وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب

وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے ان دنوں نیویارک میں ہیں۔ وہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے والے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اس مقدمے کی تیاری کتنی ہے اور وزارتِ خارجہ نے کس قدر محنت سے یہ مقدمہ تیار کیا ہے۔ اس پر ضرور بحث ہونی چاہیے کہ وزارت خارجہ کے بابو پاکستان کو عالمی تنہائی سے کس قدر باہر نکال سکے ہیں، او آئی سی اور سارک کے علاوہ کتنے عالمی فورم ہیں جہاں سے پاکستان کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں؟ یہ بات کہی جاتی ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اور کسی دوسرے ملک میں عدم جارحیت، اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت ہماری سفارت کاری کا بنیادی ستون ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟ باقی ادوار تو چھوڑ دیں صرف پرویزمشرف دور کا ہی جائزہ لیں، اس دور کے بدترین فیصلے خود بول رہے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی نے ملک کی اساس کو کتنا نقصان پہنچایا۔ رہی اڑسٹھ سالوں کی تاریخ، تو وہ یہ بتاتی ہے کہ معاہدۂ تاشقند اور سقوطِ ڈھاکاکے بعد شملہ معاہدے نے کشمیر کے بارے میں ہمارے ہاتھ باندھ دیئے ہیں۔ ہم کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کے مؤقف پر تو قائم ہیں لیکن عملی جدوجہد کے بجائے کسی معجزے کے انتظار میں ہیں کہ کب رائے شماری کا پھل ہماری جھولی میں آکر گرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر میں رائے شماری کے حق میں قراردادیں اگرچہ اس عالمی ادارے کے ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی جنرل اسمبلی سے اپنے آخری خطاب میں سوڈان، فلسطین جیسے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے مگر کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے انہیں گزشتہ ہفتے ایک خط لکھا تھا اور کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن بان کی مون وزیراعظم نوازشریف کی اپیل نظرانداز کرگئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے اپنے خطاب میں کشمیر پر خاموشی پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے جس کے لیے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی سے استعفیٰ لینا چاہیے اور سیکرٹری خارجہ اعزاز الدین کو پارلیمنٹ کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے، اور وزیراعظم نوازشریف اپنے بارے میں خود فیصلہ کریں کہ آیا وہ سربراہِ حکومت کی حیثیت سے کتنے کامیاب ہیں اور کتنے ناکام؟
یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت کے دور میں ہماری وزارتِ خارجہ نے کبھی مسئلہ کشمیر کو ایک سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھا، اس حوالے سے مختصر جائزہ یہ ہے کہ ماضئ قریب میں جو پاک بھارت مذاکرات شروع ہوئے تو یہ بات طے پاگئی کہ دو طرفہ بات چیت کے عمل کی کامیابی کے لیے تیسرے فریق کے پاس جانے سے گریز کیا جائے گا۔ نوازشریف کے دوسرے دور میں جب پاک بھارت مذاکرات ہوئے تو یہ بات طے کرلی گئی تھی کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کی بات نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد نائن الیون ہوا تو حالات یکسر بدل گئے۔ اس دوران پاکستان روایتی طور پر اقوام متحدہ میں کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ تو کرتا رہا لیکن قرارداد پر عمل درآمد کے حق میں کوئی تحریک پیش نہیں کی۔ اب جب کہ نائن الیون کو گزرے ایک عرصہ ہوچکا ہے اور افغانستان میں امریکہ کے مفادات بھی بدل رہے ہیں تو ایک بار پھر اس خطہ میں پاک بھارت کشیدگی بڑھ رہی ہے، بلکہ بھارت لائن آف کنٹرول پر محدود جنگ کی صورت حال پیدا کیے ہوئے ہے۔ آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر بھارت کی غیر معمولی فوجی تیاریوں اور مورچوں کی تعمیر نے باقاعدہ جنگ کا ماحول بنادیا ہے، حتیٰ کہ بھارت نے اپنی جارحیت کو چھپانے کے لیے یا اس کا جواز قانونی بنانے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کی ہے اور وہ اب عالمی برادری کو یہ باور کرانے جارہا ہے کہ اسے اپنے دفاع کا حق ہے، جس کے لیے پاکستان کو گھیرنے کے لیے بھارت نے نئی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے مطابق فوج کے کیمپوں کی حفاظت اب پیرا کمانڈوز کریں گے۔ بھارتی بحریہ کے لیے یہ کام مارکوس کمانڈوز کرتے ہیں۔ بھارتی فوج کی گھاتک بٹالین کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جائے گا، ایل او سی پر زیادہ سے زیادہ کمانڈوز تعینات کیے جائیں گے، بھارتی فوج ایل او سی پر ڈرون استعمال کرے گی۔ پاکستان کو دباؤ میں لانے اور جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نوازشریف کے خطاب سے قبل ہی فضا خراب کرنے کی خاطر اوڑی حملے کا ڈراما کھیلا گیا ہے۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید حالات میں بہتری کی امید پیدا ہوسکتی تھی لیکن بھارت میں یہ ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں بھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد اپنی خودساختہ طاقت کے گمان میں مبتلا بھارتی فوج نے مودی سرکار کو پاکستان کی حدود میں محدود پیمانے پر حملوں کا مشورہ دے دیا ہے، لیکن ہماری وزارتِ خارجہ نے بھارت کے مقابلے میں سفارتی محاذ کا کوئی در بھی نہیں کھولا اور نہ او آئی سی کے دروازے پر دستک دی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اب بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوتوں پر مبنی دستاویزات امریکہ کے سپرد کی گئی ہیں، بھارتی ایجنٹ کل بھوشن سنگھ یادیو کا اعترافی بیان بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان، فاٹا اورکراچی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مداخلت کے ٹھوس شواہد بھی امریکہ کو دیئے گئے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئراقوام متحدہ کو بھی پیش کیے جائیں گے، مسئلہ کشمیر سمیت ’’را‘‘ کی پاکستان میں مداخلت کا معاملہ وزیراعظم کی تقریر میں سرفہرست ہوگا۔ وزارتِ خارجہ کے حکام کہتے ہیں کہ ثبوت ہم نے فراہم کردیئے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ امریکہ بھارت کے لیے اپنے دروازے بند کردے گا۔ امریکیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے بھارت کو مجبور کریں کہ وہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور دیگر ظالمانہ قوانین ختم کرے۔ بھارت چاروں جنیوا کنونشنز کے آرٹیکل 3 خصوصاً تسلیم شدہ بین الاقوامی انسانی قانون، اصولوں کے تناسب، احتیاط اور تفریق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ بھارت نے اس کا جواب یہ دیا کہ وہ کابل کے ساتھ معاہدے کررہا ہے اور ایران سے تیل خرید رہا ہے۔ اس طرح وہ کابل کے بعد تہران کو بھی پاکستان سے دور کرنا چاہتا ہے اور ہماری وزارتِ خارجہ بے بس ہے۔ ہم صرف یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی تیسری طاقت کے دباؤ میں لاکر بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ لیکن ردعمل میں یہ ہوا کہ وزیراعظم پاکستان کے خطاب سے قبل ہی امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے حلیف بھارت کو مطمئن کیا کہ ’’مسئلہ کشمیر پر اس کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پاکستان اور بھارت مل کر اس کا حل نکالیں‘‘۔ وزیراعظم نوازشریف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی دوڑ سے باز رہا جائے، پاکستان اور بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائیں، امن واستحکام پاکستان اور افغانستان کے باہمی مفاد میں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے خطاب سے پہلے اس مؤقف کا اظہار وزارتِ خارجہ کی صریحاً ناکامی کے سوا اور کیا ہے! وزارتِ خارجہ کی یہ کمزور پالیسی اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان کے سفارتی بابو ’’مذاکرات کے ماحول اور امید‘‘ کی راہ کھوٹی نہیں کرنا چاہتے۔ دوسری جانب بھارت جارحیت اور دباؤ بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ بھارتی فوج اڑی حملے کے بعد لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ کرتی چلی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب اوڑی میں انڈین آرمی پر حملے کے بعد آزاد کشمیر میں سیکورٹی سخت کردی گئی اور مقامی لوگوں میں سراسیمگی کا عالم ہے۔ چکوٹھی سیکٹر میں ایل او سی کے قریبی علاقوں میں احتیاطاً مقامی اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے جبکہ فوج نے مقامی لوگوں کو کشیدگی کے پیشِ نظر ہوشیار رہنے کو کہا ہے۔ ایل او سی سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چکوٹھی بازار میں خطرے کے علامتی سرخ جھنڈے لہرا دیے گئے ہیں، اور ایسے ہی جھنڈے ایل او سی کے دوسری جانب بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ چکوٹھی بازار کے سرے پر واقع گیٹ پر سیکورٹی چیکنگ بڑھا دی گئی ہے۔ چکوٹھی سے آگے جانے والی نجی گاڑیوں کو بھی لائن آف کنٹرول کے سامنے کے دیہات میں جانے سے فی الوقت منع کردیا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل نے جب وزارتِ خارجہ میں جنوبی ایشیا ڈیسک کے ذمہ داروں سے استفسار کیا تو جواب ملا کہ ’’ہم دہلی میں ہونے والے اجلاس کی تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں، جس میں وزیر مملکت برائے خارجہ مور وی کے سنگھ، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر دفاع منوہر پاریکر اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی شریک ہوئے، اور اجلاس کے بعد وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں بھی صورت حال زیر بحث آئی‘‘۔ انڈین میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وزیر داخلہ کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سمیت دفاع، فوج، اور نیم فوجی فورسز کے اعلیٰ افسران شامل تھے جنھوں نے راج ناتھ کو سیکورٹی کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ اوڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز پر حملے کو بنیاد بناکر بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے امریکہ اور روس کا دورہ منسوخ کرکے اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے اور بھارت کے سابق فوجی افسروں نے اپنی
