’’حق دو بہاولنگر کو‘‘ تحریک کی دھوم صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی رواں ہفتے محسوس کی گئی۔ضلع بہاولنگر سے سیکڑوں کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ اپنے مطالبات کے حق میں پنجاب اسمبلی کے باہر بھرپور دھرنا دیا۔ دھرنے میں جہاں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے آکر رونق میں اضافہ کیا، وہیں جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیاء الدین انصاری ایڈووکیٹ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، سید ذیشان اختر، سیکرٹری جنرل جنوبی پنجاب صہیب عمار صدیقی اور بہاولنگر کے عوامی لیڈر عامر یعقوب نے پُرجوش خطابات سے ’’حق دو بہاولنگر‘‘ کا علَم بلند کیا۔ ضلع بہاولنگر سے آئے کسانوں کی ترجمانی ارسلان خان خاکوانی نے خوب کی۔ ان کے مطالبات میں جہاں کسانوں کے معاشی قتل کا خاتمہ تھا، وہیں ضلع کے تمام شہروں کو سیف سٹی بنانا، اسٹریٹ لائٹس اور ٹریفک سگنلز سے آراستہ کرنا، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کو ایمرجنسی بنیادوں پر 1000 بیڈ فراہم کرنا، اور امراضِ قلب، جگر سینٹر، کڈنی سینٹر، ہڈی جوڑ سینٹر کو اَپ گریڈ کرنا بھی شامل تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ کسانوں سے گندم 4 ہزار روپے فی من خرید کر عوام کو سستا آٹا مہیا کرنے کے لیے سبسڈی دی جائے۔ کھاد، زرعی ادویہ، زرعی آلات اور مشینری کی قیمتوں کو فی الفور کم کیا جائے۔
ضلع بہاولنگر کے کسانوں نے پنجاب اسمبلی کو کسان دشمن اسمبلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے صوبے کے کسانوں سے نہ تو گندم سرکاری ریٹ پر خریدی گئی اور نہ ہی نیا ریٹ دیا گیا۔ کپاس، گنا، چاول اور گندم پیدا کرنے والے کسان دربدر ہیں جو کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں! ضلع بہاولنگر کے حصے کا نہری پانی بھی جاگیردار کسان کو نہیں لینے دیتے۔ غریب کسان کی فصلیں پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہیں لیکن اس ظالم پنجاب اسمبلی میں ان کے لیے بولنے والا کوئی نہیں ہے۔ جس ملک کا کسان خوشحال نہ ہو وہ ملک کبھی بھی معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوسکتا۔ کسانوں نے ضلع بہاولنگر کی ابتر صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پسماندہ ضلع پر رحم کیا جائے۔ دھرنے میں شریک کسانوں نے فلک شگاف نعرے لگائے اور اپنی تحریک کو جاری رکھنے کے عزائم کا اظہار کیا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکمرانوں نے آئی ایم ایف کو اپنا آقا تسلیم کرلیا، بات معیشت تک ہوتی، ٹھیک تھی، لیکن اب تابعداری میں تمام حدیں پار کردی گئی ہیں۔ مالیاتی ادارے نے حکم دیا، حکمرانوں نے عدلیہ میں بھیج دیا، چیف جسٹس سے ملاقات کا بندوبست کیا، یہ عدالتی معاملات میں مداخلت ہے، حکومت ملکی خودمختاری کو ٹھوکر مار کرآئی ایم ایف کے آگے لیٹ گئی۔ غلام ابنِ غلام ہمارے سر پر مسلط ہیں، آئی ایم ایف کو بہانہ بناکر غریبوں اور کسانوں کا استحصال نہیں کیا جا سکتا، ایک فیصد لوگ ہیں جن کے پاس زمین کا 30 فیصد رقبہ ہے، یہ بڑے جاگیردار ہیں، لیکن 99فیصد کسانوں میں سے اکثر کے پاس ساڑھے 12 ایکڑ سے کم زمین ہے، ان کو سبسڈی ملنی چاہیے، ان کی اجناس کا ریٹ مناسب ہونا چاہیے، بجلی اور گیس میں سبسڈی ملنی چاہیے، حکومت ان کی تمام فصلوں کو خریدے، یہ ان کا حق ہے، کیونکہ یہ قومی غذائی تحفظ کا معاملہ ہے۔ حکومت کو متنبہ کرتا ہوں کہ پاکستان میں کسانوں کی منظم آواز اب اٹھ چکی، سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات میں الجھی ہوئی ہیں، لیکن جماعت اسلامی نے ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک شروع کی ہے۔ یہ مزدوروں، کسانوں، غریبوں کی تحریک ہے۔ آج بہاولنگر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ یہاں پہنچے ہیں۔ یہ تحریک اب پھیلے گی، پنجاب کے41 اضلاع سے کارواں نکلے گا، لاہور کا دھرنا تاریخ بدل دے گا۔‘‘
