اقوام متحدہ میں وزیراعظم کا خظاب میاں منیر احمد

الشیخ علامہ یوسف القرضاوی کی عمر اس وقت 90 سال ہے، مگر اُن کا قلم ماشاء اللہ رواں دواں ہے۔ نئی سے نئی اور اہم سے اہم تحریر کے ذریعے وہ اسلامی و عربی ذخیرۂ کتب میں وقیع اضافہ کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اُن کی جو آخری کتاب شائع ہوئی ہے وہ نظرات فی فکر الامام المودودی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (25ستمبر 1903ء۔ 22ستمبر 1979ء) کے بارے میں اپنی آرا کا خلاصہ دیا ہے۔ مولانا کی وفات کو 37 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور صاحبِ مطالعہ کسی مسلمان کو، جیسا کہ استاذ امام یوسف القرضاوی کہتے ہیں، مولانا مودودیؒ کی وسیع نظر اور امامت و عبقریت پر شک نہیں۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے کم و بیش تمام اسلامی مسائل پر قلم اُٹھایا۔ قرآنِ مجید کی مکمل تفسیر لکھی۔ ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کا مطالعہ پیش کیا جس میں قرآن کے نام نہاد دعوے داروں کے نظریات کا ردّ کیا اور کہا کہ یہ لوگ اُس حدیثِ رسولؐ کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے جس کو ایک بہت بڑی تعداد نے روایت کیا اور اس کی خدمت کے لیے 30 علومِ حدیث قائم کیے۔ یوں اس مقصد کی خدمت کے لیے ان علوم کی ایک ضخیم لائبریری وجود میں نہیں آئی جس سے علما کی ایک بڑی تعداد استفادہ کرتی رہتی۔ استاذ سیّد مودودیؒ نے زندگی کے تمام پہلوؤں پر اُمتِ مسلمہ کے اہم ترین مسائل پر فکری رہنمائی فراہم کی۔ فرد، خاندان، معاشرہ، اُمت اور ریاست کی زندگی اور عالمی تعلقات کے موضوعات مختلف ہونے کے باوجود ہر ایک موضوع پر لکھا۔ انھوں نے عقائد، عبادات، اَخلاق، قانون، معیشت، سیاست، تاریخ اور زندگی کے تمام اُمور پر تحریری سرمایہ چھوڑا۔ رسالتِ محمدیؐ، ثقافتِ اسلامی اور شریعتِ اسلامی کے تمام مخالفین پر نقد کیا۔ سیّد مودودی کے افکار دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اُمتِ مسلمہ کے اندر پڑھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب نظرات فی فکر الامام المودودی تین مباحث پر مشتمل ہے: 1۔ سیّد مودودی بحیثیت مفکر، 2۔سیّد مودودی بحیثیت مصلح اور داعیِ انقلاب، 3۔سیّدمودودی کے نقاد اور اُن کی اقسام۔
l بحیثیت مفکر: اس مبحث میں مصنف کہتے ہیں: زبان و بیان پر قادر اور افکار و خیالات کی بہترین تعبیر پیش کرنے والا شخص لازمی نہیں کہ مفکرین کی صف میں کھڑا ہو۔ مفکر وہ شخص ہوتا ہے جس کو گہرے غور و فکر کی صلاحیت ودیعت ہوئی ہو، اُس کا مخصوص وژن اور آزاد رائے ہو۔ اسی لیے تو مفکرین کی کئی اقسام ہیں۔ کوئی علاقائی مفکر ہوتا ہے اور کوئی قومی مفکر، کوئی عالمی انسانی مفکر ہوتا ہے اور کوئی آزاد مفکر، جو موروثی روایات اور متداول افکار کا اسیر نہیں ہوتا۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی بے مثال اسلامی مفکر تھے۔ اُن جیسی شخصیت قوموں کے اندر کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ مصنف نے سیّد مودودی کے افکار کی وقعت و اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے اُس دور کی فکری تحریک اور علمی رجحانات کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ مؤلف نے ان افکار و رجحانات کی سات اقسام بتائی ہیں:
