے ذہانت بھی رخصت ہوگئی۔ بھٹو کی جگہ بلاول نے لے لی ہے اور خوابوں کے وزیر منظور وسان کے بجائے آغا سراج درانی نے بھی خواب دیکھ لیا۔ کہتے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم بلاول بھٹو ہوگا۔ بھٹو کا اس نام کا کوئی بیٹا نہیں اور جو تھے وہ غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔ ستم یہ ہے کہ زیادہ نشہ استعمال کرنے پر ہلاک ہونے والا شاہنواز بھٹو بھی پی پی کے شہدا میں شامل ہے۔ جہاں تک بلاول زرداری کے وزیراعظم پاکستان بننے کا تعلق ہے تو اس ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے بھی برے وقت آتے رہے ہیں۔ یحییٰ جیسا بد کردار بدمست شرابی ملک کا صدر بن سکتا ہے تو سیاسی نابالغ بلاول بھی وزیراعظم بن سکتا ہے اس کے پیچھے ایک سیاسی جماعت تو ہے اور وہ ایک ذہین سیاست دان خاتون کا بیٹا بھی ہے۔ کہتے ہیں ’’باپ پر پوت پتا پر گھوڑا‘‘ لیکن یہ پوت باپ پر نہ جائے تو اچھا ہے۔
چلتے چلتے فاروق ستار سے ایک سوال۔ پی ایس 127 کے انتخاب کے دوران میں انہوں نے ایک مصرع پڑھا ’’ہم نے رکھے ہی نہیں کچے گھڑے پانی میں‘‘ کیا جو گھڑا پھوٹ گیا وہ کچا گھڑا تھا یا چکنا گھڑا؟
nn

Back to Conversion Tool

حصہ