غلبۂ دین کی جدوجہد

’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ [الصف:9]
اس آیت میں اوپر والے مضمون کو دوسرے الفاظ میں مزید زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دو اور مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے، ایک سورۂ فتح میں اور دوسرے سورۂ توبہ میں۔ فرمایا یہ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے، ایک ہدایت اور دوسرے دینِ حق۔ درحقیقت یہ دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے، ایک ہی چیز کے دو مراحل (phase) ہیں۔
دینِ حق سے مراد وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانی زندگی کے لیے دیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ حلال و حرام کیا ہے، کس چیز میں انسان کی بھلائی ہے اور کس چیز میں خرابی ہے۔ اور کیا چیزیں ہیں جو انسان کی ہلاکت اور تباہی و بربادی کی موجب ہوتی ہیں اور کیا چیزیں فلاح کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے فرائض کیا ہیں، ان کو کس طرح انجام دینا چاہیے۔ اس طرح زندگی کے مختلف دائروں میں قوانین اور احکام دیے گئے ہیں، خواہ وہ انسان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہوں یا خاندانی اور قومی زندگی کے متعلق ہوں، وہ سب کے سب خدا کا دین ہیں۔ معاشرہ، معیشت، قانونِ جنگ، سیاست، غرض زندگی کے ہر شعبے کے متعلق جو ضابطے اور اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ سب دین ہیں۔ ایک ایسا دین جو سراسر حق کے مطابق ہے۔
دوسری چیز ہدایت ہے، یعنی ان احکام و فرامین پر عمل درآمد کے طریقوں کی طرف رہنمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ رہنمائی دے کر بھیجا کہ وہ دینِ حق کو غالب کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے۔ یہ بتایا کہ اس دین کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتائیں تاکہ وہ اس کے مطابق کام کرے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ دو چیزیں دے کر اپنے رسول کو بھیجا تاکہ وہ دنیا کو سیدھے راستے پر چلائے اور دینِ حق کو پورے دین پر غالب کردے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا جس طریقے پر چل رہی ہے، ان کے مجموعے کا نام دین ہے۔ پورے کے پورے دین سے مراد یہ ہے کہ جس جس شکل میں کوئی اپنی زندگی گزار رہا ہے، وہ اس کا دین ہے۔ اگر کوئی یہودیت پر چل رہا ہے تو یہودیت اس کا دین ہے، اگر کوئی نصرانیت پر چل رہا ہے تو نصرانیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی دہریت پر چل رہا ہے تو دہریت اس کا دین ہے۔ اگر کسی نے اپنے ہاں سیکولر نظام قائم کیا ہے تو وہ نظام اس کا دین ہے۔ اور اگر کسی نے کسی طرح کا مذہبی نظام قائم کیا ہے تو وہ مذہبی نظام اس کا دین ہے۔ یہ سارے کے سارے دین جو دنیا میں چل رہے ہیں ان سب کے لیے الدین کلہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
رسول کے آنے کا جو منشا اور جس غرض کے لیے اللہ نے رسول کو اپنا دین دے کر اور اس کے ساتھ اپنی ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے دین چل رہے ہیں، وہ ان سب کے اوپر اللہ کے دین کو غالب کردے۔
یہ بات واضح رہے کہ دنیا میں کوئی بھی رسول کبھی اس لیے نہیں آیا ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں اور خدا کے رسول کا لایا ہوا دین ان کے تابع بن کر رہے۔ اگر کوئی احمق یہ سمجھتا ہے کہ رسول بھی اس کام کے لیے آتا ہے کہ دنیا میں کفر اور کفار کا غلبہ رہے اور اسلام ان کے تابع بن کر رہے اور وہ بھی وہی طریقے اختیار کرے جو دنیا کے طریقے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرے سے ہی نہیں جانتا کہ خدا کیا ہے، اس کا دین کیا ہے، اور اس کا رسول کیا ہے۔ خدا اس ساری کائنات کا مالک ہے تو اُسی کے دین کو یہاں غالب ہوکر رہنا چاہیے۔ دنیا کے کسی اور دین کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ رب کائنات کی اس سلطنت کے اندر جاری اور قائم رہے۔
اللہ جب اپنے رسول کو بھیجتا ہے تو وہ اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے دین کو غالب کرے گا، نہ کہ اس لیے کہ دوسرے دین غالب ہوں اور اللہ کا دین مغلوب بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات اور سلطنت کے اس حصے کا، جس کا نام زمین ہے، تنہا مالک ہے، اور مالک اپنے رسول کو اس لیے نہیں بھیجے گا کہ وہ دوسروں کی مرضی کے مطابق چلے اور جو لوگ خدا کی زمین پر مالک بن بیٹھے ہیں وہ جا کر اُن کا ماتحت بن جائے۔ نہیں، بلکہ وہ اللہ کا نمائندہ بن کر آئے گا اور ان کو اس بات کی دعوت دے گا کہ وہ اللہ کے مطیع بن کر رہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق دنیا میں کام کریں۔ اس کو ہدایت ہی اس غرض کے لیے دی گئی ہے کہ وہ دنیا سے یہ کہے کہ جن طریقوں پر تم چل رہے ہو، وہ غلط ہیں اور جو ہدایات میں اپنے رب کی طرف سے تمہیں دے رہا ہوں، وہ صحیح ہیں اور انھی کی پابندی کرنا تمہارا فرض ہے۔
قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی نبی کسی قوم میں مبعوث ہوکر آیا تو اس نے لوگوں سے خطاب کرکے کہا:
’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ [الشعرا:108]
کوئی نبی کبھی یہ بات لے کر نہیں آیا کہ تم حکومت کرو اور میں تمہاری اطاعت کروں گا۔ نہیں، بلکہ اس نے یہی کہا کہ میں خدا کی طرف سے اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں، اس لیے تم میری اطاعت کرو۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس غرض سے بھیجا کہ وہ اس دین کو پورے کے پورے دین پر غالب کردے۔
’’خواہ یہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ [الصف: 9]
ظاہر بات ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے ساتھ کسی دوسرے دین کو ملائے بیٹھے ہوں گے اور خدا کے احکام چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی اطاعت کررہے ہوں گے، ان کو یہ بات سخت ناگوار ہوگی کہ باقی سب کی اطاعت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی اطاعت کی جائے۔ لیکن قرآن واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ بات ان کو ناگوار ہو تو ہوا کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ ہے کہ ان کی تمام ناگواری کے باوجود اور ان کی ساری مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کردے۔
[سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا درس قرآن۔۔۔ تدوین: حفیظ الرحمن احسن]