قربانی کے وقت ہم کیا کریں؟

252

آمنہ خان

ہم خواتین عید قرباں کے حوالے سے جو تصور ذہن میں رکھتی ہیں وہ گوشت اور خون کا پھیلاؤ‘ اس کی صفائی پھر گوشت کا سنبھالنا اور اس کی تقسیم‘ دور دراز کے رشتے داروں کے ہاں بھجوانا اور پھر وہاں سے آنے والے گوشت کا علیحدہ حساب۔ سارا دن اسی میں گزرتا ہے اور شام کو نت نئے پکوانوں کی تیاری کے ساتھ ملنے جانے یا آنے والوں کے ساتھ مبارک سلامت۔۔۔
ہم میں سے اکثر اپنی قربانی کو قربان ہوتے دیکھنے کی روادار نہیں ہوتیں‘ ہماری طرف سے دُعا بھی کوئی اور پڑھتا ہے اور چھری بھی کوئی اور چلاتا ہے۔ خون کا فوراہ اچھل کا گرنا اور بہتے ہوئے خون اور پھڑکتے ہوئے جانور کو دیکھنا ہم کو گوارا ہوتا ہے نہ ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا تھا کہ ’’اٹھو‘ اپنی قربانی کے پاس جاؤ اور اس کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھو‘ اس لیے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی جتنے گناہ تم نے کیے ہوں گے سب بخش دیے جائیں گے اور قربان کی آیت ان الصلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین لا شریک لاہ و بذالک امرت انا اول المسلمین پڑھو۔‘‘
اس پر عمران حصینؓ جو اس حدیث کی راوی ہیں‘ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ کیا یہ ثواب آپؐ کے اور آپؐ کے اہلِ بیت کے لیے مخصوص ہے؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’نہیں بلکہ عام مسلمانوں کے لیے بھی یہی ثواب ہے۔‘‘
قرآن کی یہ آیت قربانی کی دعا میں بھی شامل ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ’’بے شک میں نے اپنا منہ اس اللہ تعالیٰ کی جانب کردیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے دین ابراہیمیؑ پر سب سے منہ موڑ کر (قائم ہوں) اور میں مشرکوں میں سے ہرگز نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز بھی‘ قربانی بھی اور جینا بھی اور مرنا بھی اللہ رب العالمین کے لیے ہے (میں گواہی دیتی ہوں) اس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں تو (سرتاپا) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اے اللہ یہ تیری ہی جانب سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔‘‘ یہ قربانی جو ہماری طرف سے اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہے‘ اس کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جانور کے حلقوم پر چھری پھیرنے کے بعد پہلا قطرہ جب زمین پر گرتا ہے تو تمہارے گناہوں کو مٹاتا چلا جاتا ہے۔ قربانی کو ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر قرآن کی آیت کی تلاوت کرنا ان دونوں باتوں میں حکمت پوشیدہ ہے۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ مسلمان خواتین کے دل سے خوف اور دہشت کو ختم کیا جائے‘ وہ بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر بدحواس نہ ہوں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جانور‘ جس کو ذبح کیا جا رہا ہے‘ اُس میں اللہ کا کتنا کرم اور احسان ہے کہ ایک طرف تو ہمیں اللہ نے اس بات سے بچایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آزمائش میں نہیں ڈالا اور دوسری طرف جانور کے بہتے ہوئے خون کے گرتے ہی جسم کو گناہوں سے پاک ہونے کی خوش خبری دے دی۔ قربانی کی دُعا میں اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ میں نے اپنا منہ اللہ رب العزت کی طرف پھیر لیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز قربانی‘ جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے ہے اور میں اللہ کے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں۔
ضروری ہے کہ ان الفاظ کو دہرانے کے ساتھ ان پر غور بھی کیا جائے۔ اللہ کے خوف کے ساتھ دیگر خوف (جن میں خاندان‘ معاشرہ‘ رسم و رواج اور لوگوں کا خوف) شامل ہے‘ ان کی حقیقت پر غور کریں۔ وہ سارے کام جو ہم اللہ کو چھوڑ کر لوگوں کے خوف سے کرتے ہیں‘ اُن سے بچنے کا عہد کریں ساتھ ہی اپنے نفس کا جائزہ لیں کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کی آڑ میں دراصل اپنے نفس‘ اپنی خواہشات پر عمل کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا اب جب کہ ہم نے قربانی کے ذریعے اپنے اعمال نامے کو صاف کروالیا ہے ( ان شاء اللہ) آئندہ اسے سیاہ کرنے سے باز رہنے کی حتیٰ الامکان مقدرو بھر کوشش کریں کہ خدا کو یہ کوشش ہی درکار ہے۔

حصہ