بیابٹ
پٹھانی کا ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ابا کھیتوں میں کام کرنے جاتے تبھی ان کو پورے گھر میں اپنی مرضی سے پھرنے کا موقع ملتا تھا۔ رانی جو سب سے بڑی تھی اس کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے والے ہوتے تھے۔ رانی نخریلی تھی، گھر میں کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتی تھی۔ منجھلی والی کا نام تھا پٹھانی۔ اسے ہمیشہ اپنے نام سے شکایت رہی۔ ابا کو پتا نہیں کہاں سے اس کا نام پٹھانی رکھنے کی سوجھی تھی! اور سب سے چھوٹی کا نام اللہ معافی تھا مگر سب اسے پیار سے گڑیا کہتے تھے۔ چھوٹی، ماں کی لاڈلی تھی۔ تینوں بہنوں کی آپس میں کم ہی بنتی تھی۔ جیسے ابا کو ان سے چڑ تھی ویسے ہی ان کو آپس میں مل بیٹھنے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ پٹھانی کو کپڑے سلائی کرنے کے لیے سامنے والے گھر تک چھوڑنے کی ذمہ داری اماں نے چھوٹی کو دے دی تھی۔ پٹھانی کے سلائی پہ جانے کا وقت ہوتا تو چھوٹی اپنے حصے کے سارے کام اس سے کروا کے پھر چھوڑنے جاتی تھی۔ سارا دن اس کے سر پہ سوار رہتی تھی کہ کہیں کسی ساتھ والی لڑکی سے دعا سلام تو نہیں کررہی! بھولے سے پٹھانی اگر کبھی کسی لڑکی سے بات کرلیتی تو فوراً ماں سے شکایت لگا دیتی تھی، اور ماں کا ہمیشہ سے رٹا ہوا نصیحتوں کا سبق شروع ہوجاتا تھا: ’’خبردار جو کسی سے دعا سلام بڑھائی، یہ بڑی تیز ہوتی ہیں، کُڑیاں خراب کردیتی ہیں شریف کُڑیوں کو‘‘۔ اور وہ چپ چاپ کسی سے دوستی کی حسرت لیے گھر واپس آجاتی تھی اور گھر آ کر وہی گھٹن کا احساس، ابا کی ڈانٹ، بلاوجہ کی روک ٹوک۔۔۔ جیسے سانس بھی ابا سے پوچھ کر لینا ہوگی۔ ایسا لگتا تھا وہ کسی دن بلاوجہ ہی ابا کے ہاتھوں ماری جائے گی اور ابا اسے کھیتوں میں ہی کہیں دبا آئیں گے۔
پٹھانی کو چوڑیاں بہت پسند تھیں اور ابا کو لڑکیوں کی سج دھج سے نفرت تھی۔ اماں سے پوچھتی تو ایک ہی جواب ملتا تھا ’’اگلے گھر جا کر شوق پورے کرلینا۔ تیرے ابا کو پتا بھی چلا تو زندہ دفن کردے گا‘‘۔ یہ سن کر وہ خوفزدہ سی خاموش ہوجاتی۔ بھائی بھی سارا دن ابا کے ساتھ کام کروانے جاتا۔ کبھی کبھار سب مل کر بیٹھتے تو دل کے پھپھولے پھوڑتی رہتی۔ چھوٹی کے چھیڑنے پر وہ کہتی ’’میرا میاں بہت عیش کروائے گا مجھے۔ رج کے سوہنے جوڑے دلائے گا اور چنگا سا فون بھی لاکردے گا۔‘‘
لاہور والی خالہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے پٹھانی کا رشتہ لینے آئی ہوئی تھیں۔ خالہ اپنے گھر میں بہت ہی سکھی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا، دس جماعت پاس جو ورکشاپ پہ کام کرتا تھا۔ ابا نے خالہ کو انکار نہیں کیا اور پٹھانی کو سادگی سے دو جوڑوں میں رخصت کردیا۔ رانی اور گڑیا اس کی قسمت پر رشک کررہی تھیں۔ اشرف، پٹھانی کا بہت خیال رکھتا۔ اسے گھمانے لے جاتا۔ وہ ڈری ڈری سی اس کے ساتھ چلتی رہتی تھی۔ وہ حیرت سے لوگوں کو دیکھتی رہتی۔ اتنے خوبصورت کپڑے، چیزیں۔۔۔ وہ تو بس دیکھ دیکھ کر خوش ہوجاتی تھی۔ اشرف نے اسے چوڑیاں دلائی تھیں۔ گہرے سبز رنگ کی چوڑیاں۔ وہ بہت خوش تھی۔ گھر جاکر بس چوڑیوں سے کھیلتی رہی تھی۔
خالہ بھی خوش تھیں اور وہ بھی۔ زندگی سکھ چین سے بسر ہورہی تھی۔ خالہ کی جٹھانی کی بیٹی ان کے ہاں پہلی بار رہنے آئی تھی۔ وہ بہت ہی فیشن ایبل تھی۔ تنگ فٹنگ والا سوٹ، بال کندھوں تک کٹے ہوئے تھے۔ پٹھانی اس سے بہت متاثر ہوئی اور اس دوستی کرلی۔ اشرف بھی پٹھانی اور اپنی کزن شمائلہ کو گھمانے لے کر جاتا۔ وہ دونوں ہنستے، باتیں کرتے رہتے تھے اور پٹھانی آس پاس کی رونقوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہتی تھی۔ شمائلہ کو شاپنگ کرنے جانا تھا۔ اشرف اسے ساتھ لے کر جانے لگا تو پٹھانی بولی ’’میں بھی چلوں ساتھ؟‘‘ اشرف نے کہا ’’نہیں، تم اماں کے ساتھ رہو ان کی طبیعت ٹھیک نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ شمائلہ کو لے کر چلا گیا۔