1۔ تقلیدی فکر: اس فکر کے حاملین جدید کو ردّ کرکے قدیم پر اڑے رہتے ہیں۔
2۔ توہماتی فکر: یہ فکر رکھنے والے خود کو تصوف کی طرف منسوب کرتے ہیں اور سیّد مودودی سے لاتعلق ہیں۔
3۔ مغربی فکر: مغربی فکر رکھنے والی مغربی تہذیب کے دل دادہ ہیں اور وہ اسی کے پیروکار ہیں۔ اس کی ہر چیز کو آنکھیں بند کرکے قبول کرلیتے ہیں۔ مولانا نے ان کو ’مغربی فکر کے غلام‘ کا نام دیا ہے۔
4۔ ہزیمت پسند فکر: یہ اُن لوگوں کی فکر ہے جو نفسیاتی طور پر مغربی تہذیب کی چکاچوند اور اس کی بالاتری کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اسی بنا پر تو یہ لوگ اُن بعض حالات اور ظواہر کی صفائی پیش کرتے ہیں جن کو مغربی تہذیب دوسروں پر لازم ٹھیراتی ہے۔
5۔ مدافعانہ و معذرت خواہانہ فکر: یہ ایسے لوگوں کی فکر ہے جن کا خیال ہے کہ اسلام معرضِ الزامات میں ہے اور اس کے خلاف بہت سے اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ اسلام کے اُن واجبات و فرائض اور محرمات کا دفاع کرتے اور اُن کے اسباب بیان کرتے پھرتے ہیں جن فرائض و محرمات کو مغربی فکر پسند نہیں کرتی اور نہ اُسے یہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہوتے ہیں۔
6۔ منکرینِ سنّت کی فکر: یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن ہمیں سنت سے بے نیاز کردیتا ہے، یہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ قرآن کی تبیین سنت ہی کرتی ہے۔
7۔ قادیانی فکر: یہ عقیدہ و فکر رکھنے والے نئی نبوت کے دعوے دار ہیں جس میں جہاد کالعدم اور کافر استعمار کی اطاعت و غلامی جائز ہے۔ متضاد و متناقض افکار و خیالات اور نظریات و رجحانات سے بھرپور اس فضا میں جہاں سے کسی شخص کا متاثر ہوئے بغیر باہر نکل آنا بہت مشکل تھا، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سامنے آئی اور دین و حیات کے بارے میں اُن کے افکار عام ہوئے۔ اُن کی فکر اور آرا کی تین خاصیتیں ہیں: اسلام کو مکمل طور پر اپنے اُوپر نافذ کرنا، وقت کے تقاضوں کو پورا کرنا، کفر اور باطل کے سامنے کھڑے ہوجانا۔
بطورِ مصلح و داعیِ انقلاب
کتاب کے اس دوسرے مبحث میں مصنف یہ بیان کرتے ہیں کہ سیّد مودودی بعض مفکرین کی مانند محض مشنری مفکر نہیں تھے، بلکہ یہ مفکر اُمت کا حاذق حکیم اور ماہر طبیب تھا۔ اس نے اُمت کے مرض کی حقیقت اور اس مرض کے اصل وائرس کی تشخیص کی اور اس مرض کو صرف ایک لفظ ’جاہلیت‘ میں بیان کردیا۔ سیّد مودودی نے واضح کیا کہ تمام انبیا ؑ کے دین اسلام (عمومی معنی میں) اور جاہلیت (تمام معانی میں)کے درمیان ایک تاریخی اور دائمی کش مکش چلی آرہی ہے اور یہ ہمیشہ رہے گی۔ لہٰذا ایک حقیقی مجدد کا کارنامہ زمامِ قیادت کو اس جاہلیت کے ہاتھ سے چھین لینا ہے، کیونکہ جاہلیت کسی خاص عہد کا نام نہیں ہے جس کا ظہورِ اسلام کے ساتھ خاتمہ ہوگیا ہو جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، بلکہ جاہلیت مخصوص اور معین علامات والے افکار و احساسات اور حالات و کیفیات کا نام ہے۔ یہ جب بھی اور جہاں بھی پیدا ہوں یا موجود ہوں وہاں جاہلیت موجود ہوگی خواہ اس کا رنگ ڈھنگ کتنا ہی خوش نما اور دلربا کیوں نہ ہو۔
سیّد مودودی کے نزدیک تصورِ انقلاب جزئی اور تدریجی نہیں ہے جو دیارِغیر سے درآمد جاہلانہ طور اَطوار کو جوں کا توں باقی رکھے اور اُس کے اندر کچھ تبدیلیوں اور اصلاحات پر اکتفا کرلے تاکہ اُس کی شکل قابلِ قبول ہوجائے اور اُس کو اسلام سے قریب تصور کرلیا جائے۔ اُدھر اُمتِ مسلمہ کو بیچ چوراہے میں لاکھڑا کرے۔ سیّد مودودی جاہلیت کے ساتھ مصالحت کے روادار نہیں اور نہ اس کے ساتھ ’نصف ہمارا اور نصف تمھارا‘ جیسے حل پر راضی ہوتے ہیں۔ سیّد مودودیؒ کی فکر کا ہدف کامل اور بنیادی تبدیلی ہے۔ یعنی قوانین و دساتیر سے قبل فکر و فلسفہ اور معیارات و اقدار کی تبدیلی۔
مذکورہ پہلو کے حوالے سے ان کی فکر بہت نمایاں ہے کیونکہ وہ ایک تحریکی شخصیت تھے۔ سیّد مودودی کے عظیم فکری پیغام کے پہلو بہ پہلو اُن کا عملی پیغام بھی ہے جو اپنی وقعت و عظمت کے لحاظ سے فکری پیغام سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ اس عملی پیغام نے اُن کے فکر و تصور کو ایک تعمیری اور مثبت تحریک کی صورت عطا کی، جس کے ذریعے وہ تالیفِ کتب کے بعد تالیفِ رجال کرتے رہے۔ اِس بات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ کسی صحیح اور درست فکر و تصور اور نظریے کو محض اُس کی صحت اور درستی کی بنا پر لوگوں میں نافذ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ فکر و نظریہ اُن افراد کی محنت و کاوش سے کامیاب ہوتا ہے جو اُس کو دل و جان سے قبول کرچکے ہیں۔ وہ اُس کے لیے کام کریں، اُس کی راہ میں جدوجہد اور جہاد و مجاہدہ کریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔ مصنف کتاب نے سیّد مودودی کے لٹریچر سے اس جماعت کی دعوت کے اصول و مبادی کی شرح اور اس کے اساسی اہداف و مقاصد کو بیان کیا ہے جن کا خلاصہ تین چیزیں ہیں: توحید، تزکیہ اور زمین پر حکومتِ الٰہیہ کا ازسرِنو قیام۔ اسی طرح سیّد مودودی نے ارکانِ جماعت سے یہ تقاضا کیا ہے کہ وہ متعدد صفات کو اختیار کریں، مثلاً جہادالنفس، ہجرت الی اللہ، معاشرے کو دعوت الی اللہ دینا، تعلق باللہ کو مضبوط بنانا اور اُس کے وسائل و ذرائع اختیار کرنا۔ یہاں مصنف نے سیّد مودودی کے کلام سے طویل اقتباسات نقل کیے ہیں۔
سیّد مودودی کے معترضین اور اُن کی اقسام
تیسرے مبحث میں علامہ القرضاوی علم و فکر، دعوت و جہاد اور اصلاح و تحریک کے بطل جلیل سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے مخالفین و معترضین کا بیان کرتے ہیں۔ سیّد مودودی جن کے خصائص و خوبیوں کا حامل فرد ہماری تاریخ میں نہیں ملتا اور اُن کے دشمنوں اور معترضوں کی مانند کسی کے مخالفین پیدا نہ ہوئے۔ خصوصاً وہ حالات و ظروف جن میں سیّد مودودی نے زندگی گزاری۔
