اِس عاجز کا سابق کالم پڑھ کر اسے مزید عاجز کرنے کے لیے سابق صدر نشین شعبۂ ابلاغِ عامہ، جامعہ کراچی، ڈاکٹر محمود غزنوی نے ایک طویل تبصرہ فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس میں بہت سی قباحتیں ہیں:
۱۔ اب تعلیمی اداروں کے شعبہ ہائے ابلاغ میں اساتذہ کا تقرر کرتے وقت انگریزی کی بنیاد پر تحریری امتحان لیا جاتا ہے اور زبانی سوال و جواب میں بھی انگریزی کی مہارت کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ان اساتذہ کی اُردو لکھنے اور بولنے کی استعداد واجبی سی ہوتی ہے۔
۲۔ ایک مضمون انگریزی گرامر کا اور دوسرا اُردو قواعد کا تبرکاً پڑھایا جاتا ہے۔ بیش تر شعبہ ہائے ابلاغ میں اُردو پڑھانے کے لیے شعبۂ اُردو کے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں [غالباً ڈاکٹر صاحب کی مراد ہے کہ ابلاغیات کے اساتذہ بھی اُردو سے واقف نہیں۔]
۳۔ اُردو اور انگریزی صحافت کا پس منظر جدا جدا ہے، اس وجہ سے صحافت کی تعلیم پہلے اُردو اور انگریزی میں الگ الگ دی جاتی تھی، اب صرف انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے۔
۴۔ اچھے مترجم اخبارات میں پُرکشش معاوضے پر رکھے جاتے تھے جس کی وجہ سے دوسروں کو ترغیب ملتی تھی۔
۵۔ خبریں بنانے والے عملے کی میز پر کئی لغات رکھی جاتی تھیں اور انھیں استعمال کرنے والوں کو تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
۶۔ مدیرِ خبر اپنے ماتحت عملے کو متبادل الفاظ کی تلاش میں مصروف رکھتا تھا۔
۷۔ یہ سب کچھ اُس وقت تک ہوتا رہا جب تک ’’مدیر‘‘ کا منصب قائم رہا۔ اب یہ منصب مالکان نے ہتھیا لیا ہے۔
۸۔ پیشہ ور مترجم اب نہیں رکھے جاتے۔ جو جیسا ترجمہ کرلے اُسی کو شائع یا نشر کردیا جاتا ہے۔
۹۔ ہمارے زمانے میں ہر صبح ایک جائزہ نشست ہوتی تھی۔ اپنے اخبار کے مواد کا دوسرے اخبارات سے موازنہ کیا جاتا۔ چھوٹ جانے والی خبروں پر بازپُرس کی جاتی۔ غلط املا، غلط سرخی اور نامناسب ترجمے پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا۔ اب یہ احتسابی سرگرمیاں ختم ہوچکی ہیں۔ ذرائع ابلاغ ’’کارپوریٹ سیکٹر‘‘ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اصل ہدف صرف منافع کمانا رہ گیا ہے۔ صحافتی اقدار کچلی جا چکی ہیں‘‘۔
مزید فرمایا: ’’کسی بھی شعبے میں اُس مضمون کی سند حاصل کیے بغیر داخل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ کہیں ایسا ہو بھی جائے تو ایسا شخص سفارشی، اَتائی، جعلی اور غیر مستند تصور کیا جاتا ہے۔ مگر صحافت مطبوعہ ہو یا برقی، ایسا کم زور شعبہ بن چکا ہے جہاں ہر شخص بغیر سند کے داخل ہوسکتا ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ میں ایسے سیکڑوں افراد صحافی بنے بیٹھے ہیں جو تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے فزیشن، فارماسسٹ، جیالوجسٹ یا فقط درسِ نظامی کے فارغ التحصیل ہیں، پھر بھی دادِ صحافت دے رہے ہیں۔ مالکان جو تجارت پیشہ ہیں، بزعمِ خود ’صحافی‘ بنے ہوئے ہیں۔ جب کہ انھیں خبر کی تمہید (Intro)کی اقسام معلوم ہیں نہ گفتگو کے آداب۔ ایسے میں زبان و بیان کی درستی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟‘‘
اِس طویل تجزیے پر کالم نگار نے ایک مختصرسوال کیا کہ ’’اب اصلاحِ احوال کیسے ممکن ہے؟ یہ نہ کہیے گا کہ کسی طرح ممکن نہیں:
کیسے مانوں کہ کوئی درد کی تدبیر نہیں
کوئی صورت، کوئی حیلہ، کوئی چارہ ہوگا‘‘
جواب ملا: ’’جی، بہت تدابیر ہیں۔
۱۔ صحافت کی تدریس کے لیے وہ اساتذہ مقرر کیے جائیں جنھیں زبان و بیان پر عبور ہو۔
۲۔ صحافتی تنظیمیں (مثلاً پی ایف یو جے، سی پی این ای اور پریس کلب وغیرہ) مشترکہ طور پر ایسی اکیڈمیاں بنائیں جہاں نوآموز صحافیوں کو اُن کی ملازمت کی ’’آزمائشی مدت‘‘ میں اُردو صحافت کی تربیت دی جائے۔
۳۔ وقتاً فوقتاً ایسے ہنگامی تربیتی کورسز رکھے جائیں جو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق صحافیوں کی تربیت کریں اور ایسے ہر کورس کی تکمیل پر ترقی یا تنخواہوں میں اضافے Increment) (کی ترغیب و تحریص شامل ہو۔