(باقی صفحہ 48 پر)
حکومت کو پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کا مشورہ بھی دیا۔ وزارتِ خارجہ نے تو اس سوال کے جواب میں اپنے لب سی رکھے ہیں لیکن وزیر دفاع خواجہ محمدآصف نے خوب جواب دیا ہے کہ ’’اوڑی حملے سے متعلق بھارتی الزامات آزادئ کشمیر کی تحریک دبانے کی ناکام کوشش ہے، بھارت کی جانب سے اگر کوئی مکروہ کوشش ہوئی تو ہم بھارت کو جواب دینے کے لیے 100 فیصد تیار ہیں‘‘۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے دوٹوک جواب دے کر قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے لیکن اس معاملے میں وزارتِ خارجہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اگر ماضئ قریب میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کا یہ رویہ رہا ہے کہ وہ ایسی ڈرامے بازیاں کرتا چلا آیا ہے۔ 2007ء میں بھی بھارت نے ممبئی حملوں کا ڈراما رچاکر اُس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے مذاکرات منسوخ کردیئے تھے، حالانکہ شاہ محمود قریشی اس وقت مذاکرات کے لیے اسلام آباد سے دہلی پہنچ چکے تھے۔ بھارت کی غیر اخلاقی سفارت کاری کے باعث شاہ محمود قریشی کو مذاکرات ادھورے چھوڑ کر پاکستان واپس آنا پڑا تھا۔ اب وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پوری شد و مد سے اٹھانے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ وہ دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی سفاکی کو بے نقاب کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں، کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو اجاگر کرنے کا ارادہ باندھے ہوئے ہیں۔ مودی سرکار کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے، اسی لیے نریندر مودی نے خود وہاں نہ جانے میں عافیت سمجھی ہے، لیکن لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور محدود فوجی جھڑپوں کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ بھارت کے مکروہ عزائم کا جواب دینے کے لیے وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد کے بجائے مظفرآباد میں کشمیری قیادت سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کشمیری قیادت سے ملاقات سے قبل وزیراعظم محمد نوازشریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں اقوام متحدہ میں وزیراعظم کے خطاب کی حکمت عملی مرتب ہوئی۔ مظفرآباد میں وزیراعظم نوازشریف نے حریت رہنماؤں اور آزاد کشمیر حکومت کی کابینہ سے تو ملاقات کی لیکن اپوزیشن رہنماؤں کو نظرانداز کردیا جس کی بظاہرکوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس ملاقات میں غلام محمد صفی نے حریت کانفرنس کی نمائندگی کرتے ہوئے تجویز دی کہ ’’پاکستان اقوام متحدہ میں کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دلانے کے لیے کشمیر کے دونوں اطراف سے افواج نکانے کا مطالبہ کرے‘‘۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران یہ تجویز من و عن اقوام عالم کے سامنے رکھی۔ جنرل اسمبلی سے وزیراعظم نوازشریف کا خطاب بھارت کے لیے تیغ فساں ثابت ہوا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بین الاقوامی توجہ کی مستحق ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو دو خط لکھ کر بھی ان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے عناصر خمسہ کو متحرک ہونے اور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کی کھلی دعوت دی ہے اور بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ یہ مؤقف ایسے وقت میں سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی مقبوضہ وادی میں ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری وزارتِ خارجہ کے بابو امریکہ کو نہ جانے کیوں قائل نہیں کرسکے۔ان دنوں بھارت نے پارلیمنٹ میں ایسے قانون کے لیے بل پیش کیا ہے جس کے تحت کشمیر کو متنازع قرار دینے والا بھی سزا کا مستحق ہو گا۔ گویا یہ حریت پسندوں کے خلاف ظلم و جبر کا ایک اور ہتھیار ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ ہمیں کم از کم یہ تو بتائے کہ مقبوضہ وادی میں لاگو ٹاڈا اور پوٹا قوانین کے بارے میں بھی عالمی برادری کی خاموشی میں کیا چیز پنہاں ہے؟