سیّد مودودی کے مخالفین میں وہ سیکولر اور اشتراکی ہیں جن کو علامہ قرضاوی نے ’فکرِ مغرب کے غلام‘ کا نام دیا ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف سیّد مودودی کی دعوت کو ناپسند کیا، بلکہ یہ اسلام ہی کو پسند نہیں کرتے۔ اسلام کے ساتھ ان کا نزاع بنیادی نزاع ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اسلام کا کوئی ستون کھڑا ہو، نہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی حکومت قائم ہو، نہ انھیں اسلام بطورِ نظام پسند ہے۔
معترضینِ مودودی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تصوف کو بطور کاروبار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے اسلام میں وہ کچھ داخل کررکھا ہے جو اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ انھوں نے اسلام کے حقائق کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، اس کی تعلیمات کو آلودہ کردیا ہے، اسلام کے تصورِ توحید میں شرکیات داخل کرکے اُسے خراب کردیا ہے، اس کی عبادات میں بدعات پیدا کردی ہیں۔ علم سے عاری ان میں سے بعض کو تو ازسرِنو اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اور بعض تو بالکل تہی دامن ہیں۔ اُن کے پاس محض تصوف کا نام ہے اور کچھ نہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ سیّد مودودی ان کی فریب کاریوں اور مکاریوں کو طشت ازبام کریں، اور ان کے پیروکاروں کو اپنی بات سے متاثر کرکے اُس قافلے میں شامل کرلیں جو اسلام کی روشنی میں اپنا راستہ دیکھتا اور اُس پر چلتا ہے، نہ کہ توہمات اور خرافات کے پیدا کردہ راستے کو اپنا طریقِ سفر بناتا ہے۔
معترضینِ مودودی میں بعض وہ لوگ بھی شامل ہیں جو فکرِِ مودودی کی گہرائیوں کا اِدراک نہ کرپائے۔ اس لیے کہ اُن کی سوچ و فکر کا انداز مختلف تھا، اُن کی ترجیحات مختلف تھیں، کہیں غلط فہمی اور بدظنی کا زور تھا اور کہیں بڑے بڑے اساتذہ و شیوخ کے ہاں ثقاہت ناپید تھی۔ یہ تمام وہ لوگ تھے جو سیّد کے دائرے سے ہٹ کر دائرے کے لوگ تھے، اُن کے اُفق سے مختلف اُفق میں رہتے تھے، اُن کی فکرمندی اور دل چسپی سیّد سے مختلف تھی۔ یہ اُس یلغار اور حملے کا سامنا نہیں کررہے تھے جو سیّد مودودی کو درپیش تھا۔ لہٰذا یہ لوگ سیّد کی لغزشوں کی تلاش میں رہتے اور اُن کو بڑھا چڑھا کر اُچھالتے رہے۔ یہ بعض لوازم پر بھی اُن کا مواخذہ اور محاسبہ کرتے رہے۔ ان میں سے کچھ تو حسد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر تنقید کرتے رہے، اور یہ انسانی رویّے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ اپنائے جاتے ہیں، خواہ اپنانے والے علما ہی کیوں نہ ہوں، اس لیے کہ وہ بھی تو انسان ہیں، غلطیوں سے پاک فرشتے نہیں ہیں۔ ایسا اکثر وقتی جذبات اور عارضی غصے کی بنا پر ہوتا ہے جس سے انسان کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے توازن سے کام نہیں لیتا۔
