کیا عمران خاں مطلوبہ اہداف حاصل کر پائیں گے؟

کرپشن، یقیناًایک ناسور ہے جو اندر ہی اندر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے اور ملکی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس ناسور سے نجات پائے بغیر تعمیر و ترقی کی باتیں تو کی جاسکتی ہیں مگر حقیقی ترقی کی منزل کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی عوام کی خوش حالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ جب کہ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ گردن تک کرپشن کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ خود وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کی دو سو ارب ڈالر سے زائد رقوم موجود ہیں، جنہیں پاکستان واپس لانے کے لیے اقدامات کا اعلان بھی وزیر خزانہ نے کیا، مگر ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس ضمن میں نہ تو کوئی ٹھوس قدم سامنے آیا ہے اور نہ ہی ان دو سو ارب ڈالر میں سے کوئی ایک ڈالر پاکستان کے خزانے میں منتقل ہوسکا ہے، جب کہ اس کے برعکس دنیا کے دیگر کئی ممالک اس ضمن میں ضروری کارروائی کرکے اپنا قومی سرمایہ اپنے ملکوں میں منتقل کرچکے ہیں۔
سوئس اکاؤنٹس اور کرپشن کے دیگر معاملات ابھی زیربحث تھے کہ چند ماہ قبل ’’پانامہ پیپرز‘‘ نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ ان پیپرز میں پاکستان سمیت دنیا بھر کی بہت سی ایسی اہم سیاسی اور مقتدر شخصیات کے ناموں کا انکشاف کیا گیا تھا جنہوں نے ناجائز ذرائع اور خفیہ طور پر دولت بنائی تھی۔ ان انکشافات کے نتیجے بعض ممالک کے سربراہان تک ازخود استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے، جب کہ دیگر اہم لوگوں کے خلاف بھی فوری قانونی کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔ بدقسمتی سے ان ’’پانامہ پیپرز‘‘ میں پاکستان کے بھی بہت سے نمایاں لوگوں کے ناموں کا انکشاف ہوا جنہوں نے بیرونِ ملک ناجائز دولت جمع کررکھی ہے، اور سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ان پیپرز میں وزیراعظم محمد نوازشریف کے خاندان کے افراد کے نام بھی نمایاں تھے، جب کہ بہت سی دوسری سیاسی، معاشی، سماجی اور مقتدر شخصیات کے نام بھی ان خفیہ کاغذات میں موجود تھے۔ ان انکشافات پر ملک بھر میں کھلبلی مچ جانا فطری امر تھا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہر طرف ایک ہاہا کار مچ گئی اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے چند دنوں یا ہفتوں میں ملک میں سب کچھ اتھل پتھل ہوجائے گا۔ مگر ان انکشافات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں اور ہمارے برسراقتدار طبقے کا کمال یہ ہے کہ جن پانامہ پیپرز کی بنیاد پر کئی ملکوں کے سربراہان مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے، ہمارے ملک میں یہ پیپرز اپنی تمام تر حشر سامانی کے باوجود کسی ایک بھی فرد کا بال تک بیکا نہیں کرسکے۔
جماعت اسلامی کہ امانت و دیانت اور نظم و ضبط کے لحاظ سے ملک کی مثالی جماعت ہے، ’’پانامہ پیپرز‘‘ کے انکشافات سے بہت پہلے سے ملک سے بدعنوانی و بددیانتی کے خاتمے کے لیے ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ کی مہم چلا رہی تھی اور اس مہم کے سلسلے میں شہر شہر جلسوں، جلوسوں، مذاکروں اور مباحثوں کا ایک سلسلہ جماعت اسلامی کے زیراہتمام جاری تھا، اس ضمن میں جماعت نے اپنے امیر سراج الحق کی قیادت میں پشاور سے کراچی تک ایک طویل اور کامیاب ٹرین مارچ بھی کیا۔۔۔ اس طرح متعدد دیگر پروگرام بھی جماعت اسلامی کے پروگرام کے تحت جاری تھے مگر جب ’’پانامہ پیپرز‘‘ سامنے آئے تو نہ صرف جماعت اسلامی کی ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ مہم کو مہمیز ملی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی حکومت مخالف تحریک کا جواز فراہم ہوگیا اور ملک میں فوری طور پر ایک طوفان برپا ہوتا دکھائی دیا۔ اس طوفان کے تھپیڑوں کے خوف سے اور خود کو ان سے محفوظ رکھنے کے لیے وزیراعظم نوازشریف دل کے آپریشن کے بہانے ملک سے باہر لندن میں مقیم رہے۔ اس دوران اعلیٰ ترین سطح پر پانامہ پیپرز کے انکشافات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن، پارلیمانی کمیشن، اسپیکر چیمبر، الیکشن کمیشن اور عدالت عظمیٰ سمیت ہر ہر فورم تک رسائی کی کوشش کی گئی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اب حکمران طبقہ ’’پانامہ پیپرز‘‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دباؤ سے بڑی حد تک باہر آچکا ہے اور اب محض ان کا گاہے بگاہے ذکر باقی رہ گیا ہے جس کی حکومت کو کوئی پروا محسوس نہیں ہوتی۔