شاپنگ کرکے وہ دونوں بہت رات گئے لوٹے تھے۔ شمائلہ اسے اپنے کپڑے دکھانے لگی تھی۔ ’’یہ رنگ کتنا ہلکا ہے‘‘ پٹھانی نے آسمانی رنگ کے سوٹ کو پکڑ کر کہا۔ شمائلہ کا پارہ ہائی ہوگیا ’’تجھے کیا پتا فیشن کا! کردی ناں وہی جاہلوں والی بات‘‘۔ وہ غصے میں کہتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اشرف بھی غصے میں اسے ڈانٹنے لگا ’’تجھے بات کرنی نہیں آتی تو اپنا منہ بند ہی رکھا کر، تجھے کیا پتا فیشن کا!‘‘ پٹھانی کی آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی جمع ہونے لگا تھا۔ اس سے پہلے کہ اشرف اس کی اور تذلیل کرتا وہ کچن میں اپنے دل کا غبار ہلکا کرنے چلی گئی تھی۔
چھن کی آواز آئی تھی، اس کے ہاتھ سے شمائلہ کا مہنگا پرفیوم چھوٹ گیا تھا۔ فرش پر کانچ کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھرگئے تھے۔ وہ گھبراہٹ میں جلدی جلدی کانچ اٹھانے لگی، اس کے ہاتھ میں بھی کانچ کا ٹکڑا چبھا تھا۔ آہ! ہلکی سی چیخ اس کے ہونٹوں سے نکلی تھی۔ تبھی شمائلہ اپنے کمرے میں آئی اور اپنے مہنگے پرفیوم کا یہ حشر دیکھ کر اس کا دماغ خراب ہونے میں ایک سیکنڈ بھی نہ لگا۔ چٹاخ کی آواز کمرے میں گونجی تھی اور پٹھانی کے گال پہ ہاتھ کا نشان چھوڑ گئی تھی۔ ’’جاہل عورت تجھے کیا پتا کتنا مہنگا پرفیوم تھا اور تم نے ایک سیکنڈ میں توڑ ڈالا۔ جاہل لوگ پاگل ہوجاتے ہیں نئی چیزیں دیکھ کر۔ چل نکل جا، اب شکل گم کر اپنی، میرا دماغ مزید خراب نہ کر۔‘‘
اس کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ، وہ اپنے آنسوؤں پر کنٹرول نہ رکھ سکی اور روتی ہوئی باہر کو بھاگی۔ رات اشرف کو بھی شمائلہ سے اس کے کارنامے کا پتا لگ چکا تھا۔ وہ غصے میں کمرے میں داخل ہوا ’’تجھے کتنی بار سمجھایا ہے شمائلہ کی چیزوں کو ہاتھ نہ لگایا کر‘‘۔ اشرف نے اس کی کلائی مروڑی تھی، کانچ کی سبز چوڑیاں اس کے بازو میں چبھ گئی تھیں۔ اس کے ہونٹوں سے ہلکی سی آہ نکلی تھی۔ مگر اشرف کو تو بس شمائلہ کے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔ ’’اب اگر کچھ غلط کیا تو چھوڑ آؤں گا تجھے اسی پنڈ میں، جہاں کی پیداوار ہے تُو، سمجھی‘‘۔ وہ ایک جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑ کر باہر نکل گیا۔ پٹھانی رو رہی تھی اپنی قسمت کو بھی اور اپنے باپ کو بھی۔ بازو میں سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کو دیکھا، اور انہیں ہاتھ میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی قسمت ان ٹوٹی چوڑیوں کی طرح تھی جو شاید کسی کام کی نہیں ہوتیں۔
اشرف کو ہفتہ ہوگیا تھا اسے ابا کے گھر چھوڑ کر گئے ہوئے۔ وہ کہہ کر گیا تھا کہ جلدی لے جاؤں گا، مگر بات مہینے تک چلی گئی تھی۔ اس کے دل میں بہت برے برے خدشات سر اٹھا رہے تھے۔ وہ پریشان تھی۔ نجانے قسمت کیا کھیل، کھیل رہی تھی! ابا اسے فون پکڑا کر گیا تھا، اشرف کا فون تھا۔ اس نے حال چال پوچھا۔ اکتایا سا لہجہ تھا اشرف کا۔ کہنے لگا ’’میں نے سوچا بتا دوں تجھے، میں نے شمائلہ سے شادی کرلی ہے‘‘۔ اس کے سر پر کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ ’’اور ہاں تُو اگر ساتھ رہنا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے اماں سے پہلے بھی کہا تھا مجھے تو پڑھی لکھی لڑکی چاہیے، مگر اماں کو بھی تُو ہی پینڈو ملی تھی‘‘۔ وہ بول رہا تھا مگر اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ وہ چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی تھی۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ چپ سی ہوگئی۔ سارا دن کسی سے بات نہ کی۔ شام کے وقت نجانے کیا دورہ پڑا، وہ چیخنے لگی اور اپنی چوڑیاں توڑ توڑ کر پھینکنے لگی۔ اس کی چیخیں اس کے اندر کے کرب کو باہر نکال رہی تھیں، ساتھ ساتھ وہ یہی کہہ رہی تھی ’’کرلیے شوق پورے میں نے، نہیں پہنوں گی کبھی چوڑیاں۔‘‘