سیّد مودودی کے ان منتقدین میں سیّد ابوالحسن علی الندوی جیسے بڑے بڑے عالم فاضل اور ڈاکٹر محمد عمارۃ جیسے بڑے مفکر بھی ہیں۔ اوّل الذکر نے سیّد مودودی کے بعض افکار پر تنقید کی اور مؤخرالذکر نے اس حوالے سے کاٹ دار تنقید کی ہے کہ سیّد مودودی نے معاصر معاشروں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کا جائزہ لیتے وقت اعتدال سے کام نہیں لیا اور سب کو جاہلیت کا شکار قرار دیا۔ علامہ القرضاوی نے اس انتقاد پر یہ رائے دی ہے کہ سیّد مودودی کے کلام کے ایک جز کو دوسرے سے ملا کر دیکھا اور پڑھا جائے تاکہ اصل صورت واضح ہوسکے اور اُن کی رائے کی حقیقت کھل کر سامنے آسکے۔
سیّد مودودی اور سیّد قطب سے متعلق مؤقف
ہمارے استاذ علامہ یوسف القرضاوی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم اُن کے محض نقال بن کر نہ رہ جائیں بلکہ اُن کے سامنے تعلیم و تربیت کے حصول کی غرض سے تعمیری تنقید کی مشق اور تجربہ کریں، لہٰذا ہم یہ کہنے کی جسارت کررہے ہیں کہ اس کتاب کی بہت چھوٹی ضخامت کے باوجود استاذ شیخ نے سیّد مودودی کے اقتباسات کے درجنوں صفحات مسلسل نقل کیے ہیں۔ خصوصاً سیّد مودودی کی شخصیت کے تحریکی پہلو پر بات کرتے ہوئے انھوں نے 36 تا 48، پھر 53 تا 73، پھر 96 تا 105صفحات سیّد مودودی کے دفاع کی خاطر اقتباسات کے دیے ہیں۔ اور واقعی یہ اقتباسات بہت زیادہ اور طویل ہیں۔ اسی طرح فصلِ اوّل میں جہاں سیّد مودودی کی مفکرانہ حیثیت پر بات کی ہے، تحریر پر توصیفی رنگ غالب ہے، کوئی مختصر اقتباسات بھی نہیں دیے جو گفتگو کو مدلل بناتے، جب کہ تحریر میں تخلیلی و تجزیاتی پہلو کی قوت بھی مفقود ہے۔
میں یہاں تامل، تفکر اور غوروخوص کے لائق اس تصور پر ذرا رُک کر بات کرنا چاہتا ہوں، یعنی معترضین کے مقابلے میں قرضاوی صاحب کی طرف سے سیّد مودودی کا دفاع۔۔۔ اس سلسلے میں جناب استاذ نے وہی طریقہ و اسلوب اختیار کیا ہے جو ہم نے اُن سے سیکھا ہے۔ یعنی سیّدمودودی کے کلام کے بعض اجزا کو بعض کے ساتھ جوڑ کر پڑھنا، جزئیات کو کلیات کی طرف، متشابہہ کو محکم کی طرف، فروعات کو ان کے اصولوں کی طرف، قدیم مؤقف کو جدید کی طرف لوٹانا اور ان کی روشنی میں دیکھنا۔۔۔ واقعتا یہ معتبر، شرعی اُسلوب ہے۔ علامہ قرضاوی کی تالیف میں یہی اصول اور طریقہ اپنایا گیا ہے۔ قرآن و سنت کی نصوصِ شرعیہ کے ساتھ تعامل میں استاذ قرضاوی کا طریقہ یہی ہے۔ بالکل اسی طرح علما کے اقوال و اجتہادات کو سمجھنے میں بھی وہ یہی انداز اختیار کرتے ہیں۔ انھوں نے اس اسلوب کو ان زوردار الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’جب ہم اللہ کے کلام قرآنِ مجید کو سمجھنے، اور اُن کے حق میں یا اُن کے خلاف رائے دینے اور قائم کرنے میں اسے کیوں نہ اپنائیں؟‘‘