امیر جماعت نے ارسلان خان خاکوانی کی، کسانوں کے مسائل پر بھرپور جدوجہد کے آغاز پر، تحسین کی۔ امیر جماعت نے کہا کہ ’’جس اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا یہ فارم47 کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ تمام پارٹیوں نے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرایا، سب نے مل کر یہ طے کرلیا کہ عوام کے ساتھ کچھ بھی ہوتا رہے… کسان کے لیے گندم کا ریٹ نہ ہو… آٹا، تیل، دال، بجلی، گیس مہنگی ہو، ہونے دو، انہوں نے اپنی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کرلیا۔ ہم آج اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ تمہیں عوام کو حق دینا پڑے گا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’پچھلے سال پنجاب حکومت نے کسانوں کو دھوکا دیا،گندم کا ریٹ طے کیا اور پھر اس سے بھی مکر گئی۔ حکومتی سطح پر اتنا بڑا دھوکا، فراڈ… اور اس کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم زراعت کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ یہ بہت افسوس اور شرم کا مقام ہے۔‘‘
حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ ’’بہاولنگر ایک زرعی ضلع ہے، بڑے پیمانے پر گندم، کپاس اور چاول پیدا کرتا ہے۔ بہاولنگر پاکستان کی زراعت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے، لیکن وہاں کسانوں کا برا حال ہے۔ اس لیے ہم اس احتجاجی اقدام کی مکمل تائید کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جتنے مطالبات انہوں نے اپنی فہرست میں رکھے ہیں ان کو تسلیم کیا جائے۔ قرضوں میں جکڑے ہوئے یہ کسان آج اپنا حق طلب کررہے ہیں کہ گندم کا ریٹ بھی فکس کیا جائے اور جو پچھلا ڈیفیسٹ تھا، اسے بھی پورا کیا جائے۔ جب کسان اپنا حق مانگتے ہیں، تو یہ کسان کارڈ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ یہ کسان کارڈ کیا ہے؟ یہ دراصل قرض کارڈ ہے۔ اس میں قرض در قرض کا سلسلہ ہے۔ ہمیں یہ احسان نہیں چاہیے۔ ہمارے کسانوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں، گندم کا ریٹ ٹھیک کیا جائے، بلیک مارکیٹنگ اور مڈل مین کا کردار ختم کیا جائے۔ مافیا حکومت سے مل کر کسان کا استحصال کرتے ہیں، یہ دھندا ختم کیا جائے۔ براہِ راست کسانوں سے گندم، کپاس، گنا خریدا جائے اور اس کا صحیح ریٹ دیا جائے، یہ ان کا حق ہے۔‘‘
امیر جماعت نے کہا کہ ’’یہ تحریک پاکستان کے کروڑوں عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ چراغ سے چر
اغ جلتا ہے۔ پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر ہر کسان، مزدور، اور محنت کش کا ساتھ دو۔ جماعت اسلامی آپ کی ترجمانی کرے گی۔ اگر حکومت نے دھرنا اٹھانے کی کوشش کی تو پنجاب بھر میں سڑکیں بند کردیں گے۔ حکمرانوں کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں۔ حق دو گے تو عزت سے بات ہوگی، ہم عوام کا حق دلوا کر رہیں گے۔‘‘
دھرنے کے دوسرے روز حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت سے مذاکرات کرتے ہوئے گندم کی ضلع بندی اور صوبہ بندی اس مرتبہ نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی جبکہ پانی کی وارا بندی فوری ختم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ بہاول نگر میڈیکل کالج اور ایک نئے اسپتال کے لیے جلد فنڈز ریلیز کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ بہاول نگر کے باقی مسائل پر حکومت اور تحریک کے ممبرز پر مشتمل کمیٹی بھی بنادی گئی جس کی پہلی میٹنگ 18 فروری بروز منگل کو لاہور میں ہوئی۔
کمیٹی میں ارسلان خان خاکوانی امیر جماعت اسلامی ضلع بہاول نگر، عامر یعقوب قیم جماعت اسلامی ضلع بہاول نگر، عمر فاروق رامے نائب امیر جماعت اسلامی بہاول نگر، طاہر باجوہ نائب امیر جماعت اسلامی ضلع بہاول نگر، صوفی ریاض احمد جوئیہ امیر جماعت اسلامی تحصیل بہاول نگر، جبکہ حکومت کی طرف سے شامل افراد میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان فائنانس و پارلیمانی امور منسٹر حکومتِ پنجاب، میاں مرغوب احمد ممبر صوبائی اسمبلی مسلم لیگ ن، محمد کاظم علی پیرزادہ صوبائی وزیر آب پاشی، سیکرٹری آب پاشی صوبہ پنجاب اورکمشنر بہاولپور ڈویژن تھے۔