اس مسئلے پر ایک وقت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا ایک وسیع تر اتحاد بھی وجود میں آتا محسوس ہوا، مگر اب بڑی حد تک اس غبارے میں سے بھی ہوا نکل چکی ہے، زبانی جمع خرچ البتہ ابھی تک جاری ہے۔ اس صورتِ حال میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 7 اگست سے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا جس کا آغاز انہوں نے تحریک انصاف کے مضبوط مورچے پشاور سے اسلام آباد تک مارچ سے کیا، پھر مختلف شہروں سے ہوتا ہوا یہ احتجاج کارواں اب لاہور پہنچ چکا ہے اور کپتان عمران خان نے 3 ستمبر کو پنجاب کے دارالحکومت اور شریف برادران کے گھر اور گڑھ لاہور میں ’’احتساب ریلی‘‘ کا اعلان کردیا ہے جس کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں اور عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ ریلی ثابت کردے گی کہ زندہ دلاِن لاہور شریف برادران کے نہیں بلکہ ان سے نجات دلانے کے لیے میدان میں آنے والوں کے ساتھ ہیں۔ ریلی کے لیے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو خصوصی اہداف دیئے گئے ہیں اور عمران خان نے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے اپنے مقامی قائدین پر واضح کردیا ہے کہ انہیں 3 ستمبر کو ہر صورت لاہور میں دو لاکھ افراد سڑکوں پر چاہئیں۔۔۔ یہ ایک بڑا ہدف ہے جسے حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا، خصوصاً ان حالات میں جب تحریک انصاف شدید نوعیت کے اندرونی خلفشار اور گروہ بندی کا شکار ہے اور علیم خان جیسے تحریک کے سرمایہ کار کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ انہوں نے اب تحریک انصاف کے جلسوں اور جلوسوں کے لیے سرمایے کی فراہمی سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا ہے۔ ان حالات میں تین ستمبر کی ’’احتساب ریلی‘‘ تحریک انصاف کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگی۔ ’’احتساب ریلی‘‘ کی اسی اہمیت کے پیش نظر عمران خان نے اسے صرف تحریک انصاف تک محدود رکھنے کے بجائے حزب اختلاف کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس میں مدعو کرلیا ہے، چنانچہ تحریک انصاف کے مرکزی قائدین اب تک مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان عوامی تحریک اور بعض دیگر جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرچکے ہیں اور ان سب کی طرف سے ’’احتساب ریلی‘‘ میں شرکت کی یقین دہائی کرائی گئی ہے۔ مگر یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یقین دہانیوں کے باوجود ان تمام جماعتوں کی شرکت محض علامتی ہوگی اور ریلی کو حاضری کے لحاظ سے قابلِ توجہ بنانا بنیادی طور پر تحریک انصاف ہی کے کارکنوں اور قائدین کی ذمہ داری ہوگی۔ احتساب ریلی کی
(باقی صفحہ 16 پر)
اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان اگرچہ تین کے بعد چھ ستمبر کو ’’یوم دفاع‘‘ کے حوالے سے، اور کراچی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ’’پاکستان زندہ باد ریلی‘‘ کا اعلان تو کرچکے ہیں مگر شریف برادران کے گھر یعنی جاتی عمرہ رائے ونڈ میں اپنے احتجاجی پروگرام کی تاریخ کا اعلان وہ تین ستمبر کی لاہور کی ’’احتساب ریلی‘‘ سے اپنے خطاب میں کریں گے۔
یوں تین ستمبر کی احتساب ریلی عمران خان اور شریف خاندان دونوں ہی کے لیے خاصی اہمیت کی حامل ہوگی اور مستقبل کے سیاسی نقشے کی نقاب کشائی بھی کرے گی کہ یہ واقعی حکمرانوں کے اعصاب کو متاثر کرسکتی ہے یا نہیں، اور اس کے نتیجے میں دوسری سیاسی جماعتیں بھی حکمرانوں کے خلاف تحریک میں مؤثر طور پر شرکت یا عدم شرکت کا فیصلہ کریں گی۔ یہ ریلی اس لحاظ سے بھی اہم ہوگی کہ عمران خان کے سیاسی مستقبل کے تعین میں بھی اس کا کردار کلیدی ہوگا۔
ہماری رائے میں تین ستمبر کی ’’احتساب ریلی‘‘ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اس سے زیادہ دباؤ کا سبب بہرحال نہیں بن سکے گی جو اگست 2014ء میں اسلام آباد میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے طویل دھرنوں کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا اور شریف برادران پیپلز پارٹی وغیرہ جیسی دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون ہی سے سہی، بہرحال اس دباؤ کو برداشت کرنے اور مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ چنانچہ موجودہ ریلی کے بارے میں عمران خان کے تمام تر دعووں کے باوجود اس کا تحریک انصاف کو شاید اس سے زیادہ کوئی سیاسی فائدہ نہ ہوسکے گا کہ 2018ء کے عام انتخابات کے لیے اپنے کارکنوں، حامیوں اور ووٹروں کو متحرک اور فعال کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ جہاں تک جلسوں، جلوسوں اور عوامی تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کرنے کے اعلانات کا تعلق ہے تو سچ یہی ہے کہ ہنوز دلی دور است۔۔۔ تاہم اس کے باوجود ’’احتساب ریلی‘‘ کی سیاسی افادیت سے انکار اس لیے ممکن نہیں کہ علامہ اقبالؒ کے بقول ؂
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