۴۔ ہراخبار اور ہرٹی وی چینل پر ایک ماہر زبان و بیان کا تقرر کیا جائے۔ وقتاً فوقتاً صحافیوں کے لیے توسیعی لیکچر کا اہتمام کیا جائے جس میں صحافیوں کو زبان کے رموز سکھائے جائیں۔
۵۔ صحافت کی باقاعدہ سند نہ رکھنے والوں کو محض شکل و صورت یا چرب زبانی کی صلاحیت کی بنیاد پر نہ لے لیا جائے۔ جو غیر سند یافتہ افراد اس پیشے میں در آئے ہیں، انھیں سند حاصل کرنے کا پابند کیا جائے یا اُن کی پیشہ ورانہ تربیت کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ بھی ہماری صحافت کی اخلاقی اقدار سے آگاہ ہوجائیں‘‘۔
گزشتہ کالم (’’ذرائع ابلاغ کے لیے حل حاضر ہے!‘‘) کے حوالے سے معروف ادیب، شاعر، نقاد اورمدیر سید ایاز محمود لکھتے ہیں:
’’آپ نے درست فرمایا۔ ابلاغِ عامہ کے اداروں پر بھرپور ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درست زبان استعمال کریں اور درست زبان کے فروغ کو ہر صورت میں مدنظر رکھیں۔ یہ بات ان کے منتظمین کو بار بار باور کرانے کی ضرورت ہے۔ ’’بی بی سی انگریزی‘‘ ایک اصطلاح ہے، جو معروف برطانوی نشریاتی ادارے میں بولی جانے والی زبان کے لیے مخصوص ہے۔ ‘BBC’ میں صحتِ زبان کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے، یعنی درست الفاظ اور درست تلفظ کا۔ اسی لیے ’بی بی سی‘ کی زبان کو معیاری زبان ہونے کی سند حاصل ہے۔ بی بی سی کی انگریزی کو انگریزی تدریس کے اداروں میں زبان و ادب کے حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک زمانے میں مقابلے کا امتحان دینے والوں کو انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ پڑھنے کی تاکید کی جاتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ ’’ڈان‘‘ اخبار کے اداریے پڑھا کرو۔ اس سے حالاتِ حاضرہ سے آگاہی بھی ہوجاتی تھی اور ’روکن‘ میں درست زبان استعمال کرنے کا طریقہ بھی سمجھ میں آنے لگتا تھا‘‘۔
سب سمجھتے ہیں کہ پاکستانی صحافت پر اُردو صحافت کا غلبہ ہے، خواہ مطبوعہ ہو یا سمعی و بصری۔ اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ اگر سمجھیں تو اُن کا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے سامنے مستند قومی زبان پیش کریں۔ زبان کا معیار بن جائیں اور زبان پر سند سمجھے جائیں۔ ہمارے صحافی اچھی اور معیاری اُردو لکھیں یا بولیں گے تو اس سے خود اُن کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔ اُن کی بھد نہیں اُڑے گی۔ بالخصوص جن نوجوان خواتین و حضرات نے اُردو ابلاغیات کو اپنا پیشہ اور اپنی شناخت بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اُنھیں چاہیے کہ وہ اپنے حسن سے زیادہ زبان و بیان کے حسن پر توجہ دیں۔ اپنی پتلون اور اپنے دوپٹے کی طرح اپنی زبان سنبھالنے کا کام بھی انھیں خود کرنا ہوگا۔ کوئی اور آکے کرنے لگے تو اچھا نہیں محسوس ہوتا۔ ہر سہ کا پھسلنا دوسروں کے آگے اپنے آپ کو تماشا بنا دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہر مشکل کا حل ممکن ہے۔ لہٰذا حل کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے ہی مایوس نہ ہوجائیے۔ مایوسی سے کسی کام کا آغاز نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ اس عزم، اس ولولے اور اس اُمید کے ساتھ اُٹھیں کہ یہ کام ہوجائے گا اور میں کرکے رہوں گا تو راہ کی مشکلات بھی دور ہوں گی اور رُکاوٹیں بھی ہٹ جائیں گی۔کامیابی آپ کے قدم وغیرہ چومے گی۔ پس اب، جب کہ شائستگانِ ہوش میں حل کی بات چل نکلی ہے، اِسے آگے بڑھائیے۔ بڑھتے بڑھتے بات بڑھ جائے گی۔ بات اتنی تو بڑھ ہی چکی ہے کہ پچھلے کالم میں ہمارے سابق نگراں وفاقی وزیر مذہبی اُمور نے جو شکوہ کیا تھا کہ ’’آپ ذرائع ابلاغ کی غلطیاں تو بتاتے ہیں، حل نہیں بتاتے‘‘ تو کم از کم اب یہ شکوہ ہی دُور ہوجانا چاہیے،کیوں کہ حل کی بات چل نکلی ہے۔ لیکن صحافی تو آج کل پگلائے ہوئے ہیں۔ہرپریس کلب کے آگے، حکومت کا پیچھا پکڑے ’’پیکا، پیکا‘‘ پُکارتے پھر رہے ہیں۔