پھر سیّدمودودی کی کتب سے اقتباسات کے درجنوں صفحات سیّد کے بارے میں قائم اس تصور کہ انھوں نے مختلف معاشروں، تاریخ اور ثقافت کو مطلقاً جاہلیت قرار دیا ہے، کی نفی کرنے کے لیے درج کیے ہیں۔ ان دلائل کے ذریعے وہ سیّد ہی کے کلام کی بنیاد پر اُن کے یقین کو ثابت کرتے ہیں کہ اسلام پوری دنیا میں پھیلا، اور اسلامی بادشاہتوں کے اَدوار کثیر نیک سیرت حکمرانوں کے وجود سے فیض یاب رہے۔ چونکہ حاکمیت درحقیقت اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے لیے ہے اور یہ حق ہے لہٰذا سیّد مودودی انسانوں کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے احکام وضع کریں، اسلامی حیات کے لیے کاوش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے استنباط، قیاس اور اجتہاد سے کام لیں۔ اس کے بعد علامہ قرضاوی نے کیا خوب بات کہی ہے، یعنی ’’ایک انصاف پسند محقق کا فرض ہے کہ وہ سیّد مودودی کے کلام کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے ملا کر رائے قائم کرے، دوسری کتب کو چھوڑ کر کسی ایک کتاب تک محدود نہ رہے۔ وہ صرف ایک دور کو پیش نظر رکھ کر دوسرے کو نظرانداز نہ کردے، اُن کی بعض کتب اور کتابچے
(باقی صفحہ 48پر)
اُن کے عنفوانِ شباب کے دور میں لکھے گئے جب اُن کی فکر اور تجربہ ابھی پختہ نہیں ہوا تھا، یعنی تقسیم ہند اور ظہورِ پاکستان سے قبل کے دور میں لکھی گئیں‘‘۔
میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اسلوب اور طریقہ استاذ قرضاوی نے شہیدالاسلام سیّد قطب کے بارے میں بات کرتے وقت اختیار نہیں کیا اور سیّد قطب نے اپنی بعض تحریروں میں جیساکہ کہا جاتا ہے سیّد مودودی کے افکار سے استفادہ کیا ہے۔ علامہ قرضاوی نے سیّد قطب کی بعض کتابوں کے بارے میں کہا ہے کہ اُن کی بعض تصانیف معاشروں کو کافر قرار دیتی ہیں اور اُنھیں جاہلیت میں مبتلا کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ بات کہ سیّد قطب کی مشہور کتاب فی ظلال القرآن میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو منہج اہل السنت والجماعۃ کے خلاف ہیں۔ پھر علامہ قرضاوی نے اُن کے کلام سے اقتباسات بھی درج کیے۔ علامہ قرضاوی کے اس مقالے پر بڑی بحثیں ہوئیں اور طرح طرح کے جوابات سامنے آئے۔ پھر استاذ قرضاوی نے ان تمام مقالات کا جواب ’سیّد قطب کے بارے میں آخری بات‘ کے عنوان سے مقالے میں دیا۔ پھر یہی مؤقف اور رائے ٹی وی چینل پر بھی ظاہر کی۔ یہاں تو علامہ قرضاوی نے سیّد قطب کے کلام کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ جوڑ کر نتیجہ اخذ نہیں کیا، جزئیات کو کلیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اُن کے کلام کے فروع کو اس کے اصول کے تحت نہیں رکھا، حالانکہ سیّد قطب کی عبارات اور نصوص واضح ہیں جو اُن کے بارے میں استاذ قرضاوی کی رائے کی نفی کرتی ہیں، بلکہ اس نتیجہ انگیزی کے بالکل برعکس ہیں۔ پھر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ہم سیّد مودودی کے ایک حصہ کلام کو تو پورے کلام کے تناظر میں دیکھیں جب کہ اسی منہج کو کسی دوسرے اسلامی مفکر کے لیے روا نہ رکھیں؟